چشم الدین

شاکر خان

استانی صاحبہ نے حساب کا پورا سوال تختہ سیاہ پر حل کرکے دکھادیا مگر نادیہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے چشمہ تو اس نے اپنے بینچ میں چھپا دیا تھا۔ آنکھیں سکیڑ سکیڑ کر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتی رہی مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ استادی صاحبہ کی نظر جو پیچھے بیٹھی نادیہ پر پڑی تو انھوں نے وہیں سے آواز لگائی : ’’نادیہ! اپنا چشمہ لگالو ورنہ آنکھیں اور بھی خراب ہوجائیں گی۔‘‘
اب نادیہ بی بی کیا کرتیں؟ حرا سے آنکھیں بچاتے ہوئے بینچ میں سے چشمہ نکال کر لگا لیا۔ ’’چشم الدین‘‘ اسی وقت آہستہ سے حرا نے نادیہ کو چھیڑا۔ نادیہ کا غصے سے برا حال ہوگیا مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھی، استانی صاحبہ جو جماعت میں تھیں!
اب تو نادیہ نے پکاارادہ کرلیا کہ نہ تو وہ حرا سے دوستی رکھے گی اور نہ ہی آئندہ اپنے کھانے میں سے اسے کچھ کھلائے گی۔ ’’پیٹو کہیں کی، کل اس نے میرا سارا کھانا کھالیا تھامگر میں نے تو اس کو کچھ بھی نہیںکہا۔‘‘ نادیہ سوچے جارہی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ استانی کا سمجھایا ہوا سوال اس کی سمجھ میں نہیںآیا۔
انٹرول میں سب بچے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔ نادیہ بھی چشمہ بستے میں رکھ کر کھیلنے آئی۔ ’’ارے دیکھو بھئی! چشم الدین چور کو کیسے پکڑے گی۔‘‘ کسی بچے کی آواز آئی۔
’’بڑی بی اپنا چشمہ توکلاس ہی میں رکھ آئی ہیں۔‘‘ حرا نے پھر سے نادیہ کو چھیڑا۔ بچوں کے شرارتی جملے سن کر نادیہ کے سر میں شدید درد ہونے لگا۔
گھر آتے ہی نادیہ نے چشمہ الماری میں چھپا یا اور کپڑے بدل کر کھانے کی میز پر آبیٹھی۔ اس نے امی کے پاس کسی کو بیٹھے دیکھا مگر دور سے پہچان تو نہ سکی، بس ایسے ہی روکھا پھیکا سلام کردیا۔ ’’ارے نادیہ! فریدہ خالہ اتنے دن بعد آئی ہیں اور تم نے ایسے ہی سلام کرلیا، نہ پیار نہ بات چیت؟‘‘ امی نے کہا۔
نادیہ شرمندہ ہوکر بولی: ’’اصل میں نا،آں آن جی ہاں… وہ… میں۔‘‘ نادیہ پوری بات ہی نہ کرسکی۔
امی کو بھی ہنسی آگئی، پھر اس کی طرف غور سے دیکھ کر بولیں: ’’بھئی تمہارا چشمہ کہاں ہے؟ پھر تم کہیں بھول آئیں۔‘‘
نادیہ کو جیسے موقع مل گیا، اس نے امی کو اسکول کے سارے قصے سنادیے اور بتایا کہ سب بچے اسے چھیڑتے ہیں۔ پھر کہنے لگی: ’’بس اب میں کبھی چشمہ نہیںلگاؤں گی۔ پیٹو حرامجھے چشم الدین کہتی ہے تو کوئی مجھے بڑی بی کہتا ہے۔ بس اب مجھ سے کوئی بھی چشمہ لگانے کو نہ کہے۔‘‘
شام کو ابو گھر آئے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر نادیہ نے ٹی وی بھی نہیں دیکھا۔ اسکول سے سر کا جو درد لے کر آئی تھی وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا تھا۔ ابو بہت دیر تک بیٹھے نادیہ کو سمجھاتے رہے کہ کسی کے چڑانے سے کچھ نہیں ہوتا، چشمہ نہ لگانے سے تم اپنا ہی نقصان کررہی ہو مگر نادیہ کوکسی طرح یہ بات سمجھ نہیں آئی۔
دوسرے دن اتوار تھا۔ خالہ فریدہ کے بچوں، ماجد اور لبنیٰ نے آنے کا وعدہ کیا تھا۔ امی صبح سے باورچی خانے میں کام کررہی تھیں۔ ابو پودوں میں پانی دے رہے تھے۔ گھر میں بریانی اور قورمے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ گیارہ بجے کے قریب ماجد کے بولنے کی آواز آئی۔ نادیہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔ ماجد اسے دیکھتے ہی بولا: ’’آہا نادیہ! میری عینک کیسی لگ رہی ہے۔‘‘
ماجد گول کالے رنگ کی خوبصورت سے عینک لگائے کھڑا تھا۔ وہ بولا: ’’اور یہ دیکھو لبنیٰ کو، اسے بھی چشمہ لگانے کا شوق ہوگیا۔ ابو نے اپنی پرانی عینک کے شیشے نکال کر اسے دے دی ہے۔‘‘ چھوٹی سی لبنیٰ بڑی سی عینک لگائے ماجد کے پیچھے کھڑی تھی۔
ماجد نے لبنیٰ کی جھوٹ موٹ کی عینک کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا تھا۔ اب تینوں کھیلنے باہر باغیچے میں چلے گئے۔ نادیہ نے چپکے سے ڈرتے ڈرتے ماجد سے پوچھا: ’’کوئی تمہارا مذاق تو نہیں اڑاتا۔‘‘
’’بھئی اڑاتا ہے تو اڑانے دو، مجھے تو بڑا مزا آرہا ہے۔‘‘ ماجد نے خود اعتمادی سے جواب دیا۔
ماجد اور لبنیٰ کو اتراتا دیکھ کر نادیہ جھٹ سے گئی اور الماری سے چشمہ نکال لائی اور بڑے مزے سے ان کے ساتھ کھیلنے لگی۔
بچو! دراصل جب خالہ فریدہ نے عینک کے بارے میں نادیہ کا وہم دیکھا تو اپنے بچوں کے ساتھ ایسی ’ساز باز‘ کی جس کا نتیجہ بڑا اچھا نکلا اور نادیہ کا احساسِ کمتری ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں