ہمیں تقریباً روزانہ صبح ایک بزرگ نظر آتے جو انتہائی تیز رفتاری سے قدم بڑھاتے ہوئے، ہم سے آگے نکل جاتے۔ ان کے سر کے بال بھی سفیدتھے اور چہرے پر چھوٹی سی خوبصورت داڑھی، وہ بھی تقریباً سفید، عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہوگی، لیکن ان کی تیزی و طراری کا عمر سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا۔ شام کو مغرب کے بعد یہ بزرگ ادھر سے اسی انداز میں واپس آتے، یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ ایک دن ہم نے راستہ روک کر ان سے پوچھا کہ وہ اس عمر میں اتنی تیزی سے کیوں اور کیسے چلتے ہیں اور ان کی سیر کہاں سے شروع ہوتی اور کہاں ختم ہوتی ہے؟ انھوں نے بتایا کہ یہ ان کی تفریح نہیں بلکہ زندگی کا معمول ہے۔ دراصل وہ یہاں سے کئی میل دور ایک چھوٹی سی فیکٹری میں ملازم تھے اور روزانہ اپنی ڈیوٹی پر پیدل جاتے اور آتے تھے۔ چونکہ فاصلہ ذرا زیادہ تھا۔ اس لیے وہ تیز تیز چلنے کے عادی تھے۔ اور یہ عمل کوئی پندرہ برس سے جاری تھا۔ سردی، گرمی، برسات کوئی بھی موسم اس معمول میں رخنہ انداز نہیں ہوسکتا تھا۔ انھوں نے بتایا ان کی صحت اور تیزی و طراری کا سارا راز پیدل چلنے میں ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ضرور بیمار پڑجائیں۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ پیدل چلنا میری ضرورت بھی ہے، زندگی بھی ہے اور یہی میری خوشی کا سامان ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پیدل سیر کرنے کے لیے جگہ اور وقت کی کوئی شرط نہیں، شہر ہو یا دیہات، صبح و شام، آپ اپنی سیر کے لیے جگہ اور وقت کا انتخاب کرسکتے ہیں، سائنسی نقطۂ نظر سے یہ شرط ضرور ہے کہ سیر کا عرصہ نصف گھنٹے سے ہرگز کم نہ ہو اور چلنے کی رفتار سست نہ ہو۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ سر پٹ بھاگتے رہیں اور دائیں بائیں مڑ کر بھی نہ دیکھیں۔ نہیں بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ سیر کرتے وقت آس پاس کے مناظر کا مشاہدہ کریں، قدرت کی رعنائیوں پر نظر ڈالیں اور اگر جی چاہے تو تھوڑی دیر کہیں بیٹھ جائیں۔ اچھی خوشگوار اور تیز رفتار سیر کے بعد ہمیشہ تازگی اور توانائی کی ایک نئی لہر جسم و جاں میں محسوس ہونی چاہیے۔
پیدل چلنا ایک سائنسی ورزش ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس سے دورانِ خون میں تیزی اور باقاعدگی پیدا ہوتی ہے۔ جسم میں توانائی کی لہر بیدار ہوتی ہے۔ ذہنی اور جسمانی تناؤ کم ہوجاتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نکھر آتی ہے۔ طبیعت بشاش رہتی ہے۔ اور عمر لمبی ہوتی ہے۔
ورزش کے یوں تو ہزاروں طریقے ہیں، لیکن پیدل چلنا سب سے آسان اور سب سے بہتر ورزش ہے۔ ان ماہرین کی رپورٹ یہ ہے کہ جو لوگ ہفتے میں نومیل پیدل چلتے ہیں وہ تین میل چلنے والوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔
ذہنی اور جسمانی تناؤ اور کشیدگی ختم کرنے کے سلسلے میں پیدل چلنا ایک لاجواب نسخہ ہے۔ جن لوگوں کو خود تجربہ ہے وہ اس کی گواہی دیں گے اور جن لوگوں کو ذاتی تجربہ نہیں ہے انہیں ماہرین صحت پر اعتبار کرنا چاہیے جن کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پیدل چلنا ایک ایسا عمل ہے، جس سے جسم کے تمام اعضا، اعصاب اور جوڑ حرکت میں آجاتے ہیں اور یہ حرکت طبعی اور نفسیاتی اعتبار سے نہایت خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔
آج کل کون نہیں جانتا کہ موٹاپا بہت سی بیماریوں کی علامت ہے، اس لیے آج کا انسان وزن گھٹانے کے ہزار جتن کرتا ہے۔ سلمنگ کے مرکزوں میں حاضری دیتا ہے۔ ہزاروں روپے برباد کرتا ہے، مشینوں اور دواؤں کا سہارا لیتا ہے لیکن اگر وہ خود اپنی ٹانگوں کا سہارا لے اور پیدل چلنے کا نسخہ آزمائے تو بیماری کا علاج خود اپنے اختیار میں ہے اور اس میں کوئی خرچ بھی نہیں۔
آئیے ہم جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ورزش اور غذا جسم پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے۔ صحت کے ممتاز ماہرین نے پچیس ایسی خواتین کو جن کا وزن بہت زیادہ تھا، ایک طے شدہ پروگرام پر عمل کرنے کی تاکید کی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے جسم میں روزانہ پانچ سو کیلوریز یا حرارے کم کریں۔ ان خواتین کو تین گروپوں میں تقسیم کردیا گیا:
(۱) غذائی گروپ: اس گروپ میں شامل خواتین نے خوراک میں پانچ سو حراروں کی کمی کردی اور ورزش میں کوئی تبدیلی نہ کی یعنی پہلے کی طرح جاری رکھی۔
(۲) ورزش گروپ: اس گروپ کی خواتین نے روزانہ پانچ سو حرارے گھٹائے لیکن خوراک پہلی ہی رکھی۔
(۳) غذائی اور ورزش گروپ: اس گروپ کی خواتین نے روزانہ خوراک میں ڈھائی سو حرارے کم کردیے اور اتنی ورزش کی کہ ڈھائی سو حرارے ضائع ہوجائیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے اور تیسرے گروپ میں شامل عورتوں میں سے ہر ایک کا وزن بارہ پونڈ کم ہوگیا جبکہ دوسرے گروپ والوں کا وزن ساڑھے دس پونڈ کے قریب کم ہوا، لیکن غذائی گروپ کے مقابلے میں باقی دونوں گروپوں کی عورتوں کے جسم کی چربی میں بہت نمایاں کمی ہوگئی۔ یہ پیدل چلنے کا ایک اضافی اور یقینی فائدہ ہے۔
سائنسی اصطلاح میں وزن گھٹانے کا فارمولا جسم میں کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک پونڈ وزن گھٹانے کے لیے ضروری ہے کہ خوراک کے ذریعے آپ جتنے حرارے یا کیلوریز جسم میں داخل کریں، اس سے ساڑھے تین ہزار زیادہ حرارے خرچ کریں، لہٰذا ہر ہفتے ایک پونڈ وزن گھٹانے کے لیے لازم ہے کہ آپ کے جسم میں روزانہ پانچ سو حرارے کم ہوتے رہیں اور اس کی سب سے آسان ترکیب یہ ہے کہ آپ ہر ہفتے پندرہ میل پیدل چلیں۔ اگر غذا میں بھی تھوڑی سی احتیاط برتیں تو آپ کا مسئلہ اور جلد حل ہوسکتا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ورزش سے بھوک بڑھتی ہے اور اس طرح جسم میں اور زیادہ کیلوریز کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں اور ایسی باتیں وہ کرتے ہیں جو ورزش کے بے شمار فوائد کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔
کسی بھی ورزش سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مسلسل اور باقاعدہ ہو اور ہمیشہ جاری رکھی جائے۔ پیدل چلنا، ایک ایسی ورزش ہے جس کے لیے کسی مشیر،کسی ڈاکٹر یا کسی مشین کی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی خرچہ نہیں اور اس میں جو محنت ہے اس کا بھی ایک خاص لطف ہے۔ لہٰذا آپ کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ سادہ غذائیں کھائیں اور بقدرِ حوصلہ پیدل چلیں اور خوش و خرم زندگی بسر کریں۔