چال بازی

محمد طارق، کولہا پور

وہ لومڑی جنگل کی عام لومڑی نہیں تھی۔ اپنی چال بازی سے اس نے نہ جانے کتنے کوؤں کی چونچ سے اخروٹ حاصل کیے تھے۔ ان گنت اخروٹ ہضم کرکے لومڑی نے ڈکار تک نہیں لی تھی۔
آج مہنگائی کے دور میں اخروٹ کھانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ کوؤں کو پھر اخروٹ ملے کیسے! بے چارے کوؤں کو بمشکل سوکھی روٹی کے ٹکڑے مل جاتے ہیں جسے وہ اپنی چونچ میں دبائے خوشی خوشی کبھی کسی گھر کی منڈیر پر، کبھی کسی درخت کی شاخ پر بیٹھ کر کھا جاتےہیں۔
جنگل میں جب بھی لومڑی کی نظر چونچ میں روٹی دبائے کوؤں پر پڑجاتی تو وہ کوؤں کی تعریف کے پل باندھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ ان کا راگ سننے کے لیے ایسے بے تابی دکھاتی جیسے نیتا چناؤ جیتنے کے بعد کرسی حاصل کرنے کے لیے دکھاتے ہیں۔ کچھ سیدھے سادھے، بھولے بھالے کوّے لومڑی کی چال میں ایسے پھنس گئے جیسے سیدھی سادھی، بھولی بھالی جنتا نیتا کے فریبی جال میں پھنس جاتی ہے اور جیسے ہی کوے ’’کائیں‘‘ کرتے روٹی ان کی چونچ سے گرجاتی اور درخت کے نیچے کھڑی لومڑی، محنت سے حاصل کی ہوئی کوؤں کی روٹی لے کر رفو چکر ہوجاتی۔
اسی طرح زمانہ گزر رہا تھا — جنگل میں مکار لومڑی اپنی چالبازی سے بھولے بھالے کوؤں کی روٹی کھا کر اپنا پیٹ بھر رہی تھی ۔ موج مستی کررہی تھی۔
ایک دن لومڑی نے جنگل کے سب سے اونچے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر ایک کوّے کی چونچ میں ’’پوٗری‘‘ دیکھی۔ اس کا دل للچایا، منہ پانی سے بھرآیا۔ للچائے انداز میں کوے سے مخاطب ہوئی ’’کوے مہاراج! آپ کی چونچ میں پوری! لوگ کرونا وائرس سے خوفزدہ اور پریشان ہیں۔ دیش کے بیشتر علاقوں میں سوکھا بھی ہے۔ ہر طرف کسان خود کشی کررہے ہیں اور سرکار کے لائے ہوئے کرشی قانون کے خلاف آندولن میں گئے ہیں، مہنگائی سے مالدار، دونمبری دھندے باز، نیتا، ابھینتا، کالے دھن والے لوگوں کو چھوڑ کر سب ہی پریشان ہیں۔ آپ کی چونچ میں پوری!؟  بتائیے کوے جی! کہاں سے لائے؟‘‘
کوے نے گردن جھکاکر لومڑی کو دیکھا جو اپنی پچھلی ٹانگوں پر منہ اٹھائے کھڑی تھی —کوا کچھ نہ بولا۔
’’کچھ تو بولیے کوے مہاراج! کہاں سے لائے پوری؟‘‘
کوا چونچ میں پوری دبائے اُسے تکتا رہا …
’’کوے مہاراج! آپ جنگل کے سب سے اونچے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر براجمان ہیں۔ میں زمین پر ہوں، آپ نے اُڑ اُڑ کر تقریباً ساری دنیا دیکھ لی ہے۔ پھر بھی آپ کا سنسار درشن کا کام جاری ہے۔ میرا مارگ درشن کیجیے۔ آپ سارے مارگ درشکوں کے استاد ہیں۔ میں بھوکی ہوں۔ بھوکے کی بھوک مٹانا مہان لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ آپ مہان ہیں۔ ہر چیز کا آپ کو گیان ہے۔ کچھ تو بولیے۔ منہ تو کھولیے۔ کبھی آپ کام کی بات تو نہیں کرتے۔ آج اپنی من کی بات تو بتائیے۔‘‘
’’من کی بات‘‘ کی بات سن کر کوا پھولا نہ سمایا۔ فوراً چونچ میں دبی ہوئی پوری اپنے پنجوں میں پکڑی اور لومڑی سے مخاطب ہوا۔ ’’لومڑی صاحبہ! میں خوب جان گیا ہوں تمہاری چالوں کو، یاد رکھو میں تم سے زیادہ چالباز ہوں۔ راج نیتی نے مجھے یہ اچھی طرح سکھادیا ہے کہ دوسروں پر راج کرنے کی نیتی کو ہی راج نیتی کہتے ہیں۔ دوسری بات دنیا دیکھ دیکھ کر مجھ میں اتنا سلیقہ ضرور آگیا ہے کہ منہ میں اگر روٹی رہے تو منہ کو بند ہی رکھنا چاہیے۔ رہی پوری کی بات، تو سنو، میں نے پوری ان پونجی پتیوں کی تھال سے اڑائی ہے جو جنتا کو الو بنانے کے بعد عالیشان ہوٹل کے لان (Lawn) میں بیٹھ کر حلوہ پوری کھارہے تھے۔‘‘
اپنے من کی بات کہہ کر کوے نے پوری چونچ میں دبائی اور اڑ گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں