مداری نے مجمع پر ایک سرسری نظر ڈالی۔ تماشائیوں کا ہجوم بھر چکا تھا۔ اس نے بانسری بجانا بند کیا اور ایک بار زور سے ڈگڈکی بجائی۔ پھر اس نے آگے بیٹھے بچوں کو ایک بار ’’شوم جائے سخی آئے‘‘ کا نعرہ لگانے کے لیے کہا۔ بچوں نے مل کر پورے زور سے کہا ’’شوم جائے سخی آئے‘‘ اب مداری نے تماشائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’بابا لوگو! سخی لوگو! سڑک سے تھوڑا آگے ہوجاؤ۔ ہندوستانی بھائیو اپنی جیب پاکٹ سے ہوشیار۔ اپنی اپنی گانٹھ، کھیسے کا دھیان رکھنا ایسا نہ ہو کہ تماشا میں دکھاتا رہوں اور آپ کی جیبوں سے پیسے کوئی اور اکٹھے کرتا رہے، اور جب سخی لوگ مجھے پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالیں تو ہاتھ جیب سے دوسری طرف جانکلے‘‘ مداری کی اس فقرہ بازی پر مجمع میں قہقہوں کی پھلجھڑیاں چھوٹیں۔ کچھ لوگ آگے ہوئے اور کچھ نے اپنی اپنی جیبیں ٹٹولیں۔
اب مداری اپنے سامنے بیٹھے اپنے بیٹے سے مخاطب ہوا۔
’’بچہ جمورے‘‘
’’ہاں مداری۔‘‘ جمورے نے جواب دیا اور سوال جواب کا سلسلہ جاری ہوگیا۔
’’تیرا نام‘‘
’’میرا نام عاشق‘‘
’’کس سے عشق کرے گا؟‘‘
’’اپنے پیٹ سے‘‘ جمورے نے جواب دیتے ہوئے اپنے ننگے پیٹ کو تھپتھپایا۔
’’تمہارا گاؤں۔‘‘
’’میرا گاؤں ڈاسنا، تحصیل غازی آباد ، یوپی۔‘‘
’’کس زبان میں بات کرے گا؟ مداری نے پھر پوچھا۔
’’ہندی اردو، پنجابی، بنگالی جس زبان میں سخی بات کرے۔‘‘
’’سب کو سلام کرو۔‘‘ مداری نے حکم دیا اور جمورے نے چاروں طرف گھومتے ہوئے کہا۔
’’مسلمان کو سلام، ہندو کو رام رام، سردار جی نوں ست سری اکال۔‘‘
’’وہ دونوں اندازہ لگا چکے تھے کہ تماشائیوں میں کثرت پنجابیوں کی تھی، خصوصاً سکھوں کی۔ مداری نے پھر جمورے کو مخاطب کیا۔
’’جمورے!‘‘
’’ہاں مداری!‘‘
’’پہلے کون سا تماشہ کریں۔‘‘
’’پہلے پنجابی جھرلو۔‘‘
اب مداری نے اپنے تھیلے سے ایک لکڑی کا ٹیڑھا سا ڈنڈا نکال کر جمورے کو دکھاتے ہوئے پوچھا:
’’اس جھرلو سے نوٹ بناؤں۔‘‘
’’تو نوٹ نہیں بنا سکتا۔‘‘ جمورے نے جواب دیا اور مداری نے پھر زور سے کہا۔
’’بنا سکتا ہوں۔‘‘
’’نوٹ بنا سکتا ہے تو بھوکا کیوں مرتا ہے۔ سخی کے آگے ہاتھ کیوں پھیلاتا ہے؟‘‘
مجمع میں قہقہوں کی آواز گونجی اور مداری نے ایک دفعہ زور سے ڈگڈگی بجا کر کہا۔ ’’ہت ترے کی، تونے نحوست پھیلادی۔ نوٹ نہیں بنائیں گے۔‘‘
مداری یہ کہتے ہوئے اپنے بائیں پاؤں کے نیچے دبائی ہوئی بندروں کی رسی نکال کر ہلکا سا جھٹکا دیا۔ بندریا مداری کے دائیں طرف پڑی لکڑی پر بیٹھ گئی۔ بندر بھی چست ہوکر مداری کے بائیں طرف زمین پر بیٹھ گیا۔ مجمع میں آنے والا ہر نیا آدمی اپنے لیے جگہ بنا رہا تھا۔ ایک بوڑھا مجمع میں گھستے گھستے مداری کے بالکل پیچھے آکھڑا ہوا۔ اس کے سر کے سفید بال بے ترتیبی سے بڑھے ہوئے تھے۔ مگر لمبی سفید داڑھی چہرے کو پر رونق بنائے ہوئے تھی۔
مداری نے ایک بار پھر جمورے کو مخاطب کیا۔
’’بچہ جمورے!‘‘
’’ہاں مداری۔‘‘
’’یہ کون؟‘‘
’’بندر۔‘‘
’’یہ تیرا باپ۔‘‘
’’باپ تیرا، میرا دوست ہے۔‘‘ جمورے کے اس جواب پر تماشائیوں نے قہقہے لگائے۔ مداری نے ایک بار زور سے ڈگڈگی بجائی اور پھر کہا۔
’’تیرا دوست ہے تو اس کی جورو کو بھکالے جا۔‘‘
’’میں یہ کام نہیں کرتا۔‘‘
’’پھر دوستی کس بات کی؟‘‘ مداری نے طنزیہ لہجے میں کہا اور جمورے نے اپنا ننگا پیٹ بجاتے ہوئے جواب دیا:
’’دوستی پیٹ کی۔‘‘
’’جمورے تیرا دوست جورو کو مارتا ہے۔‘‘ مداری نے پھر کہا۔
’’اس کی مشکیں باندھ دو۔‘‘ جمورے نے جواب دیا
اب مداری نے بندریا کو مخاطب کیا۔‘‘ بھاگوان اس سے راضی ہوجا۔‘‘
بندریا نے انکار میں سر ہلایا۔ ’’اچھی بات‘‘ کہتے ہوئے مداری نے بندر کے گلے کی رسی دوسری طرف سے پکڑی۔ بندر نے خود ہی دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور مداری نے اس کے ہاتھ باندھ دیے۔ مداری کے پیچھے کھڑا بوڑھا ایک کھوجی کی سی نظر سے بندر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ کو کھول کر بسکٹ کا ایک ٹکڑا نکالا اور بندر کو دکھاکر اپنی طرف آنے کے لیے کہا۔ مداری اور جمورے نے پھر سوال و جواب شروع کر دیے، مگر بوڑھا بندر کو بلانے کے لیے مسلسل اشارے کرتا رہا۔
’’مداری!‘‘
’’ہاں بچہ جمورے۔‘‘
’’میرے دوست کے ہاتھ کھول دے۔‘‘
’’اس سے پوچھ جورو کو مارے گا۔‘‘
’’کیوں دوست جورو کو مارے گا؟‘‘ جمورے نے اونچی آواز میں بندر سے پوچھا اور اس نے انکار میں سر ہلایا۔ مگر بندر کی توجہ بوڑھے کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بسکٹ کی طرف ہی تھی۔ جوں ہی مداری نے بندر کے ہاتھ کھولے، وہ بوڑھے سے بسکٹ لینے کے لیے اچھل کر مداری کے کندھے پر جا بیٹھا۔ بوڑھے نے بندر کی رسی پکڑتے ہوئے کہا ’’بس بھائی بہت تماشا ہولیا۔ واپس کرو ہمارا بندر۔‘‘ مداری نے گھبرا کر پیچھے دیکھا، مگر تب تک بوڑھا بندر کو کھینچ کر مجمع سے باہر نکل گیا۔
بندر نے چیختے ہوئے بوڑھے کے ہاتھ پر دو چار ناخن مارے اور مداری نے بھاگ کر بوڑھے سے بندر کی رسی چھینتے ہوئے کہا۔
’’ارے بابا کیا کر رہا ہے، چھوڑ اس کو۔‘‘
مداری اور بوڑھا ایک دوسرے سے بندر کی رسی چھیننے لگے۔ سارا مجمع اکھڑ گیا۔ حیران ہوکر لوگ ان دونوں کے گرد جمع ہوگئے۔ بندر گھبرا کر مداری کی ٹانگوں سے چمٹ گیا۔
’’بابا ایسداباندر دے دے۔‘‘ ایک سردا رصاحب نے بوڑھے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
ہاں بابا دے دو اس کا بندر کیوں خواہ مخواہ جھگڑا کرتے ہو۔‘‘ ایک موٹے سیٹھ نے بھی بوڑھے کو پچکارتے ہوئے کہا۔ مداری نے بھی مزید حمایت حاصل کرنے کے لیے سردار صاحب کو مخاطب کیا۔ ’’دیکھو سردار صاحب یہ شوم سب کے سامنے میرا بندر لے کر چلتا بنا۔‘‘
’’بلے ادئے، ہم اپنا بندر واپس مانگیں تو شوم اور تو بھیک مانگ کر کھانے والا ہمارا بندر چرا کر بھی سخی بنتا ہے۔‘‘ بوڑھے نے ناراضگی کا اظہا رکرتے ہوئے مداری کو جواب دیا۔
’’چھڑدے بابا ہن۔‘‘ ایک اور بزرگ سردار صاحب نے کہا۔
’’چھوڑوں کیسے! بندر میرا ہے۔‘‘ بوڑھے نے تلخی سے جواب دیا۔
ہجوم دیکھ کر پولیس کی ایک فلائنگ سکویڈ کار نزدیک آکر رکی اور سکویڈ افسر تیزی کے ساتھ ہجوم میں آگھسا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ سکویڈ افسر نے پوچھا۔ بوڑھا کچھ گھبرایا تو ضرور مگر اس نے بندر کی رسی ہاتھ سے نہ چھوڑی۔ مداری نے سکویڈ افسر کو جواب میں کہا:
’’حضور ہم تماشہ کر رہے تھے، یہ بوڑھا ہمارا بندر چھین کر بھاگ چلاتھا، پوچھئے ان لوگوں سے۔‘‘
کچھ تماشائیوں نے مداری کے حق میں سر ہلائے۔ سکویڈ افسر نے بندر کی رسی دونوں کے ہاتھ سے چھین لی۔ مگر بندر مداری کی ٹانگوں سے بدستور چمٹا رہا۔ سکویڈ افسر نے رسی مداری کے ہاتھ میں دے دی۔ اور بندر مداری کے بازو کے سہارے اس کے کندھے پر چڑھ گیا۔ بوڑھے نے رسی چھوڑ کر مداری کا بازو پکڑ لیا۔ اور جھگڑا بدستور قائم رہا۔
’’چھوڑوے بابا۔ یہ بندر اسی مداری کا ہے۔‘‘ سکویڈ افسر نے جھگڑا نمٹانے کی نیت سے بوڑھے کو کہا۔
’’ہاں ہاں، اس کا ہے۔ تیرے کہنے پر نہیں چھوڑتا۔ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہاتھ آیا ہے۔‘‘ بوڑھے نے عجب انداز میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
اب سکویڈ افسر نے ذرا رعب سے کہا ’’نہیں چھوڑتے تو آرام سے کھڑے رہو۔ جھگڑا مت کرو، ابھی علاقہ کی پولیس آکر تم دونوں کو لے جائے گی۔‘‘
مداری کے بیٹے نے اپنا سامان سنبھال کر اپنے تھیلے میں ٹھونس لیا تھا۔ اور بندریا کو کندھے پر بٹھائے ہجوم سے باہر کھڑا جھگڑا نپٹے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’یا اللہ یہ کیا مصیبت ہے۔‘‘ مداری نے جھنجھلا کر کہا۔
’’اللہ سے نہیں ہم سے بات کرو۔‘‘ بوڑھے نے ناراضگی سے مداری کو کہا:
’’ہمارا بندر چرا کر اللہ کو آواز نہ مار۔‘‘
سکویڈ افسر نے ایک بار پھر دونوں کو جھگڑا کرنے سے منع کیا۔ مداری کا تماشہ دیکھنے والوں کی نسبت یہ تماشہ دیکھنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ کیوں کہ یہ تماشہ بالکل نیا تھا اور لوگوں کو یہ بھی یقین تھا کہ اس تماشے کے بعد کوئی بھی پیسے مانگنے کے لیے چادر نہیں بچھائے گا۔ ایک تھانیدار اور تین سپاہی بھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے کھڑے سکویڈ افسر کے پاس آپہنچے۔ تھانیدار نے بوڑھے کو دیکھتے ہی کہا:
’’ارے بابا تو پھر آگیا، چھوڑ اس کو۔‘‘
’’چھوڑوں کیسے۔ پہلے ہمارا بندر واپس دلواؤ۔‘‘ بوڑھے نے حوصلے سے جواب دیا۔
’’بابا بندر تو ا سکے ساتھ ہلا ملا ہوا ہے۔‘‘ سکویڈ افسر نے کہا۔
’’تو کیا ہوا، ہے تو ہمارا۔‘‘ بوڑھے نے جواب دیا۔
تھانیدا رنے سکویڈ افسر کو بتایا کہ بوڑھا ایسے نہیں چھوڑے گا اور پھر مداری اور بوڑھے کو تھانہ چلنے کے لیے کہا۔ بوڑھے نے مداری کو بائیں بازو سے پکڑا ہوا تھا۔ ایک سپاہی نے تھانیدار کا اشارہ پاکر بوڑھے کو بائیں بازو سے پکڑ لیا۔ اور تھانہ کو چل دیے۔ ان کے پیچھے پیچھے جمورا اور کچھ تماشائی بھی چل دیے۔
بوڑھے، مداری اور جمورے کو برآمدہ میں کھڑا کر کے تھانیدار ڈی ایس پی کے کمرہ میں چلا گیا۔ اس نے پورے زور سے بوٹ کی ایڑی سے ایڑی مار کر سلیوٹ کیا۔
’’کہو چودھری صاحب کیا واردات تھی؟‘‘ ڈی ایس پی نے سر کے ہلکے سے اشارے سے سلیوٹ کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
’’جناب فلائنگ سکویڈ نے ایک مداری اور ایک بوڑھے کو پکڑا ہوا تھا۔‘‘
’’کیا جھگڑا ہے؟‘‘ ڈی ایس پی نے پھر پوچھا۔
’’سردار صاحب، وہ بوڑھا کہتا ہے کہ مداری نے اس کا بندر چرا لیا ہے۔‘‘
تھانیدار کا جواب سن کر ڈی ایس پی نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’آپ تو تجربہ کار پولیس افسر ہیں۔ اتنی سی بات کا اندازہ نہیں لگا سکے۔‘‘
’’سردار صاحب اندازے کی تو کوئی بات نہیں مگر وہ بوڑھا مداری کو چھوڑتا ہی نہیں۔‘‘
ڈی ایس پی نے معنی خیز نظروں سے تھانیدار کی طرف دیکھا اور اپنے دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی سے دائیں مونچھ کو اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’ہوں! اچھی بات ہے پیش کرو۔‘‘
تھانیدار نے حکم پاتے ہی دروازہ پر لگی چک کو ایک طرف کر کے سامنے برآمدہ میں کھڑے سپاہیوں کو اشارہ کیا۔ ایک سپاہی مداری اور بوڑھے کو اندر لے آیا۔ بوڑھے نے بدستور مداری کو بائیں بازو سے پکڑا ہوا تھا۔ بندر مداری کے بائیں بازو سے چمٹا ہوا بوڑھے کو سہمی ہوئی نظروں سے گھور رہا تھا۔ مداری نے ڈی ایس پی کو سلام کیا۔ بوڑھے نے بھی مداری کا بازو چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے نمسکار کی مگر زبان سے کچھ نہ بولا۔ ڈی ایس پی بوڑھے کے چہرے کو دیکھ کر متاثر ہوا اور دائیں ہاتھ بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔ بوڑھا ڈی ایس پی کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’تم بھی بیٹھ جاؤ۔‘‘ ڈی ایس پی نے مداری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مداری ذرا آگے پڑے بنچ پر بیٹھ گیا۔ ڈی ایس پی کا اشارہ پاکر تھانیدار اور سپاہی باہر نکل گئے۔ بندر، مداری کے بازو سے اتر کر فرش پر بیٹھ گیا۔ مداری نے بندر کی رسی کو ہلکا سا ہلایا۔ بندر نے ڈی ایسی کو سلام کیا۔ ڈی ایس پی یہ دیکھ کر مسکرایا۔ پھر اس نے بوڑھے کے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے پوچھا: ’’ہاں بابا جی کیا بات ہے؟‘‘
بوڑھا کمرے کی دیواروں کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے چست ہوکر کہا۔ ’’بات کیا ہوگی جی، اس مداری نے ہمارا بندر چرا لیا تھا۔ آج بہت مدت کے بعد یہ ہمارے ہاتھ آیا۔ آپ کے پولیس افسر اسے پھر بھگانے لگے تھے۔ یہ تو ہم ہی تھے کہ اسے چھوڑا نہیں اب ہمارا بندر واپس دلوائیے او رہم…‘‘
مداری نے گھبرا کر بوڑھے کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’جناب دہلی کے سبھی پولیس افسر جانتے ہیں کہ ڈاسنا مداریوں کا گاؤں ہے جو یہاں سے صرف سولہ سترہ میل ہے، میں بھی اسی گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ یہ بندر ہمارے گھر میں کئی نسلوں سے ہے۔ میرے باپ، دادا کے وقت سے۔ حضور گاؤں کے پیر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں۔ سارا گاؤں میرے حق میں گواہی دے گا۔‘
بوڑھا مداری کی بات سن کر جھنجھلا کر بولا ’’اوئے تیرے جھوٹے گواہ کیا کریں گے۔ چاہے بندر چھ جنم لے چکا ہو۔ ہے تو چوری کا۔ ہمارے سامنے اس نے ہمارا گور و منتر پڑھا۔ بتاؤ تم نے اس کے ہاتھ کھولے تھے کہ نہیں؟‘‘
ٹھہرو بابا جی ٹھہرو۔ اگر بندر آپ کا ہے تو آپ کو ہی ملے گا۔‘‘ ڈی ایس پی نے بوڑھے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اب بوڑھے نے بھی آرام سے جواب دیا۔ ’’ہاں پھر ٹھیک ہے۔ تسلی آپ بیشک کریں۔‘‘
ڈی ایس پی کی تسلی تو ہو ہی چکی تھی۔ اب وہ صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ بوڑھے نے بندر کی ملکیت کا دعویٰ کیوں کیا اور اس سے مداری کا چھٹکارا کیسے کروایا جائے، جس سے بوڑھے کو گرفتار بھی نہ کرنا پڑے۔
اس نے بڑے تحمل سے پوچھا ’’بابا جی آپ نے یہ بندر کہاں سے لیا تھا۔‘‘
’’لینا کہاں سے تھا، ہم نے خود بنایا تھا۔‘‘ بوڑھے کا یہ جواب سن کر مداری بوڑھے کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ ڈی ایس پی نے پھر پوچھا:
’’آپ کا نام؟‘‘
’’میرا نام رب۔‘‘ بوڑھے نے پوری تسلی اور آرام سے جواب دیا۔
ڈی ایس پی نے ایک دفعہ پھر اپنی دائیں بڑی انگلی سے اپنی مونچھ کو اوپر اٹھاتے ہوئے گمبھیر لہجہ میں بوڑھے سے کہا۔
’’بابا جی پوری بات بتائیے کہ آپنے یہ بندر کب بنایا تھا، کب چوری ہوا تھا اور آپ کے بندر کی نشانی کیا ہے۔‘‘
اس کا خیال تھا کہ بوڑھا اپنی وہم کی کہانی سنا کر شانت ہوجائے گا۔ بوڑھے نے بڑے سکون کے ساتھ کہنا شروع کیا۔
’’جب ہم نے دنیا بنا کر آدم اور حوا کو بھیجا تو ہم نے ان کی رہ نمائی کے لیے چار بند بنائے تھے اور ان کو مختلف قسم کے گورو منتر دیے تھے۔ پہلا بندر آنکھیں بند کر کے کہتا تھا۔ برا مت دیکھو۔ دوسرا منہ پر انگلی رکھ کر کہتا تھا، برا مت بولو۔ تیسرا کانوں میں انگلیاں دے کر کہتا تھا، برا مت سنو۔ چوتھے بندر کی ہم نے مشکیں باندھ دی تھیں اور اس کو ہم نے گورو منتر دیا تھا: ’’برا مت کرو‘‘ بس وہ چوتھا بندر اس مداری نے چرالیا تھاـ۔ آج جب اس مداری نے بندر کے ہاتھ باندھے تو اس کو ہمارا گورو منتر یاد آگیا۔ اور اس نے ہمیں پہچان بھی لیا۔ جونہی اس نے بندر کے ہاتھ کھولے وہ لپک کر ہمارے پاس آگیا۔ پوچھئے اس سے کیوں بے اب بولتا کیوں نہیں۔ بندر خود بخود ہمارے پاس آیا تھاکہ نہیں۔‘‘
مداری پتھر کی بت کی طرح بے حس و حرکت، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بوڑھے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ڈی ایس پی نے بوڑھے سے پھر پوچھا:
’’بابا جی یہ بندر آپ نے کب بنائے تھے؟‘‘
بوڑھے نے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے انگلیوں پر حساب لگاتے ہوئے کہا: ’’ست یگ، نریتا، دوآپر، یہی کوئی چار ارب سال ہوئے ہیں۔‘‘
’’مگر بابا جی آپ کے بندر کی عمر تو چار ارب سال نہںہے، یہ بندر تو ابھی بچہ ہے۔ ڈی ایس پی نے جھگڑا نپٹانے کے لیے راستہ نکالتے ہوئے اس سے کہا۔ مگر بوڑھے نے جواب دے کر اسے لاجواب کر دیا۔
’’ہمارے بندر امر ہیں۔ نہ بوڑھے ہوسکتے نہ مرسکتے ہیں۔ ویسے بوڑھا اب کافی شانت ہوچکا تھا۔ ڈی ایس پی نے پھر کہا:
’’رب جی! آپ کے بندر کا ہمیں پتہ ہے۔ یہ بندر اسی مداری کا ہے، اس نے آپ کے بندر کی نقل ماری ہوگی۔‘‘
ڈی ایس پی کے منہ سے ’’رب جی‘‘ لفظ سن کر بوڑھا بہت خوش ہوا، اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’ہاں، آں، آں۔ یہ ہوسکتا ہے۔‘‘
ڈی ایس پی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور مداری کو ڈانتے ہوئے کہا:
چل بے بھاگ یہاں سے۔ اور اپنے بندر کو سمجھا کر رکھنا۔ بابا جی کے بندر کی نقل نہ مارے۔‘‘
یہ کہہ کر ڈی ایس پی نے بوڑھے کو پھر باتوں میں لگالیا۔ مداری نے اپنے بندر کی رسی سنبھالی، اور ڈی ایس پی کے کمرہ سے نکل کر ایک دفعہ پیچھے مڑ کر دیکھا اور ڈی ایس پی کو دعائیں دیتا ہوا تھانہ سے باہر نکل گیا۔ تیرے بچے جئیں سکھی سردار دے۔‘‘
بوڑھے نے اب پھر ڈی ایس پی سے پوچھا۔ ’’ہمارا بندر ہے کہاں؟‘‘
’’رب جی ہوسکتا ہے آپ کا بندر شیطان نے چرایا ہو۔‘‘ ڈی ایس پی نے بوڑھے کو ایک اور سجھاؤ دیا۔ اور بوڑھے نے اس بات پر یقین کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں ہوسکتا ہے۔ مگر آپ نے کہا تھا کہ آپ کو بندر کا پتہ ہے۔‘‘
’’ہاں جی۔ ہمیں تو پتہ ہے۔‘‘ ڈی ایس پی نے پھر کہا: ’’آپ نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا۔ جب شیطان نے بندر چرایا تو اس نے بندر کی مشکیں کھول دیں ارو بندر خود آپ کا دیا ہوا سبق بھول گیا۔
’’ہاں بوڑھے نے حامی بھرتے ہوئے سرہلایا۔ لیکن پھر پوچھا۔
’’مگر وہ ہے کہاں؟‘‘
رب جی چار ارب سال میں وہ بندر شکل بدلتے ہوئے آدمی بن گیا ہے۔ اور اس کا خاندان نسل در نسل ساری دنیا میں پھیل گیا ہے۔‘‘
بوڑھا، ڈی ایس پی کی بات سن کر تسکین سے سر ہلائے جا رہا تھا اور ڈی ایس پی اپنی کامیابی کی خوشی میں بول رہا تھا۔
’’ہمارا روز کا تجربہ ہے۔ جب ہم اس نسل کے کسی آدمی کو ہتھکڑی لگاتے ہیں اس کو آپ کا سبق یاد آجاتا ہے، مگر ہاتھ کھلتے ہی وہ پھر بھول جاتا ہے۔‘‘
بوڑھے نے لمبی آواز میں حامی بھرتے ہوئے کہا۔
’’ہوں۔ پھر تو بات بگڑ گئی۔ دنیا تو نئے سرے سے بنانی پڑے گی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے بوڑھا کرسی سے اٹھا اور آرام سے کمرے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔lll
(ہندی سے ترجمہ: ادارہ)