چند با حجاب مسلم خواتین

ترتیب و پیشکش: جمیل سرور

وہ وقت گیا جب ہر با حجاب یا برقع پوش عورت کو دیکھ کر یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مظلوم اَن پڑھ اور علم و عمل سے دور ہے۔ آج دنیا یہ ماننے پر مجبور ہے کہ برقع یا حجاب ظلم اور جاہلیت کی نشانی نہیں بلکہ مسلمان خواتین کی دینی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ایک حفاظتی شیلڈ ہے، جو دوسرے کسی سماج یا تہذیب میں عورت کو حاصل نہیں ہے۔ اسی بات کو اللہ قرآن میں حجاب کے ذکر کے بعد فرماتا ہے: ــ’’ذَلِكَ أَدْنَى أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ‘‘ یعنی ’’ یہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں‘‘۔

دنیا کے سبھی حصوں میں تمام میدان ہائے عمل میں آج با حجاب عورتیں آپ کو نظر آئیں گی جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم خواتین اب کسی سے کم نہیں بلکہ ان کے اندر جتنی استعداد( Potential) ہے اتنی دنیا کے کسی اور سماج کی خواتین میں نہیں اور یہPotential انھیں اپنے دین اور اپنی تاریخ سے وراثت میں ملتی ہے۔ یہ اسی دین کی ماننے والی خواتین ہیں جس میں ایک طرف عائشہ صدیقہؓ جیسی معلمہ ہیں تو دوسری طرف خولہ بنت ازورؓ جیسی بہادر سپاہی اور جنگ جو بھی جو اپنے بھائی اور مسلم سپاہی کو قید سے چھڑانے کے لیے دشمنوں سے اکیلی بہ انداز ہزار رستم لڑ جاتی ہیں۔مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی خواتین کی کمی نہیں جنھوں نے ہر دور میں اپنے علم و عمل کے جھنڈے گاڑے ہوں۔

آپ ان باتوں سے کہیں یہ گمان نہ کر لیں کہ یہ ماضی کی باتیں ہیں جن کی حیثیت اب کسی الف لیلوی داستان یا اساطیر سے زیادہ نہیںیا جن سے مسلم دنیا ایک جھوٹی تسکین حاصل کرتی ہے۔حال ہی میں بی بی سی نے ۲۰۲۱ء کی ان ۱۰۰ عورتوں کی فہرست جاری کی ہے جنھوں نے دنیا کی خواتین کو کسی نہ کسی میدان میں اپنی اپنی سطح پر متاثر کیا ہے۔ مذکور ہ فہرست میں نصف سے زیادہ مسلمان خواتین ہیں اور ان میں بھی قریب ایک درجن ایسی خواتین ہیں جو حجاب میں ملبوس نظر آتی ہیں۔یہ اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ مسلم خواتین دیگر مذاہب یا سماج کی خواتین سے کم نہیںبلکہ ان سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ آئیے اب آپ کو ان چند خواتین سے ملواتے ہیں جنھوںنے مختلف میدان میں اپنی بے مثال کار کردگی سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آج کی مسلم خواتین بھی ہر وہ کام کر سکتی ہیں جسے کسی دوسری نام نہاد ترقی یافتہ اور جدت پسند قوم کی خواتین کا امتیاز سمجھا جاتا ہے۔

1- توکل کرمان

(نوبل انعام یافتہ، مادرِ انقلاب)

پوری دنیا کی تاریخ آپ چھان جائیے آپ کو بہت کم ایسی خواتین ملیں گی جنھوں نے دنیائے سیاست کو تہہ و بالا کر دیا ہو۔یورپ، امریکہ، ہندوستان، روس اور مغربی ایشیا سے لے کر وسط ایشیا تک آپ کو بہت تگ و دو کر نے پر شاید گنتی کی چند خواتین ایسی مل جائیں جنھوں نے سماجی اور فکری سطح کے ساتھ ساتھ سیاسی انقلاب برپا کیا ہو اور جن پر کسی ملک یا قوم کی قسمت کا انحصار ہو۔ توکل کرمان انھی چند خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے نہ صرف عربوں کو بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ سماج میں انقلاب لانا صرف مردوں کا کام نہیں بلکہ یہ کام ایک با حجاب خاتون بھی کر سکتی ہے۔

توکل کرمان پہلی عرب نوبل انعام یافتہ خاتون کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ وہ یمن کے شہر تعز سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوںنے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی سے کامرس میںثانوی درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صنعاء یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں گریجویشن مکمل کیا۔ان کے والد عبد السلام کرمان، علی عبد اللہ صالح کے عہد حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ لیکن ان کی شہرت کا ان کے خاندانی پس منظر سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یمن کو ایک جمہوری ملک بنانے اور وہاں کی عوا م کوبالخصوص خواتین کو انسانی حقوق اور آزادی دلانے کے لیے ان کی جد و جہد اور لڑائی ان کو ایک عظیم خاتون بناتی ہے۔چناںچہ وہ خود کہتی ہیں:

’’میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ انسانی تہذیب خواتین اور مرد دونوں کی محنت کا پھل ہے۔لہٰذا، جب خواتین کے ساتھ ناانصافی کی جائے گی اور ان کو قدرتی حقوق سے محروم کیا جائےگا تو ایسے وقت میںتمام سماجی خامیاں اور ثقافتی بیماریاں آشکار ہو جائیں گی، اور آخر کار پوری برادری، مرد اور خواتین، اس کے شکار ہوں گے۔ خواتین کے مسائل کا حل آزاداور جمہوری سماج میں ہے جس میں انسانی توانائی آزاد ہو، عورت اور مرد دونوں کی توانائی ایک ساتھ۔ ہماری تہذیب کو انسانی تہذیب کہا جاتا ہے اور یہ تہذیب صرف مردوں یا صرف عورتوں سے منسوب نہیں ہے۔‘‘

(توکل کرمان، نوبل خطبہ۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۱۱ء)

ان کی عملی زندگی کی شروعات ۲۰۰۵ ء سے ہوتی ہے جب وہ ایک صحافی کے طور پر دنیا کے سامنے یمن کے حالات بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک فورم Women Journalists Without Chain قائم کیا جس کا مقصد انسانی حقوق کی پاسداری تھا۔ یہ لڑائی انھوں نے مسلسل جاری رکھی اور آخر کار ۲۰۱۱ء کے عرب بہاریہ میں یمن علی عبداللہ صالح کی آمریت سے آزاد ہو گیا۔ان ایام میں انھیں کئی بار سامراجی قوتوں کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں کئی بار جیل کی اندھیری کوٹھری بھی دیکھنی پڑی لیکن یہ عورت تمام ظلم کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑی رہی۔

توکل کرمان کی انھی خدمات کی وجہ سے انھیں ۲۰۱۱ء میں نوبل امن انعام سے سرفراز کیا گیا۔ اس وقت نوبل انعام یافتہ اصحاب میں وہ سب سے کم عمر(۳۲ سال) اور دوسری مسلم خاتون تھیں۔ ۲۰۱۲ء میں ان کی کارکردگی کو دیکھ کر یونیورسٹی آف البرٹ، کناڈا نے بین الاقوامی قانون میں ان کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا۔

2- سارہ الامیری

(وزیر مملکت برائے اعلیٰ ٹیکنالوجی، متحدہ عرب امارات)

عام طور پر جدید سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید فلکیات کا خیال آتے ہی ہمارے ذہن میں اگر کسی قوم کا نام آتا ہے تو وہ یورپ، امریکا یا روس ہے۔ مسلمان قوم اور بالخصوص عربوں کو دیکھ کر کبھی یہ خیال بھی نہیں گذرتا کہ یہاں کے لوگ سائنسی میدان میں کوئی اعلی کار کردگی کر دکھائیں۔ لیکن دنیا کے اس خیال کو بھی صحرائے عرب کی ایک باحجاب خاتون نے جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔یہ خاتون متحدہ عرب امارات کی ایک ابھرتی ہوئی وزیرہیں جن کی خدمات اور کارکردگی کا شہرہ بین الاقوامی سطح پر ہو رہا ہے۔ ایرانی نژاد سارا الامیری کا شمار دنیا بھر کے سب سے کم سن وزیروں میں ہوتا ہے۔۳۵سالہ الامیری متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی محمد بن راشد اسپیس سنٹر کی چیئرپرسن بھی ہیں، جس نے یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر، یونیورسٹی آف کیلیفورنیابرکلے اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ساتھ مل کرHope Orbiter(مسبار الامل) تیار کیا۔

سارا الامیری کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔ انھوں نے شارجہ کی امریکن یونیورسٹی (۲۰۰۴ء – ۲۰۰۸ء) سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد راشد بن محمد خلائی مرکز میں جدید نظاموں کا انتظام سنبھال لیا۔۲۰۰۹ء میں ’’دبئی سیٹلائٹ۔۱‘‘ ریموٹ کنٹرول سسٹم پلاننگ ٹیم کے رکن رہیں اور ’’دبئی سیٹلائٹ ۔۲ ‘‘لانچ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ اسی دوران انھوں نے اسی شعبے میں ماسٹر کی ڈگری بھی حاصل کی ۔

۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۴ء تک وہ مرکز کے شعبہ ترقی اور تحقیق کی سربراہ رہیں۔۲۰۱۵ء میں، ورلڈ اکنامک فورم نے انہیں سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ میں ان کی شراکت کے لیے اپنے ۵۰ نوجوان سائنسدانوں میں شامل کیا ۔

نومبر ۲۰۱۷ء میں، سارہ الامیری پہلی اماراتی خاتون بن گئیں جنہوں نے بین الاقوامی ٹی۔ای۔ڈی (TED) تقریب میں خطاب کیا جہاں انھوں نے لوزیانا میں ہوپ مارس مشن کے بارے میں بات کی۔یہ مشن جولائی ۲۰۲۰ء میں شروع ہوا اور فروری ۲۰۲۱ء میں متحدہ عرب امارات کی۵۰ ویں سالگرہ کے موقع پر مریخ پر پہنچا۔

ٹائم میگزین کے ایک کالم نگار جیفر کلوگر سارہ الامیری کی اس کامیابی پر لکھتے ہیں:

’’مریخ پر جانے کا خواب دیکھنا آسان ہےلیکن وہاں پہنچنا بے حد مشکل کام ہے۔ چنانچہ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی جب متحدہ عرب امارات کی خلائی ایجنسی کا Hope spacecraft(ہوپ خلائی جہاز) ۹؍ فروری کو سرخ سیارے کے گرد مدار میں چلا گیا۔ سارہ الامیری اس پروجیکٹ کی سرکردہ سائنسدان تھیں، جو ایک ایسی ٹیم کی سربراہی کر رہی تھیں جس میں ۸۰فی صد خواتین ہیں۔ ‘‘

سارا الامیری کو۲۰۲۰ء میں بی بی سی نے دنیا کی۱۰۰ سب سے با اثر خواتین میں سے ایک قرار دیا تھا۔ اسی طرح ۲۰۲۱ء میں ان کا نام TIME میگزین کی دنیا کے ۱۰۰ بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

3- دالیہ مجاہد

(سابق رکن بین المذاہب مشاورتی کونسل، امریکہ)

دالیہ مجاہد ایک ایسی باحجاب خاتون ہے جسے امریکی صدر براک حسین اوباما نے ۲۰۰۹ء میں بین المذاہب مشاورتی کونسل میں ایک مشیر کی حیثیت سے منتخب کیا۔امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی مسلم اور بالخصوص کسی باحجاب خاتون کو وائٹ ہاؤس میں کسی ایسے عہدے پر فائز کیا گیا۔

دالیہ مجاہد قاہرہ، مصر میں پیدا ہوئیںاور چار سال کی عمر میں امریکہ ہجرت کر گئیں۔ انھوںنے وسکونسن یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ میں انڈرگریجویٹ ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد، دالیہ مجاہد نے پراکٹر اینڈ گیمبل کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔اس کے بعد انھوں نے پٹسبرگ یونیورسٹی کے جوزف ایم کاٹز گریجویٹ اسکول آف بزنس سے ایم بی اے کیا۔

دالیہ مجاہد واشنگٹن ڈی سی کے ایک ادارے Institute for Social Policy and Understandingمیں ریسرچ ڈائریکٹر ہیں اور Mogahed Consultingکی صدر اور سی ای او بھی ہیں، جو واشنگٹن ڈی سی میں مسلم معاشروں اور مشرق وسطیٰ میں مہارت رکھنے والی ایگزیکٹو کوچنگ اور مشاورتی کارپوریشن ہے۔وہ Gallup Center for Muslim Studies کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں، جو ایک غیر جانبدارانہ تحقیقی مرکز ہے جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے خیالات کی عکاسی کرنے کے لیے ڈیٹا اور تجزیہ فراہم کیا ہے۔

دالیہ مجاہدنے جان ایسپوزیٹوکے ساتھ مل کرچھ سال کی تحقیق اور۳۵ سے زیادہ مسلم ممالک میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ۵۰۰۰۰ سے زیادہ انٹرویوز پر مبنی کتاب Who Speaks for Muslims : What a billion Muslims really think تصنیف کی۔ دنیا کی۹۰ فی صد سے زیادہ مسلم سماج کے لیے یہ رائے شماری اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور جامع مطالعہ ہے۔ وہ بعد میں PBS کی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم Inside Islam: What a Billion Muslim Really Think میں ایک تبصرہ نگار کے طور پر نظر آئیں، جو ان کی اور ایسپوزیٹوکی کتاب پر مبنی تھی ۔

دالیہ مجاہدہمیشہ سے اپنی اسلامی اور دینی شناخت کے لیے پہچانی جاتی ہیں۔ وہ اپنے معمول کے کاموں کے علاوہ بین الاقوامی اسٹیج پر اسلامی نظریات و تعلیمات پر خطبہ دیتی رہتی ہیں۔ ان کا ایک لیکچر What it’s like to be a Muslim in America بہت مشہور ہوا جو ۱۱/۹ کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کی زندگی میں آئی مشکلات کے موضوع پر ہے ۔ اسے TED کے یوٹیوب چینل پر قریب ۵ ملین بار دیکھا گیا۔اسی طرح ان کی ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جب انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران اپنے حجاب پہننے کے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں یا میری طرح تمام حجاب کرنے والی عورتیں کسی کے دباؤ میں آکرحجاب نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے خدا کے حکم پر عمل کرنے کے لیے کرتی ہیں۔رہی بات ظلم کی تو ظلم تب کہا جاتا ہے جب کسی سے اس کی آزادی اور قوت چھین لی جائےاور عورتیں حجاب اس لیے کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے ستر کو چھپا سکیں تو اگر عورتوں کا ستر کو چھپانا ظلم ہے تو پھر آپ کی نظر میںعورتوں کی طاقت ستر کے واضح کرنےمیںہے؟

اسی طرح جب ان سے وائٹ ہاؤس میں حجاب پہن کر داخل ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا:

’’جہاں تک ایک باپردہ خاتون ہونے کے ناطے وائٹ ہاؤس میںمیرے داخلے کا تعلق ہے تو اس حد تک نقاب کا مسئلہ ان کے ذہن میں نہیں تھا اور شاید بہت سے ایسے تھے جنہیں میری جگہ پر تعینات کیا جا سکتا تھا، جب کہ مجھے منتخب کیا گیا۔ وہ مسلمانوں کی آراء سننا چاہتے ہیں، اور میں Gallup Center for Muslim Studies میں اپنے کام کے ذریعے اس طرح کا تجربہ رکھتی تھی۔ لیکن ہاں، میں پہلی باپردہ مسلمان خاتون ہوں جو وائٹ ہاؤس میں ایسی پوزیشن میں داخل ہوئی ہے۔‘‘

عربین بزنس میگزین نے۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ءاور۲۰۱۳ء میں دالیہ مجاہد کو سب سے زیادہ بااثر عرب خواتین میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا، اسی طرح رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر نے اپنی ۲۰۰۹ء اور۲۰۱۰ءکی ۵۰۰بااثر مسلمانوں کی فہرست میں دالیہ مجاہد کو شامل کیا۔

4- بشریٰ متین

(انجینئر، گولڈ میڈلسٹ)

ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایک طالب علم بیک وقت ۱۶؍ گولڈ میڈل حاصل کرے۔ ایک ۲۲؍ سالہ طالبہ بشریٰ متین نے یہ گراں قدر کامیابی حاصل کر کے Visvesvaraya Technological یونیورسٹی کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اس سے قبل اس یونیورسٹی میں سب سے زیادہ13گولڈ میڈل حاصل کیے گئے تھے۔ بشریٰ متین ان طالبات کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں جو اعلی تعلیم میں کچھ بہتر کرنا چاہتی ہیںلیکن کچھ وجوہ اور مجبوریوں کے باعث نہیں کر پاتیں۔

بشریٰ متین کا تعلق ریاست کرناٹک کے ضلع رائچور سے ہے۔ رائچور کرناٹک کا ایک ایسا ضلع ہے جہاں شرح تعلیم ریاست کے باقی اضلاع کے مقابلے کم ہے لیکن پھر بھی بشریٰ نے اپنی محنت اور لگن سے وہ کر دکھایا جو ایک اچھے علاقے کے طلبا نہیں کر پاتے جب کہ انھیں بہت ساری سہولیتیں میسر ہوتی ہیں۔

بشریٰ نے اپنی اسکولی تعلیم سینٹ میری کنونٹ اسکول، رائچور سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے پرمانا پری یونیورسٹی کالج، رائچور سے انٹرمیڈیٹ کیا ۔ حال ہی میں بشریٰ متین نے وسویسوریا ٹیکنالوجی یونیورسٹی، کرناٹک سے ملحق SLN کالج آف انجینئرنگ، رائچور سے سول انجینئرنگ میںCGPA 9.73/10 کے ساتھ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے جہاں سے انھیں مختلف کیٹیگریز میں ۱۶ گولڈ میڈل دیے گئے ہیں۔

بشریٰ متین اپنی اس کامیابی کا سہرا اپنےوالدین اور اپنے بھائی کو دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد اور ان کے بڑے بھائی ان کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بشری متین کے والد شیخ ظہیر الدین ایک سرکاری سول انجینئر ہیں۔بشریٰ کے والداپنی بیٹی کی کامیابی اور لڑکیوں کی تعلیم کے تعلق سے کہتے ہیں:

’’میں ہر والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ قوم و ملت کی ترقی کے لیے اپنی لڑکیوں کو ضرور زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ بشریٰ بچپن سے ہی پڑھنے میں اچھی اور محنتی تھی۔ ہم سب خوش ہے کہ اس نے اپنی محنت کا پھل پا لیا ہے۔میری خواہش کہ ہر مسلمان لڑکی اسی طرح پڑھ لکھ کر ملک و ملت کا نام روشن کرے۔‘‘

بشریٰ متین کی اس کامیابی کے سرخیوں میں آنے کی ایک وجہ ان کا باحجاب ہونا بھی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس دور میں جب خود ان کی ریاست میں حجاب کو لے کر اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا ہے، اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا اور میڈل لینے کے لیے بھی وہ حجاب میں ملبوس ہو کر گئیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے آج تک حجاب کرتی رہی ہیں اور آگے بھی ان شاء اللہ حجاب کرتی رہیں گی۔حال ہی میں کرناٹک حجاب تنازعہ کے متعلق سوال پوچھے جانے پر بشریٰ متین جواب دیتی ہوئی کہتی ہیں:

’’الحمد للہ میں نے اب تک ایسا کچھ سامنا نہیں کیا ہے جب کہ میں پری یونیورسٹی سے لے کر انجینئرنگ کی تعلیم تک حجاب کرتی آئی ہوں۔ حجاب کا مسئلہ ابھی ۲۰۲۲ء میں آیا ہے جب کہ اس سے پہلے اس طرح کی بات نہیں تھی۔انڈیا ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے جہاں آئین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور وہی آئین ہمیں بنیادی حقوق عطا کرتا ہے جس کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ حجاب بھی بنیادی حقوق کے ذیل میں آتا ہے۔‘‘

بشریٰ متین کے کئی انٹرویوز دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف روایتی طور پر حجاب میں ملبوس نظر آتی ہیں بلکہ ان کا دین سے گہرا تعلق بھی ہے۔ وہ بار بار اپنے انٹرویوز میں اپنی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کے تعلیم کے اس سفر میں وہ کئی بار لڑکھڑائی لیکن اللہ کے ساتھ ان کا تعلق، نماز اور تہجد کا اہتمام اور دعا نے ان کے اس سفر کو آسان بنا دیا۔ان کا ماننا ہے کہ اپنی محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ اللہ سے تعلق اور اس پر بھروسہ اور امید رکھ کر بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

بشریٰ متین کو انجینئرنگ کے بعد بہت ساری نوکریوں کی پیش کش آئی ہے لیکن وہ ابھی یو پی ایس سی کی تیاری کر رہی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک اچھی آئی ایس آفیسر بن کر ملک کے لیے خدمات انجام دیں۔ اللہ انھیں دین و دنیا کی ہر کامیابی سے ہم کنار کرے۔ آمین!

جمیل سرور

(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146