پہلی تصویر
یہ اسلام الدین کا ہوٹل ہے۔ ہے تو صرف چائے کا ہوٹل مگر بیڑی، ماچس اور چھوٹے موٹے بسکٹ بھی مل جاتے ہیں۔ لوگ یہاں آکر بیٹھتے ہیں۔ یہ کیا کرتے ہیں؟ چائے پیتے ہیں۔ بات کرتے ہیں۔ بحث کرتے ہیں کبھی ملکی حالات زیر بحث آتے ہیں، کبھی افغان و عراق کی جنگ پر تبصرہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی دینی موضوع پر بھی مناظرہ ہوجاتا ہے۔ اکثر بحث و مباحثہ میں گالم گلوج ہوتی ہے۔ آستین چڑھ جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ روز ہوتا ہے۔ پاس میں مسجد بھی ہے۔ اذان ہوتی ہے، نمازی گزرتے ہیں، سلام، وعلیکم سلام ہوتا ہے، اکثر لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ نمازی نماز پڑھ کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں لیکن یہاں درجنوں افراد بے ہودہ گفتگو میں مصروف رہتے ہیں اور نماز کے لیے پابندی سے آنے جانے والے کبھی یہ نہیں کہتے کہ بھائی چار قدم چل کر اللہ کے گھر بھی پہنچ جاؤ۔
دوسری تصویر
یہ ایک چوک ہے۔ اس کے کنارے کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ سب مسلمان ہیں۔ بعض کے داڑھی بھی ہے۔ کچھ نے الحمد للہ ٹوپی لگا رکھی ہے، کیا کررہے ہیں یہ لوگ؟ تاش کھیلنے میں مصروف ہیں۔ صبح سے بیٹھ کر اس وقت اٹھتے ہیں جبکہ آنتیں قل ہو اللہ پڑھتی ہیں۔ اور دوپہر سے اس وقت تک بیٹھے رہتے ہیں جب تک آنکھیں کام کرتی ہیں۔ سنا ہے جوا کھیلتے ہیں کبھی کبھی جھگڑا ہوتا ہے۔ گالیاں روز کا معمول ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ شریف اور دین دار لوگوں کے لیے ادھر سے گزرنا بھی شرافت اور دین داری کے خلاف ہے۔
تیسری تصویر
یہ کچھ نوجوان ہیں۔ بڑے خوب رو، ہٹے کٹے، ان سب کے بال کسی نہ کسی فلمی ہیرو پر ہیں، لباس میںبھی وہی ان کے آئیڈیل ہیں۔ کسی کے منھ میں گٹکا، کسی کے ہاتھ میں سگریٹ، یہ میری قوم کا عظیم سرمایہ ہیں۔ مگر یہ کیا کررہے ہیں؟ یہ کوڑے کے میدان میں کرکٹ سے شغل کر رہے ہیں۔ اینٹوں کو اوپر نیچے رکھ کر وکٹ بنا لیا ہے۔ پرانا سا بیٹ ہے اور بس کھیل ہورہا ہے۔ صبح سے شام ہوجاتی ہے۔ لیکن ان کا کرکٹ ختم نہیں ہوتا۔ زیادہ کرکٹ کی شکایت ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو تو ہے مگر ان کو تو دن سے شکوہ ہے کہ وہ جلد ختم کیوں ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی جوا ہوتا ہے۔ ہلڑ بازی ہوتی ہے۔ گالیاں خوب دی جاتی ہیں۔ یہاں کوئی ٹی وی کیمرہ نہیں ہے۔ نہ تھرڈ امپائر ہے کہ ریپلے دیکھ کر صحیح فیصلہ کردے اس لیے خوب جھگڑا ہوتا ہے۔ مارپیٹ تک نوبت آجاتی ہے۔ محلے کے بڑے اور سمجھدار لوگ یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ ان آواہ لڑکوں کو کوئی کیا سمجھائے۔
چوتھی تصویر
واہ، واہ مکرر ارشاد، پھر پڑھئے، یہ آوازیں کیسی ہیں؟ دیکھو وہاں ادبی نشست ہورہی ہے۔ شہر کے بڑے بڑے شاعر موجود ہیں۔ بعض کو شبہ ہے کہ غالبؔ و میرؔ کی روح ان میں سمائی ہے۔ اور کچھ کو افسوس ہے کہ میرؔ و غالبؔ نے وہی شعر کیوں کہہ دیا جس کو ہم آسانی سے کہہ سکتے تھے۔ یہ ساری رات نہیں تو دو بجے رات تک شور مچائیں گے۔ عورت کو لفظوں سے عریاں کریں گے۔ اسی عورت کو جوان کی ماں، بہن اور بیٹی ہے۔ اس کے گال، بال، آنکھ اور کمر کی تعریف کریں گے اس کی بے وفائی کا شکوہ کریں گے۔ اس کے ہجر میں آنسو بہائیں گے۔ اور اس کے غیر قانون وصل کی خواہش کریں گے۔ یہ میری قوم کے اعلیٰ دماغ لوگ ہیں یہ اردو کو فروغ دے کر خدا پر احسان کررہے ہیں۔ اور سماج و معاشرہ پر بھی اپنی ان ’’اعلیٰ اقدار‘‘ کے ذریعہ جس کو انھوں نے امپورٹ کیا ہے۔ یہ امپورٹڈ سامان کی طرح امپورٹڈ اخلاق کے بھی مبلغ ہیں۔
یہ تصویریں ہماری اپنی تصویریں ہیں جو ہر جگہ اور ہر شہر میں قدم قدم پر ہمیں نظر آتی ہیں۔ جی ہاں ہم نے کبھی اپنی ان تصویروں کو سنوارنے کے بارے میں کوشش تو دور کی بات سوچا تک نہیں۔ اور پھر بھی ہم خواب دیکھتے ہیں روشن مستقبل اور ملک و ملت کی فلاح کے۔ کیسی نادانی، کم عقلی اور بزدلی ہے کہ اپنے لٹتے سرمائے کو کھڑے دیکھ رہے ہیں اور بچانے کا خیال تک ذہن میں نہیں آتا۔ اللہ اکبر