اگلی صبح جب وہ نہاکر نکلی تو ا سکے لمبے بال سلجھ کر ہی نہیں دے رہے تھے۔ صبا تیار ہوکر کب کی اس کے گھر پہنچ چکی تھی اور بے حد تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی جو اپنے خوب صورت بالوں کو بڑی بے دردی سے سلجھا رہی تھی۔ گیلے بال ٹوٹ کر فرش پہ گر رہے تھے۔ لیکن ان سے بے پرواہ وہ صبا کی صلواتوں کے ڈر سے جلدی جلدی برش چلا رہی تھی۔ صبا کا سینے پر ہاتھ باندھے کھڑے ہوکر گھورنا اسے خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
’’تم جاکر بوتل میں پانی ہی بھرلو۔‘‘ صبا کی توجہ خود پر سے ہٹانے اور اسے وہاں سے بھگانے کا اسے یہی آئیڈیا سوجھا تھا۔
صبا خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتی کچن میں جاکر بوتل بھر لائی۔ ان دنوں گھر سے باہر نکلنے پر پانی ساتھ رکھنا اشد ضروری تھا۔
فائزہ کے بال ابھی بھی نہیں سلجھے تھے اس نے انہیں یوں ہی چھوڑ کر کلیچر (کلپ) لگا لیا تھا۔ صبا فائزہ کے بیگ میں واٹر باٹل رکھنے ہی لگی تھی کہ بیگ کے قریب ٹیبل پر پڑے مقامی اخبا رکی ہیڈ لائنس پر اس کی نظر پڑی۔
باٹل اور اخبار وہیں پھینک کر وہ بھاگتی ہوئی مہران کو بلانے گھر آئی لیکن وہ غائب ہوچکا تھا اور اس کا فون بھی مسلسل بند آرہا تھا۔
وہ پیر پٹختی فائزہ کے سر پہ آپہنچی۔
’’کیا مہران کو پتہ تھاکہ ہم مارکیٹ جانے والے ہیں؟‘‘
اسے صبا کے اس بے تکے اور بے وقت پوچھے جانے والے سوال کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا تاہم اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’تو اب بھگتو۔ کیوں کہ آج ٹیکسیوں کی ہڑتال ہے اور مہران رفو چکر ہوچکا ہے۔‘‘
وہ دھپ سے اس کے بستر پر گر گئی۔
اسے اپنا پروگرام خطرے میں نظر آنے لگا۔ اتنی مشکل سے تو صبا کو منایا تھا، اگر آج کا پلان کینسل ہوتا تو اب تو وہ ہاتھ نہیں آنے والی تھی۔ اس نے بہت منت سماجت کر کے بالآخر صبا کو پیدل چلنے پر راضی کر ہی لیا۔
گو مارکیٹ ایریا ان کے رہائشی علاقے کے قریب ہی تھا لیکن موسم کی شدت کی وجہ سے پیدل چلنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا۔
انہیں گھر سے نکلتے نکلتے ساڑھے گیارہ بج گئے تھے، دن چڑھ چکا تھا اور دھوپ میں اچھی خاصی تیزی آگئی تھی۔ ان دونوں نے یہ عقل مندی کی تھی کہ اپنے برقعوں پر سفید اسٹولز اوڑھ لیے تھے۔ صبا نے ہلکے سرمئی کلر کا عبایا جب کہ اس نے اپنا کالا عبایا ہی پہن رکھا تھا۔
شاپنگ کے لیے وہ سب سے پہلے ’’اندور والا‘‘ میں داخل ہوئیں اور یہیں سے صبا کے ضبط کا امتحان شروع ہوگیا۔ سیلز مین نے ساری دکان کے کپڑے فائزہ کے آگے ڈھیر کردیے مگر مجال ہے جو اس نے ایک بھی سوٹ پسند کیا ہو۔ ’’خزانہ‘‘ سے بھی کچھ پسند نہیں آیا۔ پھر وہ یکے بعد دیگرے لکھنوی پلازی، اپنا کلاتھ اسٹور، امین بھائی دو پٹے والے، لاڈلی دلھن، حیدر آبادی کلیکشن ہر دکان میں گھستے رہے لیکن یہاں بھی وہی کچھ دہرایا گیا جو پہلی دو دکانوں میں ہوا تھا۔صبا فائزہ کے طریقہ شاپنگ سے سخت عاجز تھی۔ وہ ڈریسز ایسے منتخب کرتی تھی گویا زندگی بھر پہننے والی ہو۔پھر اللہ اللہ کر کے ’’کائنات‘‘ میں سے اس نے تین جوڑے خریدے۔ لیکن اب صبا جسمانی طو رپر تو کم مگر ذہنی طور پر بہت زیادہ تھک گئی تھی۔ وہ تو خیر ہوئی کہ تقریباً ساری ہی دکانوں میں کولر اور اے سی چل رہے تھے ورنہ گرمی کے مارے تو ان کا برا حال ہو جاتا۔
فائزہ ترحم آمیز نگاہوں سے ان نو عمر لڑکیوں اور لڑکوں کو دیکھ رہی تھی جو مسلسل گاہکوں کو کپڑے دکھا رہے تھے۔ یہ ایک سخت بوریت اور اکتا دینے والا کام تھا اور اگر کسٹمر ز خود اس کے جیسے ہوں تو بس ۔ وہ ان کی محنت دیکھ کر قدرے نادم ہوئی۔ صبا کی بوریت کا بھی اسے اندازہ تھا۔ وہ بے دلی اور اکتاہٹ کے ساتھ کاؤنٹر پر کھڑی پانی پی رہی تھی۔ فائزہ کو بھی یکایک پیاس کا احساس ہوا۔ اپنی طرف متوجہ پاکر صبا اس کی سمت لپک کر آئی۔ ’’کیا ہوا آیا پسند؟‘‘
’’میں ذرا پانی پی لوں شدید پیاس لگ رہی ہے۔‘‘ اس کا سوال نظر انداز کر کے وہ واٹر کولر کی طرف بڑھی۔ جس کے ٹھنڈے پانی سے لوگ اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ صرف دکانوں میں ہی نہیں بلکہ پورے مارکیٹ میں جگہ جگہ ’’فریش ایکوا‘‘ پانی کے کین کے اسٹالز لگے تھے جو راہ گیر و گاہکوں کو سیراب کر رہے تھے۔
’’ٹھیک سے بیٹھی رہو۔‘‘ صبا نے غراکر اسے کھینچ لیا۔ ’’پہلے اپنی شاپنگ ختم کرو کھانا پانی سب بعد میں۔‘‘
’’ارے مگر…‘‘ وہ دہائیاں دیتی رہ گئی لیکن صبا نے اس کی ایک نہیں سنی۔ فائزہ کو ویسے بھی اس بات کا اطمینان تھا کہ اس کے بیگ میں پانی کی باٹل تو ہے ہی۔
’’اگر تم شاپنگ جلدی ختم کرلیتی ہو تو ہم لنچ کے لیے ایک نئے ریسٹورینٹ جاسکتے ہیں۔ ’لذت کام و دہن‘ وہاں پردے کا بھی نظم ہے او رخواتین کی طرف بچے اور عورتیں ہی سرو کرتے ہیں۔ یہاں سے بہت قریب ہے۔‘‘
صبا نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی۔ صبا کے اس آئیڈے پر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں پھر اچانک ہی ان کی جوت بجھ گئی۔
’’لیکن اس طرح تو ہم بہت لیٹ ہوجائیں گے میں نے امی کو بتایا بھی نہیں۔‘‘
’’یو ڈونٹ وری میں نے امی سے اجازت لے لی ہے۔ فون پر وہ چچی کو مطلع کردیں گی۔‘‘
صبا کی بات پر وہ بہت خوش اور پرجوش ہوگئی۔ پھر حیرت انگیز طور پر اس نے ’’صرف دو‘‘ ہی گھنٹوں میں اپنی شاپنگ مکمل کرلی۔
’’اللہ کا شکر ہے۔‘‘
صبا کے ذہن سے جیسے کوئی بوجھ اترا تھا۔ وہ بھی اپنی شاپنگ کی اتنی جلدی تکمیل پر مسرور نظر آرہی تھی۔
’’اب پانی پی سکتی ہوں؟؟ اس کا حلق سوکھنے لگا تھا۔ وہ بے تابی سے واٹر کولر کی طرف لپکی۔ لیکن وہاں مردوں کی بھیڑ پاکر انتظار کرنے لگی۔ صبا زچ ہوگئی تھی۔
’’اب اگر پانی پی لوگی تو کھانا کیسے کھاسکوگی۔ چلو جلدی نکلو یہاں سے۔‘‘
رش بڑھنے لگا تھا۔ وہ اسے تقریبا گھسیٹتے ہوئے باہر نکال لائی۔
اب ٹیکسی تو ملنا نہیں تھی سو وہ پیدل ہی ریسٹورینٹ کی جانب چل پڑیں۔گاندھی روڈ سے ہوتے ہوئے وہ شہر کے قلعے تک پہنچ گئے تھے۔
’’اور کتنی دور ہے وہ ریسٹورینٹ؟‘‘ فائزہ دھوپ میں چلتے چلتے بیزار ہوگئی تھی۔ پیاس کی شدت بھی بڑھنے لگی تھی۔
’’زیادہ دور نہیں ہے ہم جلد ہی پہنچ جائیں گے۔‘‘ صبا نے اسے تسلی دی لیکن صبا جانتی نہیں تھی کہ جس وقت وہ گنگا نگر کے اس ریسٹورینٹ میں گئی تھی اس وقت وہ کار میں سفر کر رہی تھی۔ چناں چہ اسے وہ فاصلہ کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوا تھا۔ شہر سے دس منٹ کے اندر ہی وہ فاصلہ طے ہوگیا تھا۔
گنگا نگر آکولہ کے مضافات میں بسی ہوئی ایک نئی بستی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ نیا ہوٹل ’لذتِ کام و دہن‘ تعمیر ہوا تھا۔ وہ ہوٹل گنگا نگر سے پہلے پڑتا تھا اور شہر سے قدرے قریب تھا۔ مگر اتنا بھی نزدیک نہ تھا جتنا صبا سمجھ رہی تھی۔
پھر نہ جانے وہ کتنی دیر تلک چلتی رہیں۔’’کہاں رہ گیا تمہارا وہ ہوٹل؟‘‘ وہ بری طرح تھک چکی تھیں۔ دھوپ کی کیا شدت تھی گویا آسمان سے انگارے برس رہے تھے۔ کالے برقع میں تو گویا آگ لگ گئی تھی۔
در حقیقت صبا خود چکرا کر رہ گئی تھی۔ وہ مضافاتی علاقے میں داخل ہوچکی تھیں اور دور دور تک کوئی آبادی نظر نہیں آرہی تھی جب کہ مضافات سے پہلے پہلے انھیں اس ہوٹل تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں تو آدم تھا نہ آدم زاد… (کیا ہم راستہ بھٹک گئے ہیں؟؟)
یہ خیال ہی صبا کی روح فنا کر گیا۔ پریشان تو وہ بے حد ہوئی لیکن اس نے اپنے خیال کا اظہار فائزہ سے نہیں کیا۔
’’اب میں مزید پیاس برداشت نہیں کرسکتی پلیز مجھے بیگ سے باٹل نکال کر دے دو۔‘‘
اس کا ضبط جواب دے چکا تھا۔
صبا نے بیگ میں دو بار ٹٹولا لیکن واٹر باٹل ندارد تھی۔ وہ بھونچکا رہ گئی ۔ اسے یاد آیا ٹیکسیوں کی ہڑتال کی خبر پڑھتے ہی وہ باٹل وہیں چھوڑ کر مہران کو بلانے بھاگی تھی۔
’’کیا؟‘‘ فرطِ غم واندوہ سے فائزہ پھٹ پڑی۔ پیاس کے مارے اس کی جان نکلی جا رہی تھی۔ آج صبح سے اس نے صرف ایک گلاس پانی پیا تھا اور اب دوپہر کے دو بج رہے تھے۔
’’یہیں کہیں مل جائے گا پانی۔‘‘ صبا نے گردن گھما کر چہار جانب دیکھا۔ اس کی یہ تسلی کتنی کھوکھلی تھی اسے خود بھی اندازہ تھا وہ تو گویا کسی صحرا میں آکھڑے تھے۔ ’’تم چلو تو۔‘‘
ظاہر ہے اب وہاں کھڑے رہنے کا تو کوئی فائدہ نہ تھا۔ وہ چلتی جا رہی تھیں اور فائزہ تو خود کو بہ مشکل گھسیٹ رہی تھی۔
دھوپ کی تمازت نے جیسے اس کے اندر کی تمام نمی چوس لی تھی۔ اس نے تھوک نگلنا چاہا مگر منہ بھی خشک ہو چکا تھا۔ زمین سے گرم لپٹیں اٹھ رہی تھیں جو قدموں کو جلا رہی تھیں۔ سطح زمین اس محاورے کے مصداق دہک رہی تھی کہ اگردانہ اس پر ڈالا جائے تو بھن کر رہ جائے!!
اس کی جوتیاں پسینے سے تربتر تھیں۔ پسینے سے شرابور جسم کے کپڑے تن کو چپک گئے تھے۔ اور اب برقع بھی پسینے سے گیلا ہونے لگا تھا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے گلے کو سہلایا۔ حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ صرف زبان ہی نہیں اس کے حلق کی نلی تک مکمل طور پر خشک ہوچکی تھی۔
’’آہ پانی۔‘‘
اس نے بہ مشکل کہا۔ وہ اب ہانپنے لگی تھی۔ اس نے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور گہری سانسیں لینے لگی۔ اس کی حالت خراب ہونے لگی تھی۔
’’آئی ایم سوری فائزہ، مجھے تمہیں پانی پینے سے روکنا نہیں چاہیے تھا۔‘‘
صبا بری طرح شرمندہ تھی۔ فائزہ کی شاپنگ کے دوران وہ خود تو مسلسل پانی پیتی رہی تھی، اس کے باوجود اب اسے بھی سخت پیاس کا احساس ہو رہا تھا تو فائزہ کو کتنی شدید پیاس لگی ہوگی وہ اندازہ کرسکتی تھی۔
سورج کی تپش انہیں جھلسانے لگی تھی۔ لو کے تیز تھپیڑے ناقابل برداشت لگ رہے تھے۔ اڑتی دھول کے بگولوں سے سانس لینے میں بھی دقت ہونے لگی تھی۔ زمین کی گرم بھاپ سے پیر جلے جا رہے تھے۔ گل مہر کے درختوں پر زرد و سرخ پتیوں کی بہار تو بہت آئی ہوئی تھی تاہم ان کا سایہ اتنا بھی گھنا نہیں تھا کہ انسان درخت کے نیچے ذرا سستالے۔ زبان لکڑا بن چکی تھی اب اس سے کچھ بھی نہیں بولا جا رہا تھا۔
صبا جیسی ٹھنڈے مزاج باحوصلہ اور سلجھی ہوئی لڑکی کا ذہن پوری طرح ماؤف ہوگیا تھا۔ فائزہ کی بگڑتی کیفیت اسے خوف میں مبتلا کرنے لگی تھی۔ وہ اس کی کمزور حالت دیکھ کر سخت متوحش ہورہی تھی۔
’’تم یہیں ٹھہرو میں کہیں سے پانی ڈھونڈ کر لاتی ہوں۔‘‘ اس نے گل مہر کے پیڑ کی جانب اشارہ کر کے کہا۔اس سے کچھ نہیں کہا گیا۔ زبان حقیقتاً تالو سے جالگی تھی۔ اس نے صبا کو اشارے سے منع کر دیا۔ وہ اس ویرانے مضافات میں اکیلی کیا کرتی۔نڈھال ہوتے وجود کے ساتھ وہ پاس پڑے بڑے سے پتھر پر ڈھیر ہوگئی۔ معا ہی تڑپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ پتھر اس حد تک گرم تھا کہ اگر وہ مزید ایک منٹ بیٹھی رہتی تو روسٹڈ چکن بن جاتی۔
گرمی کی حدت سے اب سر بھی چکرانے لگا تھا۔ اس دن درجہ حرارت پینتالیس ڈگری تھا۔ اپریل کا مہینہ اور پینتالیس ڈگری ٹمریچر…
اس کی پیاس اب شدید ترین ہو چکی تھی۔ آنکھیں جلنے لگی تھیں اور اڑتی دھول سے لال سرخ ہوچکی تھیں۔ نتھنوں میں گھستی گرد آلود ہوا سے دم گھٹنے لگا تھا۔
ٹیکسیوں کی ہڑتال کی وجہ سے مین روڈ پر بہت کم آمد و رفت تھی۔ لیکن بسیں اور پرائیویٹ گاڑیاں زن سے گزرتی جا رہی تھیں اور کوئی وقت ہوتا تو صبا کسی سے مدد نہیں مانگتی لیکن یہاں فائزہ کی جان پہ بن آئی تھی۔ اس نے راہ چلتی گاڑیوں کو اشارہ کیا لیکن کسے پڑی تھی جو اتنی کڑی دھوپ میں دو برقع پوش لڑکیوں کے لیے اپنی ACوالی کار روکتا۔
پھر شاید کسی ڈرائیور کو رحم آیا تھا اس نے صبا کے اشارے پر بس روک دی صبا بھاگتی ہوئی دروازے کے پاس آئی۔ ’’چلوبائی جلدی بیٹھو۔‘‘ کنڈکٹر سخت بیزار معلوم ہو رہا تھا بس رکتے ہی گویا ہوا بھی رک گئی تھی گرم تپتے ہوئے ٹین کے ڈبے میں بیٹھے مسافر بے چین ہو اٹھے تھے۔
’’جی آپ کے پاس پانی ہے؟‘‘ وہ ہانپ گئی تھی۔ کنڈکٹر نے ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا۔
’’تم کو چلنا ہے یا نہیں؟‘‘ اس نے درشت لہجے میں پوچھا۔
’’میری بہن کی حالت خراب ہے پلیز کسی کے پاس پانی ہوگا تو…‘‘
کنڈکٹر نے بس تھپتھپائی اور اگلے ہی لمحے بس یہ جاوہ جا۔ صبا ششدر رہ گئی۔ کیا انسانیت ختم ہو گئی۔ اتنی بے حسی!! ایسا پتھر دل!!!
اس نے بوجھ دل کے ساتھ دور کھڑی اس بے حد پیاری سی لڑکی کو دیکھا جس نے شاید زندگی میں کبھی کسی انسان کا دل دکھانا تو کیا کسی جانور تک کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ لیکن آج کیسی سخت آزمائش میں مبتلا تھی۔ تاہم اتنے کڑے وقت میں بھی اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اس کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو کب کا ہوش سے بے گانہ ہو جاتا۔ وہ دور کھڑی صبا کے تاثرات دیکھ چکی تھی۔ صبا اس کے پاس نگاہ چراتے ہوئے آئی تھی۔ اس نے صبا کو کسی بھی قسم کی صفائی یا وضاحت سے بچا لیا تھا۔ اور بہت خاموشی سے چلنے لگی تھی۔
چلتے ہوئے اگلے قدم پر زمین میں دھنسے قدرے ابھرے ہوئے پتھر سے اسے تھوکر لگی اور لڑکھڑا کر وہ اوندھے منہ گر پڑی۔
جلتے توے جیسی گرم سڑک نے اسے زیادہ دیر ٹکے نہیں رہنے دیا صبا کی مدد سے خود کو سنبھال کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
جوتا پاؤں سے نکل کر دور جا پڑا تھا۔ اسے ہاتھ میں لیتے ہی اسے رونا آنے لگا۔ جوتے کا سول نکل چکا تھا۔ اس صورت حال میں اس کے ساتھ اس سے برا شاید کچھ نہیں ہوسکتا تھا، امتحان پر امتحان!!! آزمائش در آزمائش!!!
’’یا اللہ!!!‘‘ صبا کراہیـ۔ ’’اب کیسے چلوگی تم؟‘‘
اس نے سوالیہ اور پریشان نظروں سے فائزہ کو دیکھا جس کے ذہن میں بھی یہی سوال گردش کر رہا تھا۔
اچانک صبا ہی کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے اپنے اسٹول کی پن (جس کی مدد سے اس نے نقاب کر رکھا تھا) نکال کر سول کو جوتے سے پن اپ کر کے عارضی طور پر قابل استعمال بنا دیا تھا۔ اور خود اسٹول کو ناک پر ٹھیک سے جماتے ہوئے سر کے پیچھے گانٹھ باندھ لی تھی۔
فائزہ نے حیرت و رشک سے اسے دیکھا۔ ایسی صورتِ حال میں بھی اس کا دماغ کتنا کام کرتا تھا۔
تبھی ایک پرندہ پھڑپھڑاتا ہوا ان کے سامنے ایک بڑے اور گرم پتھر پر گر کر تڑپنے لگا۔ وہ بے ساختہ آگے بڑھی۔ اسے معلوم تھا پتھر دہکتے کوئلے کی مانند گرم تھا۔ اس نے پرندے کو اٹھا کر قریبی درخت کے نیچے زمین پر ڈال دیا گو سایہ برائے نام تھا، لیکن شاید پرندے کے لیے کافی ہو جاتا۔پرندہ بری طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔ فائزہ کو اس معصوم کی حالت خود سے ملتی جلتی لگ رہی تھی۔ شاید وہ کبوتر بھی شدید پیاسا تھا۔
اس نے ننھی مخلوق کو تڑپتا دیکھ کر دونوں کے معصوم دل تڑپ اٹھے تھے۔ صبا نے پھر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ شاید کوئی جوہڑ ہی مل جائے جس کے پانی سے وہ کم از کم اس کبوتر کی جان بچا سکیں۔ لیکن اس سخت موسم نے توندی تالاب تک سکھا دیے تھے جوہڑ کیسے بچتا۔اس کبوتر نے ان کے سامنے سر رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیا۔ دونوں لڑکیاں سکتے میں تھیں۔ کچھ دیر پہلے تک پھڑپھڑاتا پرندہ اب بالکل ساکت و جامد ان کے سامنے پڑا تھا۔ فائزہ کی تو آنکھیں ہی پھٹ گئی تھیں اس نے زندگی میں پہلی بار کسی پرندے کو یوں مرتے دیکھا تھا۔
تو کیا اس کا بھی یہی حشر ہونے والا تھا؟؟
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ اگر اسے جلد پانی نہیں ملا تو وہ بھی مرجائے گی۔ کائنات کی ہرچیز پر موت کا سا سکوت طاری تھا صرف گرم ہوا سائیں سائیں کرتے ہوئے کانوں کو زخمی کر رہی تھی۔
گرمی کی حدت سے اب سر بھی چکرانے لگا تھا۔ سارا آسمان اس کی آنکھوں میں گھومنے لگا اور وہ لہراتی ہوئی زمین پر آرہی صبا نے اسے بانہوں میں تھام لیا۔ ’’بہادر بنو فائزہ…‘‘ صبا بھی روہانسی ہوگئی تھی۔ ’’سنبھالو خود کو شاباش اٹھو۔‘‘
اس کے حواس کلی طو رپر بیدار تھے بس چکر آگیا تھا۔ چکر آتے سر کو تھام کر اپنی دھندلاتی بصارت پر قابو پاتے ہوئے اس نے اپنی بند ہوتی آنکھوں کو بہ مشکل کھولا، عجیب خوف ناک منظر سامنے تھا۔چلچلاتی کڑکتی دھوپ، تپتی دوپہر، قہر برساتا آسمان، لو کے گرم تھپیڑے، دہکتی زمین، آگ اگلتا سورج، قیامت خیز لمحے… طویل ترین دن… یہ شاید روز محشر ہی تھا۔
سورج سوا نیزے پر، عالم تنہائی، بے تحاشا بھوک، تفکر، خوف، نفسا نفسی کا عالم، پیاس اور شدید ترین پیاس۔
یہ عذاب کی کون سی قسم تھی…؟
اس نے بے ساختہ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں۔سورج کی تیز چبھتی کرنوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ سر بھی جھکانے پر مجبور ہوگئی تھی۔سارے وجود سے پسینے کی دھاریں بہہ نکلی تھیں۔ جب کہ کام و دہن صحرا میں اگے کیکٹس کے پودے کی مانند خشک اور کانٹے دار ہوچکے تھے۔ پیاس کی شدت سے اس کا جی چاہا اپنا پسینہ ہی چاٹ لے۔ ہاتھ کی انگلیوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتے اور چہرے سے نتھرتے پسینے کی دھار کو محسوس کرتے ہوئے اسے ایسا ہی خیال آیا تھا۔ جانے وہ بے کسی اور بے چارگی کی کیسی کیفیت تھی کہ وہ ضبط و ہمت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر سسکنے لگی۔
کیا اس کی موت ایسے ہی لکھی ہے؟؟ بے نیل مرام، ویرانے میں اپنوں سے دور اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر؟؟؟ کیا اسے مرتے وقت پانی بھی نصیب نہیں ہونا ہے؟؟ اتنی بری موت!! اس کے خوب صورت گالوں پر اب پسینے کے ساتھ آنکھوں سے گرنے والا سیال بھی بہنے لگا تھا۔ وہ رو رہی تھی، بلک رہی تھی، سسک رہی تھی۔
’’یارب‘‘ دل کی تمام تر گہرائیوں سے اس نے اس ہستی کو پکارا جو انسان کا الٹی میٹ سہارا ہے۔ جب ساری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں تو وہی ہمیں سنبھالتا ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ پھر حیرت انگیز طور پر اسے لا تحزن ان اللہ معنا کی سی فیلنگ آنے لگی۔ سورج کے سامنے بادل آگیا تھا۔ موسم اچانک ہی ابر آلود ہوگیا تھا۔ وہ تپتا صحرا چندساعتوں کے لیے جیسے کسی پُر فضا مقام میں بدل گیا تھا۔صبا مسلسل اسے حوصلہ دلاتے ہوئے چلتے رہنے پر اکسا رہی تھی اور یہ صبا کی مثبت باتیں ہی تھیں جو وہ اب بھی چل رہی تھی۔
’’وہ دیکھو بستی‘‘ صبا خوشی سے چلائی۔ ’’ہم شاید گنگا نگر پہنچ گئے ہیں۔‘‘ صبا کی آواز تھی یا زندگی کی نوید۔‘‘ اس نے تشکر سے آسمان کو دیکھا۔ (میں سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں) ’’چلو جلدی، وہاں ہمیں پانی مل جائے گا۔ گلی کا چوتھا گھر عائشہ کا ہی ہے۔ اللہ کرے وہ گھر پہ موجود ہو۔‘‘ صبا نے دعائیہ کلمہ کہا لیکن وہ شاید قبولیت کی گھڑی نہیں تھی۔ اس چوڑی اور بڑی سی گلی میں گھستے ہی انھوں نے دور سے اس کے گھر کی طرف دیکھا جہاں لگاتالا ان کا منہ چڑا رہا تھا۔
گلی کے پہلے گھر کے گیٹ کے باہر ایک کالا رنجن (بڑا مٹکا) رکھا تھا اس پر اسٹیل کا گلاس دھرا تھا۔ اس کی آنکھوں میں روشنی آگئی۔
’’پانی‘‘ وہ بے اختیار اس مٹکے کی طرف لپکی۔ صبا بھی اس کے پیچھے بڑھی اور نیم پلیٹ پڑھی۔ ’’بھگوان داس شرما۔‘‘
’’رک جاؤ‘‘ وہ رنجن سے گلاس بھر چکی تھی کہ صبا نے اسے ٹوک دیا۔
’’تم ایک ہندو کے گھر کا پانی پیوگی؟‘‘
’’فار گاڈ سیک۔‘‘ اس کے دل سے کراہ نکلی۔ ’’کیا پانی بھی ہندو مسلمان ہوتا ہے۔‘‘ صبا کا ہاتھ جھٹک کر اس نے بے تابی سے گلاس لبوں سے لگا لیا۔
آہ… وہ پانی کاگھونٹ تھا یا آپ حیات… ایک دم صاف، شفاف، ٹھنڈا میٹھا اور خوشبو دار۔
خوشبودار!! ہاں اسے اس پانی سے بہت سوندھی خوشبو آرہی تھی۔ ایک سانس میں اس نے گلاس خالی کر دیا تھا۔ اور دوسرا گلاس بھر لیا۔
تبھی اس گھر کا اندرونی دروازہ کھلا اور ایک بزرگ شخص سفید بنیان اور سفید ہی پاجامہ پہنے ہاتھ میں پلاسٹک کا مگ لیے برآمد ہوئے۔ وہ سناٹے میں آگئی۔
اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے اور خوشبو دار پانی کا گلاس تھا ابھی اس کی پیاس بجھی نہیں تھی۔ وہ مزید پانی پینا چاہتی تھی لیکن یہ ہندو شخص کیا اسے اپنے گھر کا پانی پینے دے گا؟ بہت سارے سوالیہ نشان اس کی آنکھوں کے سامنے آکھڑے ہوئے۔
صبا بھی پریشان ہونے لگی تھی۔
اپنے گھر کے سامنے دو برقع والیوں کو دیکھ کر وہ خوب صورت سالان عبور کر کے آہنی مین گیٹ کھول کر باہر نکل آئے۔فائزہ کے تو حواس گم ہوگئے۔ اس نے گھبرا کر صبا کو دیکھا۔ صبا خود بوکھلائی ہوئی تھی۔
’’انکل‘‘ صبا قدرے خوف زدہ اور ملتجیانہ لہجے میں مخاطب ہوئی۔ ’’کیا ہم یہ پانی پی سکتے ہیں؟‘‘ فائزہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اگر انھوں نے انکار کردیا تو… پچاس کے لپیٹے والے بزرگ نے اسے چند لمحوں کے لیے حیرت سے دیکھا پھر بے ساختہ مسکرا دیے۔ ’’کیوں نہیں، یہ پانی آپ لوگوں کے لیے ہی رکھا ہوا ہے۔‘‘
’’ہمارے لیے۔‘‘
’’ہاں، مطلب مسافروں کے لیے۔ یہ علاقہ آؤٹ آف سٹی ہے نا۔ یہاں اکثر مسافر پانی پینے آتے ہیں۔ اور باہر ہی اس رنجن کو دیکھ کر انہیں دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں رہتی اور ہمیں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ نئی بستی بس رہی ہے تو آئے دن کنسٹرکشن کا کام چلتا رہتا ہے۔ اب جن کے گھروں کا کنسٹرکشن ہو رہا ہوتا ہے وہ تو یہاں نہیں رہتے سو مزدور بھی یہیں سے پانی پی لیتے ہیں۔‘‘
انھوں نے ملی جلی ہندی مراٹھی میں تفصیلاً کہا۔ فائزہ کو ان کی تفصیلات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کا ’کیوں‘ نہیں سنتے ہی اس نے دوسرا گلاس بھی غٹاغٹ چڑھا لیا تھا۔
’’آرام سے۔‘‘ صبا نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ اب وہ تیسر اگلاس پی رہی تھی پھر چوتھا اور جب اس نے پانچواں گلاس بھرا تو صبا نے بے حد حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ کتنی پیاسی تھی وہ۔ ورنہ آدھ پون گلاس سے زیادہ کبھی نہیں پیتی تھی۔
’’الحمد للہ۔‘‘ گلاس ختم کر کے اس نے حقیقتاً اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔ اب اس کی سانسیں بحال ہوچکی تھیں۔ حواس بھی قابو میں آئے تھے۔ کیسی ٹھنڈک اس کے اندر اتر آئی تھی۔ اطمینان، سکون، طمانیت مسرور کن احساس۔
انکل شاید اب بھی کچھ کہہ رہے تھے حواس درست ہوئے تو وہ بھی متوجہ ہوئی۔
’’آپ لوگ مسافر معلوم ہوتے ہیں اندر چلیں کچھ کولڈرنک وغیرہ لیں۔‘‘
صبا نے مدھم سی مسکنا کے ساتھ نفی میں سرہلایا یا پھر خود بھی پانی پیا۔ اور ہونٹ صاف کر کے پھر سے نقاب لگا لیا۔
تبھی انکل کے پیچھے سے گھر کا اندرونی دروازہ کھلا اور اندر سے ایک ہینڈ سم لڑکا باہر نکلا۔ انہیں دیکھ کر اس کے چہرے پر بھی کم و بیش انکل ہی کی طرح کے تاثرات ابھرے تھے۔ شرما انکل باؤنڈری وال پر رکھے ایک مٹی کے پیالے میں پانی سے بھرا جگ انڈیلنے لگے۔ پیالہ لبریز ہوگیا تھا۔
’’یہ باؤل ہم نے پکشیوں (پرندوں) کے لیے رکھا ہوا ہے۔ اب پکشیوں کے گھونسلوں میں تو ہماری طرح مٹکے اور فریج نہیں ہوتے ناں۔ بے چارے ادھر ادھر ڈھونڈ کر پانی پیتے ہیں۔ گرمیوں میں تو اکثر پکشی دھوپ اور پیاس سے مر جاتے ہیں۔‘‘
وہ مسلسل بولے جا رہے تھے نوجوان بھی اب سرسبز لان سے گزرتے ہوئے گیٹ کے باہر آچکا تھا۔ فائزہ کو یکایک وہ تڑپتا کبوتر یاد آیا اگر اسے بھی پانی مل جاتا تو شاید وہ بچ جاتا۔
صبا جزبز ہونے لگی فائزہ نے اب تک چہرے پر نقاب نہیں لگایا تھا اور وہ لڑکا بہت پرشوق نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
فائزہ انکل کی باتوں میں گم اس کبوتر کے بارے میں سوچے جا رہی تھی۔ صبا نے اسے ہٹوکا دیا۔ وہ چونکی تو اشارے سے نقاب کی طرف توجہ دلائی۔ اس نے بے ساختہ اس لڑکے کو دیکھا اور اسے اپنی طرف گھورتا پاکر سٹپٹا گئی۔ اور جلدی سے نقاب لگا لیا۔
’’اب چلیں۔‘‘ صبا نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سرہلایا۔
’’انکل! ہوٹل لذت کام و دہن کس سائیڈ پڑتا ہے۔‘‘
’’وہ رہا۔‘‘ انکل کی بجائے اس لرکے نے جواباً ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔
گلی کے باہر سڑک کے اس پار بڑی سی عمارت نظر آرہی تھی۔ ہوٹل کی بلڈنگ ذرا دور تھی لیکن یہاں سے بھی دکھائی دے رہی تھی۔ انھوں نے کلمہ شکر پڑھا۔ ’’لیکن وہ ریسٹورینٹ تو آج بند ہے۔‘‘ اس لڑکے نے معلومات بہم پہنچائیں۔
’’بند ہے؟؟‘‘ وہ چکرا گئی۔ ’’لیکن کیوں؟‘‘
’’آج ٹیکسیوں کی ہڑتال ہے زیادہ تر کسٹمرز ٹیکسی سے ہی اتے ہیں خود وہاں کے اسٹاف ممبرز بھی دور قریب کے دیہاتوں سے ہوتل آتے ہیں کل میں وہاں گیا تو مجھے پتہ چلا وہاں کا منیجر میرا دوست ہے میں اکثر اس سے ملنے ریسٹورینٹ جاتا ہوں۔‘‘ بزرگ انکل کی طرح وہ بھی تفصیلا کہہ رہا تھا۔
’’لیکن ہڑتال صرف دوپہر تک ہی تھی اس لیے وہ ریسٹورینٹ شام کو کھل جائے گا۔‘‘
فائزہ تو یہ خبر سن کر ڈھے ھی گئی تھی۔ یہاں تک اتنی مشکلات کا سامنا کر کے پہنچے تھے سب بے کار گیا۔
’’بہت شکریہ انکل۔‘‘ ایسی سچویشن میں صبا کو ہی آداب نبھانے یاد رہ سکتے تھے۔
لیکن وہ انکل ان کا شکریہ سننے سے پہلے ہی اندر جاچکے تھے۔ لڑکا خوامخواہ مسکرایا۔ ’’یو آر آلویز ویلکم میم۔‘‘
یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر اس کا اگلا جملہ ان دونوں کو چونکا گیا بلکہ کھولا گیا۔
’’آپ بہت سندر ہیں۔‘‘
براہِ راست فائزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا گیا تھا۔ وہ بھونچکی رہ گئی۔ اتنی جرأت!! ایسا لفنگا پن۔
صبا نے اسے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔ کچھ دیر وہ خاموشی سے چلتے رہے۔
’’کون سی دعا سب سے اچھی ہے جو میں انکل کو دے سکتی ہوں؟‘‘
وہ بہت سنجیدگی اور سچے دل سے پوچھ رہی تھی۔ ان کا بہت بڑا احسان تھا اس پر۔ انھوں نے گویا ایک طرح سے آج اس کی زندگی بچائی تھی ورنہ شاید وہ پیاس کے مارے ختم ہوجاتی۔
’’ہدایت کی۔‘‘ صبا نے اس سے بھی زیادہ سنجیدگی سے کہا۔
’’ایمان کے بغیر ہر نیک عمل بے کار ہے اگرچہ وہ مقابل کی جان بجانے جیسا عظیم فعل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
وہ صبا سے متفق تھی۔
٭٭٭
تین دن بعد…
گرمی تھی، آگ تھی، تپش اور حدت تھی اور بے پناہ گھٹن۔ شاید وہ آگ کا بھڑکتا الاؤ تھا جس میں اس کا نازک وجود جھلس رہا تھا۔ اس کے قدموں کے نیچے سلگتے انگارے تھے۔ پیروں پر آبلے پڑ گئے تھے۔ وہ اس آگ سے بچنا چاہتی تھی وہاں سے نکلنا چاہتی تھی لیکن کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ کیوں کہ وہاں… اندھیرا بھی تو تھا۔ آگ کی موجودگی میں اندھیرا…؟ تعجب والی بات تھی لیکن حقیقت یہی تھی۔ دل کو مضبوط کر کے وہ ایک سمت دوڑنے لگی وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ فرار ہونا چاہتی تھی انسانی چیخوں کی آوازیں دلخراش تھیں لیکن ایک آواز ان میں بہت واضح تھی جانی پہچانی۔ لیکن وہ کانوں پہ ہاتھ رکھے بس بھاگ رہی تھی کہ اچانک لوہے کا ایک گرز اس کے سر پہ پڑا…
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔ کوئی آدھی رات کا عمل تھا وہ اپنے بیڈ پر تھی منظر تبدیل ہوچکا تھا۔ پسینے سے شرابور اسو نے اپنے نحیف وجود پر نظر ڈالی۔ شاید کولر کا پانی ختم ہوگیا تھا۔
اسے شدید پیاس کا احساس ہو رہا ھا وہ اٹھ کر کچن میں گئی اور اس وقت تک پانی پیتی رہی جب تک سیراب نہیں ہوگئی۔
اس دل دوز واقعے کو بلکہ سانحے کو گزرے تین دن ہوچکے تھے لیکن وہ اب تک اسی کے زیر اثر تھی۔ شاید اسی لیے آج ایسا خواب نظر آیا تھا۔
کمرے کے مقابلے باہر ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔ کچن سے نکل کر اپنے کمرے میں جانے کی بجائے اس نے برآمدے کے ستون سے ٹیک لگالی۔
وہی خوفناک دن اپنی پوری جزئیات کے ساتھ اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا۔ آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور چند ہی لمحوں میں روانی آگئی۔ کوریڈور کے ستون سے ٹیک لگائے بیٹھی وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔
کتنا مشکل دن آیا تھا اس کی زندگی میں۔ کیوں ایسا ہوا؟ آخر کیوں اور اس کے ہی ساتھ کیوں؟ وہ حد درجے مضطرب تھی بے قرار تھی۔
اس دن کو وہ یاد نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اسے بھولتا ہی نہیں تھا۔
اس دن گھر آنے کے بعد وہ شاور کھول کر اس کے نیچے کھڑی رہی تھی استطاعت بھر پانی کے پینے کے بعد وہ خود پر بے تحاشا پانی بہا رہی تھی۔ انہی چند بوندوں کے لیے وہ کچھ گھنٹوں سے پہلے ماری ماری پھر رہی تھی۔ ترس رہی تھی۔ باتھ روم میں اس کے آس پاس جل تھل ہوچکا تھا۔ صرف پانی تھا اور وہ تھی پانی میں چھپا چھپ ہاتھ اور پاؤں مارتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ پتہ نہیں شاور سے زیادہ پانی آرہا تھا یا اس کی آنکھوں سے۔
وہ اس وقت تک شاور کے نیچے بھیگتی رہی اور روتی رہی جب تک تھک نہیں گئی۔
وہ بہت بڑے غم سے گزری تھی۔ احساس بے بسی اور بے چارگی کو آج اس نے پہلی بار محسوس کیا اور برتا تھا۔ کہ پرس میں سینکڑوں روپے ہونے کے بعد بھی وہ پیسے اس کے کسی کام کے نہیں تھے۔
اسے سخت امتحان سے گزارا گیا تھا۔ لیکن کس لیے…؟
آدھی را ت کے سناٹے میں جہاں ہر طرف ہوکا عالم تھا وہ تنہا بیٹھی بے آواز سسک رہی تھی۔
اگر یہ واقعی آزمائش تھی تو پھر اسے صبر کیوں نہیں آرہا تھا؟ یہ بے چینی اور اضطراب کیسا تھا؟ کیوں تھا؟؟
اور اگر یہ سزا تھی تو کس گناہ کی؟ اسے ادراک نہیں ہوپا رہا تھا کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کر ڈالا تھا، جس کا اسے ایسا سخت عذاب چکھایا گیا تھا؟
کیوں اس وقت وہ خطہ زمین اس کے لیے خطہ جہنم بنا دیا گیا تھا۔
وہ تو الٹا زندگی بھر صبر کرتی آئی تھی۔ اپنے جان سے زیادہ عزیز ابو کی جدائی پر صبر، اپنے اکلوتے ہونے پر صبر، تنہائی پر صبر اس سب سے بڑھ کر ہر روز نانی جان کی نوکیلی باتوں اور چبھتی نظروں پر صبر…
وہ ٹوٹ رہی تھی وہ بری طرح بکھر رہی تھی۔ زندگی میں شاید پہلی دفعہ وہ اتنا روئی تھی۔ اتنا تو وہ اس وقت بھی نہیں روئی تھی جب اس کی ذرا سی غلطی پر تائی جان نے اسے طمانچہ رسید کر کے اس کی پسندیدہ کرایا کی گردن توڑ کر اسے دور پھینک دیا تھا۔ نہ ہی اس وقت جب ایک پڑوسن نے اسے دیکھتے ہوئے طنزیہ کہا کہ جن کے باپ سعودی ہوتے ہیں وہ بچے بھی ایک طرح سے یتیم ہی ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی اس وقت جب اس کے ابو اس عید پر جس دن اس کی برتھ ڈے بھی تھی، اس کے ساتھ نہیں تھے۔
ان سب باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے وہ اپنی تمامتر معصومیت اور شفافیت کے ساتھ اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن زیست کا سفر طے کر رہی تھی تب یہ نیا مگر ایسا خطرناک موڑ کہاں سے اور کیوں آگیا تھا۔
وہ موت کو بہت قریب سے دیکھ کر آئی تھی۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ پانی کے بغیر مرنے لگے گی۔ اس دن وہ موت کی دسترس سے کچھ دور نہ تھی۔ اگر وہ بزرگ اسے پانی دینے سے انکار کر دیتے تو شاید وہ بھی پھڑپھڑاتے ہوئے سر پٹخ پٹخ کر دم توڑ دیتی۔
برآمدے کی سیڑھی پر بیٹھی گھٹنوں میں منہ دیے وہ اب بھی روئے جا رہی تھی۔
آج تایا جان اس سے ملنے آئے تھے۔ ’’ہماری بیٹی کو شاپنگ کیے دو دن ہوگئے ہیں اور وہ اب تک ہمیں اپنی چیزیں دکھانے نہیں آئی۔ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟‘‘ وہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے شفقت و نرمی سے کہہ رہے تھے۔ اسے اندازہ تھا کہ ان دونوں کو ساتھ نہ لے جانے پر تایا جان نے مہران کو سخت سست سنائی ہوں گی۔
صبا دو دنوں سے بخار میں پھنک رہی تھی۔ حالاں کہ وہ بھی صبا کے ساتھ تھی لیکن اسے لو نہیں لگی تھی۔ شاید اس لیے کہ اسے پہلے ہی آگ کی بھٹی اور پیاس کی آزمائش سے گزارا جاچکا تھا۔
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ صبا بیمار تھی اور وہ دو دنوں تک اس سے ملی نہیں تھی… شاید بہت ساری چیزیں زندگی میں اسی طرح پہلی بار ہوتی ہوں گی اور ہر بات کا ’’پہلی بار‘‘ ہونا اتنا ہی تکلیف دہ ہوتا ہوگا جتنی تکلیف اور دکھ وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی۔ اسے سخت چپ لگ گئی تھی۔ کھوئی کھوی سی اداس رہنے لگی تھی۔ وہ شدید رنج و غم کا شکار تھی۔
٭٭٭
موسم کی شدت اپنے جوبن پر تھی۔ اس سانحہ والے دن درجہ حرارت ۴۵ ڈگری سیلسیس تھا اور آج ٹھیک تین دن بعد ۴۶ ڈگری ہوگیا تھا۔
اوپریل کے دوسرے عشرے میں ۴۶ ڈگری ٹمپریچر یہ ہر سال سے زیادہ سخت سال تھا۔ خود آکولہ کا پچھلے دس سالوں کا ریکارڈ ٹوٹا تھا۔ اپریل میں تپش ۴۶ قابل حیرت قابل عبرت اور قابل تشویش تھی۔
سوشل میڈیا خصوصاً وہاٹس ایپ پر طنزیہ و مزاحیہ امیج خوب وائرل ہو رہی تھی۔ مضحکہ خیز تصاویر کے ساتھ کچھ اس طرح کے کمنٹس تھے۔
٭ٹھنڈا مطلب کوکا کولہإ گرم مطلب صرف آکولہ
ہندی میسج٭ کیا رکھا ہے جمو اور شملہ میں… کچھ دن تو گزاریے آکولہ میں نو پانی نو وارا … اونلی خطرناک پارا
@46 اِن اپریل…
ودربھ ٹورزم
کارٹون٭ آگ اگلتا سورج پاپڑ چھت پر سکھاتی عورت سے… ’’اور بہن جی آپ پاپڑ اندر ہی سکھالیں پھر مت کہنا میں نے بھون دالے۔
ٹیکسٹ کارٹون٭ سبزی والا (صبح): ’’بینگن لے لو بینگن۔‘‘
سبزی والا (شام): بھرتہ لے لو بھرتہ۔
٭ آج کل صبح نہیں ہوتی صاحب، سیدھے دوپہر ہو جاتی ہے… اور جو صبح کا ٹھلا شام کو گھر آئے اسے بھولا ہوا نہیں ’’بھنا ہوا‘‘ کہتے ہیں۔
٭ ڈیئر سورج! بی کول یار، ہم انسان ہیں تکہ بوٹی نہیں جو ہمیں بھونے جا رہے ہو۔lll