چند مناظر ’’آنجہانی روس‘‘ کے!

انجینئر شاہ محمود خان

(۱)

کوئی شوہر اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد سے اور کوئی عورت اپنے شوہر کو دوسری عورت سے تعلقات استوار کرنے سے نہیں روک سکتی۔

اس ’’آزادی‘‘ کے باوجود روس کی عورت دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ کانوں کی کھدائی جیسے پرُ مشقت کاموں کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کا سارا کام کاج بھی عورتوں کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ کھانا وہ تیار کرتی ہیں، بچوں کے کپڑے وہ سیتی ہیں، بازار سے سودا سلف وہ لاتی ہیں۔ شدید سردی کے دنوں میں وہ راستوں سے برف ہٹاتی ہیں، بھاری بوجھ اٹھاتی ہیں، بھاری بھرکم مشینیں دھکیلتی ہیں، دیوہیکل گاڑیاں چلاتی ہیں، زراعت، مال مویشی پالنے اور مختلف قسم کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔

اسکولوں اور نرسریوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کثرت ہے۔ کھیت مزدور اور کارخانے کی کاریگر، ہوٹلوں میں ویٹرس، دکانوں کی ملازم، سیلز گرل، ٹیلر اور حجام، غرضیکہ ہر جگہ عورتوں کو مردوں کے دوش بدوش کام کرنا پڑتا ہے۔ گھر کا کام اس پر مستزاد، کیونکہ روسی مرد چاہے کتنا ہی آزاد خیال ہو گھر کا کام کرنا شانِ مردانگی کے خلاف سمجھتا ہے۔

عورتوں کے مقابلے میں روسی مرد کاہل ہوتے ہیں۔ اکثر فارغ اوقات میں شراب پیتے اور شطرنج وغیرہ کھیلتے ہیں۔ جو پیسے مرد کماتے ہیں اس کا کم ہی حصہ گھریلو ضروریات کے لیے دیتے ہیں۔ زیادہ تر گھومنے پھرنے اور شراب نوشی پر خرچ کردیتے ہیں۔ بیچاری عورتوں کو گھر داری کا نظام چلانے کے لیے فاضل وقت میں بھی کام کرنا پڑتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرسکیں۔ کارخانوں اور دوسرے اداروں میں مرد و زن کی تمیز روا نہیں رکھی جاتی۔ ایک سا کام، ایک سا لباس اور ایک سے حالاتِ کار۔

روسی عورتوں کی ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ انہیں مناسب اور موزوں شوہر نہیں ملتا۔ اس کے یوں تو کئی اسباب ہیں، لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ روسی معاشرے میں شادی مرد اور عورت کے درمیان اخلاص و محبت کا نہیں، باہمی مفاہمت کے اشتراک کا ایک معاہدہ ہوگیا ہے۔ اسی لیے عورتیں اچھے شوہروں کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں سفر کرتی رہتی ہیں۔ مجھے ایک روسی خاتون نے بتایا: ’’میں نے سینکڑوں میل کا سفر کیا تب مجھے ایک شخص نے شادی کی پیش کش کی، لیکن اس کا کام نکل گیا تو اس نے مجھ سے منہ پھیر لیا۔‘‘

(۲)

خوفناک مشینوں اور چہروں کو جھلسا دینے والے بھٹیوں کے سامنے جہاں مردوں کا پتّہ پانی ہوتا تھا وہاں نازک اندام عورتوں کو کام کرتے دیکھ کر سخت تعجب ہوتا تھا۔ کام کرنے والیوں میں نئی نویلی دلہنیں بھی ہوتیں اور سالخوردہ بوڑھیاں بھی۔ مشینوں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے جب میں کسی عورت کو کام کرتے دیکھتا تو اس سے یہ سوال ضرور پوچھتا کہ وہ اپنے شوق سے یہ کام کررہی ہے یا اسے کوئی مجبوری یہاں لائی ہے؟ تو ہمیشہ ایک ہی جواب ملتا کہ کام نہ کریں تو کھائیں کہا ںسے؟ ایک خاتون کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ دو روز پہلے اس کی شادی ہوئی ہے۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس کی خیر خیریت پوچھی اور شادی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ بھی پوچھ لیا کہ اس نے اس مبارک موقعے پر طویل چھٹی لینے کے بجائے کام کرنے کو کیوں ترجیح دی؟ تو اس نے بڑی افسردگی سے کہا:

’’اب تو میں نے ازدواجی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ گھریلواخراجات پورے کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑے گی تاکہ زیادہ رقم مل سکے۔‘‘

کارخانے کے زیادہ شور وشغب اور گرد وغبار والے حصوں میں کلام کرنے والوں کو اجرت زیادہ ملتی ہے اس لیے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اس علاقے میں کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے تاکہ زیادہ کام کرکے اور زیادہ پیسے کماکر وہ شادی کے لیے پیسے بچاسکیں یا اگر شادی ہوچکی ہوتو گھریلو اخراجات چلاسکیں۔

مزدور عورتیں کام کرنے کے دوران میں کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔ ان مسائل میں اخلاقی نوعیت کی قباحتیں بھی ہوتی ہیں۔ اکثر عورتیں اپنے نگرانوں اور اعلیٰ افسروں کے کردار کی شاکی دکھائی دیتی ہیں، مگر وہ اپنی مشکل کسی کو بتا بھی نہیں سکتیں اس لیے کہ پیسہ ان کی مجبوری ہے جو صرف کام کرکے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ وہ کام کرتی ہیں چاہے اس کے لیے انہیں کیسی ہی ذلت کیوں نہ اٹھانی پڑے۔

(۲)

ہمارے ہوسٹل سے کچھ ہی دور ایک ٹیلرنگ شاپ تھی جس پر کام کرنے والوں کی اکثریت لڑکیوں پر مشتمل تھی۔ مجھے ایک پتلون سلوانے کی ضرورت پڑی تو اس دکان پر گیا۔ جس لڑکی نے میری پتلون تیار کی اس کا نام فاطمہ تھا۔ اس کے بال سیاہ تھے اور شکل و صورت سے وہ بالکل افغان لڑکی معلوم ہوتی تھی۔

خدا جانے اس نے کس سے میری رہائش کا پتہ چلایا۔ ایک روز میں سینی ٹوریم سے ہاسٹل آیا تو اسے اپنے کمرے کے سامنے کھڑے دیکھا۔ میں نے اس سے خیر خیریت پوچھی اور آنے کا مقصد دریافت کیا، تو اس نے بڑی بے تکلفی سے کہا: ’’مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے، کیا کمرے میں بیٹھنے کی دعوت نہ دو گے؟‘‘

میں نے کمرے کا دروازہ کھولا، تو وہ بغیر ’’دعوت‘‘ کے ہی میرے کمرے میں داخل ہوکر کرسی پر بیٹھی گئی اور مجھے میرے نام سے مخاطب کیا، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اسے میرا نام کس نے بتادیا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ہاسٹل میں میرے کسی جاننے والے نے اسے میرا نام بھی بتایا اور یہ بھی کہ میں مسلمان ہوں۔ وہ کہنے لگی: ’’مجھے تمہارے طور اطوار سے پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ تم مسلمان ہو۔ میرا دل بخود تمہاری طرف کھنچا تھا۔ میری شدید آرزو ہے کہ تم مجھے دوست بنالو۔‘‘

فاطمہ نے بتایا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور اسلام سے محبت کی بنا پر مسلمانوں کو پسند کرتی ہے۔ اسے آرزو تھی کہ میں اسے اسلامی روایات و رسوم بتاؤں اور اسلامی عبادات و مراسم سکھاؤں۔ اپنے والدین کے بارے میں اس نے بتایا کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور اپنی اولاد کو بھی مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھو ںنے فاطمہ کو اسلام کے بنیادی مسائل سے روشناس کرانے کی کوشش کی تھی اور اب اس فکر میں تھے کہ اس کے مستقبل کا ساتھی بھی مسلمان ہو۔ فاطمہ نے بتایا کہ اسے نماز پڑھنی نہیں آتی، مگر اس کے والدین نماز روزے کے پابند ہیں۔ اس نے کہا:

’’میرے ماں باپ اسلام پر فدا ہیں، مگر اس شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ مجھے اسلام سے محبت انھوں نے ہی سکھائی ہے۔ مجھے مسلمانوں سے اتنی محبت ہے کہ تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ کسی مسلمان کی آواز مجھے بے خود کردیتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر فاطمہ نے بڑی عاجزی سے کہا کہ میں اسے نماز سکھادوں۔

یہ کام بے حد مشکل تھا۔ اس لیے کہ روس میں نماز پڑھنا جرم نہیں، لیکن نماز پڑھنا سکھانا قتل و غارت گری سے بھی سنگین جرم سمجھتا جاتا ہے۔ کسی نوجوان اور اجنبی لڑکی کے ساتھ نشست و برخاست بھی روس میں معیوب نہیں سمجھی جاتی، مگر میرے لیے یہ بات خاصی مشکل تھی۔ میں نے اسے بتادیا کہ اس کا میرے پاس آنا جانا دونوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ روسی جانتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے اپنے مذہب سے محبت ہے۔

اسے شاید ان باتوں کی زیادہ پروا نہ تھی۔ کہنے لگی: ’’میں ہر قیمت پر نماز سیکھنا چاہتی ہوں۔ چاہے مجھے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں۔‘‘

میں نے اس کا ارادہ پختہ دیکھا، تو حامی بھرلی۔ ہفتے میں ایک مرتبہ میں نماز کے الفاظ روسی تلفظ میں لکھ کر پہنچا دیتا جسے وہ یاد کرتی اور اگلے ہفتے مجھے سناکر باقاعدہ اصلاح لیتی تھی۔ جو عبارت وہ یاد کرلیتی اسے وہ اپنی مسلمان سہیلیوں کو دے دیتی تاکہ وہ بھی اسے یاد کرلیں۔

اس طرح میں نے فاطمہ کو اسلام کے بنیادی اصول بتائے۔ ارکانِ اسلام سکھائے اور مسلمان عورتوں کی حیثیت سے اس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور پابندیوں سے آگاہ کیا۔

وہ زبانی طور پر یہ تو یہ باتیں مانتی تھی، لیکن ان پر عمل کرنا اس کے لیے دشوار تھا۔ اس کا لباس مغربی انداز کا تھا اور طور اطوار بھی اسلامی نہ تھے۔ یوں اس سے یہ توقع بھی فضول تھی۔ ایک خالصتاً غیر اسلامی ماحول میں یہی غنیمت تھا کہ اس کے دل میں اپنے دین کی محبت زندہ تھی۔

میرے لیے آز مائش کا لمحہ وہ تھا جب فاطمہ نے مجھ سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔ اس روز وہ بہت جذباتی ہورہی تھی۔ کہنے لگی: ’’اس ملک میں مسلمان کے طور پر زندگی گزارنی بے حد دشوار ہے۔ تم مجھے اپنے ساتھ افغانستان لے چلو۔ میرے ساتھ شادی کرلو۔‘‘

میں نے اپنی مشکلات بتائیں اور سمجھایا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں تو وہ کہنے لگی: ’’کوئی مضائقہ نہیں، اسلام میں تو چار شادیوں کی اجازت ہے۔‘‘

میں نے پھر بھی عذر کیا تو کہنے لگی: ’’خدا گواہ ہے، میں صرف اس کفرستان سے نکل بھاگنا چاہتی ہوں۔ افغانستان جاکر چاہے تم مجھے کتوں کے آگے ڈال دینا، مگر یہاں سے مجھے نکال لے جاؤ۔‘‘ یہ باتیں کرتے ہوئے وہ بار بار روپڑتی تھی۔

(۴)

اس کا نام یعقوب تھا۔ ۱۹۴۶ء میں جب اس کی عمر تیس برس تھی، تو اسے جلاوطنی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ یعقوب کے دل کی افسردگی اس کے لہجے میں گھلی ہوئی تھی۔ اس نے بتایا: ’’کریمیا دنیا کی واحد بدقسمت سرزمین ہے جہاں سے تمام اصلی باشندوں کو جلا وطن کردیا گیا ہے۔ ایک شخص بھی یہاں ایسا نہیں جس کو کریمیا کا اصلی باشندہ کہا جاسکے۔‘‘ خود یعقوب ا ور اس کے خاندان کو سیکڑوں کلومیٹر دور نوورسیبک میں بھیجا گیا۔ ان کی جگہ روسیوں نے لی۔ یعقوب بظاہر سیاح بن کر وطنِ مالوف آیا تھا۔ اس نے کہا: ’’اس علاقے میں ہماری یادوں کے مدفن ہیں۔ میرا بچپن اور شباب یہاں گزرا ہے۔ میرے آباء و اجداد کی ہڈیاں یہاں دفن ہیں۔ یہ کھیت، گلیاں اور جنگل میرے اپنے تھے۔ میں کبھی کبھار دل کے داغوں کو تازہ کرنے یہاں آجاتا ہوں۔‘‘

وہ مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کا مرثیہ خواں تھا۔ بات کرتے ہوئے روپڑتا اور روتے ہوئے کریمیا پر ٹوٹنے والی قیامت کا تذکرہ کرتا۔ اس نے بتایا کہ جنگِ عظیم کے خاتمے پر اشتراکی حکومت نے الزام لگایا کہ کریمیا کے عوام نے ہٹلر کی فوجوں کا ساتھ دیا تھا۔ سزا یہ تجویز کی گئی کہ پوری آبادی کو دور دراز کے علاقوں میں دھکیل کر اس کی جگہ روسی قسم کے لوگوں کو لاکربسادیا جائے، تاکہ آئندہ کے لیے حکومت کے خلاف کسی ’’سازش‘‘ کا امکان باقی نہ رہے۔ یعقوب نے اپنے خاندان پر گزرنے والی قیامت یوں سنائی:

’’ہمیں رات کی تاریکی میں گھروں سے پکڑا گیا۔ لوگ گہری نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فوجی ٹرکوں نے ہماری بستیوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ جس نے مزاحمت کی، اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ باقی سب کو پکڑ لیا گیا۔ بوڑھوں، جوانوں، اور بچوں کی مشکیں کس کر ٹرکوں میں ڈال دیا گیا۔ ٹرک رات بھر چلتے رہے۔ اگلی صبح ہمیں کسی ریلوے اسٹیشن پر اتارا گیا۔ اس کے بعد مال گاڑی کے ڈبوں میں ڈال کر نامعلوم مقامات کی طرف روانہ کردیا گیا۔ کئی روز بھوکے پیاسے ریل کے ڈبے میں بند رہے۔ کھانے پینے کا تو کیا سوال کسی کو رفع حاجت تک کی اجازت نہ تھی۔ کئی روز کے سفر کے بعد ہم نودیبرسیک کے مقام پر اترے۔ ہماری حالت یہ تھی کہ سینکڑوں بوڑھے اور بچے بھوک سے مرچکے تھے۔ جو باقی بچے تھے ان کی حالت مردوں سے بدتر تھی۔ میرے اپنے خاندان کے نصف سے کم افراد زندہ تھے۔ ہماری بستی کے بہت سے لوگ ہم سے جدا ہوگئے۔ کچھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ دوسری ریل گاڑیوں کے ذریعہ سائبیریا اور شمال کے دور افتادہ مقامات پر پہنچادیے گئے۔

میں گزشتہ تیس برس میں کئی مرتبہ یہاں آچکا ہوں۔ میری طرح دوسرے بھی آتے ہوں گے۔ میں جب بھی آتا ہوں، ان وادیوں اور ویرانوں میں دیوانوں کی طرح پھرتا ہوں۔ اپنے آباء و اجداد کی یادگاروں کو دیکھتا ہوں۔ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے ایک ایک نقش کو آنکھوں سے چومتا ہوں۔ کوئی قبرستان دکھائی دیتا ہے تو سارے مرنے والوں کے سراپے یاد آنے لگتے ہیں۔ کسی تنہا جگہ بیٹھ کر آنسو بہاتا ہوں تو دل کی آگ کچھ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔‘‘

پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے یعقوب خود بھی بار بار روتا تھا اور مجھے بھی اپنے ساتھ رلا دیتا تھا، اس نے کہا: ’’ہمارے اجڑنے سے پہلے اس علاقے میں ہزاروں مسجدیں تھیں۔ ان کے پُرشکوہ مینار علاقے کی رونق کا مستقل حصہ تھے۔ سینکڑوں دینی مدارس اور خانقاہیں تھیں۔ اب کچھ باقی نہیں رہا۔ صرف یالتا اور الوشتہ کے درمیان والی پہاڑی پر ایک پرانا برج کھڑا نظر آتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا یہ اکیلا نشان بھی اب گرنے والا ہے۔ کچھ دور دراز بستیوں میں مساجد اور خانقاہوں کے کھنڈر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں اس لیے باقی رکھا گیا ہے کہ کمیونسٹ یہ پروپیگنڈا کرسکیں کہ سوشلزم سے پہلے یہاں کچھ نہ تھا۔ ایسے کھنڈروں کی جگہ عظیم الشان عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔

یعقوب نے بتایا کہ روس میں مسلمانوں کو اپنے مذہب سے دور رکھنے کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں۔ چنانچہ اساسی دستور کی دفعہ ۱۲۱ میں ان لوگوں کو سخت سزا کا مستوجب ٹھیرایا گیا ہے جو اپنے بچوں کو مذہب کی تعلیم یا ترغیب دیتے ہیں۔ اگر کسی شخص کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ اس میں مذہبی رجحانات موجود ہیں اور وہ دوسروں کو مذہب کی تعلیمات سے آشنا کرتا ہے تو سخت سزا کے علاوہ اسے انتخابات میں حصہ لینے، ووٹ دینے اور دوسری شہری سہولتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔

یعقوب نے کئی مسلمان علماء کے نام بتائے جنہیں اسلام سے تعلق رکھنے کے ’’جرم‘‘ میں موت کی سزا دی گئی۔ ان میں شمالی قفقاز کے مسلمانوں کے عظیم رہنما امام نجم الدین، شیخ رضا الدین بن فخر الدین (جو مسلمانانِ روس کے مفتیٔ اعظم تھے) اور حاجی مصلح الدین قرعی زیادہ مشہور تھے۔

(۵)

ہمارے ایک افغان ساتھی مرزا محمد کے پاس ایک پرانی جینز تھی جو وہ کابل سے خرید کر لایا تھا۔ وہ فیلڈ ورک کے لیے جاتے وقت یہ پتلون پہن لیتا تھا۔ جن دنوں ہم کوئلے کی کانوں میں کام کرتے، ہمارے کپڑوں کی حالت خراب ہوجاتی تھی۔ مرزا محمد کی پتلون جگہ جگہ سے پھٹ گئی تو اس نے رنگا رنگ پیوند لگالیے۔ ہم لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے، مگر ایک روز اس کی پتلون کی قسمت چمک اٹھی۔

واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ ایک شام دو روسی لڑکیاں مجھے تلاش کرتی ہوئی میرے کمرے میں آئیں اور بڑے عاجزانہ لہجے میں کہنے لگیں کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ میرے پاس جینز ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پاس ایسی کوئی پتلون نہیں تو انھوں نے کہا، اگر میرے کسی دوست کے پاس ہو تو وہی دلادوں۔ ان کے پیہم اصرار سے میں اتنا پریشان ہوا کہ انہیں ٹالنے کے لیے مرزا کے پاس چلا گیا کہ اس کی وہی جینز لے کر ان سے پیچھا چھڑالوں۔ مرزا نے کہا: ’’میرے پاس صرف ایک پتلون ہے جس کا تم لوگ روز مذاق اڑاتے ہو۔‘‘ میں نے کہا: ’’وہی دے دو۔ لڑکیوں کو ٹالا تو جاسکے گا۔‘‘

لڑکیوں نے اس بوسیدہ پتلون کو میرے ہاتھ سے اتنے احترام سے لیا گویا وہ کوئی بیش قیمت تحفہ ہو۔ الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اطمینان سے سرہلائے۔ گویا کہہ رہی ہوں: ’’کوئلے میں ڈوبی ہوئی تو ہے، مگر ہے خالص امریکی۔‘‘ میں نے کہا: ’’میرے دوست کے پاس اس پتلون کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگر آپ کو پسند آئے تو لے جائیے۔‘‘ انھوں نے نہ صرف پتلون کو پسند کیا، بلکہ اس کے دام بھی پوچھنے لگیں۔ میرا خیال تھا کہ اگر وہ اسے مفت لے کر بھی ٹل گئیں، تو خدا کا شکرادا کروں گا۔ لیکن جب وہ قیمت پوچھنے لگیں تو میں نے مذاقاً کہا:

’’آپ شاید اسے خرید نہ سکیں، یہ نہایت اعلیٰ معیار کی چیز ہے۔‘‘

وہ میرے مذاق کو سچ سمجھیں، ایک بار پھر پتلون کو اٹھایا اور الٹ پلٹ کر دیکھا۔ لیبل پر نظر پڑی تو مزید رعب پڑا۔ بولیں:

’’ہے تو واقعی بہت قیمتی۔ پھر بھی اسے ہر قیمت پر خریدنا چاہتی ہیں۔‘‘

میں نے اپنے مزاق میں مزید زور پیدا کیا:

’’یہ جو پیوند آپ دیکھ رہی ہیں یہ بھی جدت اور فیشن کی خاطر لگائے گئے ہیں امریکہ کے جدت پسند نوجوان اپ پیوند لگی پتلونیں پہننے لگے ہیں۔‘‘

میری باتوں سے ان کی آتشِ شوق کو اور ہوا ملی۔ دونوں نے آپس میں کچھ سرگوشی کی۔ پھر ایک نے پرس سے ۵۰ روبل کا نوٹ نکالا اور میرے سامنے میز پر ڈالتی ہوئی بولی:’’اس وقت تو ہم یہی پیش کرسکتی ہیں۔ اگر مزید کہیں تو ہاسٹل سے لاکر دے دیں گے۔‘‘

میرے خیال میں مزید دھوکا دینا مناسب نہ تھا۔ میں نے انہیں بتادیا کہ یہ پتلون بہت پرانی ہے۔ اس لیے آپ یہ مفت ہی لے جائیں۔ میرا دوست پیسے لینا پسند نہیں کرے گا، مگر وہ پیسے پھینک کر چلتی بنیں، جب میں نے مرزا محمد کو ۵۰ روبل دکھائے تو اسے یقین نہ آتا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146