’’پیلا گیا‘‘

میخائیل ذوش چنکو/ترجمہ: اعجاز احمد فاروقی

پیلا گیا ایک ناخواندہ خاتون تھی، لکھنا پڑھنا تو دور کی بات تھی وہ تو اپنے دستخط تک کرنا نہیں جانتی تھی۔ اس کا شوہر ایک ذمہ دار سوویت کا رکن تھا۔ ابتدا میں تو وہ بھی ایک سیدھا سادا دہقانی تھا لیکن شہر میں پانچ سالہ قیام نے اس کی کایا پلٹ دی۔ اس کے لیے اپنے دستخط تو ایک بہت آسان اور معمولی سا کام تھا اب تو وہ اچھا خاصا ہر فن مولابن چکا تھا۔ اور اب اس کو اس بات سے بھی بڑی خفت اور سبکی محسوس ہوتی تھی کہ اس کی بیوی چِٹی ان پڑھ ہے۔

وہ آئے دن پیلا گیا کو کہتا رہتا کہ ’’پیلاگیا‘‘ تم کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لو اور کم از کم اتنا تو لکھنا پڑھنا سیکھ لو کہ اپنے دستخط کرسکو۔ پھر اور یہ بھی تو دیکھو کہ میرے نام کے ہجے کس قدر آسان ہیں، کچ، کن اور ایک تم ہو کہ اس قدر آسان نام بھی نہیں لکھ سکتیں۔ یہ تو بڑی ہی افسوسناک بات ہے۔

اور پیلا گیا اس کو ہمیشہ جواباً یہی کہتی ’’آئیوانی نکولائی وچ اب تعلیم میرے لیے کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘ میں تو برائے نام ہی لکھنا پڑھنا بہت ہی آہستہ آہستہ سیکھ رہی ہوں، میری انگلیوں میں اب وہ قدرتی لوچ باقی نہیں رہا ہے جو کہ قلم کو ٹھیک سے پکڑنے اور چلانے کا ایک قدرتی وصف ہوتا ہے۔ پھر آخر میں علم حاصل کرکے اور خطوط کی نقل تیار کرکے کون سا تیر مارلوں گی، براہ کرم یہ کام نئی پود کے لیے اٹھا رکھو ۔ میں اپنا بڑھاپا ایسے ہی گزار لوں گی، پکی پکی مصروف آئیوانی نکولائی وچ یہ سن کر ٹھنڈی آہ بھر کر کہتا: ’’آہ! پیلا گیا!‘‘

پھر دونوں کے درمیان تبادلۂ خیالات ختم ہوجاتا اور ایک طویل خاموشی پھیل جاتی۔

ایک دن جب وہ گھر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بڑی شہرت یافتہ کتاب تھی، اس نے آتے ہی کہا: ’’یولیا دیکھو، یہ ایک بڑی آسان اور مشہور کتاب ہے اس کو خود آموزوں کے لیے خود آموزی کے بڑے آسان اور مؤثر اسلوب پر مرتب کیا گیا ہے ، ادھر آؤ میں تمہیں دکھاؤں۔‘‘

یہ سن کر پیلا گیا مسکرائی، اس نے کتاب لی اور اس کو لے کرفوراً الماری میں ڈھیر کردیا اور کہا:

’’یہ کتاب ہماری نئی پود کے کام آئے گی۔‘‘

آئیوانی نکولائی وچ یہ سب کر بہت بور ہوا اور بور ہوکر خاموش ہوگیا۔

پھر ایک دن جبکہ پیلا گیا، گھریلو کاموں میں مصروف تھی، نکولائی وچ کے کوٹ کی آستین قابلِ مرمت ہوچلی تھی اور جب اس نے سوئی دھاگہ ہاتھ میں لے کر کوٹ کے استرکو چھوا تو اس کے اندر کوئی چیز کھسکتی اور چرمراتی ہوئی محسوس ہوئی۔

’’ممکن ہے کہ کوئی روبل کا نوٹ ہو۔‘‘ پیلا گیا نے اندازہ لگایا۔

پھر اس نے تلاشی لی اور اس تلاشی کا ماحصل ایک بند لفافہ تھا، جو اَب اس کے ہاتھ میں تھا۔

لفافہ نہایت اعلیٰ کاغذ کا بنا ہوا تھا اور اس پر خط تحریر بھی بہت خوبصورت اور جاذب نظر تھا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ ملفوف سے یوڈی کلون کی ایسی عمدہ خوشبو آرہی تھی، ان تمام باتوں کو نوٹ کرکے یکبارگی پیلا گیا کا دل ڈوب گیا اور اسے وسوسوں نے گھیر لیا۔

’’کیا آئیوانی نکولائی وچ مجھے دھوکہ دے کر بیوقوف بنا رہا ہے اور شہر کی رسیلی اور مدھ بھری عورتوں کے ساتھ رومانوی خط و کتابت کررہا ہے، بڈھا کھوسٹ، مکار اور کمینہ اپنے خیالوں ہی خیالوں میں میرا مذاق بھی اڑاتا ہوگا، ہونہہ۔‘‘

آخر اپنے اندازوں کا کھرا کھوٹا الگ کرنے کے لیے پیلا گیا نے لفافہ چاک کیا اور اس سے خط نکال کر اس کو پڑھنے لگی لیکن ان پڑھ ہونے کے کارن ایک حرف تک نہ اٹھا سکی۔ تب اس فیصلہ کن گھڑی میں پیلا گیا کو اپنی زندگی میں پہلی بار ان پڑھ ہونے پر شدید سبکی اور خفت کا احساس ہوا۔

’’خواہ یہ خط کسی کا بھی ہو اور کہیں سے بھی آیا ہو، مجھے تو اس کے ایک ایک حرف، ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر کا صد فی صد علم ہونا چاہیے۔ کیا عجب ہے کہ اس کا علم اور انکشاف میری قسمت کو ہی بدل ڈالے اور پھر مجھے واپس گاؤں جانا پڑے اور پھر سے کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنا پڑے۔‘‘

اب پیلا گیا اسی قسم کی خود کلامی میں بہی جارہی تھی۔

اب گزرتے وقت کے ساتھ یہ خط اس کے لیے ایک دل آشوب خط بن گیا۔ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔ اب اس کا ذہن اور یادداشت قدرتاً ان نت نئی تبدیلیوں اور دلچسپیوں پر مرکوز ہونے لگی جنہیں وہ ماضی قریب میں آئیوانی نکولائی وچ کے سراپے میں داخل ہوتے دیکھ رہی تھی۔ مثلاً وہ اپنی چھوٹی سی مونچھوں کی تراش خراش کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اور وقت دے رہا تھا۔ پھر دن میں کئی بار ہاتھ منھ دھونا بھی ایک نئی بات تھی۔

پیلا گیا نے ایک بارپھر خط کو پڑھنے کی رائیگاں کوشش کی اور پھر بے اختیار رونے لگی۔ اب اس کو اس امر پر بڑی ندامت اور ہچکچاہٹ محسوس ہورہی تھی کہ وہ اپنے واقف یا ناواقف صاحبِ علم کے توسط سے اس خط کے امور غیبی کی معرفت پائے۔ پھر پیلا گیا نے کوٹ کی آستین کی مرمت کا کام مکمل کرلیا۔ اور خط کو کسی محفوظ جگہ پر چھپا دیا اور ٹک کر آئیوانی نکولائی وچ کا پُر صبر انتظار کرنے لگی اور جب وہ گھر واپس آیا تو پیلا گیا نے آج خلاف معمول اس کے ساتھ بڑے مزے کے ساتھ بڑی مزے مزے کی باتیں کیں، لیکن اپنے شکی، سوالیہ اور مضطرب خیالات کو بڑی ہوشیاری اور فن کاری کے ساتھ قابو میں رکھا۔

باتوں باتوں کے دوران اس نے اشارتاً اپنے شوہر کو جتلادیا کہ وہ حصولِ علم کے خلاف نہیں ہے اور پڑھنا چاہتی ہے اور اپنے ان پڑھ وجود سے بہت بیزار اور نالاں ہے۔

ایسے اشارات تو آئیوان نکولائی وچ کے لیے ایک انقلاب کی دبنگ تمہید تھے۔

’’زندہ باد، سوویت عورت زندہ باد، میں تمہیں خود پڑھاؤں گا۔‘‘

’’میں ہمہ تن تیار ہوں۔‘‘ پیلا گیا نے کہا۔

یہ کہتے کہتے پیلا گیا نے محبت میں ڈوب کر آئیوان نکولائی وچ کو دیکھا اور اس کے مزید قریب ہوکر اس کی ہلکی پھلکی مونچھوں اور بالوں سے کھیلنے لگی۔

دو مہینے گزر گئے ان کے تمام دن اس نے حروف شناسی اور ہجا فہمی میں گزار دیے۔ اب وہ بمشکل تمام کوئی نہ کوئی جملہ ٹوٹے پھوٹے انداز میں پڑھ لیتی، اس نے لکھنے کی مشق بھی کی۔ اور بے شمار الفاظ زبانی یاد کرلیے تھے۔ ہر رات سونے سے قبل اس مقدس ملفوف کو برآمد کرتی۔ اس کے حروف کو جوڑ توڑ کر ان کے معنوں تک رسائی کی کوشش کرتی لیکن گوہر مقصود ہاتھ نہیں آتا تھا۔لیکن اب وہ اس کوششِ رائیگاں سے دل شکستہ نہیں ہوتی تھی۔

پھر کہیں مزید تین مہینوں کی مدت گزر جانے کے بعد وہ کچھ نہ کچھ پڑھ لینے کے قابل ہوگئی۔ پھر ایک دن جب نکولائی وچ دفتر گیا ہوا تھا ا س نے دن کے سفیدے میں خط برآمد کیا، وہ خط کی تحریر سے یہ اندازہ تو نہیں کرسکتی تھی کہ وہ خط کسی عورت کا لکھا ہوا ہے یا کسی مرد کا، لیکن کاغذ سے آنے والی عطر کی خوشبو اس کو مسلسل اکسا رہی تھی کہ وہ اسے ضرور ہی پڑھے۔

یہ خط آئیوان نکولائی وچ کے نام تھا۔ پیارے کامریڈ کچ کن

میں تجھے موجودہ کتاب روانہ کررہی ہوں، میرا خیال ہے کہ تمہاری بیوی دو تین مہینے کی قلیل مدت میں پڑھنا لکھنا سیکھ لے گی۔ پیارے کامریڈ وعدہ کرو کہ تم اس کو ایسے کرنے کے لیے آمادہ کرلو گے، اس کو سمجھاؤ اور نکتہ بہ نکتہ کھول کر ذہن نشین کراؤ کہ عورت کا ان پڑھ رہنا درحقیقت کس قدر شرمناک ہے، کس قدر گھناؤنا ہے، اور باعثِ رسوائی ہے۔ اب ہم اس سال سے سوویت جمہوریت کے طول و عرض سے جہالت اور ناخواندگی کو ہر ممکنہ طریق سے حرف غلط کی طرح مٹانے کی تیاریاں کررہے ہیں لیکن ہم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی جہالت اور ناخواندگی سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں۔ اچھا پیارے آئیوان نکولائی وچ اس کارِ خیر میں غفلت مت کرنا۔

بہترین اشتراکی تمناؤں کے ساتھ

ماریا بلوخینا

پیلا گیا نے ایک بار خط پڑھنے کے بعد اسے دوبارہ پڑھا اور تب شدتِ غم نے اس کو دبوچ کر بے بس اور لاچار سا کردیا تھا اور وہ اپنے اندر ہی اندر ایک اہم بازی ہار کر ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ ایک بار پھر شدتِ غم سے اس کا دل بھر آیا۔ اور اب پیلا گیا پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146