وہ غضب کی رات تھی۔
گہری لمبی رات … اور چاندنی صحن میں باہم الجھے پودوں میں دھنس رہی تھی۔
کھپریل کی چھتوں کے نیچے ہانپتی ہوئی برہنہ دیواروں سے اضطراب اور بے چینی چمٹ گئی تھی اور باہم الجھے پودوں میں دبکے سرمئی اندھیرے میں جیسے کوئی زور زور سے سانس لیتا ہو … قطعاً سکون نہ تھا۔
صحن میں بکھرے ہوئے بے ہنگم درختوں کے جھنڈ سے سر نکالتے یوکلپٹس اور سرو ہوا کی اٹکھیلیوں سے بے نیاز ہورہے تھے۔ اور ان کے نیم روشن، تھر تھراتے ہوئے پتے … اس کی نظروں میں ٹھہر گئے تھے۔ وہ جھلنگا کھاٹ پر اجلے بستر اور ململ کی سفید براق چادر کے بیچ ہڈیوں کا پنجر سا چت لیٹا رہا اور ہوا کی مسلسل دوڑدھوپ میں اس پر بکھری چادر مضطرب اور حیران ہوتی رہی۔
اوپر آسمان پر بادل کے آوارہ بجرے بہت دور کہیں جاکر سمٹ رہے تھے اور ننھے منے، ششدر و حیران ٹمٹماتے ہوئے ستارے کسی ان جانے خوف کے احساس تلے ہلکان ہورہے تھے۔ نیچے بان کی جھلنگا کھا ٹ پر … اس کے دل میں طوفان برپا تھا اور وہ اداس اور اکیلا خنک ہوا اس کے دہکتے ہوئے وجود کو تھپک تھپک کر سلانے کا جتن کررہی تھی۔ کبھی کبھار جب وہ ہواؤں کی التجاؤں کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہتا تو سکوت اس کے کانوں میں چیخنے لگتا، اور وہ بے چین ہوجاتا۔
وہ عجیب الجھن میں تھا اور اس کے کھلے چہرے پر دودھیا چاندنی ٹھہر سی گئی۔
وہ کیا کرے؟
وقت گڈ مڈ ہوگیا تھا۔ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا اور اس کی بائیں کلائی سے لپٹی گھڑی میں — وقت ٹھہر گیا تھا اس کی یادوں کے ساتھ، جس کے وجود سے اپنائیت کی بو آتی تھی جو سراپا خلوص تھا۔ اور یہی اس دنیا کی انوکھی بات تھی۔
اس کی زندگی رشتوں کے وسیع خلیج میں محروم جذبوں اور تشنہ حسرتوں کے ساتھ ڈوبتی ابھرتی اور سسکتی رہی تھی۔ اور تنہائیوں کی سولی پر اس کا وجود نیم روشن کانپتے پتوں کی تال پر تھر تھرارہا تھا۔ کہ اس کے وجود کی سرحدوں میں دل سے امڈتے طوفانوں نے شکست و ریخت پیدا کردی تھی۔
وہ سوچتا کاش! وہ صدیوں پہلے زندگی کی اس خلیج کو پار کرچکا ہوتا۔ وہ طارق بن زیاد کی فوج کا ایک معمولی سپاہی ہوتا۔ چٹیل میدانوں میں فتح کے پرچم گاڑنے کے بعد جب وہ خیمے کو لوٹتا تو وہاں زندگی ہوگی۔ اپنائیت کے بھر پور جذبوں کے ساتھ، رونقوں اور مسرتوں کے خزینے ہوتے۔ وہ اپنے کسی پیارے کی گود میں سر رکھ کر سوجاتا اور جلی ہوئی کشتیوں کا خیال اسے کبھی پریشان نہ کرتا۔ لیکن یہاں تو کچھ بھی نہ تھا، ہر طرف مردنی چھائی تھی، نقالوں کی عجیب دنیا تھی، تشنہ جذبوں کا اسیر، وہ جب کبھی پھیکی ہنسی ہنستا تو اس کی روح کے زخم اور گہرے ہوجاتے۔ وہ چٹیل میدانوں میں فتح کے پرچم، خیمے میں ڈھکے سکون کی حسرت میں گاڑنا چاہتا لیکن زمانے کی گرد میں خیمے اڑ چکے تھے، صرف تپتی دھوپ رہ گئی تھی۔
اسے لگا جیسے وہ ایک چوراہے پر کھڑا ہو، جہاں سے نکلنے والی تمام سڑکیں لمبے لمبے چکر کاٹتی ہوئی اسی جگہ آکر گم ہوجاتی ہوں اور ان سڑکوں سے نکلتے ہوئے انگنت راستے … چوراہے میں اس کے سوا کوئی نہیں لیکن رستوںپر بہت سے پیشہ ور لوگ مل جاتے ہیں ہر راہ گیر پر آوازے کسنے والے … وہ ان لوگوں سے سخت نالاں ہے۔
’’ہم مسافروں سے یہ سلوک کیوں؟‘‘ پھر وہ خود ہی سوچنے لگتا۔
ہم مسافر جو ٹھہرے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ منزل آسانی سے نہیں ملا کرتی۔‘‘
پھر جب وہ چورستہ دھندلکوں میں ڈوبنے لگا اور سنکتی ہوئی ہوا حبس کی زنجیریں توڑ کر چلی آئی تو اس کے قدم نہ جانے کیوں ایک طرف کو اٹھتے چلے گئے۔ اس کی جا گیر … اس کی تنہائی، اس کے ہم رکاب تھی اور سڑک کے دو رویہ یوکلپٹس اور شیشم کے درخت، اس کی نظریں جیسے کسی ایک جھلک کی متمنی ہوں، پر وہ کیا دیکھے؟ نیچے تا حد نظر تنہائیوں کی فصیل میں تاریکیاں مقید تھیں اور اوپر نیم روشن آسمان پر … مہ و انجم سے اسے کیا نسبت؟
آسمان پر رہنے والے گرتے ہیں، گر کر ٹوٹ جاتے ہیں۔
’’لیکن ٹوٹنے والوں سے میرا کیا رشتہ؟‘‘
’’کیا میں ٹوٹنے کا نتیجہ اور بکھرنے کا عمل تو نہیں۔‘‘
جب اس کی چھٹی حس اس باغی سوچ سے سمجھوتہ کرتی نظر آئی تو وہ واپس ہونے لگا کہ یک لحظہ ایک خوشبو اس کے وجود میں رچ بس گئی۔ وہی اپنائیت کی بو … وہ دو روشن، محبت سے بھر پور آنکھوں میں کھو گیا اور یہ سب معمول سے ہٹ کر ہوا تھا۔ اس نے ایک پل میں ماضی کے سارے غم، سارے دکھ بھلا ڈالے۔ ایک وجود سراپا نور، پیکر خلوص، آنکھوں میں بے پناہ سکون اور پیار کا خمار لیے اس پر سایۂ ابر رحمت بن گیا۔
اس کے اندر، زندگی میں پہلی دفعہ ٹھنڈ سی برسنے لگی۔ وجود کے حصار میں بند ہڈیوں کے پنجر کی صدیوں سے جاگتی، خمار آلود آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں تو اس پیکر خلوص نے اس کا سراپنی گود میں لے لیا۔
وہ صدیوں سوتا رہا اور اس کے دماغ کی اسکرین جاگتی رہی۔ اس نے اپنے محروم جذبوں، تشنہ حسرتوں اور ارمانوں کی تکمیل کے سارے خواب دیکھ ڈالے۔ اسے لگا جیسے اس وجود سے اس کے رشتوں کی خلیج پاٹ دی گئی ہو، جیسے اسے اس کی گم شدہ کائنات مل گئی ہو۔ بہر حال وہ سوتا، خواب دیکھتا رہا… کبھی کبھار ایک عجیب و غریب سرسراہٹ اس کے کانوں میں رینگتی تو اس کا سراپا کسمسا کے رہ جاتا۔ پھر جب یہ سرسراہٹ آواز کی صورت دھار گئی تو وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔
’’ہم تم کو اپن جیسا کرکے چھوڑے گا؟‘‘
اس نے ٹٹولتی نظروں سے ارد گرد کا جائزہ لیا لیکن کچھ بھی تو نہ تھا وہی یوکلپٹس اور شیشم کے درخت۔ اپنائیت کی بو گڈ مڈ راستوں میں کھوچکی تھی۔ شاید اسے برا لگا کہ اس نے خواب کیوں دیکھے۔ اس کی آنکھوں سے موتی برسنے لگے۔ وہ اس دن بہت ٹوٹ کر رویاتھا۔
وہ صدیوں کی تلاش میں مگن رہا۔ اس آس پر کہ وہی سراپا نور، پیکر خلوص، دنیا کے جنجالوں سے گھبرا کر پھرادھر ہی بھٹک آئے لیکن اس کے راستے ویران رہے۔
آخر کار تھک ہار کر بان کی جھلنگا کھاٹ پر گرا پڑا ہے۔ اس کے ویران چہرے پر چاندنی ٹھہر گئی اور چہرے پر اس کی روح کے کھدے ہوئے گہرے زخم واضح نظر آنے لگے ہیں۔ اس میں اتنی سکت بھی نہیں کہ ٹھہرے ہوئے وقت ہی کا تعین کرسکے۔
’’ٹک … ٹک … ٹک…‘‘ جیسے گھڑی چلنے لگی ہو اور ساتھ ہی اس کی یادیں بھی … وہ جس کی روشنی آنکھوں میں سموئی ہوئی ایک کائنات ہے۔
اسے لگا جیسے الجھے ہوئے درختوں میں دبکے سرمئی اندھیرے کے اندر کوئی زور زور سے سانس لیتا ہو۔ پھر یہ سانس لینے کی آواز اس کی ہڈیوں کے پنجر کے اندر ہی کہیں چلی آئی۔ اس کی سانسوں کا توازن ٹوٹ گیا تو اس کی آنکھیں دھندلا سی گئیں۔
درختوں کے جھنڈ کے عقب میں برستی چاندنی میں تنی کھڑی فصلیں اور ایک دھند، نم آلود فضا میں معلق تھی۔
’’آج شبنم دھرتی کی پیاس بجھانے نہیں آئے گی۔‘‘
’’بے ہنگم پودوں میں کھلے پھولوں کی نومولود پتیاں پیاسی رہ جائیں گی۔‘‘
اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ سے گئے اور اکھڑی ہوئی سانسیں ہچکیوں میں بدلتی چلی گئیں۔ اس نے گھڑی کی ٹک … ٹک کے ساتھ چلتی ہوئی اس کی یادوں پر اپنے سارے خزانے نچھاور کرڈالے۔
’’میں کسی کو پیاسا نہیں رہنے دوں گا، میں رشتوں کی خلیج پاٹ دوں گا، میں انسانیت کے محروم جذوں اور تشنہ حسرتوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں گا میں … میں …‘‘
’’شام ڈھلے منڈیروں پر پر پھیلا کر بانگ دینے والے مرغ کا انجام جانتے ہو؟‘‘ ایک سرسراہٹ آواز کا روپ دھار کر ہوا ہوگئی۔ اس کا رواں رواں کانپ اٹھا۔ پھر اس نے ہڈیوں کے پنجر میں جابجا بکھرے حوصلے کوجمع کیا۔
’’لیکن اگر اسے احساس ہوجائے کہ چہار جانب پھیلی دنیا میں روبوٹ اتر آئے ہیں؟ جب زندگی، خواہشات اور ہوس پرستی کی سولی پر اتنی محدود ہوکر رہ جائے تو اس مرغ کی قربانی رائیگاں نہیں جاتی۔ پھر یہ کہ غفلت کی نیند سونے والوں کو جگانے کا کوئی وقت مقرر تو نہیں ہوتا … وہ صبح کاذب ہو دوپہر یا شام؟‘‘
پھر وہ سوچنے لگا ’’صبح ، دوپہر یا شام کیا ہوتی ہے۔ شاید دنیا والوں نے خود کو وقت کا مقید کرلیا ہے۔‘‘ اس کے لیے تو وقت گڈ مڈ ہوگیا تھا اور بائیں کلائی سے لپٹی گھڑی میں …
’’تم پا…گل…گل گل…… ہو‘‘ ہو ا لفظوں کا روپ دھارتی سرسراہٹ کو دور ہی دور دھکیل رہی تھی۔
’’ہاں میں پاگل !… یا میرے ماحول میں روبوٹ اتر آئے ہیں میں کیا کروں؟ صرف وہی آنکھیں میری کائنات صرف وہی وجود جو اپنائیت کی خوشبو سے بھر پور ایک جہان ہے، پھر پھول اور خوشبو کو کیسے جدا کیا جاسکتا ہے؟‘‘
اس کی سسکیاں آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں جیسے دور بہت دور سانس لینے والا قریب آگیا ہو۔
’’اپنے ماحول سے نفرت کرنے والوں سے دنیا نفرتی کرتی ہے۔‘‘
’’اپنے ماحول میں آگ لگی ہو تو؟‘‘
’’اپنے ماحول کی آگ … اپنی ہی تو ہوتی ……نا‘‘
اس نے جلدی سے سر جھٹک کر چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ خنگ ہوا، اس کے وجود سے لپٹی، اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اچانک پورے ماحول میں ایک خوشبو سی بھر گئی۔ دبیز ہوتی ہوئی چاندنی میں … اس کی کائنات … دو روشن آنکھیں اور وہی سراپا نور وہی پیکر خلوص اس کے سامنے تھی۔ وہ سارے غم بھول گیا پھر بھی پتہ نہیں کیوں اس کی آنکھوں سے موتی لڑھکنے لگے اور موتیوں کا کیا ہے؟ چننے والا کوئی نہ ہو تو بھی لڑھک پڑتے ہیں اور چننے والا آجائے تب بھی!!