چنئی کے ایک اسکول کا واقعہ

شمشاد حسین فلاحی

گزشتہ ۹؍فروری کو چنئی کے ایک اسکول میں نویں کلاس کے ایک پندرہ سالہ طالب علم نے اپنی ٹیچر پر چاقوؤں سے حملہ کرکے اسے ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا، جب ٹیچر اضافی کلاس کے لیے کلاس روم میں بیٹھی طلبہ کا انتظار کررہی تھی۔ مجرم طالب علم کئی روز سے موقع کی تلاش میں تھا اور قتل کے لیے استعمال ہونے والا چاقو وہ کئی روز سے کاغذ میں لپیٹ کر اسکول لے کر آرہا تھا۔ مذکورہ طالب علم کے بارے میںملی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ کلاس میں اس کی کارکردگی مستقل طور پر خراب تھی اور ٹیچر نے کئی بار اس کی ڈائری میں شکایت لکھ کر اس کے والدین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ قتل کی واردات انجام دینے والے اس طالب علم کے سلسلے میں اتنی بات واضح ہے کہ وہ اس بات سے اپنی ٹیچر سے شدید ناراض تھا کہ وہ اس کی شکایت کئی بار اس کے اہلِ خانہ سے کرچکی تھی اور تازہ ترین شکایت روٹین ٹسٹ میں دس میں صفر نمبر لانے کی شکایت تھی۔
یہ اسکول پرائیویٹ اسکول تھا اور علاقہ کا معتبر اور معیاری اسکول تصور کیا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ طالب علم جس نے ٹیچر پر چاقوؤں سے حملہ کیا،کسی مزدور یا گرے پڑے خاندان کا طالب علم نہ تھا۔ اس کے والد ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں اور ایک کمپنی میں اچھے اور باوقار عہدہ پر فائز ہیں۔ اس طرح جو بات ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ یہ ایک باوقار اسکول کے طالب علم نے جو پڑھے لکھے اور معروف معنی میں ’’مہذب‘‘ خاندان کا چشم و چراغ تھا اپنی اسکول ٹیچر کو مار ڈالا۔
یہ واقعہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ اس سے پہلے طلبہ سے متعلق اس طرح کے حادثات ہوتے رہے ہیں کہ طلبہ نے اپنی ساتھی کو کسی وجہ سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا ، طلبہ کے ایک گروپ نے کسی طالب علم کو ہلاک کردیا وغیرہ۔ اسی طرح ہمارے ملک میں ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں طلبہ پر اساتذہ کی جانب سے تشدد ہوتا ہے، بلکہ اس قسم کے واقعات تو ہماری روایت کا حصہ بنے رہے ہیں۔
مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ طلبہ اور اساتذہ یا طلبہ اور طلبہ کے درمیان تشدد ہمارے سماج میں تیزی سے فروغ پارہاہے اور آئے دن اس سلسلہ کی انہونی اور افسوسناک وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ایک افسوسناک، تشویشناک اور انتہائی بدبختانہ صورتِ حال ہے جس کا مشاہدہ ہندوستانی سماج کرنے پر مجبور ہے۔ اور اس قسم کے واقعات میں کوئی درجہ بندی بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ چیزیں، شہری علاقوں میں بھی اسی طرح ہیں جس طرح دیہی ہندوستان میں اور اسی طرح اس میں اعلیٰ درجہ کی معیاری اسکولوں اور عام سرکاری و غیرسرکاری اسکولوں کی بھی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح کے واقعات امریکی سماج کا حصہ ہوتے تھے جہاں ایک طالب علم اسکول کے اندر اندھا دھند فائرنگ کردیتا تھا۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہاں طلبہ کلاس روم میں ریوالور لے کر آجایا کرتے ہیں۔ لیکن اب اس قسم کی خبریں اور واقعات ہمارے ملک میں بھی پیش آنے لگے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم بھی اسی رخ پر جارہے ہیں۔اور ایسا کیوں نہ ہو۔ بہ حیثیت قوم ہم بھی اپنے ملک میں جانے ان جانے انہی اقدار، روایات اور ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں جو امریکہ اور مغربی ملکوں کا حصہ ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی انہی آقاؤں کا اصلاً وضع کردہ ہے جو اس فساد کا شکار ہیں اور آج بھی ہمارے لیے آئیڈیل سماج اور آئیڈیل تہذیب و ثقافت وہی ہے۔ ایسے میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہاں مختلف نتائج حاصل ہوں اور یہاں الگ قسم کے نتائج۔ یہ ہوئی اصولی بات۔ اس کے علاوہ بعض ایسے حقائق بھی ہیں، جو صرف ہندوستانی سماج کے تناظر میں اہم ہیں۔ اور محض ان حقائق اور روایات ہی کے سبب برسوں سے ہمارا تعلیمی نظام ان فسادات سے کس حد تک دور رہا جو آج دیکھنے میں آرہے ہیں۔
ہندوستانی سماج میں استاد شاگرد کے رشتہ کو ایک تقدس اور احترام کا درجہ حاصل تھا اور استاد شاگرد کا تعلق انتہائی خلوص اور محبت پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ طالب علم استاد کا انتہائی احترام اور عزت کرنے والا ہوتا تھا اور استاد طالب علم کا مخلص اور اس سے محبت کرنے والا، لیکن جب سے تعلیم نے ایک جنس کی شکل اختیار کرلی اور یہ بڑے بڑے اور ’’معیاری‘‘ اسکولوں میںاعلیٰ قیمتوں پر فروخت ہونے لگی، نہ استاد کے اندر طالب علم کے لیے خلوص و محبت رہی اور نہ طالب علم کے دل میں استاد کا ادب و احترام اور دونوں کا تعلق محض پیشہ ورانہ رہ گیا۔ ایسے میں کیوں اس شاگرد سے محبت کرے اور کیوں کوئی طالب کسی استاد کا احترام۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کو تربیت سے الگ کرکے دیکھنے کا رجحان اس فساد کی بنیادی جڑ ہے۔ تعلیم کا مقصد طالب علم کو محض اعلیٰ درجہ کا ’’کوالی فائیڈ‘‘ بنادینا یا بڑے بڑے اور سخت مقابلوں میں کامیابی کے لائق بنادینا ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے اخلاق و کردار کی تہذیب اور تثقیف بھی ہے۔ جہاں تعلیم ضروری ہے، وہیں کردار سازی اوراخلاق سازی نہایت اہم ہے اور موجودہ تعلیمی نظام صرف تعلیم پر توجہ دیتا ہے۔ یہاں تربیت، اخلاق سازی اور کردار سازی نہ صرف یہ کہ کمزور ہے بلکہ اکثر جگہ مفقود ہے۔ اگر طالب علم کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی نہ ہوگی تو تعلیمی نظام محض ڈگری یافتہ حیوانات ہی کی تیارکرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام سے نکلے ہوئے طلبہ تعلیمی امتحانات میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن جہاں ان کے اخلاق و کردار کا ٹسٹ یا امتحان ہوتا ہے وہاں یہ ناکام اور فیل ہوجاتے ہیں اور یہ ایک انتہائی تشویشناک پہلو ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کے ساتھ جڑ گیا ہے۔
چنئی کا یہ واقعہ اور اس ضمن میں پیش آنے والے واقعات ایک طرف تو تعلیمی پالیسی سازوں کو دعوتِ غوروفکر دیتے ہیں، دوسری طرف ہندوستانی سماج کو بھی متوجہ کرتے ہیں کہ وہ اس صورتِ حال کا نوٹس لے اور ملک کے پالیسی سازوں کو اس خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں اس بات پر مجبور کرے کہ وہ تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔ یہ اور اس قسم کے واقعات ہمارے اساتذہ کے لیے بھی قابلِ غور اور قابل توجہ ہیں اور ان سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آؤٹ آف سلیبس جاکر طلبہ کی کردار سازی اور تعمیر اخلاق کی انفرادی کوشش سے غفلت نہ برتیں بلکہ اساتذہ برادری میں ایک مہم چلائی جائے کہ وہ تعلیمی نظام کی اس کمزوری کو اپنی سطح پر سدھارنے اور اس کا متبادل فراہم کرنے کی کوشش کریں۔
اسرائیلی سفارت کار کی کار میں دھماکہ
۱۳؍فروری کو دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کی ایک کار میں بم دھماکا ہوا۔ اس بم دھماکے کے فوراً بعد ہی سفارت خانہ کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ دھماکہ ایران سے تعلق رکھنے والے عناصر کی کارروائی ہے۔ جبکہ ہندوستان میں ایرانی سفیر نے فوراً ہی اس طرح کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے اسے ایران کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ واقعہ کے تیسرے دن جو باتیں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ان سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی ایجنسیاں اس بم دھماکہ پر سیاست کرنا چاہتی ہیں اور فی الواقع انھوں نے ہندوستان میں اس حادثہ پر سیاست شروع بھی کردی ہے۔
یہ سطریں تحریر کیے جانے تک جو باتیں سامنے آئی ہیں ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب اس دھماکہ کا ذمہ دار ایران نہیں بلکہ حزب اللہ کو قرار دیا جارہا ہے اور اس کے پیچھے جو دلائل دیے جارہے ہیں وہ تکنیکی ٹریننگ سے متعلق ہیں اور کہا جارہا ہے کہ دھماکہ میں جو تکنیک استعمال کی گئی اس تکنیک میں حزب اللہ کو مہارت حاصل ہے اور یہ کہ جس شخص نے بھی یہ کارروائی انجام دی وہ تربیت یافتہ تھا۔ ایک ہندی اخبار نے تو یہ سرخی لگائی ’’حزب اللہ ملک میں داخل‘‘ اور لکھا کہ اس وقت ملک میں ۳۵ سے زیادہ دہشت گرد گروپ کام کررہے ہیں ان میں سے کچھ بنگلہ دیش سے اور کچھ پاکستان سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ اس طرح ملک کو اس حادثہ کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب ایک اور دہشت گرد گروپ حزب اللہ بھی دیش میں داخل ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حزب اللہ کو القاعدہ کا متبادل بتایا جارہا ہے۔ جس طرح اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو دنیا بھر میں فروغ دیا گیا شاید اب حزب اللہ اور اس کے لیڈر حسن نصراللہ کو فروغ دینے کی سیاست شروع ہونے والی ہے۔ واضح رہے کہ حزب اللہ جنوبی لبنان کا وہ شیعہ گروپ ہے جس نے اسرائیل کو پہلے جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور کیا تھا اور دوبارہ حملہ کرنے کی صورت میں اسے منھ توڑ جواب دیا تھا۔
ہمارے اس بیان کا مقصد حزب اللہ کی حمایت یا اس سے اعلان برأت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے باشعور افراد کے ساتھ اس بنیادی سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں جو ہند اسرائیل کے بڑھتے تعلقات کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ اس وقت ہند اسرائیل تعلقات دونوں ملکوں کی تاریخ کے حسین ترین اور مضبوط ترین مرحلوں سے گزر رہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کو مجبوراً برداشت کرتے ہوئے ہم ملک کے ارباب اختیار کو آگاہ کرنا چاہیں گے کہ وہ ہندوستان کی سرزمین کو اسرائیلی سیاست کی بساط بچھانے کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ اسرائیل ایران تعلقات اس وقت نزاکت کی انتہاؤں پر ہیں او رلبنان اسرائیل اور حزب اللہ اسرائیل کا معاملہ آگ اور پانی کا ہے۔ ایسے میں ہندوستان میں ہونے والے اسرائیلی سفارت کار کی کار میں ہونے والے دھماکے پر اسرائیل کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہندوستان اس حادثہ کی اپنے طور پر تحقیق کرے اور جو خطا کار پایا جائے اسے قرار واقعی سزا دے یہ اس کا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی لیکن اسرائیلی سیاست کا آلۂ کار بن کر ان ملکوں سے اپنے اچھے بھلے تعلقات خراب کرکے نئے دشمن پیدا کرے یہ کسی بھی حال میں درست اور مناسب نہیں۔ ہندوستان کے اربابِ سیاست کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کو کسی بھی طرح اسرائیلی سیاست کا آلۂ کار نہ بننے دیں تاکہ اسے عالمِ اسلام میں وہ وقار اور احترام حاصل رہے جو اسے آج حاصل ہے۔
شمشاد حسین فلاحی

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146