پیاسے لوگ

آثم میرزا

کمر میں جھکاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ مگر چال میں لرزش نہ تھی۔

’’بابا جی، فٹ پاتھ سے نیچے نہ اتریں۔ ٹریفک خطرناک ہے۔‘‘

نور دین نے کمر پر رکھے ہوئے بائیں ہاتھ کو ذرا نیچے سرکا کر نظروں کا زاویہ بدلا اور اسکوٹر سوار کی طرف دیکھا۔ پھر مسکراتے لہجہ میں کہا: ’’بیٹا! ٹریفک کیا خطرناک ہوگا۔ ہم خود زیادہ خطرناک ہیں۔ ہم ادب لحاظ کے معاملہ میں اس سے بھی زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ اس لیے حادثے زیادہ ہونے لگے ہیں۔‘‘

اسکوٹر سوار رفتار تیز کرکے دور نکل گیا تھا۔ نوردین نے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے کن میلئے کے قریب پاؤں اوپر اٹھایا اور جھٹکا دے کر دوسرا پاؤں بھی فٹ پاتھ پر رکھ لیا۔ کن میلئے کو غور سے دیکھا اور پاس ہی بیٹھ گیا۔

’’کیوں بھیا، کیسے گزر رہی ہے؟ کوئی گاہک بھی ملتا ہے۔ یا فقط انتظار بن کر رہ گئے ہو؟‘‘

وہ آدمی اداس بیٹھا تھا۔ نوردین پر نظریں جماکر وہ اسے اپنے اندر تندبگولے کی مانند محسوس کرنے لگا۔ ’’ہاں پرانے لوگوں میں سے کوئی نہ کوئی ادھر آجاتا ہے۔ اب تو گاؤں والے بھی کنی کاٹنے لگے ہیں۔ ورنہ ایک وہ وقت بھی تھا کہ لائن لگی رہتی تھی۔ کان کا میل نکلوانے والے آواز صاف پہچاننے کی خاطر بڑے چاؤ سے پاس بیٹھ جایا کرتے تھے۔‘‘

’’ہاں!میں نے بھی تو اسی لیے دریافت کیا تھا۔ آہ! اب ماضی کا ایک ایک ورق خستہ ہوکر بھر بھرا بن گیا ہے۔ ذرا سا ہاتھ لگاؤ تو مٹی بن کر بکھر جاتا ہے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا۔ ایک دوسرے کی آواز پہچاننے کی خاطر کن میلئے کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ مگر اب تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ آواز تو کجا چہرے بھی نہ پہچانے جاسکیں۔ اس لیے ان کن میلیوں کو کون اہمیت دے سکتا ہے۔‘‘ وہ یوں مسکرانے لگا، جیسے کسی نے ہاتھ باندھ کر گدگدی کی ہو۔ جب وہ وہاں سے اٹھا تو شیخ الطاف کا چہرہ اس کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا۔ واہ، شیخ صاحب، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ مگر آپ نے ابھی تک خود میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ کسی بات کو انا کا مسئلہ بناکر کمزوروں کو لتاڑنے کا بہانہ تلاش نہیں کیا۔ اپنے معیار سے نہیں ہٹے۔ واہ! شیخ صاحب!!‘‘

اس کا خیال تھاکہ اسٹینڈ پر آکر اسے جیپ مل جائے گی۔ مگر قطار لگی دیکھ کر اس کا جی گہری سانسیس بھرنے لگا تھا۔ مختلف سمتوں کو جانے والی گاڑیوں کے سامنے لوگوں کی لائن لگی تھی۔ آہستہ آہستہ گاڑی کی سواریاں پوری ہوتیں تو ڈرائیور اسے اسٹارٹ کرکے آگے لے جاتا۔ اور دوسری گاڑی میں سواریاں داخل ہونا شروع ہوجاتیں۔

اس کے پیچھے تیسرے نمبر پر جو ادھیڑ عمر آدمی کھڑا تھا اس نے بازو لمبا کیا، ذرا آگے جھکا اور نور دین کے کندھے کو چھولیا۔ ’’نوری بھائی! السلام علیکم ! ہی ہی ہی‘‘ نور دین نے گردن گھمائی۔ اور محبت خاں کی مسکراہٹ کو اپنے اندر جذب کرکے عجیب سی فرحت محسوس کرنے لگا۔ ’’اوہ! خان بھائی! کہاں گم ہوگئے تھے؟ اور تمہارے فخر و نے بھی تو شہر چھوڑ دیا تھا۔ کب آئے ہو؟‘‘ محبت خاں نے اسے قطار سے باہر نکلتے دیکھ کر خود کو بھی قطار سے آزاد کرالیا۔ ’’آؤ بھائی، ادھر بیٹھتے ہیں۔ آپ تو میرے بھائی ہیں ناں!‘‘ دونوں نزدیکی چائے خانہ میں داخل ہوکر یوں محسوس کرنے لگے تھے جیسے کسی غار میں نامعلوم مدت تک بند رہنے کے بعد کسی غیبی طاقت نے دہانے کا پتھر سر کا دیا ہو۔ اور دھوپ میں آکر وفورِ مسرت سے آنکھیں نہ کھل رہی ہوں۔ چائے کا آرڈر دے کر محبت خاں نے پوچھا۔ ’’تم پنشن لے کر بڑے بیٹے کے پاس چلے جاتے۔ میں جب یہاں سے جارہا تھا تمہارے چھوٹے بیٹے نے یہاں بتایا تھا۔ تم ان دنوں کسی بیمار عزیز کی تیمار داری میں لگے ہوئے تھے۔‘‘

’’ہاں! تم نے درست سنا تھا۔ مگر ، چند دنوں بعد بڑی بہو نے اپنے بھائی کے ہاتھ پیغام بھیج دیا تھا کہ ان کا ٹرانسفر ہورہا ہے اس لیے میں ابھی گھر نہ چھوڑوں، جب وہ نئی جگہ پر رہائش کا معقول انتظام کرلیں گے تو اطلاع کردیں گے۔‘‘ وہ ہنسنے لگا تھا۔ ’’اور کتنی خوشی کی بات ہے کہ بڑے بیٹے کا ابھی تک ٹرانسفر نہیں ہوا، اور نہ اس نے اپنے پاس بلانے کااشارہ تک کیا ۔ بھلا، میں ان لوگوں کی محتاجی میں آسکتا ہوں؟ خود کو اتنا گراسکتا ہوں کہ پوتے تک سیدھے منہ بات کرنا گوارہ نہ کریں۔ کیوں؟ خان بھائی ٹھیک ہے نا؟‘‘

’’ہاں نوری بھائی! جب درخت کے پتے جھڑجائیں، ٹہنیاں ننگی ہوجائیں تو پرندے بھی گھونسلا بنانے سے گھبراتے ہیں۔ طوفان سے بچاؤ کی خاطر دور دور رہتے ہیں۔ مگر، ایسے پرندے بھی ہوتے ہیں جو آندھی کی زبان پر چراغ جلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بیٹے بزدل ہیں۔ مگر میں بڑے فخر سے ان کی فرمانبرداری کی کہانیاں دوسروں کو سنایا کرتا تھا۔ کاش!‘‘

’’چلو اچھا ہوا پہلے سے ہوا کا رخ معلوم کرکے بادبان سمیٹ لیا ہے۔ اگر اندازہ نہ لگایا جاتا تو کشتی ٹوٹ پھوٹ جاتی۔ آہ…!‘‘

’’اب میرا قصہ بھی سنو، جب بھوک کی وجہ سے اپنا گاؤں چھوڑ کر ادھر آیا تھا تو تم نے ہی سہارا دیاتھا۔ شیخ صاحب کی سفارش حاصل کرکے نوکری دلائی تھی۔ پھر مجھے رانا صاحب نے گھریلو ملازم بنالیا۔ ملازمت سے زیادہ سہولت حاصل ہوگئی تھی۔ تم نے حوصلہ بڑھایا۔ اور بھائیوں سے زیادہ ساتھ نبھایا۔ رانا فخرو نے بیٹی کی شادی کی تو شہر سے جی اچاٹ ہوگیا۔ کیونکہ اور کوئی اولاد نہ تھی۔ میں نے مشورہ دیا تھا کہ اتنی دولت ہے کہ شمار نہیں ہوتی۔ کوئی ہسپتال بنادیں، کوئی مدرسہ بنادیں، کوئی محتاج خانہ بنوادیں یا کوئی ایسی یادگار قائم کریں کہ غریبوں کو فائدہ پہنچتا رہے۔ ویسے تو وہ بڑے جی دار تھے۔ مگر ، روپیہ خرچ کرتے ہوئے جی ڈوبنے لگتا تھا۔ بیٹی کو جہیز میں جو کچھ دیا ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ واہ رے مقدر! جو داماد ملا وہ ناشکرا اور ناقدرا ثابت ہوا۔ اور بیٹی اند رہی اندر گھلنے لگی تھی۔‘‘ محبت خان کی آواز رندھ گئی، حلق میں پھنسنے لگی۔ آنکھوں میں چمکیلا پانی تیرنے لگا۔ رومال منہ پر رکھ کر کھانسی کو روکا، تو نور دین بول پڑا۔

’’عجیب بات ہے، جس کو ٹٹولو وہی زخم زخم ثابت ہوتا ہے۔ وہی آنسوؤں میں ڈوبتا دکھائی دیتا ہے۔ میں تو رانا فخرو کو بہت بڑا مقدر والا سمجھتا تھا۔‘‘

’’ہاں، ایسا ہی سمجھ لو، جس طرح تمہاری گزر رہی ہے، کیا تم اس کے متعلق کبھی سوچ بھی سکتے تھے؟‘‘

’’نہیں، میں نے بیٹوں پر ہمیشہ فخر کیاتھا مگر انھوں نے میرا مان توڑ دیا ہے۔ خیر، ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ ایسا ہوتا ہی ہے۔ میرا خیال تھا میں نے ان کی پرورش پر پوری توجہ صرف کی ہے مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ میں نے انہیں مال کے تابع بنائے رکھا۔ مگر ماضی کی خون آشام تلخیوں سے آگاہ نہ کیا۔ ابتدا کے متعلق نہ بتایا کہ عمارت کی نیو رکھتے وقت ہماری کیا حالت تھی۔ اور اب یہ جو کچھ حاصل ہوا ہے یہ اس عمارت کی بنیادوں کو اپنے خون سے بلند کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک قصبہ میں رہنے والا معمولی موچی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکتا تھا۔اور اب بیٹے ہیں جو اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔ ٹھیک کہا ہے نا۔‘‘

’’ہاں — اور — یہی حال رانا فخرو صاحب کا تھا۔ داماد کی ہر شرط پوری کی پھر بھی اس کے ماتھے کی تیوری میں فرق نہ پڑا۔ اس کے چہرے کی کرختگی دور نہ ہوئی۔ اور جب، انہیں اپنی بیٹی کی علالت کا علم ہوا تو مجھے ساتھ لے کر اس کے پاس پہنچ گئے۔ آہ! شمیم بیٹی! اس نے تو خوشی کا کوئی لمحہ بھی اپنے قابو میں نہ کیا۔ اتنے امیر کبیر باپ کی بیٹی۔ اور پیار کے دوبول سننے کے لیے ترستی رہی۔ اور اس غم نے اس کی جان لے لی۔ نوری بھائی! رانا صاحب، اور میں بھی۔ ہم دونوں ہی پاگل ہوگئے تھے۔ کتنی ہی مدت گاؤں میں گزار کر اب شہر آئے ہیں۔ گاڑیاں ہیں، مگر سوار ہونے کو جی نہیں چاہتا۔ کوٹھیاں ہیں، مگر اب ان میں رہائش کی ہمت نہیں پڑتی۔ سب کچھ فروخت کرکے ان کا ارادہ نہ جانے کہاں جانے کا ہے؟ مجھے نہیں بتاتے۔ میرے نام بینک میں بہت سا روپیہ جمع کرادیا ہے اور وعدہ لیا ہے کہ میں واپس اپنے گاؤں چلا جاؤں گا۔ وہاں نئی زندگی کا آغاز کرو ںگا۔ میں دلال کے پاس سے آیا ہوں۔ شام کو تمھارے گھر جانا تھا۔ اچھا، اب خدا حافظ، پتا نہیں پھر کب ملاقات ہوگی؟‘‘

وہ آنسو پونچھتا ہوا، ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ باہر نکل گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا اندرونی کرب نے اس کے حافظہ کو مسل کر رکھ دیا ہو۔ اور یک دم خود فراموشی کے عالم میں چائے خانہ سے اٹھ کر وہ یوں باہر نکل گیا جیسے اندھیری رات میں چراغ جلانے کے لیے دیا سلائی تلاش کررہا ہو تو نور دین بوجھل قدموں اور تھکے ہوئے دل و دماغ کے ساتھ شیخ الطاف کے بہنوئی کی کوٹھی پر پہنچا تو بڑے گیٹ پر شیخ الطاف کی بڑی بیٹی سے سامنا ہوگیا۔ نور دین نے تو پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا مگر نادرہ اسے نہ پہچان سکی تھی۔ اس کے سلام کا جواب نہ دیا تھا۔ وہ یوں میک اپ کیے ہوئے تھی جیسے مقابلہ حسن میں اپنی برتری قائم کرنا چاہتی ہو۔ نور دین بت بنا کھڑا رہا اور نادرہ سامنے والی کوٹھی میں داخل ہوگئی۔ نور دین نے سر کو جھٹکا دیا۔ کئی بار منہ پر ہاتھ پھیرے۔ جب ذرا حواس درست ہوئے تو اندر ہی اندر کڑھتا ہوا کوٹھی کی طرف بڑھنے لگا۔ شیڈ کے قریب ہی نادرہ کے خاوند قیوم سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے نور دین کو پہچاننے میں دقت محسوس نہ کی۔ ’’اوہ! بابا نوری! اچھا تم آگئے ہو، ہم سب ہی بڑے پریشان تھے۔دیکھونا ماموں جان کو سبھی سمجھا چکے ہیں کہ پرانی حویلی میں کیا خزانہ دبا رکھا ہے جو وہ اسے جیتے جی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے مگر وہ مانتے ہی نہیں۔ کل شام سے حالت زیادہ ہی خراب ہے۔ بخار تیز ہے مگر ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ حویلی میں لے چلو۔ عجیب آدمی ہیں۔‘‘

نور دین برداشت نہ کرسکا تھا۔ ’’اللہ خیر! یا اللہ۔ ان کی بیماری مجھے لگادے۔ اب کہاں ہیں؟‘‘

’’کمرہ میں ہیں۔ تم یہیں ٹھہرو، میں انہیں تمہارے ساتھ بھیج دیتا ہوں۔ بابا نوری، تم کو بتارہا ہوں کہ کوٹھی کا سودا نادرہ ایک کارخانہ دار سے کرچکی ہے۔ ماموں جان، اور کتنے دن جی سکتے ہیں۔‘‘

’’ایسا مت سوچئے۔ پاک پروردگار،ان کی عمر دراز کرے۔ ابھی انہیں بہت سارے کام سرانجام دینے ہیں۔‘‘

’’ارے! کیا پاگلوں کی سی باتیں کررہے ہو۔ وہ تو اب بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ جیسے میرے پاپا بوجھ تھے۔‘‘

’’بیٹا! میں تو تمہارے باپ کی وفات کی خبر سن کر تعزیت کے لیے آیا ہوں۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔ اب چالیسویں کے ختم پر تمہیں ضرور دعوت نامہ ارسال کروں گا۔ مگر اب تم ماموں جان کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔‘‘ وہ تیز قدموں سے اندر داخل ہوگیا۔ دوسرا کمرہ کھلا اور میوزک کی پُر جوش لہروں نے نوردین کے دل و دماغ کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

’’ہماری طرف تو کہیں ماتم ہوجائے تو لوگ چالیس دن تک نئے کپڑے تک نہیں پہنتے۔ اہلِ محلہ کھل کر ہنس نہیں سکتے۔ اور یہاں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے برات آنے والی ہو۔‘‘

شیخ الطاف کے انتظار میں نور دین کے اندر کھولاؤ پیدا ہورہا تھا۔

اس کی سوچ کے دائرے ٹوٹ رہے تھے۔ شیخ الطاف کو اس کا داماد اور ایک اور ادھیڑ عمر آدمی سہارا دے کر باہر لائے۔ نور دین پر اس کی نظریں پڑیں تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ آواز میں لرزش پیدا ہوگئی۔

’’آگئے، اچھا کیا! شاید تمہارا ہی انتظار تھا۔‘‘

اسے کار کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا گیا، نور دین قریب ہی نیچے بیٹھ گیا۔ شیخ الطاف کا ہاتھ دباتے ہوئے اس نے روہانسا ہوکر کہا:

’’خدا آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ میں تو تعزیت کے لیے آیا تھا۔ معلوم نہ تھا کہ آپ کی حالت اتنی خراب ہے۔ میرا خیال تھا ماتم والا گھر ہے، ابھی تک سبھی سوگ منارہے ہوں گے۔ مگر…‘‘

’’ہماری مت ماری گئی ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت صرف ہمارے ہی مقدر میں لکھی ہے۔ یہ تو سدا بہار درخت ہیں۔ خزاں کا سامنا کبھی نہ ہوگا۔‘‘

’’آپ ہمت رکھیں کچھ نہیں ہوگا، میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘

کار کوٹھی کے بڑے گیٹ سے باہر نکلی۔ تو سورج غروب ہورہا تھا۔ اور نئے دن کی بشارت آنے والی رات کے دامن میں مہک رہی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146