میں بچپن سے ہی بہت کھلنڈرا اور لا پرواہ واقع ہوا ہوں۔ میری نانی اماں کے بقول شرارت تو میری جنم گھٹی میں پڑی ہے۔ اسے میری خوش قسمتی ہی سمجھئے کہ جس کالج میں زیر تعلیم تھا اسی کالج میں بطور ایک کلرک کے جگہ مل گئی۔ یوں تو میںفطرتاً آزادی اور زندگی کی جدید قدروں کا حامی ہوں مگر پہنچے ہوئے فقیر یا ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والے سادھو مہارج میری نظر میں ایک ڈھونگ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔
شومیٔ قسمت کہ میرے دفتر کے کلرک دوستوں میں ایک شرما صاحب بھی ہیں جو کہ ہر ماہ دو چار بار سڑک کے کنارے بیٹھنے والے جوتشیوں سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے رہتے ہیں۔ اور جب کوئی بات اتفاقیہ طور سے سچ ہوجائے تو وہ ہم لوگوں میں شری جوتشی جی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر میں ان کی کھچائی کرنے سے نہیں چوکتا اور میرے بے تحاشہ قہقہوں کی تاب نہ لاکر بیچارے شرما صاحب کھسیانے ہوجاتے ہیں۔
حسب معمول پانچ بجے شام کو آج بھی دفتر بند ہوجانے پر میں اور میرے کلرک ساتھی دفتر سے نکلے اور پیدل چل دئیے۔ جب ہم لوگ رائل پارک کے قریب سے گزرے تو شامت اعمال شرما صاحب کی نظر لبِ سڑک بیٹھے ہوئے ایک ایسے جوتشی پر پڑی جوکہ ان کے لیے بالکل نووارد تھا اور شرما صاحب نے اپنی عادت کے مطابق ہمیں اپنے ارادہ سے مطلع کیا۔ چونکہ آج سنیچر کا دن تھا، ظاہر ہے کل دفتر کی چھٹی تھی۔ سنیچر کے دن ہم کلرک لوگ کچھ دماغی سکون محسوس کرتے ہیں اس لیے ذرا دیر سے ہی گھر جانے کے عادی ہیں۔ چنانچہ ہم لوگوں نے آج شرما صاحب کی بات پر زیادہ عذر نہ کیا اور صرف کچھ دیر کی تفریح کے خیال سے رک گئے۔
میں کیونکہ سب سے زیادہ شرما صاحب کا مذاق اس معاملہ میں اڑاتا تھا اس لیے آج نہ جانے کیا شرما صاحب کو سوجھی کہ انھوں نے مجھ کو ہی اپنا ہاتھ دکھانے کے لیے مجبور کرنا شروع کردیا اور جب میں نے ذرا ٹال مٹول سے کام لیا تو شرما صاحب جھٹ سے بول اٹھے کہ: ’’تم اپنا ہاتھ دکھاتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو؟ تمہاری بجائے پیسے تو میں ہی ادا کروں گا؟‘‘ اور شرما صاحب کے بہت زیادہ اصرار پر لامحالہ مجھے اپنا ہاتھ قسمت کا حال بتانے والے جوتشی مہاراج کے سامنے رکھنا پڑا۔ جوتشی مہاراج نے منگلوار اور شکروار کی گردان کے بعد جو خاص الفاظ کہے وہ کچھ اس قسم کے تھے۔
’’ہے بھاگیوان (خوش قسمت) ایک سپتا (ہفتے) کے بھیتر(اندر) تمہارے ہاتھ ایک سمپتی (رقم) لگنے والی ہے۔‘‘
اب یہ بتانا ہی فضول ہے کہ جوتشی مہاراج کی پیشن گوئی کو سن کر سوائے شرما صاحب کے ہم لوگوں کے منہ سے ہنسی کا ایک فوّارہ پھوٹ پڑا اور بے اختیار ہم لوگوں کے منہ سے نکلا کہ ’’بیشک مہاراج ایک ہفتہ کے اندر ہمارے ہاتھ ایک سمپتی لگنے والی ہے۔ آج مہینے کی پچیس تاریخ ہے اور اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملے گی جو کہ واقعی ہمارے لیے سمپتی سے کم نہیں ہے۔‘‘
آج پہلی تاریخ تھی اور پہلی تاریخ کا خیال آتے ہی میرے بدن میں ایک جھرجھُری سی آگئی۔ کیونکہ آج تنخواہ ملنے والی تھی اور تنخواہ ملنے کی خوشی میں پیدل ہی وقت سے کچھ پہلے دفتر روانہ ہوگیا۔
شام کو دفتر سے واپسی پر سڑک سے میرے گھر کی طرف مڑنے والی گلی کے نکّڑ پر شرما صاحب نے مجھے چھوڑ دیا اور میں ان کا شکریہ ادا کرتا اور اپنی جیب کا جائزہ لیتا گلی میں جا گھسا۔ عام طور سے گلی سنسان ہی رہتی تھی، اکا دکا ہی راہگیر اس گلی میں نظر آجاتا۔ آج خلاف توقع ایک نورانی چہرے اور سحر انگیز نگاہوں نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے محوِ حیرت کردیا اور اس کشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اس درویش نما ہستی سے اس ویران کوچے میں رونق افروز ہونے کی وجہ انسانی ہمدردی کے ناطے پوچھ ہی بیٹھا۔ استفسار کرنے پر میرا خیال غلط نکلا کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ کوئی مسافر ہیں اور مالی امداد کے طالب ہوںگے، لیکن انھوں نے بتایا کہ آپ کو دنیاوی چیزوں کی بالکل پرواہ نہیں اور نہ کوئی حاجت ہے آپ کا کام تو مخلوق خدا کی خدمت کرنا ہے۔ آپ کا کوئی وقت اور جگہ متعین نہیں ہے جب اور جہاں اپنے علم غیب کے ذریعہ ضرورت سمجھتے ہیں پہنچ جاتے ہیں۔
گو دل میں رتی بھر بھی میںنے ان کی باتوں کا یقین نہیں کیا۔ لیکن اپنے چہرہ کے تاثرات سے یہی ظاہر کیا کہ میں ان سے بہت مرعوب ہوگیا ہوں۔ اسی اثنا میں ایک نو وارد جو کہ ان کی باتیں سننے میں شریک ہوچکا تھا، ان کی بات ختم ہوتے ہی کہنے لگا کہ: ’’یا پیرومرشد مجھ پر رحم کیجیے، میں قرض کے بندھنوں میں جکڑا پڑا ہوں، اللہ واسطے اگر آپ کی نظرِ کرم ہوجائے تو بیڑہ پار ہوجائے۔‘‘
کچھ دیر تک پیر جی خاموش رہے اور پھر خندہ لب ہوکر اور آنکھیں بند کرکے کہنے لگے۔ ’’بول کیا چاہتا ہے؟‘‘
نووارد نے جواب دیا ’’کم از کم پانچ ہزار روپئے۔‘‘
حقارت سے جواب ملا ’’صرف پانچ ہزار روپئے! اچھا جو کچھ اس وقت تیری جیب میں موجود ہے نکال کر ہمارے حضور پیش کر، تیری مراد برآئے گی۔‘‘
نووارد نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’میں ایک اسکول میں چپراسی ہوں، آج پہلی تاریخ ہے، تنخواہ کے دو ہزار روپئے ملے ہیں، یہ حاضر ہیں۔‘‘ اور نو وارد نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی جیب سے روپے نکال کر پیر جی کے دستِ مبارک پر رکھ دئیے۔
ارشاد ہوا ’’اس گلی کے دوسرے سرے تک سو قدم گن کر چلو اور پھر میرے پاس واپس آنا۔ پیچھے مڑ کر ہرگز مت دیکھنا ورنہ یہ روپے بھی غائب ہوجائیں گے اور تمہیں کوئی جسمانی صدمہ بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘
بجلی کی سی سرعت کے ساتھ نووارد نے پیرجی کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق عمل کرنا شروع کردیا۔ ادھر نووارد کے قدموں کی گنتی میں اضافہ ہورہا تھا اور ادھر میرے دل کی دھڑکنیں بڑھ رہی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ پیرجی اب غائب ہوئے اور …اور اب ہوئے۔
لیکن میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جبکہ نووارد سو قدم پورے کرکے پیرجی کے سامنے دوزانو ہو بیٹھا تھا اور پیر جی اسے پانچ ہزار روپے گنارہے تھے۔ نووارد نے پیرجی کے مقدس ہاتھوں کو بوسہ دیا اور عقیدت کے جذبہ سے سرشار ہوکر روپئے لیے اور چلا گیا۔
اب پیرجی کی صداقت میں کسے کلام تھا اور میرے یقین کامل نہ لانے کی کوئی وجہ ہی نہ تھی۔ پیر جی غالباً اٹھنے کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ اچانک مجھے کچھ کسمساتے ہوئے دیکھ دیکھ کر گویا ہوئے ’’بولو بیٹا! تمہیں تو کوئی تکلیف نہیں؟‘‘ میری نگاہوں میں جوتشی کا چہرہ گھومنے اور الفاظ گونجنے لگے۔ اور اب میں جو کہ پیر جی کا مرید سا ہوچلا تھا سٹپٹا کر بولا ’’قبلہ کچھ نظر عنایت میرے حال پریشان پر بھی ہو جائے تو کیا اچھا ہو۔‘‘
اور چند ہی لمحوں بعد میری مہینہ بھر کی کل تنخواہ سات ہزار آٹھ سو روپے پیر جی کے قدموں پر تھی۔ میرے لیے بھی پیرجی نے وہی حکم صادر فرمایا جو کہ پہلے نووارد کے لیے کہہ چکے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ مجھے سو کی بجائے تین سو قدم تک گلی میں چلنا تھا۔
میں ابھی ڈیڑھ سو قدم ہی چلا تھا کہ نہ جانے کہاں سے میرے دل میں اپنے ہی روپیوں کا لالچ عود کر آیا اور میں بڑی پھرتی سے بے اختیارانہ گھوم گیا۔ پیچھے دیکھتے ہی ایسا معلوم ہوا جیسے کہ بجلی کا تار چھو لیا ہو۔ میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اب یہ کیا بتاؤں کہ پیرجی غائب ہوچکے تھے۔ اور ان کی تلاش کرنے میں شہر کا کونہ کونہ چھان مارا تھا۔
اس قدر رنج و ملال ہوا کہ کئی دن تک دفتر نہ جاسکا۔ لیکن اب بھی نہ جانے کیوں شرما صاحب بضدہیں کہ سب قصور میرا اپنا ہی تھا، نہ میں ڈیڑھ سو قدم بعد پیچھے گھوم کر دیکھتا اور نے میرے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا۔