میں نے بی اے پاس کیا تھا کہ میری شادی ہوگئی۔ میرے پاپا آئی سی ایس تھے اور سسر بہادر خان گل زیب خاں بہت بڑے جاگیردار۔ میرے شوہر اپنے پاپا کا ہاتھ جاگیر کے انتظام میں بٹاتے تھے۔ شادی سے پہلے میں ایک آزاد پنچھی کی طرح فضا میں اڑان بھرسکتی تھی مگر شادی کے بعد کے تجربات بے حد تلخ تھے۔
میری ساس اپنے زمانہ کی مڈل پاس تھیں اور ان کے زمانے میں مڈل پاس ہونا، بہت بڑی بات مانی جاتی تھی۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ ان کی ہدایات پر سب کو چلنا چاہیے۔ وہ کہتی تھیں کہ اچھی بہو کی پہچان یہ ہے کہ آٹا گوندھتے وقت بھی بہو بالکل نہ ہلے جلے۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی ساس نے مجھے ستم کی چکی میں پسنے کے لیے ڈال دیا جس میں عموماً اس ملک کی بہوئیں ڈالی جاتی ہیں۔
میری مڈل پاس ساس کا فرمان ہوتا تھا: ’’تمہارے کپڑے شوخ اور بھڑکیلے کیوں ہیں؟ تمہیں اپنے بال بنانے اور سجانے کا شوق جنون کی حد تک کیوں ہے؟ کیا یہ اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کے طور طریقے ہیں؟ تمھیں اپنی ہنسی پر قابو کیوں نہیں رہتا؟ جب دیکھو بتیسی نکلی رہتی ہے اور پھر تمھیں ہرگز ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔‘‘
ان کی ہر بات درست تھی اور میری ہر بات کم عقلی کی دلیل۔ کیونکہ وہ ساس تھیں اور میں بہو۔ کچھ ہی دنوں میں میں مائیکے کی ساری اکڑ بھول گئی۔ میں ایک ایسی بھیگی بلی تھی جس کو گھر کاہر فرد جب چاہتا ڈانٹ دیتا تھا۔ ان لوگوں کا ایک ایک لفظ میرے سینے میں بھالے کی طرح اترتاتھا۔ اور ان کی ہر تیکھی چتون میرے جسم کے اندر غم، غصہ، بے بسی اور نفرت کے طوفان اٹھانے کا ذریعہ بنتی تھی۔ میں بے بس تھی۔ ماں باپ کہتے تھے کہ شادی کے بعد تمہاری قسمت تمہارے ساتھ ہے۔ میرا آخری سہارا تھا میرا شوہر مگر وہ تو ماں باپ کا لاڈلا تھا۔ شوہر سے اگر کبھی میں ان کی ماں کے متعلق کچھ کہتی تو ان کا ٹکسالی جواب یہی ہوتا کہ ’’اگر میں تمہاری بات مان لوں تو میری ماں کسی ڈائن سے کم نہیں مگر میں جانتا ہوں کہ میری ماں مجھے اور تمھیں کتنا چاہتی ہیں۔‘‘
پھر جب میرا پہلا بچہ ہوا تو میری ساس نے میری ماں اور نانی تک کے لتے لے ڈالے کہ وہ دونوں بے وقوف اور بے عقل تھیں۔ انھوں نے لڑکی کو پڑھا تو دیا اور فیشن کرنا بھی سکھا دیا مگر بچوں کی دیکھ بھال کے بارے میں کچھ نہ سکھایا۔ اس وقت ایک خیال میرے ذہن میں آتا تھا کہ مجھے پڑھانے لکھانے سے بہتر تو یہ تھا کہ میرے ماں باپ مجھے آیا، دائی اور رسوئیے کا کام سکھا دیتے۔ شاید میری سسرال والوں کو ایسی بہو کی ضرورت تھی۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ جب میرا شعیب بڑا ہوگا اور اس کی شادی ہوگی تو میں کیسی ساس بنوں گی؟ کیا میں بھی ان کے ہر معاملے میں دخل اندازی کروں گی، میرا فیصلہ ہوتا، نہیں میں ایک آئیڈیل ساس بن کر دکھاؤں گی۔ میری شادی کے دس سال بعد تک میری ساس نے پوری طرح مجھے اپنے شکنجے میں جکڑے رکھا۔ پھر وہ چل بسیں تو ان کے بعد گھر کی تمام ذمہ داری مجھ پر آن پڑی۔
وقت گزرتا گیا میرا شعیب ڈاکٹر بن گیا۔ وہ بہت قابل، ہونہار، خوبصورت اور صحت مند نوجوان تھا۔ ایسا کہ دیکھتے ہی دل میں سما جائے۔ وہ ایک مثالی بیٹا تھا، مجھے اس پر فخر تھا۔ اس کے لیے کئی جگہ سے رشتے آئے۔ ہم نے شعیب سے کہا بھی کہ تم اپنی مرضی کی لڑکی سے شادی کرسکتے ہو۔ مگر اس کا جواب یہی ہوتا، ’’امی جان! آپ لڑکی دیکھئے اس کا خاندان دیکھئے، اپنا اطمینان ہوجانے پر بس اتنا کہہ دیجیے کہ شعیب تمہارے لیے ہم نے یہ لڑکی پسند کی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ثمینہ سرخیل سائیکیٹرسٹ تھی۔ اس کی پریکٹس اچھی خاصی چل رہی تھی۔ گلاب کے پھول کی طرح کھلا ہوا، ہر وقت مسکراتا چہرہ، سروقد، بے حد نکھرا رنگ، لاکھوں میں ایک لڑکی تھی۔ اس کے ماں باپ بے حد امیر تھے، مگر وہ بے حد سادگی سے رہتی تھی۔ غرور سے کوسوں دور، وہ ہم سب کوپسند آئی۔
مسنون طریقہ پر شعیب اور ثمینہ کی شادی ہوگئی۔ ان دونوں نے شہر میں پریکٹس کرنے کی سوچی۔ ہم نے اپنا شہر والا بنگلہ دوسرے سامان کے ساتھ، اپنے تمام خاندانی چینی کے قیمتی برتن، خوبصورت خاندانی صوفہ سیٹ، جس پر نیلے رنگ کا شینیل کا قیمتی کپڑا چڑھا ہوا تھا، ان لوگوں کو دے دیا۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی اپنے فارم پر چلے گئے۔
شعیب اور ثمینہ نے بار بار بلاوے بھیجے مگر ہم جان بوجھ کر شہر نہیں گئے۔ ہم نے سوچا کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ان دنوں کسی اور کو ان کے قریب رہنے کا حق نہیں۔ آخر شعیب اور ثمینہ خود ہی ہمیں لینے آگئے۔ میرے شوہر نے کہا کہ جاگیر کے کام سے انھیں ابھی فرصت نہیں۔ چنانچہ مجھے ان کے ساتھ جانے کو کہہ دیا۔
میرے امتحان کا وقت آگیا تھا۔ میں ساس بن کر بہو کے گھر جارہی تھی۔ شہر پہنچ کر پتہ چلا کہ بہو اور بیٹے کے گھر اکثر پارٹیاں ہوتی رہتی ہیں۔ دونوں ڈاکٹر تھے۔ ان کے ملنے جلنے والے دوست اور مریض سب ہی مشہور، دولت مند لوگ یا بڑے افسر تھے۔ یہ بات فوراً میری سمجھ میں آگئی کہ یہ پارٹیاں ان کے کاروبار کے لیے ازحد ضروری تھیں۔ انھوں نے مجھ سے بھی کئی بار ان پارٹیوں میں شمولیت کی درخواست کی، مگر میں نے بڑے پیار سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میری عمر اب پارٹیوں کی نہیں رہی ہے۔ ویسے بھی میں اپنے آپ کو خوب مصروف رکھتی تھی۔ اپنے رب کا نام پہلے ہی کم لیا تھا مگر اب پابندی سے عبادت کرتی تھی۔
مجھے آئے ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک ایک کرکے تین زخم مجھے اپنے دل پر محسوس ہوئے۔ ایک تو میرے آنے کے فوراً بعد انھوں نے چار ہزار روپیہ کا صوفہ سیٹ خریدا۔ تین ہزار کی نئی کراکری لی۔ میری نظر میں یہ سراسر فضول خرچی تھی جب گھر میں ہر چیز موجود ہو پیسہ کو اس طرح آگ لگانے کا مطلب؟ وجہ میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ میں نے شعیب سے اشارتاً بات بھی کی مگر اس نے کوئی ڈھنگ کا جواب نہ دیا۔ میرا دل بجھ سا گیا۔ دوسرا صدمہ مجھے اس وقت ہوا جب ہمارے خاندان سے قریبی تعلقات رکھنے والے مولانا سید احمد کے لڑکے کی شادی کا موقع آیا۔ اس شادی پر نہ تو شعیب اور ثمینہ خود گئے اور نہ مجھے جانے کو کہا۔ آخری چوٹ میرے دل پر یہ دیکھ کر لگی کہ گھر پوری طرح نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ بہو گھر کی دیکھ بھال اور اس کے اخراجات کی طرف کوئی توجہ نہ دیتی تھی اور نوکر اچھی طرح سے ان کو لوٹ رہے تھے۔
میرے اندر سے لاوا ابلنا شروع ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ لاوا بے قابو ہوکر پھٹ پڑے اگر میں چلی جاؤں تو اچھا رہے گا۔ میں نے دو تین بار واپس جانے کی بات چھیڑی تو وہ دونوں اڑگئے کہ اتنی جلدی آپ کو ہرگز جانے نہ دیں گے۔
ایک دوپہر کو ثمینہ خلاف امید گھر آئی۔ میں اس وقت تلاوت کلام پاک کررہی تھی۔ تلاوت ختم ہوئی تو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے دو پیالی چائے بنائی اور پھر ہم دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ میں نے بیتے دنوں کی باتیں چھیڑ دیں۔ اپنے بچپن کی باتیں، اپنی ساس اور اس کے ظلم کی باتیں۔ باتیں کرتے کرتے اچانک میں رک گئی کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ میں اب خود ساس ہوں۔ کیوں اپنی بہو کے سامنے اپنے دکھڑے رو رہی ہوں۔ کیوں اپنی کمزوریاں بہو پر ظاہر کروں۔ اس لمحہ ساس میرے اندر جاگ اٹھی اور میں چپ بیٹھی رہی۔ وہ ڈاکٹر تھی شاید وہ میری الجھن سمجھ گئی۔ بڑے پیار سے اس نے کہا:
’’امی جان! اگر آپ یہ سمجھ لیں کہ میں آپ کی بہو نہیں بیٹی ہوں تو کیسی رہے گی؟ ماں بیٹی کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا؟ نہیں ہوتا نا؟ آپ اپنی بیٹی کو بے جھجک بتادیجیے کہ آپ کس وجہ سے یہاں سے جانا چاہتی ہیں؟ اگر آپ اپنے دل کی بات دل ہی میں رکھیں گی تو آپ کو دکھ ہوگا اور یہ دکھ بڑھ کر درد بن جائے گا اور درد بڑھ کر ناسور بن جاتا ہے۔ مجھے آپ پر فخر ہے۔ میں سب سے یہی کہتی پھرتی ہوں کہ میری امی جان پڑھی لکھی ہیں۔ وہ ہر مسئلہ پر غور کرسکتی ہیں اور اس کا مناسب حل نکال سکتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ آپس میں بات چیت کرنے سے غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے آپ مجھے وجہ بتا ہی دیجیے۔‘‘
اس نے بڑے ادب سے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ ہاتھ بہو کا نہیں بیٹی کا ہاتھ تھا، محبت بھرا، اعتماد بھرا۔ میرے اندر کی ساس کچھ نرم پڑگئی اور میں نے اپنے دل کی تمام باتیں کہہ سنائیں۔
ثمینہ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، مجھ سے اجازت لے کر وہ اندر گئی اور اندر سے ٹو ان ون لے آئی۔ اس نے کہا: ’’امی جان! یہ ٹیپ ریکارڈر ہم نے اپنے گھر میں کی گئی ایک پارٹی کے موقع پر بھرلیا تھا۔ ویسے یہ آپ کو سنانے کے لیے نہیں تھا۔ میں تو صرف ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ہر مہمان کی فطرت اور رجحان کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہتی تھی، اسی لیے میں نے یہ باتیں ٹیپ کرلی تھیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ٹیپ آن کردیا کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں سنائی دیتی رہیں پھر ایک مردانہ آواز ابھری: ’’ڈاکٹر شعیب! یار یہ صوفہ کس صدی کا ہے؟‘‘
ایک زنانہ آواز جواب میں ابھری ’’یہ اس زمانہ کا ہے، جب انگریز پہلے پہلے ہندوستان آئے تھے۔‘‘
دوسری زنانہ آواز ابھری: ’’بھئی میٹریل تو بہت مضبوط ہے، اور ایسی شنیل آج کل کہاں ملتی ہے؟ شعیب کے پوتے کے دور تک یہ صوفہ ضرور چلے گا۔‘‘
ایک اور مردانہ آواز ابھری: ’’بھئی! آپ نے کراکری کی داد تو دی نہیں۔ جب چین کے لوگوں نے پہلی بار کراکری بنائی تھی تو ہمارے ڈاکٹر کے پردادا کے پردادا کے حضور میں پیش کی تھی۔ کیا خاندانی چیز ہے۔‘‘
دوسری آواز ابھری : ’’کیوں نہ کراکری کو سالار جنگ میوزیم میں رکھ دیا جائے۔‘‘
تیسرے نے کہا: ’’اتنی بیش بہا چیزیں یہاں موجود ہیں تو کیوں نہ یہیں میوزیم کھول دیا جائے۔‘‘
اپنے عزیز ترین قیمتی خاندانی خزانے کے متعلق لوگوں کی یہ ناقدری کی باتیں سن کر پسینہ کے قطرے میرے ماتھے پر پھوٹ پڑے۔
ثمینہ نے کہا: ’’امی جان! آج دنیا میں خاندانی آدمی نہیں ملتے۔ سب دولت کے پجاری ہیں، مگر ہمیں ان لوگوں کے ساتھ نبھانا پڑتا ہے۔ آپ کے خاندان کی عزت برقرار رکھنے کے لیے، لوگوں کے تمسخر سے خاندان کی آبرو بچانے کے لیے سات ہزار تو کیا سات لاکھ بھی تھوڑے ہیں۔‘‘
میری دوسری کھٹک کے جواب میں ثمینہ نے مولانا سید احمد کے لڑکے کی شادی کا کارڈ میرے سامنے رکھ دیا۔ شادی کے دعوت نامہ پر صرف دونوں میاں بیوی کے نام تھے، چونکہ مجھے بلایاہی نہیں گیا تھا، اس لیے یہ لوگ بھی شادی میں یہ سوچ کر نہیں گئے کہ کہیں میرے دل کو چوٹ نہ لگے یہ ان کی عظمت تھی۔
پھر گھر گرہستی کے متعلق ثمینہ نے کہا: ’’امی جان! میں سات سال کی عمر سے ہوسٹلوں میں رہی ہوں، اس لیے میں گھر کے کام کاج میں بالکل کوری ہوں۔ اب اپنے کام سے فرصت ملتے ہی میں آپ کے پاس حاضر ہوجایا کروں گی اور آپ مجھے تمام امورِ خانہ داری سکھا دیجیے گا۔ آپ اطمینان رکھیے، آپ کی بیٹی بہت جلد سیکھ جائے گی اور پھر آپ جیسی سگھڑ ماں سے سیکھ کر کون خوش نہیں ہوگا؟‘‘
میرے اندر کی ساس مرگئی اور ممتا کے سوتے میرے اندر سے ابل پڑے۔ ثمینہ میری کھلی باہوں کے گھیرے میں چلی آئی۔ ساس سے ماں بن کر روح کو کتنا سکون ملتا ہے، یہ بات میں محسوس تو کررہی تھی مگر اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
پوری رات میں سو نہ سکی۔ خیالوں کا ریلا تھا کہ امڈا ہی چلا آتا تھا۔ میں سوچتی رہی کہ آخر یہاں کیا کرنے آئی ہوں؟ آرام کرنے کے لیے؟ سکھ پانے کے لیے؟ حکومت چلانے کے لیے؟ غم و غصہ کے پہاڑوں کا بوجھ ڈھونے کے لیے؟ آخر میرا کیا فرض ہے؟ اگر میں اپنے فرائض ادا نہیں کرسکتی تو میں اپنے بچوں سے کیا توقع رکھ سکتی ہوں؟ کیا دریا کا منبع دریا کے نشیب میں ہوتا ہے؟ اور اگر میں ماں ہوکر اپنے بچوں کو سکھ نہیں دے سکتی تو مجھے اعتراض کرنے، اداس ہونے یا غصہ کرنے کا کیا حق ہے؟ اور اگر میں شعیب کو بیٹا کہہ کراپنا سب کچھ اس پر نچھاور کرنے کو تیار ہوں تو ثمینہ کو بہو کی جگہ بیٹی سمجھ کر کیوں نہ سب کچھ اس پر بھی نچھاور کرنے کو تیار ہوجاؤں؟
صبح ہوتے ہوتے میں نے اپنا فرض پورا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
صبح کو چار بجے میں نے بستر چھوڑ دیا اور نوکروں کو کام اچھی طرح سکھانے کے لیے انھیں اپنے ساتھ ہی کام پر لگالیا۔
ناشتہ کی میز پر جب شعیب کے سامنے اس کی من پسند کھیر آئی جس میں پستے اور بادام افراط سے تھے تو وہ خوشی کے مارے کرسی سے تقریباً اچھل پڑا۔ اور ثمینہ نے پوری، آلو مٹر کا قیمہ اور روے کا حلوہ سامنے دیکھا تو ان چیزوں کی خوشبو کو اس نے ایک سانس میں سمو لیا اور کہا : ’’امی جان! اس خوشبو سے تو میرے دل میں آپ کی ممنونیت کی لہریں اٹھنے لگی ہیں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کا گلا بھر آیا اور پھر بڑی عجیب بات یہ ہوئی اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور وہ مجھ سے لپٹ گئی۔
بیٹے اور بہو کو خوش دیکھ کر میری ممتا بھری روح خوشی سے سیراب ہوگئی۔ اب میں یہ اٹل فیصلہ کرچکی تھی کہ میں ساس کبھی نہیں بنوں گی، صرف ماں رہوں گی۔ بچوں کی ہر ضرورت کو سمجھنے والی ہر وقت انھیں چاہنے والی، ہمیشہ انھیں معاف کرسکنے والی، محبت اور چاہت سے بھرپور ماں۔
——