فلیچر ازم غذا کو خوب چبا کر کھانے کا عمل ہے۔ جو اس صدی کے شروع میں بہت مشہور تھا۔ اس نظریے کو اس وقت زیادہ اہمیت حاصل ہوئی، جب ضرورت سے زیادہ موٹے ایک امریکی بزنس مین ہوریس فلیچر نے چالیس سال کی عمر میں اپنی بری صحت کی بنا ء پر اپنے کاروبار میں دلچسپی لینا چھوڑدی اور فوراً صحت کی بحالی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے تمام امراص کے علاج کی بنیاد سر کی جانب ہاضمے کے فارمولے پر رکھی۔ اس طریقہ علاج کو ولیم گلیڈ سٹون نے جو برطانیہ کے ایک عمر رسیدہ سیاست دان تھے، دریافت کیا تھاوہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کے باعث مشہور تھے۔ گلیڈ سٹون غذا کو چبا کر کھانے پر بہت زور دیتے تھے۔ وہ اپنے آٹھ بچوں کو اکثر کہا کرتے تھے کہ نوالے کو اپنے تمام دانتوں سے ۳۲ دفعہ چبا کر نگلیں۔ ان تمام نصیحتوں پر ہاریس فلیچر نے عمل کیا اور اس نے خیال کیا کہ یقینا گلیڈ سٹون کی صحت کا یہی راز ہے۔ موزوں غذائیت کے حصول کا تعلق بھی غذا کو چبانے ہی سے ہے۔ غذا کو اس حد تک چبائیں کہ وہ بغیر کسی تردد کے خود بخود حلق سے اترجائے۔ یہی وہ طریقہ کار تھا جس کی تبلیغ فلیچر ساری زندگی لوگوں کو کرتا رہا اور زیادہ چبانے کا عمل فلیچر ازم کہلانے لگا۔ لیکن اس کا یہ دعویٰ کس حد تک درست تھا، آئیے دیکھتے ہیں۔
غذا کو منہ میں چبانے کا اصل مقصد اسے چھوٹے چھوٹے ذرات کی شکل میں توڑنا ہوتا ہے تاکہ منہ میں موجود لعابی غدود سے نکلنے والا لعاب خوراک میں اچھی طرح شامل ہوکر اسے نرم کردے اور خوراک بآسانی نگلی جاسکے۔ چونکہ معدے میں دانت نہیں ہوتے اس لیے اگر غذا کو بغیر چبائے نگل لیا جائے تو معدے کو بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس سے ہاضمے میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور کھائی ہوئی غذا کو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر ہم گوشت کی ایک بوٹی کو ثابت نگل لیں تو دو گھنٹے میں اس بوٹی کا صرف بیرونی حصہ ہی قابل ہضم بنے گا۔ لیکن اگر نگلنے سے قبل اسے اچھی طرح چبا لیا جائے تو چبانے کے باعث گوشت کے تمام ریشوں پر ہضمی خامروں کی رسانی ہوگی اور دو گھنٹوں کے وقفے میں سارے کا سارا گوشت ہضم ہوجائے گا۔
دانتوں کے سرجن غذا کو چبانے کی اہمیت کو مختلف تجربات سے واضح کرچکے ہیں۔ خوراک کو اچھی طرح چبا کر کھانا ہاضمے کے لیے مددگار ہوتا ہے۔ ایک تجربے میں ماہرین نے عام کھائی جانے والی ۲۹ غذاؤں کو جالی دار کاٹن کی تھیلیوں میں بند کیا۔ کچھ تھیلیوں میں غذا کو ننھے ننھے ٹکڑوں کی شکل میں توڑ کر پیک کیا گیا اور کچھ غذاؤں کو ان کی اصلی حالت میں پیک کیا گیا اور یہ تھیلیاں رضا کاروں کو نگلنے کے لیے دی گئیں۔ جن غذاؤں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں بند کیا گیا تھا ان سے غذائیت سے بھر پور نتائج حاصل ہوئے اور وہ جلد ہضم ہوگئیں۔
پتلی اور آئس کریم جیسی غذاؤں کے علاوہ ہر قسم کی غذاؤں کو چبانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چبانے کی اہمیت کا اندازہ آپ گائے بھینسوں پر کیے جانے والے ایک تجربے سے کرسکتے ہیں۔ا سپین میں خراب اور ٹوٹے ہوئے دانتوں والی بھینسوں کو سٹین لیس سٹیل کے دانت لگائے گئے جس سے ان کی چبانے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا اور تجربہ کنندگان نے بتایا کہ ان کے دودھ دینے کی مقدار بھی بڑھ گئی۔
چبانے سے ناصرف ہاضمہ درست ہوتا ہے بلکہ دانت بھی محفوظ رہتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس عمل سے منہ میں لعاب زیادہ بنتا ہے جو دانتوں کے گرد ذرات کو بہا کر صاف کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ جب ہم سیب اور گاجر جیسی اشیاء کو چباتے ہیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے ریشے دانتوں کے درمیان پھنسے ہوئے غذا کے ذرات نکال باہر کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سخت اور ٹھوس غذائیں کھانے والے اسکیموؤں کے دانت بہت مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ وہیل اور کنگرو کا سخت گوشت اور سخت غذائیں کھاتے ہیں۔ مطالعات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ دانتوں کے لیے مصنوعی برش کے مقابلے میں مسواک زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے مسوڑھوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ مالش بھی ہوجاتی ہے۔
لگاتار مسواک کرنے سے مسوڑھوں میں خون کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے اور دانتوں کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے جو مغرب میں بوڑھوں کی ۹۰ فیصد سانس کی بیماریوں، مسوڑھوں سے خون بہنے اور ڈھیلے اور اکھڑے ہوئے دانتوں کی اصل وجہ ہوتی ہیں۔
ایک اوسط جوان کے جبڑوں میں ۳۰۰ پاؤنڈ فی مربع انچ دباؤ ڈالنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں میں یہ صلاحیت جبڑے کے عضلات کے کمزور ہونے کے باعث ۵۰ پاؤنڈ اور مصنوعی جبڑے والوں میں یہ دس سے تیس پاؤنڈ تک ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی جبڑوں کے نیچے نازک بافتیں ہوتی ہیں جو زیادہ دباؤ برداشت نہیں کرسکتیں۔ اسی لیے بزرگ لوگ اور مصنوعی جبڑوں والے افراد سخت غذاؤں سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ایسی غذاؤں کو چبانے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر خوراک کو اچھی طرح چبانے کی اہمیت مسلم ہے۔ چنانچہ تمام غذاؤں کو اچھی طرح چبا کر ہی کھانا چاہیے۔