’’امی دلہن واقعی بہت پیاری لگ رہی تھی ناں۔‘‘
’’ہاں بھئی! مسز انیس نے بھی تو چاند سی دلہن ڈھونڈنے میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ لڑکی لمبی بھی ہو، پڑھی لکھی بھی ہو، بڑے گھر والی بھی ہو اور خوب صورتی وہ تو ہر ایک کی چاہت ہوتی ہے۔ چلو ان کی محنت رنگ لائی۔‘‘
’’اس پر لاکھوں لاکھوں کا جوڑا اور جویلری اور ہزاروں کا میک اپ… کھانا بھی بہت اچھا تھا‘‘ ابو نے بھی لقمہ دیا۔ ولیمے سے واپسی پر یہ سب تبصرے گاڑی میں بیٹھتے ہی شروع ہوگئے تھے۔
شگفتہ بیگم کی آنکھ صبح دیر سے ہی کھلی… اور اٹھتے ہی گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے دس بج رہے تھے۔ گھبرا کر اٹھیں۔ ماسی ابھی تک نہیں آئی تھی…
’’شادی ان کے گھر پر ہے اور چھٹیاں کر کر کے اس نے ہمارا بیڑا غرق کیا ہوا ہے…‘‘ وہ غصے سے بڑبڑائیں… ’’اب آئے ذرا یہ میں ابھی اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لیتی ہوں…‘‘ (در اصل زرینہ مسز انیس کے گھر پر بھی کام کرتی ہے) زرینہ کی راہ تکتے تکتے دوپہر ہوگئی، تب تک شگفتہ بیگم ضروری کام خود ہی سمیٹ چکی تھیں کہ تھکے قدموں اور رونی صورت لیے زرینہ وارد ہوئی۔
’’ہاں ہاں بھائی فرصت مل گئی… شادی ان کے گھر اور سزا ہمیں مل رہی ہے۔‘‘
’’باجی کام کراکر میرا برا حشر کر دیا انھوں نے، اور پیسے دیتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے… دکھاوے کے لیے تو ان کے پاس لاکھوں ہیں لیکن غریب کو دینے کے لیے نہیں ہیں… باجی ہم بھی انسان ہیں۔‘‘
’’چلو جانے دو، اللہ پوچھ لے گا ان سے۔‘‘ شگفتہ بیگم کو ترس آہی گیا اور انھوں نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اسے تسلی دی۔ مشکل سے دو مہینے بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ ایک دن زرینہ خبر لائی کہ ’’باجی ان کی گھر ساس بہو میں خوب لڑائیاں ہو رہی ہیں۔۔۔‘‘
’’ارے بھائی، جہاں چار برتن ہوں وہاں کھٹ پٹ تو ہوتی ہی ہے، ابھی نئی دلہن آئی ہے، کچھ وقت تو لگے گا اسے ان کو سمجھنے میں…‘‘
’’ہاں باجی! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں… دلہن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پورا دن کمرے سے باہر نہیں نکلتی، اپنے بڑے سے فون پر لگی رہتی ہے اور یہ باہر بیٹھی کڑھتی رہتی ہیں اور بڑبڑاتی رہتی ہیں، اور اگر وہ باہر نکلتی بھی ہے تو یہ طنز بھرے جملوں کا وار کردیتی ہیں… اور وہ جوان کی بچی بھی دلیرانہ مقابلہ کرتی ہے، اور پھر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے… مجھے تو یہ دال گلتی نظر نہیں آہی۔‘‘
’’ارے بھئی اول فول مت بکو… ابھی تو انھوں نے اتنے چاؤ سے بیٹے کا گھر بسایا ہے، پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے۔ ایک تو میں اس پر حیران ہوں کہ چاند جیسی بہوؤں میں گرہن بھی بہت جلد ہی لگ جاتا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ امیدیں باندھ لی جاتی ہیں، اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو برداشت نہیں ہو پاتا اور طنز اور طعنوں کے تیر آنے والی کا دل چیرتے رہتے ہیں۔ وہاں تو برداشت کا مادہ بالکل بھی نہیں ہوتا، اس لیے جوابی کارروائی معاملے کو مزید الجھا دیتی ہے۔ آنے والی بہووں کے لیے ’’خاموشی‘‘ بہترین ہتھیار ہے، لیکن وہ استعمال کریں تب ناں… والدین لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں لیکن یہ پڑھی لکھی لڑکیاں نہ جانے خود کو کیا سمجھنے لگتی ہیں کہ نہ شوہر انہیں کچھ کہہ سکتے ہیں، نہ ساس کا کچھ کہنا انہیں گوارا ہے۔ دیر سے اٹھنا، گھر اور اس کے تمام معاملات سے لاتعلق رہنا، اپنے کمرے میں ہی اپنی دنیا بسانا اور چوبیس گھنٹے سوشل میڈیا سے منسلک رہنا اور شوہر کے آتے ہی باہر نکل جانا… یہ ساری وجوہات ہیں جو چاند جیسی بہو میں بہت جلد گرہن لگا دیتی ہیں۔‘‘
کچھ قصور ساسوں کا بھی ہے۔ وہ نئی آنے والی کو تھوڑا وقت دیں… آہستہ آہستہ وہ آپ کے ڈھب پر آجائے گی… لیکن وہ بے چاریاں اپنے بیٹے کی محبت کو تقسیم ہوتا نہیں دیکھ پاتیں اور حسد کی آگ میں جلنا شروع ہو جاتی ہیں اور بہو کا موازنہ خود سے شروع کر دیتی ہیں ’’ہم تو یہ کرتے تھے… ہم تو وہ … ہم تو ایسے…‘‘ یہ سوچیں انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔
اس ساری صورت حال کو اگر ان کا بیٹا ہینڈل نہیں کر پاتا تو گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ بیٹے کو چاہیے کہ بیوی کا دل بھی خوش کرے لیکن ماں کے دل کو بھی ٹھیس نہ لگنے دے۔ بیوی کو پہلے دن ہی سمجھا دے ’’یہ میری ماں ہیں جیسی بھی ہیں، ان کی ہر صحیح بات تو صحیح ہے ہی لیکن غلط بھی صحیح ہے، کیوں کہ یہ ماں ہیں۔‘‘ یہ بات اگر پیار سے سمجھا دی جائے اور آنے والی سمجھ لے تو ایک پائیدار گھرانے کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔
’’شک‘‘ کی بیماری شادی شدہ زندگی میں دیمک کا کردار ادا کرتی ہے، اس سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اور اس گاڑی میں پیٹرول کا کردار ادا کرنے والی چیز ہے ’’قربانی‘‘۔ ہر محبت قربانی مانگتی ہے۔ ہر ایک کا دل جیتا جاسکتا ہے اگر اپنے دل کو سمجھانا آگیا تو۔۔۔ یہ وقتی قربانیاں آنے والی بہت ساری خوشیوں کا خزانہ ثابت ہوتی ہیں، لیکن یہ بات سمجھ کر عمل کرنا ضروری ہے۔۔۔ آزمائش شرط ہے۔
اس رشتے کو بچانے کے لیے اور اسے کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ایک اور چیز کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، اور وہ ہے ’’آپ کی ناک۔‘‘ دوسرے لفظوں میں ’’شیطان کا وار۔‘‘ اس ناک کے چکر میں نہ جانے کتنے گھر اجڑ چکے ہیں۔
ہم ہر رشتے میں صرف وصول کرنا چاہتے ہیں اور دیتے ہوئے ہماری جان جاتی ہے… یہ چیز بھی بڑی بری ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ میاں بیوی کے تعلقات میں برابری نہیں ہے۔ شوہر کا درجہ بیوی سے زیادہ سے، وہ سرپرست ہے، اس بات کو دل سے قبول کرلیں، یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔‘‘