پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔
آپا نائلہ ملازمت کے لیے مصر چلی گئی تھیں۔ امی کا خیال تھا یوں گھر کی مالی حالت بہتر ہوجائے گی اور ہوا بھی یہی۔ ہم سب بہت اچھی طرح رہنے لگے۔ کچھ عرصے بعد آپا نے وہاں کی ایک عرب فیملی کا ذکر کیا۔ لکھا بہت اچھے لوگ ہیں۔ میں ان کے گھر آتی جاتی ہوں۔ ان کا بیٹا اویس مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ امی نے برا مانا، مگر شادی کی اجازت دے دی۔ وطن آنے پر اویس اور نائلہ آپا کی شادی ہوگئی۔ اویس بھائی قبول صورت تھے۔لمبا چوڑا چکلا سینہ، چمکتے سیاہ بال اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں۔ وہ آپا سے عمر میں چھوٹے تھے۔ لیکن ڈیل ڈول میں ان سے بڑے لگتے تھے۔ تعلیم برائے نام تھی، محبوب مشغلہ تیراکی تھا۔ یہی ان کا پیشہ بنا۔ وہ مصر میں لوگوں کو تیراکی سکھاتے تھے۔ اردو انہیں آتی نہ تھی۔ عربی اور ٹوٹی پھوٹی انگلش میں اپنا مفہوم ادا کرتے۔ جلد ہی وہ گھر کے افراد سے گھل مل گئے۔
وہ ہمارے گھر دو ہفتے رہے۔ جاتے ہوئے ہم لوگوں کو مصر آنے کی دعوت دے گئے۔ شادی کے بعد آپا ملازمت کرتی رہیں۔ اب ان کا خط مہینے دو مہینے کے بعد آتا۔ عرب ممالک میں غیر ملکی عورتوں سے شادی بری سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا آپا سے شادی کے بعد اویس بھائی کی ملازمت جاتی رہی۔ آپا کا کنٹریکٹ بھی ختم ہوگیا۔ کئی مہینوں بعد انھیں نئی ملازمت مل سکی۔
ایک سال بعد آپا نے ہمیں منی سی گڑیا ’’سعدیہ‘‘ کی تصویر بھیجی۔ بڑی پیاری بچی تھی۔ ہم نے گڑیا کو دیکھنے کی ضد کی، ہمارے بے حد اصرار پر آپا منی کو لے کر آئیں۔ گڑیا کیا تھی، مکھن اور گلاب میں گندھی ہوئی ننھی سی مورت تھی۔ گول مٹول، گھنے سیاہ بال، اور بادامی بڑی بڑی ذہین آنکھیں۔ وہ سارا دن دودھ پی کر سوتی رہتی اور ہم اس کے جاگنے کا انتظار کرتے۔
آپا مہینے بھر کے لیے آئی تھیں، مگر اب دوسرا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ گڑیا ہمارے دلوں میں سما گئی تھی۔ ہم اسے کسی طرح بھی اپنے سے الگ کرنے پر تیار نہ تھے۔ چاروں بہنیں سر جوڑ کر مشورہ کرنے لگیں کہ یہ سوتی جاگتی گڑیا ہم کیوں نہ اپنے پاس رکھ لیں۔ کئی تدبیریں سامنے آئیں۔ کسی پر ہمارا دل مطمئن نہ ہوسکا۔ آخر سب سے چھوٹی بہن رضوانہ سے امی کے سامنے یہ تجویز پیش کروائی۔ امی سخت برہم ہوئیں۔ ہمیں برا بھلا کہا، مگر خود نائلہ آپا کی ملازمت کی راہ میں گڑیا ایک رکاوٹ تھی۔ غرض، کچھ ہمارا اصرار کچھ آپا کی مرضی، گڑیا کے بارے میں ایک اہم فیصلہ ہوگیا۔
جب تک ہم کالج میں ہوتے، گڑیا امی کے پاس رہتی۔ ہم جونہی گھر آتے، گڑیا سے لاڈ پیار، اس کی صحت صفائی، دودھ فیڈر وغیرہ کی دیکھ بھال میں لگ جاتے۔
آپا مصر چلی گئیں، مگر ان کے گھر کی بہار ہمارے آنگن میں رہ گئی۔ اس کے لیے قسم قسم کے پاؤڈر، کپڑے، جوتے شوق سے ہم لاتے۔ وہ بھی ایسی ہنس مکھ بچی تھی جو کبھی کبھار ہی روتی۔
پھر آپا کے خط آنے لگے۔ کام سے واپس آتی ہوں، تو گڑیا بہت یاد آتی ہے۔ میں روتی رہتی ہوں، ہم ان کی دلی کیفیت سمجھتے اور خاموش ہو رہتے۔ البتہ امی افسردہ ہوجاتیں۔ ہم جواب میں گڑیا کی تصویر آپا کو بھیج دیتے۔ سب گھر والے گڑیا سے بہت پیار کرتے، وہ ذرا بھی بیمار پڑتی تو آدھی آدھی رات تک ہم ڈاکٹر کے کلینک کا طواف کرتے۔ نانی کی بے پناہ شفقت اور خالہ ماموں کے پیار کی چھاؤں میں آہستہ آہستہ وہ بڑی ہورہی تھی۔ دو برس بعد آپا کی دوسری بیٹی ناجیہ پیدا ہوئی۔ پھر فواد پیدا ہوا۔ اب آپا اتنی شدت سے گڑیا کا ذکر نہ کرتیں۔ یوں بھی ملازمت کے ساتھ ساتھ تنہا دو ننھے بچوں کو سنبھالنا سہل نہ تھا۔
آپا دونوں بچوں کے ساتھ پھر آئیں۔ ناجیہ صحت مند بچی تھی۔ فرفر عربی بولنے والی۔ مصر کی آب و ہوا اور خوراک نے خوب رنگ دکھایا تھا۔ اس کے برعکس ہماری گڑیا دبلی پتلی نازک سی، لیکن ذہین اور کم گو۔ آپا کی آمد پر گھر میں ہما ہمی بڑھ گئی۔ سب خوش تھے۔ یہ سلسلہ مختصر رہا۔ جلد ہی چپقلش شروع ہوگئی۔ اس کا سبب ہماری گڑیا کو ٹھہرایا گیا۔ وہ ناجیہ کا کھلونا چھین لیتی۔ آپا جھپٹ کر اسے تھپڑ رسید کردیتیں اور کھلونا چھین کر امی سے کہتیں: ’’آپ کی گڑیا نے میری ناجیہ کا جینا دوبھر کردیا ہے۔‘‘ ہم نے گڑیا اور ناجیہ میں صلح کرانے کی بہت کوشش کی۔ہم سے ہرگز برداشت نہ ہوتا کہ ناجیہ کی خاطر گڑیا کے پھول سے گال پر آپا کا زور دار تھپڑ پڑے۔ آپا نے بھی دو چار دفعہ گڑیا کو سمجھانے کی کوشش کی:
’’میں تمہاری ماں ہوں، تم ہمارے ساتھ مصر چلو گی؟‘‘
’’جی نہیں، آپ نائلہ آپا ہیں۔ مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔‘‘ وہ اسے ماں تسلیم کرنے سے بے دھڑک انکار کردیتی۔
آپا کا خیال تھا کہ مہینے بھر کے قیام کے دوران گڑیا خود سمجھ لے گی کہ ناجیہ اس کی بہن اور میں اس کی ماں ہوں، مگر ایسا نہ ہوا۔ گڑیا نانی کو امی اورہم خالاؤں کو باجی کہہ کر مخاطب کرتی رہی۔ ہمارے گلے میں بانہیں ڈالتی، لپٹتی، فرمائشیں کرتی، مگر نائلہ آپا سے وہ کسی طرح قریب نہ ہوئی۔ شاید ناجیہ کے ساتھ روزانہ جھگڑا اور اس پر آپا کی پیہم ڈانٹ پھٹکار اس کے دل میں اپنی ماں کی محبت پیدا نہ کرسکی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ گڑیا یہیں رہے گی۔ آپا، ناجیہ اور فواد کو ہم نے ائیر پورٹ پر خدا حافظ کہا۔ ہماری آنکھیں نمناک ہوگئیں، لیکن گڑیا ان کے جانے سے بہت خوش تھی۔
جلد ہی میری شادی ہوگئی۔ میں اپنی سسرال چلی گئیں۔ اگلے چھ ماہ بعد مجھ سے چھوٹی بہن فرخانہ بھی بیاہ دی گئی۔ گڑیا گاہے گاہے امی یا میری چھوٹی بہن کو ساتھ لے کر ہمارے گھر آجاتی۔ چھوٹا بھائی اسکالر شپ پر ایم بی اے کرنے امریکہ چلا گیا۔ یوں دن گزرتے رہے، زندگی اپنی ڈگر پر محوِ خرام تھی۔
ایک سال کے اندر چھوٹی بہن رضوانہ کی بھی شادی ہوگئی۔ اب امی اور گڑیا گھر میں اکیلی رہ گئیں۔ گڑیا پابندی سے اسکول جاتی تھی۔ امی اس کے لیے صبح اٹھتیں، ناشتہ بناتیں، یونیفارم پر استری، جوتوں پر پالش اور بالوں میں کنگھی کرتیں۔ پھر گڑیا اسکول کے لیے روانہ ہوتی۔ جب تک وہ اسکول سے واپس نہ آجاتی، امی کھانا تیار کیے اس کا انتظار کرتی رہتیں۔
ایک دن امی کے گھر آپا کا خط آیا جس میں گڑیا کو مصر بھجوانے کی تاکید تھی۔ امی سوچ میں پڑگئیں۔ یہ حقیقت تھی کہ انھوں نے اپنی تمام بیٹیوں سے زیادہ گڑیا سے پیار کیا تھا۔
’’گڑیا! تمہاری امی کا خط آیا ہے۔ وہ اب تمہیں اپنے پاس بلالیں گی۔‘‘
’’میں نہیں جاؤں گی،امی! میں وعدہ کرتی ہوں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔ہم سب بے حد متاثر ہوئے۔ دراصل اس کے پیار میں اتنی بے ساختگی اور اپنائیت ہوتی کہ اکثر مجھے خیال آتا کہ محبت کا تعلق پیدا کرنے سے زیادہ پالنے سے ہے۔
تھوڑے ہی دنوں بعد آپا کا ایک اور خط آیا۔ لکھا تھا مصری سفارت خانے سے ایک صاحب آئیں گے، گڑیا کو آپ ان کے ساتھ بھیج دیں۔ امی نے ان صاحب کے ہاتھ گڑیا کو روانہ کرنے سے انکار کردیا۔ بچی کا معاملہ تھا۔ اسے غیر آدمی کے ہمراہ کیسے بھیجا جاسکتاتھا؟ انھوں نے صاف لکھ دیا۔ جب تک تم خود یا اویس اپنی بیٹی کو لینے نہیں آتے، ہم گڑیا کو نہیں بھیجیں گے۔
اب اکثر امی گھر پر اکیلی رہتیں۔ گڑیا دوپہر کے بعد اسکول سے واپس آتی اور امی کے پاس ہی بیٹھی رہتی۔ میرے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ بڑا ڈیڑھ برس کا اور چھوٹا دو مہینے کا ۔ گھریلو مصروفیت کے باوجود گڑیا کا پیار ہمیں کشاں کشاں امی کے گھر لے جاتا جہاں چاند جیسے روشن چہرے والی بچی ہمارا استقبال کرتی۔ وہ میرے چھوٹے بچے ارسلان کو گود میں اٹھا لیتی اور بہت پیار کرتی۔ ایک دن کہنے لگی: ’’آنٹی! مجھے یہ بہت پیارا لگتا ہے۔ آج سے یہ میرا منا بھائی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں گئی اور اپنے کھلونوں میں سے منی سی کار لے آئی اور ارسلان کے ننھے سے ہاتھ میں تھمادی۔
گڑیا چوتھی کلاس میں گئی، تو امی بیمار رہنے لگیں۔ میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ خیال آیا گڑیا اب قاہرہ چلی جائے گی۔ ایک دن اویس بھائی کے آنے کی خبر ملی۔ گڑیا کو پتہ چلا، تو اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ امی کے پاس گئی اور بڑی مغموم سی صورت بناکر بولی:’’امی! کیا آپ مجھے قاہرہ بھیج دیں گی؟‘‘
’’ہاں بیٹی! تم اپنے ابو اور امی کے پاس جاؤ گی۔ وہیں رہوگی۔ ‘‘ ان کا گلا رندھ گیا۔
’’نہیں میں وہاں نہیں جاؤںگی۔‘‘ وہ منہ پھلا کر فرش پر بیٹھ گئی۔ ہم سب اسے ذہنی طور پر تیار کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے ما ںباپ، بہن بھائی سے جاملے۔
میں نے اسے سمجھایا:’’تم اتنے بڑے ہوائی جہاز میں بیٹھوگی۔ نئے نئے ملک دیکھو گی۔ بڑا مزا آئے گا!‘‘
’’جی نہیں! مجھے یہ سب دیکھنے کا ذرا شوق نہیں۔‘‘ اس نے دوٹوک اپنی رائے ظاہر کردی۔ ’’ہاں سب لوگ چلیں تو ضرور چلوں گی۔‘‘
پھر اویس بھائی کے آنے کی خبر ملی، میں انھیں دیکھنے امی کے گھر گئی۔ اویس گڑیا سے گھلنے ملنے کی اپنی سی کوشش کرتے۔وہ ان کے پاس نہ جاتی۔ ایک دن وہ امی سے بولی:’’امی! یہ آدمی کون ہے؟‘‘
’’بیٹی! یہ تمہارے ابو ہیں۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’نہیں! یہ میرے ابو نہیں لگتے۔ انھوں نے مجھے کبھی پیا رنہیں کیا۔‘‘
’’نہیں بیٹے! ایسا نہیں کہتے۔‘‘
اگلے دن اویس اسے چڑیا گھر دکھانے لے گئے۔ پھر اسے کئی تفریح گاہوں کی سیر کرائی۔ واپسی پر ڈھیر ساری ٹافیاں چیونگم اور کہانیوں کی کتابیں لے کر دیں۔ اس کے لیے کئی فراکیں اور نئے سینڈل خریدے، آئس کریم کھلائی، گڑیا بڑی نفیس اردو بولتی اور اویس عربی اور ارد وکے جملوں پر اکتفا کرتے۔ جانے کیسے انھوں نے گڑیا کو رام کرلیا۔ اب وہ اور اویس اکثر ساتھ ساتھ دیکھے جانے لگے۔ پھر رفاقت یہاں تک بڑھی کہ ایک روز گڑیا نے امی سے کہہ دیا: ’’میں مصر جاؤں گی، مگر امی آپ بھی چلیے نا!‘‘
’’تمہاری نانی اماں بعد میں وہاں آجائیں گی۔ ہم انہیں بلا لیں گے۔‘‘ اویس نے کہا۔
جانے سے ایک دن پہلے دوپہر کے کھانے پر اویس اور گڑیا میرے گھر آئے۔ وہ خوبصورت فراک میں حسین تتلی لگ رہی تھی۔
’’آنٹی! ابو نے مجھے بہت سی چیزیں لے کر دی ہیں۔ میں نے ناجیہ اور فواد کے لیے اسکول کی کتابیں لی ہیں۔ ابو نے مجھے بولنے والا طوطا بھی لے کر دیا ہے۔ سچ، آنٹی! میں طوطا قاہرہ لے کر جاؤں گی۔ آپ دیکھنے آئیں گی۔‘‘
’’ہاں آؤں گی۔‘‘ میں نے دھیرے سے کہا۔
’’آپ مجھ سے ملنے مصر آئیں گی؟‘‘
’’ہاں! ضرور آؤں گی۔‘‘
’’ارسلان کو ضرور لائیے گا۔ یہ مجھے بڑا پیارا لگتا ہے۔‘‘ اس نے ارسلان کے گال پر پیار کرتے ہوئے کہا۔
تو مسافر اپنی منزل کی طرف کوچ کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ میں نے گہری سانس لی۔ دل میں دکھ کی ایک لہر اٹھی جسے میں نے کسی پر عیاں نہ ہونے دیا۔
ائیر پورٹ پر بہت رش تھا۔ اویس بھائی کے ایک ہاتھ میں طوطا اور دوسرے میں گڑیا کی انگلی تھی۔ وہ آگے آگے جارہی تھی۔ مگر مڑ مڑ کر جانے پہچانے چہرے اجنبی لوگوں میں تلاش کررہی تھی۔امی ریلنگ کا سہارا لیے بے حد دھندلائی آنکھوں سے گڑیا کو دیکھ رہی تھیں۔ پھر جہاز گھن گرج کے ساتھ رن وے پر دوڑتا ہوا فضا میں بلند ہوگیا۔ میری آنکھیں بھر آئیں۔ پلکوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے میں نے سوچا یہ محبتیں اور شفقتیں جو ہم اب تک گڑیاکو دیتے رہے ہیں، پتہ نہیں وہاں اسے مل سکیں گی یا نہیں۔ دیارِ غیر میں اگر اسے کانٹا بھی چبھا تو ہمارے دل تڑپ اٹھیں گے۔
گڑیا کیا گئی، امی کے گھر کا آنگن سونا پڑگیا۔ گھر کے درودیوار بے آب سے لگنے لگے۔ فرش اور سیڑھیاں خاموش ہوگئیں۔ جدھر نگاہ اٹھتی، اس کی یادوں کا عکس جھلملاتا۔ گھر کی ہر شے پر وہ اپنے نقوش چھوڑ گئی تھی۔ گنتی، پہاڑے، جمع تفریق کے سوالات، کارٹونوں کی صورت میں پنسل سے آڑی ترچھی لکیریں۔ایک دروازے کے پیچھے چھپ کر اس نے پچاس تک گنتی بھی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے لکھی تھی۔ بہت دنوں بعد میں اپنے بچوں کے ساتھ امی کے یہاں گئی تو گڑیا کے کھلونے الماری میں جوں کے توں سجے تھے۔ گمان ہوتا تھا ابھی آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی وہ دروازے کے پیچھے سے ’’ہاؤ‘‘ کہہ کر ڈرا دے گی۔ ایک بار میرا چار سالہ سلمان گھر میں دیواروں اور دروازوں پر یہ تحریریں پڑھ رہا تھا۔ بولا: ’’نانی امی! آپ کے گھر کوئی بچہ نہیں، پھر یہ کارٹون کس نے بنائے ہیں؟‘‘
’’ارے منے! یہاں ایک پیاری گڑیا رہتی تھی۔ تم سے کچھ بڑی، یہ سب کچھ اسی نے لکھا ہے۔‘‘ امی نے جواب دیا۔
’’امی! گھر میں کتنے جالے لگے ہوئے ہیں۔ در ودیوار بھی گندے ہوگئے ہیں۔ آپ نئی سفیدی کرالیں۔‘‘ میں نے مشورہ دیا۔
’’نہیں بیٹی! ان درودیوار پر جو کچھ لکھا ہے، اسے یونہی رہنے دو۔میں ننھے منے ہاتھوں کی معصوم تحریر نہیں مٹانا چاہتی۔‘‘ وہ دلگیر لہجے میں بولیں۔
میرا دل ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہونے لگا۔ چند لمحے اداس نگاہوں سے میں انھیں دیکھتی رہی۔ پھر اٹھ کر کمرے سے نکل آئی۔
کچھ مہینے بعد آپا کا خط آیا۔ عجیب خشک سی تحریر تھی۔ گڑیا کو دی جانے والی محبتوں کے عوض شکریے کے بجائے اس میں شکایتوں کا انبار تھا کہ جب سے گڑیا آئی ہے، اس نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے۔ انتہائی ضدی اور منھ پھٹ ہے۔ ناجیہ اور فواد سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ کسی کی بات نہیں مانتی۔ ہر وقت امی اور تم لوگوں کا قصیدہ پڑھتی رہتی ہے۔ مجھے ماں تو سمجھتی ہی نہیں۔ ایک دن میرے بیگ سے پیسے چرالیے۔ یہ بات خلافِ توقع تھی۔ اویس بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے تمہاری ماں نے کیا یہی تربیت دی ہے۔ اسے چوری کرنا سکھایا ہے؟ میں نے بھی اس کی خوب پٹائی کی۔ سارا دن روتی رہی۔ اس نے کچھ کھایا نہ پیا۔ بہت وقت لگے گا اسے ٹھیک ہونے میں۔
میرا دل لرز اٹھا، جس بات کا دھڑکا تھا، ہوکے رہی۔ گڑیا انہیں ذہنی طور پر قبول نہ کرسکی۔ آپا نے بھی اسے زیادہ اہمیت نہ دی ہوگی۔ پھر ان کے دل میں گڑیا کے لیے ممتا کیسے بیدار ہوتی؟ ہائے! پھول سی بچی۔ خدا جانے آپا نے اسے کس بری طرح پیٹا ہوگا!‘‘
اچانک میری خالہ زاد بہن ریحانہ اپنے شوہر کے ساتھ قاہرہ چلی گئیں۔ دوسرے برس وہ وطن واپس آئیں تو ہم سے ملنے امی کے گھر پہنچیں۔ میں نے سب سے پہلے نائلہ آپا اور ان کے بچوں کے بارے میں پوچھا۔
’’ناجیہ اور فواد تو ٹھیک ٹھاک ہیں۔و پوری طرح صحت مند! ہاں گڑیا کچھ بیمار ہے۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔’’نائلہ کے سارے بچے پیارے ہیں۔ ہفتے میں ایک دوبار ہم ان کے گھر ضرور جاتے تھے۔ گڑیا دس برس کی ہوگئی ہے۔ ناجیہ آٹھ سال کی اور فواد سات سال کا۔ گڑیا پانچویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ یہاں وہ اردو اسکول میں پڑھتی تھی، اب اسے عربی طریقۂ تعلیم سے پڑھنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے اسے دگنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ یوں بھی وہ دبلی پتلی کمزور سی حساس لڑکی ہے۔ کھاتی پیتی کم ہے۔ ہر وقت اسے مصروف ہی دیکھا ہے۔ اسکول سے آتے ہی وہ کچن میں گھس جاتی ہے۔ نائلہ نے ہانڈی روٹی اور صفائی کی ذمے داری اسی پر ڈال رکھی ہے۔
’’گڑیا ہانڈی روٹی کرتی ہے؟‘‘ میں ایک دم حیران رہ گئی۔
’’ہاں! اس کے علاوہ گھر میں آنے جانے والے مہمانوں کی خاطر مدارات بھی اس کے ذمے ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ وہ اکیلی سارے کاموں میں جتی رہتی ہے۔ نائلہ ڈیوٹی پر صبح آٹھ بجے چلی جاتی ہے۔ شام پانچ بجے اس کی واپسی ہوتی ہے۔ گھر پہنچتے ہی وہ سب کاموں کا تنقیدی جائزہ لیتی ہے۔ اگر کسی کام میں معمولی کوتاہی نظر آگئی، تو گڑیا کی شامت آجاتی ہے۔ ایسے لمحہ میں نائلہ پر جنون سوار ہوجاتا ہے۔ اس کے ہاتھ جو چیز لگتی ہے، وہ اسی سے گڑیا کو پیٹ ڈالتی ہے۔‘‘
’’یقین نہیں آتا!‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بتارہی ہوں۔‘‘ ریحانہ باجی نے کہا۔’’نائلہ نے گڑیا کی پرورش کی نہ اسے ماں کی محبت دی۔ چھوٹے بہن بھائی بھی اسے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہیں، بلکہ حسد کرتے ہیں۔ ناجیہ چوری چھپے ماں کے پرس میں سے پیسے نکال کر اسکول لے جاتی ہے اور چوری کا الزام گڑیا پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اویس زیادہ تر گھر کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتا، مگر گڑیا کی شکایت سن کر آگ بگولا ہوجاتا ہے۔ اسے بری طرح جھڑکتا اور بے تحاشا مارتا ہے۔ ایک بار ناجیہ نے باپ کے بیگ سے کچھ پیسے چرائے۔ بات گڑیا پر آگئی۔ اویس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، مکوں اور لاتوں سے گڑیا کی مرمت کر ڈالی۔ چیخ پکار کی آواز بڑھی تو نائلہ اپنے کمرے سے دوڑی آئی۔ دیکھا تو گڑیا نے سہم کر ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔ ابو مجھے معاف کردیں، میں چوری نہیں کروں گی۔‘‘
’’سنگدلانہ مارپیٹ سے دہشت زدہ ہوکر وہ چور نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی چوری کا اقرار کررہی تھی۔ تب فواد نے راز کھولا کہ صبح آپ کے پرس میں سے ناجیہ نے پیسے لیے تھے۔ اویس ناجیہ کے پیچھے دوڑا، تو وہ دوڑ کر ماں کی بغل میں جا چھپی اور اویس بکتا جھکتا باہر نکل گیا۔‘‘
’’نائلہ صرف ایک گھریلو عورت ہوتی تو وہ روزِ اول ہی سے ناجیہ اور فواد کو بٹھا کر سمجھاتی کہ گڑیا تمہاری بہن ہے، خبردار، جو اپنی بہن پر کسی نے ہاتھ اٹھایا۔‘‘ امی نے ریحانہ باجی کی بات سننے کے بعد کہا۔
’’مگر وہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ نائلہ تو گڑیا سے اس کا قصور پوچھے بغیر ہی اس پر چڑھ دوڑتی ہے۔ اور اسے پیٹ ڈالتی ہے۔‘‘ ریحانہ باجی پہلو بدل کر بولیں ’’نائلہ کی ملازمت کی بنا پر بچوں کے لیے تفریح کے زیادہ مواقع نہ تھے ، جمعے کے دن ہم اپنی گاڑی میں نائلہ کے یہاں جاتے۔ ناجیہ اور فواد ضد کرتے آنٹی ہمیں فلم دکھا لائیں، ہمیں پارک لے جائیں، مگر گڑیا خاموش رہتی۔ اس کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ ہم سے کبھی ایسی فرمائش کرے۔ بس لمحے بھر کے لیے ہماری طرف دیکھتی جیسے کہہ رہی ہو : ’’آنٹی! آپ مجھے چھوڑجائیں گی؟‘‘ پھر ہم صرف گڑیا کی تفریح کی خاطر ناجیہ اور فواد کو سیر کرانے لے جاتے تاکہ وہ گھر کے پرعذاب ماحول سے کچھ ہی دیرکے لیے سہی، نجات پالے۔‘‘ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکیں، پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں: ’’شبو! تمہاری نائلہ آپا انتہائی جلن اور رقابت کا شکار ہے۔ اور جب کوئی ماں ان جذبوں کا شکار ہو جائے اور اپنے بچوں کے لیے اس کے دل کی ممتا مر جائے تو پھر وہ ماں نہیں رہتی، ایک ڈائن بن جاتی ہے۔ یہی گڑیا کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ ذہنی طور پرنائلہ کو ماں نہیں سمجھتی۔‘‘
مجھے امید تھی کہ نائلہ آپا کبھی یہاں نہ آئیں گی، مگر ایک دن امی کے پاس آپا کا خط آیا کہ وہ بچوں کے ساتھ آرہی تھیں۔ پھر وہ آبھی گئیں۔ شاہینہ اور رضوانہ دوڑی دوڑی گڑیا سے ملنے امی کے گھر پہنچیں۔ میرے گھر ہفتہ بھر گزرنے کے بعد بھی نہ آپا آئیں نہ کوئی بچہ آیا۔ تین برس بعد میرا دل گڑیا کی صورت دیکھنے کو بے قرار تھا، مگر میرے شوہر نے کہہ دیا جب تمہاری آپا اتنی دور سے آنے پر تم سے ملنے نہیں آئیں، تو وہاں جانے کی تمہیں ضرورت نہیں۔ میں دل مسوس کر رہ گئی۔
بیس دن بعد آپا بچوں کے ہمراہ واپس قاہرہ چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد رضوانہ ہمارے گھر آئی۔ کہنے لگی کہ نائلہ آپا تو ایک دم جلاد صفت ہوگئی ہیں۔ وہ گڑیا کو اپنی بیٹی تصور ہی نہیں کرتیں۔ ناجیہ اور فواد اسے اپنی بہن تسلیم نہیں کرتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ لڑکی ہمارے کھلونے چھیننے اور ہمارے ماں باپ کی محبت میں شریک بننے آگئی ہے۔ گڑیا سب سے زیادہ اپنے باپ سے نفرت کرتی ہے۔ کہتی ہے یہی شخص مجھے دھوکہ دے کر مصر لے گیا تاکہ میں امی اور اپنے بہن بھائیوں کی نفرت کا نشانہ بنوں۔ جانے سے ایک دن پہلے گڑیا نے ڈرتے ڈرتے نائلہ آپا سے کہا: ’’امی! میں شبانہ آپا سے ملنا چاہتی ہوں۔ وہ مجھے بہت پیار…‘‘
نائلہ کا پارہ ایک دم چڑھ گیا۔ اس نے گڑیا کو دو ہتھڑ رسید کیا اور کہا:
’’یہی لوگ ہیں جنھوں نے تمہیں بگاڑا ہے۔ خبردار! آئندہ اس کا نام لیا۔‘‘
میں نے تصور میں دیکھا ناجیہ اور فواد ہنستے مسکراتے صحت مند بچے ہیں، مگر گڑیا ناجیہ سے دو سال بڑی ہونے کے باوجود جسمانی طور پر کمزور، زرد اور بیمار سی لگتی ہے۔ اس کی بڑی بڑی ذہین آنکھوں میں وہ تین چار سال پہلے والی شوخی اور چمک ہے نہ اس کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ۔ نائلہ آپا اس لیے آئی تھیں کہ وہ دکھا سکیں ان کی محبت کی مستحق ناجیہ اور فواد کتنے صحت مند بچے ہیں اور گڑیا جسے ہم سب نے محبتوں کے جھولے میں پالا تھا، کتنی دبلی، کمزور اور نکمی ہے۔ ماں رشک و حسد کا شکار تب ہوتی ہے جب اس کا بچہ کسی اور کی محبت کا دم بھرے۔ اس وقت ماں کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ امی اور بہنوں کو جلانے کے لیے ان کی آنکھوں کے سامنے انتہائی بے دردی سے گڑیا جیسی دھان پان نازک بچی کی وہ کھال ادھیڑتی رہیں۔ یہ سب کچھ میری امی برداشت نہ کرسکیں۔ آپا کو سمجھانے کی کوشش کرتیں: ’’نائلہ! یہ تمہاری بچی ہے، پیار سے اسے سمجھاؤ۔‘‘
نائلہ آپا چلا اٹھتیں: ’’یہ تم لوگ ہو جنھوں نے میری بچی کو بگاڑ دیا۔ میں اس کی ماں ہوں۔ اس کی ہڈیاں بھی توڑ سکتی ہوں۔ یہ تم لوگوں کی محبت کا دم کیوں بھرتی ہے؟ راتوں کو نیند میں کیوں چیختی ہے نانی ماں، مجھے بچالو؟‘‘
ہم ماں بہنوں کو جلانے تڑپانے کے بعد آپا اپنے بچوں کے ساتھ قاہرہ جاچکی ہیں۔ ان کی تلخ و تیز باتوں کی گونج ابھی باقی ہے۔ میں پہروں گڑیا کے بارے میں سوچا کرتی ہوں۔ تصور میں اس کا سراپا ابھرتے دیکھتی ہوں۔ جانے سعدیہ کا مستقبل کیا ہو؟ اس کی زندگی کس نہج پر گزرے گی؟ جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے پالا، بیماری میں اس کی تیمار داری کی، اس کی صحت یابی کے لیے راتوں کو دعائیں مانگیں، وہی شوخ اور ذہین لڑکی اپنے خیالوںمیں گم، کسی صحرا میں اکیلے درخت کی مانند دیارِ غیر میں اجنبی لوگوں کے درمیان اپنے ننھے منے زخمی ہاتھوں سے برتن مانجھتی، جھاڑو دیتی، تھکی تھکی بے خواب آنکھوں سے ہمارے پاس لوٹ آنے کے خواب دیکھتی ہے۔