چند دنوں کے بعد…
’’اُمید‘‘ ہاسپٹل سے بارش رک جانے کے بعد نکلی تو سنہری دھوپ میں سب کچھ چمک رہا تھا۔ اندر ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی فون کا ریسیور کان سے لگائے کسی کو اپائنٹمنٹ کے متعلق اطلاع دے رہی تھی۔ ریسیپشن کے سامنے ویٹنگ ایریا تھا، جہاں قطار میں لگی آہنی کرسیوں پر بیٹھے مریض اپنے تیمار دار کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ پریگنینٹ عورتیں … اور اسی سے متعلق باتیں۔ ہر عورت اپنے ساتھ والی خاتون سے اس کی تکلیفوں اور تجربوں کی بابت گفتگو کر رہی تھی اور ساتھ ہی اس بات کی شکایت بھی سنائے دے رہی تھی کہ اسپتالوں میں اپنا نمبر بہت دیر سے لگتا ہے۔ گھنٹوں لگ جاتے ہیں اورکبھی کبھی دن بیت جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹرافراح رحمن ایک قابل گائنالوجسٹ تھیں۔ بہت کم عمری اور کم وقت میں انھوں نے اپنی شناخت بنا لی تھی۔ ’’امید‘‘ ہاسپٹل ان کے شوہر ڈاکٹر عبد الرحمن کا ذاتی اسپتال تھا۔ جس کے فرسٹ فلور پر ڈاکٹر افراح کا میٹرنٹی ہوم تھا۔ ڈاکٹر عبد الرحمن مشہور کارڈیا لوجسٹ (ماہر امراضِ دل) تھے۔ سیکنڈ فلور پر وہ اپنے مریضوں کو دیکھتے تھے۔
ڈاکٹر افراح رحمن فرسٹ فلور پر اپنے وسیع تر اور کشادہ کیبن میں بڑے سے ٹیبل کے سامنے ریوالونگ چیئر پر بیٹھی تھیں۔
ٹیبل کی دوسری جانب ان کے سامنے رکھی دو کرسیوں میں سے ایک پر کوئی خاتون امید و بیم کے عالم میں بیٹھی ڈاکٹر افراح کے چہرے کو تک رہی تھیں۔
ڈاکٹر افراح ابھی ینگ تھیں اور دبلی پتلی ہونے کی وجہ سے کم عمر لڑکی نظر آتیں۔ آدھے بالوں کی پونی بنا کر باقی آدھے بال کھلے چھوڑ رکھے تھے جو شانوں پر گرے ہوئے تھے۔ کانوں میں باریک نگوں کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس ڈال رکھے تھے۔ اس عورت کی نگاہ ان کے کانوں کے ٹاپس پر سے چہرے پہ جاتی اور چہرے سے پھر ٹاپس پر۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں مسلسل متحرک تھیں۔ بے چین و بے قرار، مضطرب و پریشان۔۔۔
اس کیبن میں قد آور کھڑکیاں تھیں، جن سے دن کی ساری روشنی اندر آرہی تھی۔ اجالا اتنا زیادہ تھا کہ ایک بھی لائٹ جلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ساری لائٹس آف تھیں، صرف سیلنگ فین کے گھومنے کی آواز کمرے میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
اس عورت کی نظریں اب بھی ڈاکٹر افراح کے نقوش پر تھیں جب کہ ڈاکٹر اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل میں لگی رپورٹ کے مطالعے میں غرق تھیں۔ چند لمحوں کے بعد ڈاکٹر افراح رحمن نے اپنی ناک پر پھسلتے ہوئے گلاسز کو شہادت کی انگلی سے پیچھے سرکا کر ماتھے سے ٹکایا اور ریوالنگ چیئر پر تھوڑا آگے کو ہوئی اور دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکا دیں۔
’’مسز صدیقی!!!‘‘
’’جی!!‘‘ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ متوجہ تھیں۔
’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ اپنے ہسبینڈ کے ساتھ آئیے گا تو کہاں ہیں مسٹر صدیقی…؟‘‘ انھوں نے خاتون کے بازو والی کرسی کو خالی دیکھ کر پوچھا۔
’’بورڈ آفس کے کام سے انہیں ارجنٹ امراؤتی یونیورسٹی جانا پڑا… میرے ساتھ میری ساس آئی ہیں…‘‘ وہ مدھم لہجے میں بولیں۔ ’’جیسے ہی میری باری کی گھنٹی بجی پان کی وجہ سے اچانک انہیں کھانسی کا دورہ پڑا انھوں نے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا وہ بھی اب آتی ہوں گی فریش ہوکر۔‘‘
’’خیر…‘‘ ڈاکٹر افراح نے بہت عام سے انداز میں وہ فائل ٹیبل پر ہلکے سے پھینکی۔
’’یہ آپ کی اور آپ کے Husbandکی رپورٹ ۔۔۔۔اور اس رپورٹ کے مطابق آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور ماں بن سکتی ہیں کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
مسز صدیقی کے چہرے پر بہار آگئی۔ ان کا چہرہ چمکنے لگا۔ وہ بہت مسرت اور سرشاری سے ڈاکٹر افراح کو اور اس رپورٹ کو دیکھ رہی تھی۔ خوشی گویا سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
’’آپ نہیں جانتیں کہ آپ نے مجھے کتنی بڑی…
’’میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے مسز صدیقی!!!‘‘ ڈاکٹر افراح نے انہیں ہاتھ اٹھا کر روکا۔
’’بات یہ ہے کہ آپ کی Reportsتو نارمل ہیں لیکن آپ کے شوہر…‘‘ لمحے بھر کو رک کر انھوں نے فائل کے چند صفحے پلٹا کر انہیں دکھائے۔
’’اس Reportکے مطابق مسٹر صدیقی میں یہ صلاحیت نہیں…
“I am sorry to say he is infirtile”
ڈاکٹر افراح نے آخری جملہ انگریزی میں کہا۔ اردو کا وہ لفظ زیادہ تکلیف دہ تھا۔ انھوں نے بڑی ہی پیشہ ورانہ انداز میں گویا کوئی خبر پڑھ کر سنائی تھی۔ وہ گائناکو لوجسٹ تھیں اور روزانہ اس طرح کے کئی کیسز ان کے پاس آتے تھے لیکن اس با ت پر مسز صدیقی کے سر پر تو گویا ہاسپٹل کی چھت آپڑی تھی۔ آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ کانوں کے پرخچے اڑ گئے تھے۔
’’مجھے اچھا تو نہیں لگ رہا تھا لیکن رپورٹ یہی کہتی ہے کہ طبی لحاظ سے بچہ پیدا کرنے کی اہلیت آپ کے Husbandمیں نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو Retestکر والیں۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
کافی دیر بعد آواز آئی تھی۔ رندھی ہوئی، بھیگی ہوئی… وہ آنسو پیتے ہوئے بولیں۔
’’یہ بات سچ ہے اور شاید میرے شوہر کو بھی پتہ ہے۔‘‘
’’وہاٹ…؟‘‘ تعجب سے ڈاکٹر افراح کی بھنویں تن گئیں۔
’’جی ہاں کیوں کہ میرے تو اس طرحکے Test کئی بار ہوچکے ہیں لیکن وہ کبھی Test کرانے پر راضی ہی نہیں ہوتے تھے۔ شاید انہیں معلوم تھا اور اسی لیے وہ کئی بار مجھے طلاق لے کر دوسری شادی کرنے کو کہہ چکے ہیں۔ مجھے اولاد کی بہت خواہش ہے تڑپ ہے لیکن اپنے شوہر سے بھی بے پناہ محبت ہے انہیں نہیں چھوڑ سکتی… شاید مجھے بے اولادی کو قبول کرلینا چاہیے…‘‘کہتے ہوئے وہ پھبک کر رو پڑیں۔ افراح چپ ہوگئی تھیں۔
’’کتنا مجبور کیا تھا میں نے انہیں یہ جانچ کرانے پر۔ بے چارے ہمیشہ میرے سامنے شرمندہ ہونے سے بچتے رہے… اچھا ہی ہوا وہ باہر چلے گئے۔‘‘
وہ سسکیاں لے رہی تھیں۔ آنسوؤں کے قطرے ایک کے بعد ایک کرکے ٹپکتے جا رہے تھے۔ پھر کچھ دیر بعد خود کو سنبھالتے ہوئے ٹشو سے آنکھیں اور چہرہ خشک کیا۔ ڈاکٹر افراح نے انہیں پانی پلایا۔ ہونٹ آپس میں پیوست ہوگئے تھے او روہ خالی خالی نظروں سے ٹیبل پر پڑی فائل کو تک رہی تھی۔ قدآور کھڑکی سے آتے ہوئے ہوا کے جھونکے سے فائل میں لگے صفحات تیزی سے پھڑپھڑا رہے تھے۔ ڈاکٹر افراح نے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں انہیں مخاطب کیا۔
’’دیکھیں مسز صدیقی…‘‘ خاتون نے بہت آہستہ سے صرف پلکیں اٹھائیں چہرہ ہنوز جھکا ہوا تھا…
’’اگر آپ کی جگہ کوئی نان مسلم مریض ہوتی تو شاید میں اس سے وہ سب نہیں کہہ پاتی جو آپ سے کہنے والی ہوں، کیوں کہ آپ اور میں دونوں مسلمان ہیں۔ مجھے دین کی زیادہ سمجھ نہیں ہے اور نہ ہی علم۔ ہاں لیکن رمضان میں دورۂ قرآن سننے سے میرے ایمان میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔‘‘
مسز صدیقی نے پھر سے نگاہیں ٹیبل پر گاڑ دی تھیں۔ افراح نے ان کی بے دلی محسوس کرلی تھی۔
’’میں ہرگز حضرت سارہ اور حضرت زکریا کی مثال نہیں دینے لگی ہوں۔ حضرت سارہ بانجھ تھیں اور زکریا علیہ السلام کی بیوی بھی۔ یہ تذکرہ قرآن میں ہے۔ دونوں طرف بانجھ عورتوں کا معاملہ تھا لیکن مسز صدیقی آپ بانجھ نہیں ہیں۔‘‘
وہ بے جان وجود کے ساتھ عدم توجہی سے بیٹھی تھیں۔ پتہ نہیں وہ ڈاکٹر افراح کی بات سن بھی رہی تھیں یا نہیں۔
’’مسز صدیقی آپ بانجھ نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے مریم علیہا السلام بانجھ نہیں تھیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت مریم بغیر کسی مرد سے تعلق کے حاملہ ہوئی تھیں۔‘‘
مسز صدیقی کی آنکھیں پٹ سے اٹھیں اور ساتھ ہی جھکا ہوا سر بھی جھٹکے سے اوپر کیا۔ (مریم علیہا السلام کی مثال کا یہاں کیا ذکر…؟) وہ کچھ جھنجھلائیں۔
ان کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا تحیر اور اچنبھا ڈاکٹر صاحبہ کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ تھا لیکن انھوں نے کہنا جاری رکھا۔
’’میڈیکل سائنس کوئی خدا نہیں ہے کہ جس کی بات غلط ثابت نہیں ہوسکتی۔ وہ صرف اللہ ہے جسے ’’چاہتا‘‘ ہے صاحب اولاد بنا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں آپ سے یہی کہوں گی کہ اس بے اولادی کو Accept کر کے مت بیٹھ جائیں۔ ناامید تو بالکل نہ ہوں۔ معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں مسز صدیقی۔ آپ معجزے کا انتظار کریں دعا کریں، پر امید رہیں۔
پیدائش کے باب میں فطری قاعدہ یہی ہے کہ اولاد ماں باپ کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے۔۔۔ اوکے۔۔۔! زکریا اور سارہ کے واقعے میں دونوں یعنی مرد و عورت موجود تھے۔ لیکن حضرت مریم علیہا السلام۔۔۔وہاں کوئی مرد نہیں تھا… اچھا خیر مریمؑ کی مثال بھی چھوڑ دیں، آپ مطمئن نظر نہیں آرہی ہیں؟ لیکن حضرت حواؑ کی تخلیق میں مرد یعنی آدمؑ کا کردار تو ہے لیکن عورت کا کوئی وجود نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں عورت کا کردار ہے لیکن مرد کا نہیں۔ اور خود حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں نہ باپ کا کردار تھا نہ ماں کا تھا۔
آپ اس رپورٹ کو نظر انداز کر کے ذرا اس بات کو بھی سامنے رکھیں کہ اصل چیز اللہ کا حکم ہے۔ اس کا فیصلہ ہے۔ وہ اگر ’’چاہے‘‘ گا وہ اگر حکم دے گا تب ہی کوئی انسان عالم وجود میں آسکتا ہے ورنہ نہیں۔ اگر ماں باپ ہر لحاظ سے بچے پیدا کرنے کے قابل ہوں تب بھی بچہ اسی وقت دنیا میں آئے گا جب اللہ تعالیٰ حکم کرے گا۔
’’سولہ سال ہوگئے ہیں…‘‘ مسز صدیقی کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب ہوئیں اور دو موٹے موٹے قطرے ان میں مچل گئے…
’’میں چھتیس سال کی ہوگئی ہوں اور میرے شوہر تینتالیس (۴۳) کے۔ ان کی شیو بڑھ جاتی ہے تو سارے سفید بال جھانکنے لگتے ہیں…
’’حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد کا خیال کس طرح آیا تھا جانتی ہیں؟ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر۔ تب انھوں نے دعا کی تھی کہ جیسے تو مریم علیہا السلام کو بے موسم پھل دے سکتا ہے اسی طرح مجھے بھی بے وقت یا بے موقع اولاد دے سکتا ہے۔ آپ جوان بھی ہیں اور Infirtile بھی نہیں ہیں…‘‘ اور ’’نبی بھی نہیں ہیں۔‘‘
مسز صدیقی نے بے زاری سے ان کی بات کاٹی۔۔۔ وہ ناراض نظر آرہی تھیں۔
’’کیا حضرت مریمؑ نبی تھیں… آپ بھی آزمائش میں مبتلا ہیں مسز صدیقی اسے عیب مت سمجھیں۔ یہ آپ کے ایمان کا امتحان ہے جیسے آپ نے زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں درست کر دیا تھا جب کہ ان کی ہڈیاں تک گھل گئی تھیں تو میڈم آپ کے شوہر جوان ہیں ان کی ہڈیاں نہیں گھلیں وہی اب آپ کے شوہر کو بھی آپ کے لیے درست کر سکتا ہے۔ لیکن زکریا علیہ السلام کے سارے واقعے میں ان کا یقین سے یہ کہنا کہ ’’میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی نامراد نہیں رہا‘‘ یہ سب سے بڑا قابل غور نکتہ ہے۔
زکریا علیہ السلام ایمان کی آزمائش میں پورا ترے تھے آپ بھی اترنے کی کوشش کریں… اور ہاں … آپ سے کس نے کہا کہ معجزے صرف انبیائے کرام کے ساتھ ہوتے ہیں… کیا آپ نے کبھی دیکھا یا پڑھا نہیں کہ کس طرح بڑے بڑے حادثوں میں معجزاتی طور پر کسی کی جان بچ جاتی ہے۔ مریکل یا معجزہ کہیں بھی کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔۔۔ لیکن معجزہ بھی صرف اللہ ہی کر سکتا ہے چاہے کسی نبی کے ساتھ ہو یا عام انسانوں کے ساتھ۔‘‘
مسز صدیقی کی آنکھوں کی الجھن ڈاکٹر افراح کی باتوں کے دوران آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی تھی… چہرے کا گلابی رنگ واپس آنے لگا تھا۔ وہ اب ذرا پرسکون نظر آرہی تھیں۔
’’ڈاکٹر صاحبہ! میں گزشتہ چھ ماہ سے آپ کے زیرِ علاج ہوں لیکن آج آپ بالکل بدلی نظر آرہی ہیں۔ آپ نے ابھی تک مجھ سے اس طرح کی باتیں نہیں کیں۔ تسلی بھی بس فارمل سی ہوتی تھی ڈاکٹروں والی لیکن آج۔۔۔‘‘
افراح سر اوپر کر کے خوش دلی سے ہنسیں۔ ’’رائٹ مسز صدیقی! یہ رمضان میں نے قرآن اور اہل قرآن کی صحبت میں گزارہ ہے سو… کچھ اثر آیا ہے صحبت کا… دیکھتے ہیں کتنے دنوں تک قائم رہتا ہے۔‘‘
عین اسی دم مسز صدیقی کی ساس اپنا بھاری بھرکم وجود سنبھالتی اندر آئیں اور دھپ سے ان کے بازو والی کرسی پر گر پڑیں۔
’’کیا آیا ہے رپورٹ میں۔‘‘ پاٹ دار لہجہ تھا۔ مسز صدیقی گھبرا گئیں۔
’’رپورٹ تو بالکل نارمل ہے۔ آپ کا بیٹا اور بہو دونوں ٹھیک ہیں بس اب اللہ سے دعا کیا کریں اماں۔‘‘
ڈاکٹر افراح فوراً بولی تھیں۔ مسز صدیقی نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔ ابھی قرآن کی باتیں کرنے والی کس روانی سے جھوٹ کہہ گئی تھیں۔
’’دن رات دعائیں کر رہے ہیں ہم تو …‘‘ انھوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’سنا ہے تمہیں بھی بچے وچے نہیں ہیں۔‘‘
مسز صدیقی نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔ کیوں کرتی ہیں خواتین یہ سوال۔۔۔؟ وہ بھی اتنے بے رحمانہ طریقے سے۔۔۔ اس سوال کی کثرت نے خود انہیں بہت رلایا تھا۔
’’جی مجھے ’’ابھی‘‘ نہیں ہے۔‘‘ افراح نے ’’ابھی‘‘ پر زور ڈالا۔
’’خیر سے کتنا عرصہ ہوگیا شادی کو؟‘‘ وہ آج پہلی بار ہاسپٹل آئی تھیں اور کافی جانچتی بلکہ کھوجتی نظروں سے دبلی پتلی اسمارٹ سی ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھیں۔
’’جی گیارہ…‘‘
’’گیارہ سال؟‘‘ انھوں نے سینہ پکڑ لیا۔ ’’ہائے ہائے اتنے سال ہوگئے شادی کو…‘‘
’’جی نہیں گیارہ مہینے…‘‘ افراح خوش مزاجی سے ہنسنے لگیں۔ مسز صدیقی بمشکل مسکرائیں۔ افراح نے چٹھی پر کچھ لکھ کر ان کو دیا۔ مسز صدیقی نے اس نسخہ کو دیکھا لیکن وہاں ادویہ نہیں درج تھیں بلکہ مسز صدیقی کی مشکوک نگاہوں کا جواب لکھا تھا۔
(’’میں آپ کی ساس کو اس عمر میں دکھ و مایوسی نہیں بلکہ وہ دینا چاہتی ہوں جو اس ہاسپٹل کا نام ہے۔‘‘)
انھوں نے اپنے جھوٹ کی توجیہہ پیش کردی تھی۔ مسز صدیقی نے متفق انداز میں سر ہلایا۔ کیا فائدہ تھا بوڑھی ساس کو سچ بتا کر ۔ الٹا بری خبر سے ان کی صحت متاثر ہوتی۔
’’بہو کا بہت خیال رکھا کریں۔ اچھا کھلائیں پلائیں خوش رکھیں بالکل اداس نہ ہونے دیں اور موسم بہت اچھا ہے بیٹے بہو کو کسی پر فضا مقام پر بھیج دیں۔ مجھے لگتا ہے آپ کے گھر ننھی گلکاریاں جلد گونجیںگی…‘‘
’’اللہ تمہاری زبان مبارک کرے۔‘‘ ساس اماں نے پھر آہ بھری تھی۔ ڈاکٹر افراح نے CCTVاسکرین پر ہلتی جلتی تصویروں پر نظر ڈال کر اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ مزید کتنے مریض انتظار میں ہیں۔ پھر کسی کو دیکھ کر وہ اسکرین کے ذرا قریب ہوئیں اور پہچاننے کی کوشش کی۔ نصری باجی دکھائی دے رہی تھیں۔ افراح نے انٹر کام اٹھایا۔ ’’نگین نصریٰ خان کو اندر بھیج دو۔‘‘
’’لیکن میم ان کے نمبر کو ابھی وقت ہے۔‘‘ ریسپشینٹ نے کچھ کہنا چاہا۔
’’جو بھی ہو تم انہیں اندر بھیج دو۔‘‘ تحکم بھرے لہجے میں بولیں۔ ’’وہ میری استاد ہیں اور میں انہیں انتظار نہیں کروا سکتی۔‘‘
نگین نے حیرت سے نصریٰ باجی کے سراپے کو دیکھا۔ (ہم عمر استاد؟) مسز صدیقی نے اپنی ساس کو سہارا دے کر کیبن سے باہر لے جا رہی تھیں۔ ان دونوں سے نظر ہٹا کر افراح پھر CCTV اسکرین کی طرف متوجہ ہوئی۔
نگین اور نصریٰ باجی ایک دوسرے سے بات کرتی نظر آرہی تھیں۔ نصریٰ باجی کے دائیں بائیں ہاتھ ہلانے سے وہ سمجھ گئی کہ وہ منع کر رہی ہیں۔ انھوں نے پھر انٹر کام پر نگین سے رابطہ کیا۔
’’میم وہ انکار کر رہی ہیں… کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے نمبر پر اپنی باری کے وقت ہی آپ سے ملاقات کریں گی۔‘‘
نگین بے بسی سے بولی۔
’’اوہ اٹس او کے…‘‘ اگلے مریض کو بھیج دو۔‘‘ وہ مسکرا کر بولیں۔
پورے دو گھنٹے بعد نصریٰ باجی کی باری آئی تھی۔ وہ کنسلٹنٹ روم میں آئیں تو تھکی تھکی لگ رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر افراح کی نگاہوں میں چمک ابھری اور چہرہ کھل گیا۔ دورۂ قرآن کے اس ایک مہینے میں اس اجنبی خاتون سے انہیں بے پناہ محبت ہوگئی تھی اور نصری باجی اب ان کے لیے بالکل اجنبی نہیں رہی تھیں۔ وہ نصریٰ باجی کے استقبال کے لیے اٹھ گئیں۔
’’میں آپ کو اسی زحمت سے بچانا چاہ رہی تھی۔‘‘ ڈاکٹر افراح نے شکوہ کیا۔
’’جو لوگ گھنٹوں سے انتظار کر رہے تھے ان کی حق تلفی ہوتی ڈاکٹر صاحبہ۔‘‘
نصریٰ باجی نے تکان سے کہا۔
’’پلیز‘‘ وہ نرمی سے ٹوک گئیں۔۔۔ آئیں یہاں لیٹ جائیں۔‘‘
پھر ڈاکٹر افراح نے بہت تفصیل سے ان کا چیک اپ کیا۔
’’بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے۔‘‘ انھوں نے اسٹیتھسکوپ کانوں سے نکالا اور نصریٰ باجی کے دائیں بازو سے بی پی اپریٹس کا بیلٹ کھولتے ہوئے کہا۔
’’تھوڑا چلنے پر یا زیادہ کام کرلینے سے بھی سانس پھولنے لگتی ہے۔‘‘ نصریٰ باجی اٹھتے ہوئے بولیں۔
’’جی آخری وقتوں میں ہوتا ہے ایسا۔‘‘ افراح نے بغور ان کے پیروں کو دیکھا۔ نظر آرہی تھی۔ ’’بیٹھئے۔‘‘
افراح نے اپنے ٹیبل کے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا خود اپنی نشست سنبھالی اور نصری باجی کی تازہ رپورٹ دیکھنے لگیں۔
’’سونو گرافی رپورٹ کے مطابق اگلے ماہ کی بیس تاریخ کو ڈلیوری متوقع ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتی ہیں یہ صرف اندازہ ہوتا ہے۔ ورنہ تو جب اللہ کا حکم آجائے ڈلیوری ہو جاتی ہے۔‘‘ افراح نے فائل کا صفحہ الٹا۔ واؤ ۔۔۔ اس مہینے آپ کا HB لیول بھی Increaseہوا ہے۔ گڈ۔‘‘
افراح ستائشی انداز میں بولی تھیں۔
’’آپ کے فرمان کے مطابق کھجوریں بہت کھا رہی ہوں۔ شاید اسی لیے ہیموگلوبن بڑھا ہے… الحمد للہ۔‘‘ نصریٰ باجی نے مطمئن انداز میں کہا۔
’’بہت اچھا۔۔۔ ڈاکٹرز بھی ایسے مریضوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کے مشوروں پر پوری طرح کریں۔ آپ کے لیے فی الوقت بہترین غذا کھجور ہی ہے۔ جتنا ممکن ہو کھائیں۔ ہیلتھ ڈرنکس پابندی سے کیں فروٹ جوسز کو بھی اگنور مت کریں اور صبح و شام واک ضرور کریں۔‘‘
افراح ان کی فائل میں لگے کورے صفحے پر کچھ لکھ رہی تھیں کہ ان کا سیل بجنے لگا…
نصریٰ باجی کو ’’ایکس کیوز می‘‘ کہہ کر انھوں نے کال ریسیو کی۔
’’کیسے یاد کیا اچھی لڑکی… !! اوہ کب سے … کیا کھایا تھا لنچ میں… اور ناشتے میں؟؟ اچھا۔‘‘ ڈاکٹر افراح دوسری طرف کی بات بغور سن رہی تھیں۔‘‘ گھر میں کسی اور کو بھی الٹیاں ہو رہی ہیں کیا؟ اور ذرا اسے چھوکر بتاؤ کہ فیور ہے یا نہیں… اوکے تم ایسا کرو…‘‘ وہ فون پر مزید ہدایات دینے لگیں۔
نصریٰ باجی نے نقاب لگایا اور اٹھنے کو تیار ہوئیں ان کا کام اب ختم ہوگیا تھا۔
’’میں اب چلوں؟‘‘ اُن کے فون بند کرنے کے بعد نصریٰ باجی نے اجازت چاہی اور افراح کے سامنے رکھی فائل اپنی طرف سرکائی۔
’’میں آپ کو تھینک یو بولنا چاہتی ہوں۔‘‘ افراح نے ان کے ہاتھ یہ اپنا ہاتھ رکھا۔
’’وہ تو آپ کئی بار کہہ چکی ہیں افراحـ۔‘‘
نصریٰ باجی کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔
’’یہ میرا اب تک کا بیسٹ رمضان تھا۔‘‘
’’فائزہ بھی یہی کہہ رہی تھی۔‘‘ نصریٰ باجی کا لہجہ نرم تھا۔
’’ہاں وہ پیاری لڑکی … مجھے واقعی اس کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ سے مجھے دورہ قرآن کلاس میں بہت سپورٹ کا احساس ہوتا تھا۔ میں کلاس میں آنے سے بہت جھجک رہی تھی۔ میں عبایا نہیں پہنتی اور نہ ہی اسکارف لیتی ہوں۔ اس لیے اکثر دینی محفلوں میں پردہ دار خواتین کے درمیان خود کو اجنبی اور مس فٹ محسوس کرتی ہوں کیوں کہ وہ عجیب نگاہوں سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ اور پہلے دن جب میں قدرے ہچکچا رہی تھی تو فائزہ نے بہت پر جوش انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے مجھے بلایا اور اپنے پاس بٹھایا اس طرح کہ اس کی کہنی میری ران پر تھی۔‘‘
’’آپ فائزہ کو کیسے جانتی ہیں؟‘‘ نصریٰ باجی نے استفسار کیا۔
’’صبا کی وجہ سے اور کلاس کا تو اس طرح پتہ چلا تھا کہ میں رمضان سے پہلے ان کے گھر گئی تھی۔ فائزہ نے مجھے صبا کو کچھ سپلیمنٹس لگوانے کی ریکویسٹ کی تھی۔ صبا کی لاعلمی اور اسے نیند میں ڈاپ لگانا مجھے عجیب بھی لگ رہا تھا اور مزہ بھی آرہا تھا…‘‘ ڈاکٹر افراح محظوظ ہوئیں۔ نصریٰ باجی بھی دلچسپی سے سن رہی تھیں۔
’’لیکن فائزہ ضد کر رہی تھی کہ جاگئے میں صبا ڈرپ لگانے پر کبھی رضا مند نہیں ہوگی، اس لیے ہمیں یہ کرنا ہی ہوگا۔ اپنی کزن کے تئیں اس کا یہ خلوص مجھے امپریس کرگیا۔‘‘
’’لیکن آپ تو گائنا لوجسٹ ہیں پھر اتنے معمولی کام کے لیے…‘‘
نصریٰ باجی نے تعجب سے جملہ ادھورا چھوڑا۔
’’گائنی تو میں بہت بعد میں ہوں۔‘‘
’’ایکچوئیلی کاٹی پورنا میں صبا کا ننھیال ہے۔ اور کاٹی پورنا میرا ہوم ٹاؤن ہے۔ وہاں اس کی نانی اور ہمارے گھر کے درمیان صرف ایک دیوار تھی جیسے ابھی صبا اور فائزہ کے گھر قریب ہیں۔ بچپن میں صبا اور فضا جب بھی چھٹیاں منانے ولاں آتیں ہم ساتھ مل جل کر کھیلا کرتے تھے۔ فضا مجھ سے کافی چھوٹی ہے لیکن اس سے میری دوستی بہت گہری ہے۔ صبا اور فائزہ بھی میرا بہت احترام کرتی ہیں اور فاطمہ آنٹی (تائی جان) مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں۔‘‘ انھوں نے بہت تفصیل سے بتایا۔
’’ابھی میں فون پر فائزہ سے ہی بات کر رہی تھی۔
’’کیا ہوا اسے؟‘‘ نصریٰ باجی چونکیں۔
’’وہ ٹھیک ہے لیکن صبا کو وومٹنگ ہو رہی ہے… اسی کے لیے فون کیا تھا۔
’’او پی ڈی کا وقت ختم ہونے کے بعد سیدھا ادھر ہی جاؤں گی۔‘‘
’’اللہ اسے شفایاب کرے۔‘‘ گہری سانس بھرتی نصریٰ باجی اٹھ گئیں۔
’’آمین … ٹیک کیئر آف یور سیلف۔‘‘ ڈاکٹر افراح نے الوداعی مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی تھی۔ نصریٰ باجی کیبن سے نکل کر نقاب درست کرتی راہداری عبور کر کے باہر آگئیں۔ فرسٹ فلور کی گیلری بہت روشن تھی۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ اس گیلری کے نیچے گراؤنڈ فلور پر میڈیکل اسٹور اور دیگر دکانیں تھیں۔ فرسٹ فلور کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑی نصریٰ باجی اپنے پیروں میں نرم تلوے والی چپل ڈال رہی تھی… سوجے ہوئے پیروں کو قدرے سکون ملاتھا۔ وہیں ان سے قریب گیلری کی ریلنگ سے چپکا ایک نو دس سالہ بچہ پانی سے بھری بوتل کو ترچھا کر کے اس کا سارا پانی نیچے سڑک پر گرارہا تھا۔ نصریٰ باجی نے بے اختیار آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ میں پکڑی بوتل سیدھی کر دی۔ لڑکے نے سر اٹھا کر ان برقع والی آنٹی کو دیکھا ’’پانی ضائع ہو رہا ہے… کیا تمہیں نہیں پینا…؟‘‘
’’یہ گرم ہوچکا ہے… پی نہیں سکتے۔‘‘ لڑکا ہاف پینٹ (چڈی) اور آدھی آستینوں کی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ماتھے یہ مندر کا زاد رنگ کا ٹیکا اور گلے میں 30 کی شکل کا لاکٹ لٹکا نظر آرہا تھا۔ لڑکا نہ صرف ہندوتھا بلکہ شاید مذہبی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔
’’ان پودوں کی پیاس بجھا دیں…؟ بہت نرمی اور شفقت سے انھوں نے ہاسپیٹل کی چھت کے نیچے فرسٹ فلور کی باہری گیلری میں رکھے دو گملوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ پودے چونکہ چھت کے نیچے تھے اس لیے بارش کے باوجود ان کی سوکھی مٹی میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔
بچے نے ’ہاں‘ میں گردن ہلا دی۔
’’تو پھر جاؤ یہ نیکی کا کام اپنے معصوم ہاتھوں سے کرو شاباش۔‘‘
بچے نے آگے جاکر سارا پانی گملوں میں انڈیل دیا۔ اور واپس آیا تو اس کی آنکھوں میں نیکی کرنے کی خوشی کی چمک تھی۔
’’گڈبوائے… تم بہت اچھے بچے ہو۔‘‘
نصریٰ باجی اسے حوصلہ افزا کلمات کہتے آہستہ آہستہ زینہ اتر گئیں۔ انھوں نے دیکھا نہیں کہ بچہ کافی دیر تک انہیں دیکھتا رہا تھا۔lll