چار انقلابی

فضل حق قریشی دہلوی

ان کا سرمایۂ معلومات اور علم اس قدر وسیع تھا کہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل ان کے لیے آسان ہوجاتا تھا۔ وہ اپنی روحوں کی گہرائی میں پہنچ کر، دل کی پنہائیوں میں ڈوب کر ان رموز کا پتہ لگالیتے تھے جو انسان کی فکر کے عام نقطہ نظر سے ناقابلِ ادراک ہوتے۔ ان کی قوتِ فہم، حیاتِ انسانی کے اسرار و رموز کی پیچیدہ گرہ کھول سکتی تھی۔ وہ ستاروں کی گردش و رفتار کو پہچانتے اور مہ و خورشید کے طلوع و غروب کی حقیقت کو سمجھتے تھے۔ وہ کہکشاں میں شامل ستاروں کی تعداد گنتے اور ان کے درمیانی فاصلوں کا اندازہ صحیح طور پر کرسکتے تھے۔

انھوں نے بیڑا اٹھایا تھا ہم جیسوں کی اصلاح کا۔ وہ متفق تھے، دنیا میں انقلاب پیدا کرنے پر۔ وہ متمنی تھے فرسودہ رسوم و قیود سے آزاد ہوکر ایک جدید نظام معاشرہ قائم کرنے کے۔ وہ بدل دینا چاہتے تھے ماضی کو حال میں اور حال کو مستقبل میں، اس طرح کہ وہ سب کے لیے قابل قبول ہو، کوئی اس پر معترض نہ ہو۔

پھر ایک دن وہ چاروں جمع ہوئے عظمتِ رفتہ کی یادگار ایک شکستہ آثار مقبرے کے بلند گنبد میں، جہاں صدیوں سے حیات انسانی نے سانس تک نہیں لیا تھا۔ جہاں عام لوگ دن کے وقت بھی جاتے ہوئے خوف کھاتے تھے، کیونکہ وہ الّوؤں اور چمگادڑوں کی آماجگاہ تھا۔ وحشی جانور تک وہاں قدم رکھنے سے گھبراتے تھے۔

وہاں سامان آرائش کی کمی تھی، ضروریات زندگی کا فقدان تھا۔ مرمریں میزیں تھیں نہ آبنوسی کرسیاں۔ تجربات کے لیے لیباریٹری تھیں نہ مطالعے کے لیے کتب خانے اور نہ پیچیدہ مسائل پر بحث و تمحیص کے لیے عالمانہ ماحول۔ وہ ان بے ثبات چیزوں سے بالکل بے نیاز تھے، مستغنی محض تھے۔ خود ان کے دماغ ان کی تجربہ گاہ تھے اور ان کے دل ان کے کتب خانے۔

مسلسل سات ہفتے اور پانچ دن تک وہ ایک دوسرے کے چہرے پر نظریں جمائے غور کرتے رہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا سے ظلم و ستم دور کرنے اور امن و عافیت کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمدن عالم میں تدریجی ترقی کے بجائے ایک ہنگامہ پرور انقلاب پیدا کیا جائے۔ انھوں نے سوچا کہ جس طرح حیات عالم عبارت ہے عناصر اربعہ یعنی آب و آتش اور باد و خاک سے، اسی طرح دنیا کا موجودہ نظام قائم ہے چار زبردست چیزوں سے یعنی زن، زر، زمین اور زور سے، لہٰذا اپنی قوتوں کو جوڑ کر نیا نظام قائم کرنا چاہیے۔

لیکن سوچنا یہ ہے کہ ابتدا کس پہلو سے ہو؟وہ یہ فیصلہ فوراً نہ کرسکے۔ انھوں نے پھر سوچنا شروع کردیا۔ لمحے، گھنٹے، دن اور ہفتے گزرتے چلے گئے۔ آخر کار گیارہ ہفتے اور تین دن بعد ان میں سے ایک فرد نے سنجیدہ صورت بناکر کہا:

’’املاک یعنی زر اور زمین دنیا کی دو بڑی نحوستیں ہیں اور میں محسوس کررہا ہوں کہ ان کی تقسیم میںمساوات کا مطلق لحاظ نہیں رکھا جاتا اس لیے میری رائے ہے کہ سرمایہ داری کو دنیا سے نیست و نابود کردینا چاہیے۔ کسی شے پر قبضہ انفرادی نہ ہو۔ تمام قدرتی پیداوار اور آمدنی میں حصول، متعلق ہو پوری قوم سے لیکن قومیت کسی ملک کے مخصوص دائرے تک محدود نہ ہو، بلکہ قوم نام ہو اقصائے عالم میں بسنے والی تمام نوع انسان کی ہیئت اجتماعی کا جو ازل سے ابد تک اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے۔‘‘

سب نے اس رائے کو سنا اور پھر سوچنا شروع کردیا۔

پندرہ ہفتے اور دو دن کے بعد دوسرے مصلح کے رنگ رخ پر اطمینان کے آثار نظر آئے اور اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا:

’’زر نہ زمین، بلکہ زن دنیاکے تمام مصائب و آلام کا سرچشمہ ہے، اس لیے میری استدعا ہے کہ جب بھی ممکن ہو اس جنس کو بالکل ارزاں کردیا جائے۔ اس کے نہ ہونے سے دنیا میں کوئی انقلاب ممکن نہیں ہوسکتا۔ میرے خیال میں مسئلہ ازدواج قابلِ ترمیم بلکہ لائقِ تنسیخ ہے۔ شادی کا موجودہ رواج حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ تعلقات جنسی قائم ہوں لیکن کسی قاعدے قانون کے بغیر، کسی مشروط عہد و پیمان کے بغیر۔ اصناف کو کامل آزادی ہو، کوئی کسی کی زوجہ نہ بنے اور کوئی کسی کا شوہر نہ ہو۔ نوزائیدہ بچوں کی پرورش صرف حکومت کی طرف سے بہبودی اطفال کے اداروں میں ہو۔ سرکاری طور پر ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہو۔ سیاسی حکمراں ان کا مربی ہو اور وہ اس کا متبنی کہلائے۔ عزیز و اقارب کا رشتہ قائم نہ ہو۔ قدرتی طور پر دلی محبت تعلقات کی وسیط نہ بنے۔‘‘

سب نے اس فیصلے کو بھی سنا اور پھر سوچنا شروع کردیا۔ سترہ ہفتے اور ایک دن کے بعد تیسرے مفکر نے اپنی نظر اٹھائی، گردوپیش کی چیزوں پر نگاہ ڈالی اور اطمینان کا سانس لے کر کہا:

’’زر نہ زن اور نہ زمین، بلکہ میرا خیال ہے کہ زور یا قوت عمل دنیا کی ہر چیز پر حاوی ہے۔ صرف اسی کے بل بوتے پر حوادث روزگار رونما ہوتے ہیں، اس لیے میں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ انسان کا زور گھٹا کر اسے ایک عضو معطل بنادیا جائے۔ ہم کو ذاتی طور پر کام کاج سے دامن الگ کرلینا چاہیے۔ ہاتھ پاؤں ہلانے کی کم سے کم ضرورت ہو۔ سائنس نے خاصی ترقی کرلی ہے۔ ہمیں جدید ترین آلات اور انکشافات حاضرہ سے مدد لینی چاہیے۔ اچھی طرح سدھائے ہوئے گوریلے یا آہنی انسان ہماری خدمت کریں۔ مشینوں اور برقی قوتوں کے ذریعہ فصلیں تیار کی جائیں۔ بجلی خود بخود ہمارے لیے خوردونوش کا انتظام کرے۔ صرف سورج کی بنفشی شعاعیں اور کہربائی لہریں ہماری معالج ہوں۔ ہمارا کام صرف اس قدر ہو کہ ہم ہوائی جہازوں یا ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر فضائے بسیط کی سیر کرتے پھریں، یعنی مطالعہ قدرت شغل حیات بن جائے۔‘‘

سب نے اس فیصلے کو سنا اور سوچنا شروع کردیا۔

انیس ہفتے اور ڈیڑھ دن کے بعد آخری فلسفی نے اپنے طلسم محویت کو توڑا اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی قدر بلند لہجے میں کہا:

’’دنیا میں تمام مصیبت اس خدا کے تصور نے پیدا کی ہے جسے کج فہم انسان کے بگڑے دماغ نے خود تخلیق کیا ہے، اس لیے میری رائے ہے کہ انسان کے نہاں خانہ دل سے اس کا تصور خارج کردیا جائے۔ میرا عقیدہ ہے کہ مذہب نام ہے فرسودہ توہمات کے گمراہ کن مجموعے کا جس کی دورِ حاضرہ میں ضرورت نہیں ہے۔ وہ عقائد جن کی صداقت کا تجزیہ منطقی دلائل کی رو سے غیر ممکن ہو، لائق پذیرائی نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح جب تک ’خود انسان کے پیدا کردہ خدا کا تصور‘ ہمارے ذہن پر مسلط رہے گا، ہم ہر قسم کی ترقی سے محروم رہیں گے، لہٰذا مذہب کے نقوش باطل کو لوح قلب سے مٹا دینا چاہیے۔‘‘

سب نے اس فیصلے کو بھی سنا اور پھر سوچنا شروع کردیا۔

وہ نو ہفتے اور ڈھائی دن تک ایک دوسرے کے نظریے پر غور و خوض کرتے رہے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کون سا نظریہ ان سب میں افضل ہے نیز یہ کہ اسے کس طرح دائرہ عمل میں لایا جائے۔

آخر وہ متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ سب سے پہلے کرہ ارض سے موجودہ نوع انسانی کو بالکل نیست و نابود کردیا جائے جس میں قبولیت اصلاح کی مطلق صلاحیت نہیں ہے اور یقینا انھوں نے اس رائے کو دائرہ عمل میں لانے کے لیے اپنی ہی چار ہستیوں سے ابتدا کی کیونکہ دوسرے دن وہ چاروں ہستیاں ’’توبر من بلاشدی‘‘ کی تفسیر بنے اس گنبد کے اندر مردہ حالت میں ملے جہاں حیاتِ انسانی نے سانس نہیں لیا تھا۔ جہاں صحیح دماغ مفکرین داخل ہونے سے خوف کھاتے تھے۔ کیوںکہ وہاں الوؤں اور چمگادڑوں کے علاوہ خبیث روحیں ہر وقت منڈلاتی رہتی تھیں۔ ان کے مرنے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی، البتہ جنگی پرندوں اور جانوروں کے لیے مرنے والوں کا گوشت سامانِ خوراک پیدا کرنے لگا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146