چور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔ ایک شخص بینک کے دروازے پر کھڑا نوٹ گن رہا تھا۔ جونہی چور نے اس کی طرف رخ کیا، اس نے جلدی سے تمام نقدی بٹوے میں ڈالی اورقریب سے گزرتے ہوئے تانگے پر اچھل کر بیٹھ گیا۔
ایک خوش لباس شخص چوک کی بڑی بڑی دکانوں کے سائن بورڈ پڑھ رہا تھا۔ وہ ہر دکان کوبڑے غور سے دیکھتا ہوا کپڑے کی ایک دکان میں داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد بغل میں ایک بڑا سا بنڈل دابے باہر نکلا اور منیاری بازار کی طرف ہولیا۔ یہ بازار پررونق تھا اور زیورات کی بڑی بڑی دکانوں کے لیے مشہور تھا۔ چور اس شخص کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ وہ اس کی ہر حرکت کو خوب غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پہلے بنڈل ٹٹولا، پھر اپنی اندرونی جیب کو۔ اس کے بعد رومال نکال کر اپنے چمکیلے بوٹ جھاڑے۔
بازار کے عین وسط میں تانگے کا ایک پہیہ نالی میں گرگیا تھا۔ چونکہ بازار میں راستے کی چوڑائی کم تھی، اس لیے گزرنے والوں کا ایک مجمع لگ گیا۔ چند من چلے کوٹ اتار، پہیے پر زور آزمائی کررہے تھے۔باقی کھڑے دیکھ رہے تھے۔ یہ خوش لباس شخص بھی کھڑا ہوگیا۔ چور کے لیے یہ موقع غنیمت تھا، وہ بھی اس کے برابر آن کھڑا ہوا۔ چور نے اپنا ہاتھ اس کی جیب کی طرف بڑھانا ہی چاہا تھا کہ وہ تنک کر بولا : ’’اندھے ہو کیا! دیکھتے نہیں، پاؤں پر پاؤں دھرے جارہے ہو، نامعقول!‘‘ چور فوراً کھسک لیا۔
اب چور، بازار میں پھر آوارہ گھوم رہا تھا۔ بازار کے ایک سرے پر پھولی ہوئی رگوں والا ایک بوڑھا چھابڑی فروش گنڈیریاں بیچ رہا تھا۔ اس کی بصارت کم معلوم ہوتی تھی۔ چار پانچ بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے چلا رہے تھے: ’’بابا! پہلے مجھے تول دو۔ بابا! پہلے مجھے تول دو۔‘‘ اور بابا اپنی بینگن نما سرہلا کر کہتا: ’’میں سب کو پہلے تول دوں گا۔‘‘ بچے چلے گئے تو اس چور نے اپنی جیب ٹٹولی، صرف پچیس پیسے باقی رہ گئے تھے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ان پیسوں سے کچھ بیوپار کیا جائے، چنانچہ وہ بوڑھے کے پاس جاکھڑا ہوا اور بولا:
’’پچیس پیسوں کی گنڈیریاں۔‘‘
بوڑھے نے نہایت خوشی کے ساتھ گنڈیریاں تول دیں اور پیسے لے لیے۔ چور کچھ دیر کھڑا گنڈیریاں چوستا رہا، پھر یکایک بوڑھے نے کہا: ’’بابا! باقی پچھتر پیسے نہیں دو گے؟‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ بوڑھے نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں نے تمہیں روپیہ دیا تھا۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔‘‘ بوڑھے نے تیزی سے کہا۔ ’’تم نے روپیہ کب دیا تھا؟‘‘
’’یہ دیکھو! میرا روپیہ۔‘‘ چور نے باٹوں کے نیچے پڑے سکوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا۔
بوڑھا تذبذب میں پڑگیا، پھر خود ہی بولا: ’’اوہ! مجھ سے بھول ہوگئی۔ یہ لو پچھتر پیسے۔‘‘
چور نے پچھتّر پیسے تو لے لیے مگر اسے اس بیوپار کا لطف نہ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ کسی خطرے میں گھر جائے اور پھر اس سے صاف بچ نکلے، چنانچہ اس نے پھر منیاری بازار کا رخ کیا۔
ایک دیہاتی اجلے کپڑے پہنے زیورات کی دکان کے اندر جھانک رہا تھا۔ ایک دکان میں داخل ہوتا، کچھ زیورات دیکھتا مگر ناک بھوں چڑھا کر پھر باہر نکل آتا۔ وہ اپنے آپ کو بہت چالاک گاہک ظاہر کررہا تھا۔ ایک دکاندار کے قریب جاتا اور بلند آواز سے کہتا: ’’لالہ جی! سونے کا کیا بھاؤ ہے؟ جڑائی کا کیا لیتے ہو؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر کچھ دیر پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دوسری دکان کی طرف چل دیتا اور قریب جاکر دکاندار سے پوچھتا: ’’تیار شدہ چار تولے کے کنگن کا کیا لوگے؟‘‘ چور بڑے انہماک سے اس کی حرکات دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ کسی شادی کے لیے زیور خریدنا چاہتا تھا۔
آخر کار وہ ایک دکان میں داخل ہوا اور دکاندار سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگا۔ دکاندار نے کنگنوں، چوڑیوں، جھمکوں اور پری بندوں کے مختلف نمونے اس کے سامنے پھیلادیے۔ وہ ایک ایک چیز اٹھاتا اور آنکھوں کے قریب لے جاکر غور سے دیکھتا۔ پھر اس کے متعلق پوری واقفیت حاصل کرنے کے لیے دکاندار پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتا۔ پورے دو گھنٹے میں اس نے آٹھ تولے سونا خریدا، قیمت ادا کرنے کے لیے ایک بڑا سا بٹوا نکالا اور اسے میز پر الٹ دیا، پھر چمکتے روپے ایک ایک کرکے دکاندار کی طرح پھینکنے لگا۔
چور بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑا کھڑا تھک گیا تھا۔ صبح سے اس نے کچھ کھایا بھی نہیں تھا، اس لیے اب اس کی ٹانگوں میں تھکن سے سوئیاں چبھنے لگیں۔ وہ گنڈیریاں چبا چبا کر چوستا اور چھلکے زور سے زمین پر دے مارتا۔ دیہاتی نے خریداری میں اتنی دیر لگادی کہ چور قریب قریب مایوس ہوگیا۔ خاصے وقت کے بعد جب چور نے جانے کے لیے قدم اٹھائے تو وہ دکان سے باہر نکلا۔ اس نے سونے کی پوٹلی کمر سے لپیٹ لی۔ چلتے چلتے وہ بار بار اپنی کمر ٹٹولتا اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا۔
چور بھی پیچھے پیچھے ہولیا۔ چلتے چلتے وہ شہر کی بیرونی سڑک پر پہنچ گیا جہاں سے مختلف دیہاتوں کو راستے نکلتے تھے۔ یہاں میلے کچیلے ہوٹلوں کی ایک لمبی قطار تھی، جن کے باہر کتے ہڈیاں ڈھونڈ رہے تھے۔ اس کے اخیر پر تانگوں کا اڈا تھا اور عقب میں ایک دیسی شراب کی دکان۔ جب دیہاتی اس دکان کے سامنے پہنچا تو ٹھٹک گیا۔ اس نے ایک نگاہ دکان پر ڈالی جس کے سامنے بڑے بینچ پر ایک موٹی توند والا ’’لالہ‘‘ بیٹھا تھا۔ اس کے قریب ایک نوجوان پگڑی کو گردن میں مفلر کی طرح لپیٹے اونگھ رہاتھا۔ دکان کے اندر شراب کی بوتلیں قطار اندر قطار الماریوں اور طاقوں میں لگی تھیں جن کے کارک گرد سے اَٹ گئے تھے۔
دیہاتی نے ایک قدم آگے کی طرف بڑھایا، لیکن پھر رک گیا۔ کچھ لمحات کی کشمکش کے بعد وہ مڑا اور دکان میں داخل ہوگیا۔ لالہ جی توند کے باوجوداچھل کر کھڑے ہوئے اور اس کے پیچھے اندر گھس گئے۔ اب چور پھر سڑک کے کنارے کھڑے ببول سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ سورج کی تپش کافی حد تک سرد ہوچکی تھی۔ لیکن سڑک پر ابھی تک تانگوں کے غبار کی ایک لمبی لکیر کھنچی ہوئی تھی۔ کچھ تانگے ابھی کھڑے تھے۔ تانگے والے میلے کچیلے لباس پہنے، ہر اجنبی پر ٹوٹ پڑتے۔ ’’ڈھولن والا … ساہووالا… بھوانی پورہ‘‘ مریل گھوڑے کھڑے کھڑے اونگھ رہے تھے۔ چور نے آخری گنڈیری چوسی اور چھلکا پھینک کر اسے پاؤں سے مسل دیا۔
خلافِ توقع دیہاتی جلد ہی شراب خانے سے نکل آیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اور آنکھیں نیم وا۔ اس نے دکان کی دہلیز پر کھڑے ہوکر چاروں طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور اپنے گاؤں کی سڑک پر ہولیا۔
سڑک کے دونوں جانب گندم اور سرسوں کے کھیت لہلہا رہے تھے۔ سورج اب مغرب کی طرف گرم سفر تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی تھی۔ دیہاتی کا ہاتھ بدستور اپنی کمر پر تھا۔ وہ سبک رفتار چلنے لگا، کبھی کبھی اپنے دائیں بائیں دیکھ لیتا اور پھر سر جھکائے بگ ٹٹ چلا جاتا۔ کچھ دور تک سڑک خاصی چوڑی تھی، لیکن جوہڑ کے قریب اس کی چوڑائی کم ہوگئی تھی۔ یہاں سڑک کا عرض بمشکل دس قدم ہوگا۔ جوہڑ تک کوئی اکا دکا آدمی نظر آجاتا لیکن اس سے پرے بالکل سناٹا تھا۔ چور بیس قدم کے فاصلے پر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا چلا آرہا تھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی متنفس دکھائی نہ دیا۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوا۔ حالات سازگار تھے۔ اس نے سوچا اگر وہ اسے چاقو دکھا کر سونا لوٹ لے تو مدد پہنچنے سے پہلے وہ بڑی آسانی سے فرار ہوسکتا ہے۔ اس نے جیب سے بڑے پھل والا چاقو نکالا اور تیز تیز قدم بڑھاتا قریب ہوگیا۔ کارروائی سے پیشتر اس نے ایک بار پھر ماحول کا جائزہ لیا۔ ہر چیز ٹھیک تھی۔ وہ جست لگا کر اس کا راستہ روکنے ہی والا تھا کہ نزدیکی کھیت سے کھنکارنے کی آواز آئی۔ اس نے جلدی سے چاقو چھپا لیا۔ ایک کسان پھاؤڑا اٹھائے سڑک کے کنارے جارہاتھا۔
سڑک سبز گندم کی دیواروں کے بیچوں بیچ بل کھاتی جارہی تھی۔ ہوا سرسوں کی ہلکی ہلکی خوشبو سے لدی تھی اور گندم کے کھیت پر سورج کی آخری کرنیں لہریں لے رہی تھیں۔ راستہ بالکل خالی تھا اور مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی کبھار کسی پرندے کی چہچہاہٹ سنائی دیتی اور پھر سے ایک پرندہ کسی جھاڑی سے اڑنکلتا۔ چور نے جیب سے چاقو نکالا اور اپنے آپ کو مستعد کیا۔ وہ دیہاتی کے نزدیک ہوا ہی چاہتا تھا کہ دور سے کسی لڑکے کے بے سرے گیت کی آواز سنائی دی۔ دیہاتی رک گیا۔ اس کے پاؤں میں ببول کا کانٹا چبھ گیا تھا۔ ’’جس طرف دیکھو، کانٹے ہی کانٹے‘‘ دیہاتی بڑبڑاتا ہوا پھر چلنے لگا۔ اتنے میں سامنے سے گدھے پر سوار راگی لڑکا نمودار ہوا۔ اس نے چھوٹا سا تہبند باندھ رکھا تھا اور پھٹا ہوا کرتا زیب تن تھا۔ وہ پورے زور سے اپنا گلا پھاڑ کر گا رہا تھا۔
وہ ماحول سے بالکل بے خبر تھا یہاں تک کہ جب دیہاتی اور چور کے قریب سے گزرا، تو بھی اس نے اپنی آواز پست نہ کی۔ اس کی آواز انجن کی کرخت سیٹی کی طرح چور کے کانوں میں چبھی۔ چور نے اس پر لعنت بھیجی اور چاقو بھر چھپالیا۔
لڑکے کے عقب میں خانہ بدوشوں کا ایک قافلہ آرہا تھا۔ اونٹوں کی لمبی قطار ساکن پانی کی لہروں کی مانند چلی آرہی تھی۔ ان کے گلے کی گھنٹیاں مدھم بج رہی تھیں اور قافلے کے پیچھے دور تک غبار کی دھند سڑک پر چھائی ہوئی تھی۔
چور سٹپٹا گیاکیونکہ سورج غروب ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ گہری سرخ روشنی تمام آسمان پر پھیل رہی تھی اور پرندوں کے غول اپنی پناہ گاہوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ دیہاتی اسی رفتار پر مست فیل بے زنجیر کی طرح جھومتا جارہا تھا۔
’’لعنت ہو مجھ پر!‘‘ چور نے دل میں کہا۔’’میں ایک پرندے سے بھی کمزور ہوں۔ شام ہورہی ہے اور شکار ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔‘‘ یہ سو چتے ہوئے ایک بار پھر آگے بڑھا، اور واقعی اس نے دیہاتی کو جالیا۔ لیکن جونہی اس نے دیہاتی کو بازو سے پکڑا، اس کے کانوں میں رہٹ کی آواز آئی۔
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ دیہاتی نے تیزی سے پوچھا۔
’’میں غریب الوطن ہوں، یہ سڑک کس گاؤں کو جاتی ہے؟‘‘
’’کس گاؤں کی طرف جاتی ہے!‘‘ دیہاتی بڑبڑایا ’’تم خود ہی دیکھ لو گے۔‘‘
رہٹ چل رہا تھا اور اس کے چکر سے عجیب قسم کی دردناک چیخیں نکل رہی تھیں۔ چور نے غضبناک نگاہوں سے رہٹ کی طرف دیکھا۔ ’’خدا تیرے پانی کو کھارا کرے۔‘‘ اس نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔ سورج اب ڈوب چکا تھا اور گھروں پر سیاہی مائل سبزی چھا رہی تھی۔ سامنے گاؤں کی دھندلی تصویر کھڑی تھی۔ چور پر انتہائی مایوسی چھاگئی۔ وہ پلٹ کر جانا ہی چاہتا تھا کہ اس کی نظر دیہاتی پر پڑی جس کے قدم اب زیادہ لڑکھڑانے لگے تھے۔ ایک بار پھر اس نے اپنے عزم کو سنبھالا اور اس کے پیچھے گھر تک پہنچ گیا۔
گلی میں اندھیرا تھا۔ دیہاتی کا مکان گلی کے عین وسط میں تھا، جس کے سامنے کوڑے کرکٹ کا انبار لگا ہوا تھا۔ دیہاتی نے دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک گہرا سانس لیا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کیے بغیر اندر داخل ہوگیا۔ چور بھی دروازے سے جالگا۔ اندر سے ایک رسیلی آواز نے دیہاتی کا استقبال کیا: ’’آپ نے بہت دیر لگا دی!‘‘ دیہاتی تھکے ہوئے بیل کی طرح ہانپ رہا تھا۔ اس نے جواب میں صرف اتنا کہا: ’’پانی۔‘‘
مکان سے اس کے سوا اور کوئی آواز نہ آئی۔ شاید دونوں میاں بیوی ہی رہتے تھے۔ اس لیے چور نے ٹھان لی کہ رات وہیں گزارے۔ اس نے ڈیوڑھی میں ادھر ادھر دیکھا۔ دیوار میں ایک طرف اپلوں اور ایندھن وغیرہ رکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی کوٹھڑی بنی ہوئی تھی۔ چور اسی میں چھپ گیا۔
میاں بیوی بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے، لیکن گفتگو کے دوران انھوں نے ایک بار بھی سونے کا تذکرہ نہ کیا۔ وہ اکٹھے کھانا کھا رہے تھے، ہنس رہے تھے۔ بیوی اپنے نئے لباس کی تعریف کرنے لگی۔ دیہاتی اپنا سر ہلادیتا اور ہر فقرے کے بعد ’’خوب‘‘ یا ’’بہت اچھا‘‘ کہہ دیتا۔ اس پر نیند رات کی سیاہی کی مانند چھا رہی تھی۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ صحن ہی میں لیٹ گیا۔ رات قدرے گرم تھی، اس لیے بیوی نے اصرار کیا کہ چھت پر چل کر سویا جائے۔
’’چھت اور صحن میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ دیہاتی نے سوئی آواز میں کہا۔
’’نہیں نہیں، اوپر چلئے۔‘‘ بیوی نے کہا۔
مجبور ہوکر دیہاتی اٹھ کھڑا ہوا اور کھٹ کھٹ کرتا چھت پر چڑھ گیا۔بیوی ڈیوڑھی کا دروازہ بند کرنے آئی۔ وہ چور کے اس قدر قریب سے گزری کہ وہ اس کے سانسوں کی موسیقی بخوبی سن سکتا تھا۔ وہ ہولے ہولے سروں میں کچھ گنگنارہی تھی۔ اس نے اندھیرے میںسب دروازے ایک دو بار کھٹکھٹا کر دیکھے، پھر وہ بھی چھت پر چلی گئی۔
گلی میں ایک آدھ قدم کی کھٹ کھٹ سنائی دیتی، چند لمحات کے لیے وسیع خاموشی کانپ اٹھتی اور پھر سکوت چھا جاتا۔ گاؤں کے باہر کتے لمبی لمبی چیخیں مار رہے تھے۔ چور نے پناہ گاہ سے باہر قدم رکھا اور صحن میں آگیا۔ صحن بالکل چھوٹا سا تھا۔ اس کے ایک طرف بیٹھک تھی جس کا ایک دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا تھا۔ بیٹھک کے پہلو میں سیڑھیاں چھت پر جاتی تھیں۔ دوسری طرف ایک چھوٹا سا کباڑ خانہ اور ایک محراب دار کمرہ تھا۔
چور نے سب سے پہلے بیٹھک کی طرف توجہ کی، لیکن اس کا دروازہ نہ کھلا، چنانچہ بغیر توقف کے محراب دار کمرے کا رخ کیا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دروازہ ہاتھ لگاتے ہی کھل گیا۔ کمرے میں ایک طرف چند صندوق اوپر نیچے رکھے تھے۔ دوسری طرف ایک پلنگ بچھا تھا، جس کے پہلو میں مٹکوں کی ایک عمودی قطارکھڑی تھی۔ دروازوں کے طاقوں اور چبی کنگنیوں پر گلاس، کٹورے اور تھالیاں قطار در قطار سجی تھیں۔ چور سب سے پہلے صندوقوں کی طرف متوجہ ہوا۔ پہلا صندوق غیر مقفل تھا، اس میں چند ایک عام استعمال کے زنانہ کپڑے تھے۔ دوسرا صندوق مقفل تھا، لیکن اس کا تالا تھوڑی سی کوشش کے بعد کھل گیا۔ اس میں کپڑوں اور توشکوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ تیسرا صندوق بھی کپڑوں سے بھرا تھا۔ پورے ڈیڑھ گھنٹے کی طویل جدوجہد کے بعد اس کے ماتھے پر پسینے کے دھارے پھوٹ نکلے۔
’’سونا کہاں ہے؟‘‘ وہ بار بار سوچتا۔ کمرے کا ایک ایک کونا چھان مارا، لیکن بے سود، وہ کباڑخانے میں گیا، مگر سوائے ٹوٹی پھوٹی چارپائیوں اور چند تختوں کے وہاں بھی کچھ نہ تھا۔ وہ لوٹ کر اسی کمرے میں آگیا۔ اب وہ خاصا تھک گیا تھا، اس لیے اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر کے لیے سستا لے۔ وہ انتہائی نا امیدی کی حالت میں دیہاتی پر لعنتیںبھیج رہا تھا۔ ’’کون کہتا ہے کہ دیہاتی بھولے ہوتے ہیں، یہ توچوروں کے بھی کان کترتے ہیں۔‘‘ وہ پلنگ پر دراز ہوگیا لیکن لیٹتے ہی اس نے محسوس کیا گویا کوئی ڈھیلا پلنگ پر رکھا ہوا ہے۔ جب اس نے بستر ٹٹولا تو اس کے ہاتھ میں سونے کی پوٹلی تھی۔
چور کا جی زور سے قہقہہ لگانے کو چاہا۔۔۔ ’’شاباش بچے! تو نرا دیہاتی ہی نکلا۔ شاباش!‘‘
وہ صحن میں آگیا۔ آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ دیہاتی زور زور سے خراٹے لے رہا تھا۔ دور کسی مرغ نے بانگ دی۔ ’’کیا صبح ہوگئی؟‘‘ چور نے آسمان پر نظر ڈالی۔ آسمان ابھی تاریک تھا اور صبح کی کوئی نشانی ظاہر نہ ہوئی تھی۔
اس نے جلدی سے دروازے بند کیے اور ڈیوڑھی میں آگیا۔ جب ڈیوڑھی کا دروازہ کھولنے لگا تو اس کا ہاتھ ایک مضبوط قفل پر جاپڑا۔ اس نے جیب سے چابیاںنکالیں اور ایک ایک کرکے آزمانے لگا لیکن کوئی نہ چلی۔’’اف! میں تالا توڑ نے والا اوزار ہی نہیں لایا۔‘‘
اب جسمانی طاقت کی آزمائش کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے ایک پاؤں دروازے پر رکھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کو کھینچا مگر تا لا ٹس سے مس نہ ہوا، وہ اسی طرح مضبوطی سے لٹک رہا تھا۔ اس نے پھر زور آزمائی کی لیکن پاؤں رپٹ گیا اور وہ دھم سے نیچے آرہا۔ اس کا سر زور سے بیٹھک کے کواڑ پر لگا اور ایک ایسا کھٹکا ہوا کہ سارا گھر گونج گیا۔
چور بمشکل سنبھلا ہوگا کہ میاں بیوی سیڑھیوں سے کھٹ کھٹ نیچے اترنے لگے۔ وہ اترتے ہی سیدھے محراب دار کمرے میں داخل ہوگئے۔ چور کے لیے یہ سنہری موقع تھا۔ وہ ڈیوڑھی سے نکلا اورسرعت سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
’’چور! چور!‘‘ دیہاتی پھٹے ڈھولک کی طرح چلایا اور لپک کر اس کے پیچھے آیا۔
چھت زیادہ بلند نہیں تھی، اس لیے چور نے گلی میں چھلانگ لگادی۔ ابھی وہ دوسری گلی کے موڑ تک ہی پہنچا تھا کہ سارا گاؤں بیدار ہوگیا۔ دیہاتی بدستور چلا رہا تھا: ’’چور، چور!‘‘ ہر طرف سیڑھیوں سے کھٹ کھٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ’’پکڑیو، پکڑیو، جانے نہ پائے۔‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ان کے ساتھ کتے بھی ہم آہنگ تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا مدت سے بند مشین یکایک چلنے لگی ہے۔
چور گلیاں طے کرکے گاؤں کی سڑک پر پہنچ چکا تھا۔ گاؤں کی عمارتوں سے روشنیاں نمودار ہونے لگیں۔ عورتیں چیخ رہی تھیں، بچے رو رہے تھے اور گلیوں میں لوگ دھڑا دھڑ بھاگ رہے تھے۔ رات تاریک تھی۔ چور نے سوچا وہ کسی کھیت میں گھس جائے، لیکن پھر اسے خیال آیا کہ اس صورت میں تو وہ اپنے آپ کو ان کے نرغے میں دے دے گا، بہتر یہ ہے کہ وہ انہیں دھوکا دے کر شہر کا رخ کرے۔ تعاقب کرنے والے گاؤں سے نکلے ہی تھے کہ وہ قریب کے کھیت میں گھس گیا۔
’’وہ جاتا ہے‘‘ ایک چلایا۔ اور اس کے پیچھے تمام لوگ کھیتوں میں گھس گئے۔ چور اوپر سے چکر کاٹ کر سڑک پر آگیا، لیکن عقاب چشم لوگوں نے اسے پھر پالیا۔ اب گاؤں کے چاروں کونوں سے مشعلیں اس کے تعاقب میں دوڑ رہی تھیں۔
سڑک کھیتوں کے درمیان بل پیچ کھاتی جارہی تھی۔ پہلے میل کے نشان پر وہ دو شاخوں میں بٹ رہی تھی۔ ایک شہر کو جاتی تھی اور دوسری دریا کو۔ چور نہیں جانتا تھا کہ شہر کو کون سی سڑک جاتی ہے اور دریا کی طرف کون سی! مشعلیں اور چیخیں اس کی طرف سرعت سے بھاگی چلی آرہی تھیں۔ اندھیری رات میں یوں دکھائی دیتا تھا گویا بھوتوں کا کوئی قافلہ چیختا چلاتا آرہا ہو۔ سوچنے کا وقت نہ تھا۔ وہ دائیں سڑک پر ہولیا۔ تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ دریا کی سرسراہٹ اس کے کانوں میں پڑی۔ اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اب وہ پیچھے نہیں مڑسکتا تھا۔ اسے فیصلہ کرنا تھا کہ دیہاتیوں کے جال میں پھنس جائے یا تیر کر دریا عبور کرے۔ اس نے آخری فیصلہ قبول کیا اور دریا میں چھلانگ لگادی۔ لیکن جونہی وہ پانی میں اترا، اس نے محسوس کیا کہ اب پھر دو صورتیں درپیش ہیں۔ ۔۔۔ وہ اپنے آپ کو دیہاتیوں کے حوالے کردے یا دریا میں جاں بحق ہوجائے؟
مشعلیں اور چیخیں طوفان کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھیں۔ چور نے انتہائی یاس اور حسرت کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھا۔ یکایک اس کے دماغ میں ایک بجلی سی کوندی۔ اس نے تمام کپڑے اتار کر دریا میں پھینک دیے اور اپنے عریاں جسم پر خاک مل کر آلتی پالتی مار، زمین پر بیٹھ گیا اور ’’اللہ ہو‘‘ کی ضربیں لگانے لگا۔
لوگ اب بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔وہ جھاڑیاں پھلانگتے، درختوں کی شاخیں توڑتے چلے آرہے تھے۔ مشعلوں کی سرخ روشنی میں ان کے برچھے سانپوں کی لاتعدادزبانوں کی طرح چمک رہے تھے۔
’’پکڑیو! وہ بیٹھا ہے۔‘‘
لوگ دیوانے کتوں کی طرح اس کی طرف لپکے۔ چور بدستور ’’اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ کی ضربیں لگاتا رہا۔ لوگ اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے۔
’’ارے، یہ تو کوئی اللہ کا بندہ ہے، اسے کیا کہتے ہو!‘‘ ایک نے مشعل بلند کرتے ہوئے کہا : ’’کیوں بابا سائیں! تم نے یہاں سے کسی کو گزرتے دیکھا ہے؟‘‘
چور نے بدستور آنکھیں بند رکھیں: ’’اللہ ہو۔‘‘
لوگ جواب کا انتظار کیے بغیر بھاگ اٹھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مکمل خاموشی چھاگئی۔
چور نے آنکھیں کھولیں، سیاہ آسمان پر ستارے جھلملارہے تھے۔ اس نے اپنے جسم پر نگاہ ڈالی۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا اس پر سے لاکھوں من بوجھ اتر گیا ہے۔ اس کا دل ہلکی پھلکی مسرت میں کلیلیں کررہا تھا۔ پھر اسے یاد آیا کہ کپڑوں کے ساتھ سونے کی تھیلی بھی پانی میں بہہ گئی تھی۔ اس خیال سے اس کا دل اور بھی ہلکا ہوگیا۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح مراقبے میں بیٹھا رہا۔ اس نے پھر سر اٹھا کر آسمان پر نظر دوڑائی۔ اس کے بدن میں ایک جھرجھری سی پیدا ہوئی، سینے سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی اور دو آنسواس کی آنکھوں سے چھلک پڑے…
’’اللہ ہو…‘‘
(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانمباڑی)
——