فضا آپو، صبا کے کمرے میں موجود تھیں اور تفصیلی نگاہ سے روم کا جائزہ لے رہی تھیں۔ فائزہ ان کے قریب کھڑی یاسر کو گود میں لیے اس کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہی تھی۔ ’’ہمارا بچہ کہاں ہے… یہ ہے…‘‘ وہ اس کے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس کے سینے پر دستک دے رہی تھی۔ کبھی گال چومتی کبھی ہتھیلی کی پشت۔ یاسر کے ساتھ یاسر ہی کی زبان میں گفتگو جاری تھی۔
فضا آپو نے گردن گھما کر اٹیچڈ باتھ روم کی طرف دیکھا جہاں سے صبا گیلے چہرے اور گیلے ہاتھوں کے ساتھ نکلی تھی۔ اور چہرہ تھپتھپاتے ہوئے پیر نیچے لٹکا کر پلنگ پر بیٹھ گئی تھی۔
تبھی کمرے کے باہر قدموں کی دھمک سنائی دی۔ دروازہ کھلا اور تائی جان نمودار ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں بھاپ اڑاتا پیالہ تھا۔
’’صبا تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے یہ دلیہ کھالو اب ۔‘‘صبا نے خاموشی سے ان کے ہاتھ سے پیالہ لیا اور اس میں چمچہ چلانے لگی تاکہ کچھ ٹھنڈا ہوجائے۔
’’امی میں آج یہیں رکوں گی، میں نے خرم سے بات کرلی ہے۔‘‘
فضا آپو نے اطلاع دینے والے انداز میں تائی جان کو اپنے تئیں خوش خبری سنائی تھی اور شاید تائی جان خوش بھی ہوئی ہوں لیکن انہوں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا الٹا فضا آپو کو گھڑک دیا۔
’’کیا! تم آج کل کی لڑکیاں بھی!!… یوں منہ بھر بھر کر شوہر کا نام لیتی ہو… یہ کیا اچھا لگتا ہے؟‘‘
ان کے غصے پر پہلے تو فضا آپو حیران ہوئیں پھر قدرے شرمندگی سے کہا۔
’’جی وہ خرم صاحب نے اجازت دے دی ہے کہ آج…‘‘
’’ہنہہ۔‘‘ تائی جان نے طنزیہ ہنکاری بھری۔ ’’یہ اچھا ہے بس شوہر کے نام کے آگے صاحب لگا دو بات ختم…‘‘ (تو امی اب اور کیا چاہتی ہیں)۔
فضا آپو کی بے چارگی دیکھ کر فائزہ نے یاسر کا مناسا ہاتھ منہ پر رکھ کر ہنسی دبائی۔ پھر کوئی دیکھ نہ لے اس لیے دیوار کی طرف گھوم گئی اور یونہی یاسر کو کیلنڈر پر بنی تصاویر دکھانے لگی۔
’’اور وہ لڑکا…؟‘‘ تائی جان نے غالباً انس کے بارے میں پوچھا تھا جسے مہران نماز عشا کے لیے مسجد لے گیا تھا۔
’’وہ خرم صاحب کے … میرا مطلب ہے یاسر کے ڈیڈی اسے آفس سے آتے ہوئے گھر لے جائیں گے۔ ابھی میری ان سے بات ہوئی تھی کہہ رہے تھے کہ اسے سونے مت دینا ورنہ اسے بائیک پر سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘
فضا آپو خوامخواہ تفصیلی جواب دے رہی تھیں جو یقینا ان کی بوکھلاہٹ کا پتہ دے رہا تھا۔ تائی جان کا لب و لہجہ ہی ایسا ہوتا تھا کہ اچھا خاصا انسان سہم جائے۔ ان کے جواب پر تائی جان نے نخوت سے سر جھٹکا۔ ان کو انس کا آنا جانا، رکنا، رہنا سب ناپسند تھا۔
’’بھابھی…‘‘ آمنہ ہاتھ پونچھتی ہوئی اندر آئیں۔‘‘ میں نے کچن سمیٹ دیا ہے اب میں گھر جاتی ہوں فائزہ کے ابو انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ تائی جان نے سر کو خفیف سی جنبش دے کر گویا انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ ’’فائزہ تم چل رہی ہو؟‘‘ آمنہ نے فائزہ کو مخاطب کیا جو دوسری طرف رخ کیے کھڑی تھی۔ ان کی آواز پر وہ پلٹی۔
’’نہیں چچی اسے یہیں رہنے دیں میرے ساتھ۔ آج میں بھی رک رہی ہوں۔‘‘
فائزہ کی بجائے فضا آپو نے جواب دیا۔ تائی جان اور آمنہ ساتھ ہی باتیں کرتی باہر چلی گئیں۔ فضا آپو بھی صبا اورفائزہ پر ناپسندیدہ نگاہ ڈال کر باہر نکل گئیں۔
’’ہیں!! یہ آپو کو کیا ہوا؟ ہمیں گھور کر گئی ہیں؟‘‘ فائزہ یاسر کو گود میں اٹھائے صبا کے قریب آکر حیرت سے بولی۔
’’اور نکالو دانت…‘‘ فائزہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ’’جب امی آپو کو ڈانٹ رہی تھیں۔‘‘ وہ نیم گرم دلیہ کا چمچ منہ میںڈالتے ہوئے بولی۔
’’اچھا؟؟؟ تمہارے سر کے پیچھے بھی آنکھیں ہیں کیا؟ مجھے تو لگ رہا ہے کہ وہ تم سے ناراض ہیں۔‘‘
’’ابو میں…‘‘ فائزہ کے اطمینان سے کہنے پر صبا بدک ہی گئی تھی۔‘‘ اب میں نے کیا کیا ہے…؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم…‘‘ فائزہ نے کندھے اچکائے۔ ’’لیکن تم جب باتھ روم سے برآمد ہوئیں تب بھی وہ تمہیں تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔‘‘
’’کچھ بھی۔‘‘ صبا نے دلیہ کا باؤل تپائی پر دھر دیا۔ مزید کھایا نہیں جارہا تھا۔
’’پورا ختم کرو یہ۔‘‘ تائی جان نماز کے لیے گئی ہیں اگر پیالہ خالی نہیں دیکھا تو واپس آکر آپ کی طبیعت بھی اچھے سے صاف کریں گی۔‘‘
یاسر کسمسانے لگا تھا۔ فائزہ نے اسے کندھے پر ڈالا اور اسے بہلاتے ہوئے فضا آپو کا پتہ کرنے کمرے سے باہر نکلیں۔
امی شاید گھر جاچکی تھیں۔ لاؤنچ میں تائی جان وضو کے بعد اپنی آستین کہنیوں سے نیچے کر رہی تھیں۔ چہرے سے پانی ٹپک رہا تھا۔
مہران انس کا ہاتھ تھامے گھر میں داخل ہوا۔ انس نے سر پر سفید ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ فضا آپو سرعت سے اس کی طرف بڑھیں۔
’’انس آپ آگئے بیٹے…‘‘
’’جی‘‘ اس نے معصوم سا سر ہلایا۔
’’تو اب جلدی تیار ہوجائیں آپ کے چاچو آپ کو لینے آرہے ہیں۔‘‘ انھوں نے انس کے سر سے ٹوپی نکالی اس کی ٹھوڑی نرمی سے پکڑی اور انس کے سر میں کنگھی چلائی۔
’’آپ نہیں چل رہیں؟‘‘ اس نے منہ بسورا۔
’’نہیں… چچی آج نانی کے گھر رہیں گی۔‘‘ انھوں نے ٹوپی تہہ کر کے اس کی جیب میں ڈالی۔
’’اور یاسر …؟‘‘
’’وہ بھی چچی کے ساتھ ہی رکے گا انس۔‘‘ وہ ہنوز ملائمیت سے بات کر رہی تھیں۔
’’آپو خرم بھائی جان کا فون آرہا ہے…‘‘ یاسر کو گود میں مضبوطی سے تھام کر فائزہ جھکی اور صوفہ پر ناچتا موبائل اٹھا کر فضا آپو کو دیا۔ وہ یاسر کو جھلاتے ہوئے آپو کے نزدیک ہی کھڑی تھیں۔
’’ہاں، انس ریڈی ہے خرم۔‘‘ بے ساختگی میں کہہ کر آپو نے یکدم زبان دانتوں تلے داب لی تھی اور کن انکھیوں سے تائی جان کو دیکھا تھا جو ابھی وہیں موجود تھیں۔
’’جی باہر بھیج رہی ہوں اسے۔‘‘ اور سنیے یاسر کے ڈیڈی… انس کی ہوم ورک بک ہمارے کمرے میں ہے۔ بھابھی کو یاد سے دے دیجیے گا۔‘‘
’’کیا کہا تم نے…؟ دوسری طرف سے خرم کی حیرت بھری شوخی نے آپو کے گالوں کو سرخ کر دیا۔ ’’یاسر کے ڈیڈی؟؟ ٹھیک سنانا میں نے…؟‘‘
ان کا بلند قہقہہ اتنا جاندار اور بھرپور تھا کہ آپو کے قریب کھڑی فائزہ کو بہ آسانی سنائی دیا۔ وہ مزید آپو کے پاس کھسک کر آگئی۔
’’ذرا پھر سے کہو نا یاسر کے ڈیڈی… اچھا لگتا ہے۔‘‘
وہ شرارت سے بضد ہوکر بولے۔ فائزہ کان لگائے اس گفتگو سے پوری طرح لطف اندور ہو رہی تھی۔
خرم کا شرارتی انداز… فائزہ کی معنی خیز مسکراہٹ اور امی کی جانچتی نگاہیں۔ فضا آپو خجل ہو رہی تھیں۔ خرم سے ان کی قدرے تفصیلی بات تو پہلے ہی ہوگئی تھی اس لیے انھوں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔
’’مہران انس کو باہر چھوڑ آؤ۔‘‘
’’خرم میاں کو اندر تو بلاؤ۔ باہر سے کیسے بھیج رہی ہو اور انہیں کھانے وانے کا بھی پوچھو۔‘‘ تائی جان نے تادیبی انداز میں کہا۔
’’انھوں نے کھانا آفس میں کھالیا ہے آج کوئی پارٹی تھی ان کی۔‘‘ آپو سر سری بولیں۔
’’تو باہر تک جاؤ کم از کم۔‘‘ کہتے ہوئے تائی جان سرپہ نماز کی طرح دو پٹہ لپیٹتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔ فضا آپو نے انس کو مہران کے ساتھ ہی باہر بھیج دیا جہاں گیٹ پر خرم اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ باہر تک جاتیں لیکن خرم ابھی شرارت کے موڈ میں لگ رہے تھے۔ اور وہ اپنی کھنچائی نہیں چاہتی تھیں۔
کچھ دیر بعد…
یہ اسی وقت کی بات ہے جب آمنہ اپنے گھر پہنچ کر حید رمرتضی کو ٹھیک طرح سے سونے کو کہہ رہی تھیں اور حیدر مرتضیٰ کے سوالات کے جوابات دے رہی تھیں۔ عین اس وقت لان کی دوسری طرف صبا کے کمرے میں وہ تینوں بہنیں موجود تھیں۔
فضا آپو نے کمر پر کس کر دو پٹہ لپیٹا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھ میں جھاڑو تھی اور وہ صبا کے پلنگ کے نیچے جھکی ہاتھ لمبا کر کے نیچے سے سارا کچرا باہر نکال رہی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی بڑبڑاہٹ بھی جاری تھی۔ فائزہ اور صبا دونوں بیڈ پر اپنی ٹانگیں اوپر کر کے بیٹھی تھیں اور فضا آپو کی صلواتیں سن رہی تھیں۔
’’دونوں کی دونوں نکمی، کام چور اور پھوہڑ ہو۔‘‘
فائزہ کو تو یہ پیار بھری گھڑکیاں ہمیشہ مزہ دیتی تھیں ابھی بھی وہ خاموش تھیں لیکن پھوہڑ پن کا طعنہ صبا برداشت نہیں کرسکی تھی۔ سارا دن تو وہ گھر کو سلیقے سے سنوارنے میں لگی رہتی تھی۔ پھر بھی آپو کو اس کے سگھڑاپے سے شکوہ تھا۔
۔۔میں نے کیا پھوہڑ پن کیا ہے۔‘‘ اس نے منہ بنایا۔
’’یہ اتنا کچرا ہوتا ہے، بلنگ کے نیچے؟ دھول کی تہیں کی تہیں جمی ہوئی ہیں۔‘‘
فضا آپو نے کوڑا باہر نکال کر اسے جتاتی نظروں سے دکھایا۔
’’وہ تو دو دنوں سے میں بیمار ہوں اس لیے…‘‘ صبا منمنائی … جواباً آپو نے ڈپٹنا شروع کر دیا تھا۔
’’ہاں وہی تو کہہ رہی ہوں کہ کیوں خود کا خیال نہیں رکھ رہی ہو۔ ایک لڑکی باسی کھانا کھاکر فوڈ پوازننگ کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری چھپکلی کو دیکھ کر چیخیں مارنے لگتی ہے… عجب معاملہ چل رہا ہے اس گھر کا…‘‘
انھوں نے ڈسٹ میں کوڑا اٹھایا اور بڑبڑاتے ہوئے باہر ڈسٹ بن میں ڈال آئیں۔
ان کی بات پر فائزہ تو فائزہ صبا بھی چونک گئی۔ صبا جو یہ کہنے جا رہی تھی کہ اسے فوڈ پوائزننگ نہیں ہوئی تھی اسے یہ کہنا بھی بھول گیا۔ جب کہ فائزہ اپنی جگہ بھونچکا رہ گئی۔ آپو کس کے بارے میں کہہ رہی تھیں وہ کچھ پریشان ہوئی۔
’’چھپکلی سے کون ڈرا تھا؟‘‘ صبا نے تعجب سے پوچھا۔
’’یہی ہمارے چاچو کی شہزادی… آپ کی بہن کم دوست۔‘‘ انھوں نے فائزہ کی طرف طنزیہ اشارہ کیا۔ ’’بہادر باپ کی ڈرپوک، بزدل بیٹی۔‘‘
فائزہ چپ رہی۔ یقینا تائی جان نے ہی فضا آپو کو بتایا تھا۔ مہران اور تایا جان تو بتانے سے رہے۔ اور اب جب فضا آپو کو یہ بات پتہ چل گئی تھی تو ظاہر ہے ابو اور اسی کے بھی گوش گزار کیا ہوگا تائی جان نے۔ آخر ان کو اپنی نیند کے خراب ہونے کا بدلہ کسی طرح تو لینا تھا نا۔‘‘lll