چوبیس گھنٹے!!

عابدہ اسلام

’’گھر سے آپ کا فون ہے۔‘‘
’’کون بول رہا ہے؟‘‘
’’جی بیگم صاحبہ ہیں۔‘‘
’’اچھا بات کراؤ۔‘‘
دوسرے فون کو رکھ کر افتخار احمد صاحب نے اپنی بیگم کا فون اٹھایا اور پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’ابا جان کی طبیعت بہت خراب ہے، آپ فوراً گھر آجائیں۔‘‘
’’کیوں خیریت؟ صبح تو میری ابا جان سے ملاقات نہ ہوسکی لیکن کل شام وہ اپنے کمرے میں ٹھیک ٹھاک ٹیلی فون پر بات کررہے تھے۔ خیر میں آدھے گھنٹے تک پہنچتا ہوں۔‘‘
’’پلیز جلدی آجائیے کیونکہ مجھے خواتین کے ایک جلسے کی صدارت کرنی ہے، ٹھیک بارہ بجے! اس کے بعد ہمارا لنچ ہے۔ میں فوراً جارہی ہوں، بوا حمیدن ان کے پاس ہیں۔‘‘
افتخار صاحب کو دفتر سے گھر پہنچتے پہنچتے تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ گھر پر عجیب منظر تھا۔ ابا پلنگ پر بے ہوش لیٹے تھے۔ ان کے ہاتھ پاؤں اکڑے ہوئے تھے اور منہ اور آنکھوں سے پانی جاری تھا۔ بے چارے دونوں نوکر ان کی حالت پر افسردہ اور سراپا انتظار حالت میں ٹہل رہے تھے۔ افتخار صاحب نے فوراً اپنے خاندانی ڈاکٹر کو فون کیا اور پھر بوا حمیدن سے بولے ’’ابا جان کی طبیعت کب سے خراب ہے؟‘‘
’’جی وہ تو شاید رات ہی سے بے ہوش ہیں۔ جب میں نے صبح ناشتہ کے لیے صاحب کو جگایا تو اس وقت ایسے ہی لیٹے تھے۔ آپ اس وقت دفتر جاچکے تھے اور بیگم صاحبہ اپنے بال ’سیٹ‘ کرانے جارہی تھیں۔ میںنے بیگم صاحبہ کو بتایا مگر شاید جلدی میں انھوں نے میری بات غور سے نہیں سنی۔ جب وہ بیوٹی پارلر سے واپس آئیں تو پھر آپ کو فون کیا۔‘‘
ایک نوکر کہنے لگا: ’’صاحب جی! بڑے صاحب تو چار پانچ روز سے کچھ کھا پی نہیں رہے تھے۔ میں نے بیگم صاحبہ سے کہا بھی تھا کہ ڈاکٹر کو بلائیں مگر آج کل وہ بہت مصروف ہیں، باہر آنا جانا زیادہ لگا ہوا ہے؟‘‘
’’مگر تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘
’’میں نے صاحب جی پرسوں آپ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسی وقت آپ کے کچھ دوست آگئے اور آپ میری بات سنے بغیر ان کے ساتھ چلے گئے۔‘‘
اسی اثنا میں ڈاکٹر حمیدی گھر پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے اچھی طرح مریض کا معاینہ کیا، پھر افتخار صاحب سے بولے ’’معاملہ خطرناک ہے۔ انھیں ہسپتال لے جانا پڑے گا۔ فالج کا زبردست حملہ ہے۔ میں ایمبولینس کو فون کرتا ہوں۔‘‘
یوں افتخار صاحب کے والد گھر سے ہسپتال منتقل ہوگئے۔ سارے بیٹوں کو باپ کی بیماری کی اطلاع پہنچ گئی۔ اب چار بیٹوں کا باپ ہسپتال کے کمرے میں نرسوں اور ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر تن تنہا تقریباً نیم بے ہوش پڑا تھا۔ تمام جسم فالج زدہ تھا سوائے زبان کے! وہ زبان سے کبھی افتخار، کبھی شہباز، کبھی عمران اور کبھی ارشد کا نام پکارتے مگر آنکھیں ان کے دیدار سے ہنوز محروم تھیں۔
محروم کیوں نہ ہوں، اتنے بڑے اور اتنے مصروف کاروبار سے فرصت ہوتی تو وہ بے چارے بوڑھے باپ کی طرف بھی رخ کرتے۔ صرف افتخار صاحب کو کچھ احساسِ ذمہ داری تھا۔ انھوں نے دوسرے دن ڈاکٹر سے فون پر خیریت پوچھی۔ پھر اسی احساس کے زیر اثر انھوں نے دو نرسیں دن میں اور دو رات کو مریض کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کرائی تھیں۔
جمال صاحب کی نگاہیں ہر پل، ہر سو اپنوں کو تلاش کرتی رہیں لیکن اپنے اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے۔ کسی کو پارٹی میں جانا تھا، کسی کو میٹنگ کا انتظار تھا اورکوئی کسی شادی میں جارہا تھا۔ باپ کے جسم کا ایک ایک عضو بچوں کے لیے سراپا انتظار تھا مگر چاروں طرف بیٹے باپ کے سایہ سے دور اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔
آخر تیسرے دن سب سے چھوٹے بیٹے ارشد کو خیال آیا کہ ابا جی اسپتال میں ہیں، انھیں دیکھنے جانا چاہیے، لہٰذا اس نے دفتر سے اسپتال کا رخ کیا۔ باپ بیٹے کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
یہ دیکھ کر بیٹا پریشانی کے عالم میں بولا: ’’ابا جی، آپ کو یہاں کسی قسم کی تکلیف ہو تو بتائیے، آپ کو کچھ چاہیے؟ یہ لوگ آپ کی دیکھ بھال اچھی طرح کررہے ہیں نا؟‘‘
’’نہیں بیٹے، میں بالکل آرام سے ہوں، مجھے کچھ نہیں چاہیے، بس یونہی آنکھیں چھلک آئی تھیں، دلہن کیسی ہے؟ بچے کیسے ہیں؟ ‘‘
’’ابا جی! سب مزے میں ہیں، نسرین آتیں مگر ان کی بہن امریکہ سے آئی ہوئی ہیں، شاید ان میں الجھی ہوئی ہیں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے ارشد کو اپنے دماغ پر بڑا زور دینا پڑا۔
’’میں کل گھر سے نسرین کو لے کر آؤں گا۔‘‘
چند ساعت بیٹھنے کے بعد ارشد گھڑی دیکھنے لگا پھر بولا: ’’ابا جی، اب میں چلتا ہوں، پھر حاضر ہوں گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ باپ کچھ کہتا، ارشد کے قدم اٹھ گئے۔ ایک گھنٹے کے وقفے سے افتخار صاحب اور دوسرے دونوں بیٹے والد سے ملنے آئے۔ وہی منظر دوبارہ دہرایا گیا اور دو چار باتوں پر ختم ہوگیا۔ پھر وہی سناٹا اور وہی خاموشی!
اسی شام بیگم افتخار نے اپنی دیورانی سے فون پر باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ابا جان کے پاس تین دن سے اسپتال نہ جاسکی۔ کیا بتاؤں ان میٹنگوں اوراستقبالیوں نے تو مجھے دنیا سے بالکل بے تعلق کردیا ہے۔‘‘
ادھر سے دیورانی کی آواز آئی: ’’ارے بھابی، کیا بتاؤں اپنا حال اس سے بھی برا ہے۔ کل سہیلی کے یہاں بچوں کی پارٹی تھی، وہاں جانا تھا۔ صبح پھولوں کی نمائش کا افتتاح کرنا تھا۔ بس دو دن اسی میں گزر گئے۔ اب یہ چیزیںبھی تو ضروری ہیں۔ کیا کریں، زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے۔ آج شام شاید ان کے ساتھ ابا جان کو دیکھنے چلی جاؤں۔ لیکن ہاں، عمران تو شاید ’ڈنر‘ پر جائیں گے، میں ہی کوشش کروں گی۔ اچھا بھائی خدا حافظ!‘‘
ایک ہفتہ بعد افتخار صاحب کو ڈاکٹر نے بتایا کہ فالج کی وجہ سے دل گردے سب متاثر ہوچکے ہیں اور ان کے والد چوبیس گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ افتخار صاحب شروع میں تو گھبراگئے پھر اپنی مصروفیات کاخیال آیا تو آئندہ چوبیس گھنٹوں کے نظام الاوقات پر نگاہ ڈالی، ’’اُف میرے خدا! کل شام تو مجھے تجارتی معاہدہ کرنے جانا ہے۔ ارے مارے گئے۔‘‘
خیر گھر آکر انھوں نے کھانے پر اپنی بیگم کو ڈاکٹر کی پیش گوئی سے مطلع کیا اور ادھر اپنے منیجر کو قبر کا بندوبست کرانے کے لیے روانہ کردیا۔ آج کل قبرستان بڑے پرہجوم ہوگئے ہیں، لیکن پیسہ ایسی چیز ہے جس سے آپ دنیا کی ہر چیز خرید سکتے ہیں… کاش اگلے جہان میں بھی جنت کے لیے کچھ خریدوفروخت ہوسکتی۔
تھوڑی دیر بعد سب بھائیوں کو منیجر کے ذریعے فون پر مطلع کردیا گیا اور کفن دفن کے انتظام کے لیے منیجر سمیت چند آدمی کام کرنے لگے۔ قبر کے لیے زمین خریدی گئی اور گورکنوں کی مدد سے قبرتیار ہوگئی۔ دن گزرا، رات آئی، تو قبرستان میں روشنی کے لیے جنریٹر کا انتظام کردیا گیا۔ اس کی وجہ سے قبرستان کا ایک بڑا حصہ روشنی سے جگمگانے لگا۔ گورکن اور اس کام سے متعلقہ دوسرے لوگ صبح سے رات تک تمام انتظام کرنے کے بعد اب انتہائی حیران و پریشان تھے کہ آخر جنازہ ابھی تک کیوں نہیں پہنچا؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید جنازہ کسی باہر کے ملک سے آرہا ہے، اس کی وجہ سے پیشگی انتظامات ہورہے ہیں لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ کہیں باہر سے نہیں آرہا بلکہ وہ شخص جسے دفنانے کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں، ابھی تک ’بقید حیات‘ ہے۔ بس اس کے مرنے کا انتظار ہے۔
یہ سن کر گورکن اور قبرستان میں موجود تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے ’’آخر اس قدر جلدی دکھانے کی ضرورت کیا تھی؟ قبر تو تیار ہی اس وقت ہوتی ہے جب بندہ دنیا سے آنکھیں موند لے۔ یہ کس گھر، کس خاندان کا فرد ہے کہ ابھی دنیا میں ہے اوراگلے جہان کی تیاری کو چوبیس گھنٹے گزرچکے ؟ بھئی بڑے گھر کے بزرگ ہیں، اولاد اگر دنیا میں ان کے لیے راحت و سکون کا باعث نہ بن سکی تو چاہتی ہے کہ کم از کم آخری تیاری میں تو باپ کو خوش کردے۔‘‘
ادھر جب بیگمات کو چوبیس گھنٹے کی مہلت کا پتا چلا تو وہ اپنے اپنے نہج پر سوچنے لگیں۔ مسز افتخار چونکہ بڑی بہو تھیں، تمام انتظامات ان کے شوہر نامدار کررہے تھے اور سسر ان ہی کے گھر قیام پذیر تھے اس لیے ظاہر تھا کہ آخری روانگی بھی انہی کے یہاں سے ہوگی۔ اب چونکہ وہ بڑے آدمی کی بیوی ہیں، بڑی بہو اور صاحبِ خانہ بھی ہیں لہٰذا ظاہر ہے تعزیت بھی سب انہی سے کریں گے۔ انھوں نے سوچا کہ اپنی شخصیت دکھانے کا یہ سنہری موقع ہے۔ یہی سوچ کر وہ بازار گئیں۔
وہ سیدھی کپڑے کی ایک بڑی دکان پر پہنچیں جہاں سے وہ اکثر خریداری کرتی تھیں۔ لباس کے سلسلے میں وہ بڑے اعلیٰ ذوق کی مالک تھیں۔ ان کی آمد سے دکاندار کا خوش ہونا لازمی تھا، فوراً ’’بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ‘‘ کی پکار پڑنے لگی۔
’’جی بیگم صاحبہ! آج تو آپ بڑے موقع سے آئی ہیں۔ بہت اعلیٰ کوالٹی کا کپڑا آیا ہے۔ میں تو آپ کو فون پر اطلاع دینے والا تھا۔ شکر ہے آپ خود تشریف لے آئیں۔‘‘
اور پھر تھان کے تھان کھلنے شروع ہوگئے۔
’’ یہ دیکھئے نارنجی رنگ کی ساڑھی اور یہ سبز اور سرخ رنگ میں ہے۔‘‘
’’مجھے یہ رنگ نہیں چاہیے، مجھے ذرا سفید اور کالے رنگ کی ساڑی اور شلوار قمیص کا کپڑا چاہیے۔ ذرا جلدی کریں، میرے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘
دکان دار بیگم صاحبہ کے تیز مزاج سے واقف تھا، فوراً حکم کی تعمیل کی، کالی ساڑی اور سفید سوٹ کے کپڑے فوراً حاضر کردیے۔ بیگم صاحبہ جلدی جلدی اپنے ’درزی‘ کی طرف چل دیں۔ درزی کے یہاں پہنچ کر اسے کپڑے دئیے اور ساتھ ہی تاکید کی کہ دو تین گھنٹے کے اندر اندر یہ سل جانے چاہئیں۔
’’کیوں بیگم صاحبہ! خیریت تو ہے؟ کیا باہر جانے کا پروگرام ہے؟‘‘
’’نہیں، یہیں ہوں، بس ذرا جلدی چاہیے، میں ڈرائیور کو بھیج دوں گی۔‘‘
’’جی ضرور ضرور! آپ فکر نہ کریں۔ میں تمام کام رکوا کر آپ کا کام کراؤں گا۔‘‘
بیگم افتخار گھر پہنچیں تو اپنی خالہ ساس کو وہیں موجود پایا۔ انھیں دیکھ کر ایک دم حواس باختہ ہوگئیں کیونکہ خالہ کا مزاج ان کے مزاج سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وہ پرانے زمانے کی وضع دار اور مذہبی خاتون تھیں۔
’’ارے نسرین کیسی ہو؟ کیا سسر کے پاس سے آرہی ہو؟ میں نے سنا ہے دلہا بھائی بیمار ہیں۔ دل نہ مانا، اسی لیے آگئی۔ انیس دفتر سے نہیں لوٹا تھا، اس کا انتظار شام تک کیسے کرتی؟ ان کی طبیعت کیسی ہے؟ کس اسپتال میں ہیں؟ مجھے بھی لے چلو، ذرا دیکھ آؤں۔‘‘ خالہ نے ایک ہی سانس میں کئی باتیں کردیں۔
’’مگر خالہ وہ تو ابھی آہی جائیں گے، آپ وہاں جاکر کیا کریں گی۔‘‘
’’کیوں؟ کیا طبیعت ٹھیک ہوگئی، چھٹی مل رہی ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ نسرین بولی:’’طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی، ڈاکٹر نے چوبیس گھنٹے کا کہا ہے، پتا نہیں کس وقت یہ سانحہ ہوجائے لہٰذا اب جانا بیکار ہے۔‘‘
خالہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، وہ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر بولیں: ’’غضب خدا کا بیٹی! کیسی باتیں کررہی ہو؟ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا بھی، تو ان کے پاس اپنوں کو ہونا چاہیے۔ کہاں ہیں افتخار، شہباز، عمران اور ارشد وغیرہ؟ ہائے، کہاں چلی گئیں میری آپا، آج وہ زندہ ہوتیں تو یوں نہ ہوتا کہ بیچارا باپ اکیلا بستر مرگ پر پڑا ہے اور اولاد دنیا سمیٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ ارے پھٹکار ایسی اولاد پر اور ایسے پیسے پر۔‘‘
’’ارے خالہ! آپ تو خواہ مخواہ غصہ کررہی ہیں، ان کے پاس ڈاکٹر اور نرسیں موجود ہیں۔ وہ سب ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کررہے ہیں۔ افتخار ان کی قبر اور دفن کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ارے بیٹی! یہ کیسی باتیں کررہی ہو تم؟ ایسی باتیں نہ کبھی سنیں اور نہ ایسا کبھی دیکھا۔ ابھی کچھ ہوا نہیں اور کفن دفن؟ …‘‘ وہ یہ کہتی ہوئی اٹھیں اور ان کے ساتھ چاروناچار بیگم افتخار کو بھی اٹھنا پڑا۔
اسپتال کے کمرے میں بیگم افتخار کے سسر نیم بیہوشی کی حالت میں بستر پر دراز تھے۔ بہو اور سالی کو دیکھ کر ان کی آواز سن کر کچھ بولنے کی کوشش کی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ادھر بہنوئی کو دیکھ کر سالی بے قابو ہوگئیں۔ نرسوں کے سنبھالنے سے ذرا اپنے حواس میں آئیں۔ انھوں نے فوراً سورہ یٰسین اور قرآنی آیات کا ورد شروع کردیا۔ نسرین اٹھیں ہسپتال چھوڑ کر خود گھر آگئیں۔ گھر پہنچ کر وہ جلدی جلدی نہادھوکر تیار ہوئیں پھر میاں کو فون کرکے خالہ کی آمد کی اطلاع دی۔ اب بیگم افتخار اپنے آپ کو ہر طرح سے تیار کرچکی تھیں، بس ہونے والے سانحے کا انتظار تھا اور درزی سے کپڑوںکا آنے کا! ہر فون اور گاڑی کے ہارن پر کان کھڑے ہوجاتے۔ اسی اثنا میں درزی کے یہاں سے کپڑے آگئے۔ انھیں پہن کر دیکھ لیا گیا کہ وہ ہر لحاظ سے موزوں ہیں، لیکن دوپہر سے شام اور شام سے رات گزر گئی مگر اس سانحہ کی کوئی اطلاع نہ آئی جس کی تیاری چوبیس گھنٹے پہلے شروع ہوچکی تھی۔
صبح اطلاع پہنچی کہ بڑے صاحب کو ہوش آگیا ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں