حضرت جنید بغدادی ؒ ایک رات اپنے گھر میں عبادت کر رہے تھے کہ گھر میں ایک چور گھس آیا ۔ حضرت جنیدؒکو اس کے اندر آنے کی خبر تو ہوگئی مگر انھو ںنے اسے کچھ نہیں کہا اور اسی طرح عبادت میں لگے رہے۔ چور حضرت جنید ؒ کے گھر میں ادھر ادھر پھرتا رہا کہ کوئی چیز پائے توچرالے جائے۔ اتفاق سے حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کاایک کرتہ اس کے ہاتھ لگ گیا اور وہ اس کو لے کرچلتا بنا۔
حضر ت جنیدؒنے اپنے کرتے کی چوری کا کسی سے ذکر نہیں کیا اور یہ سوچ کر چپ ہورہے کہ کیا خبر چور کو واقعی کرتے کی ضرورت ہو اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس نے چوری کی ہو۔ اس چوری کے واقعے کے دوسرے تیسرے روز حضرت جنید ؒ کسی کام سے بازار گئے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ایک شخص ایک کرتا لئے کھڑا ہے اس کے پاس ایک اور آدمی کھڑا تھا اور دونوں میں کچھ تکرا رہورہی تھی حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے قریب جاکر ان سے پوچھا کیوں بھائی کیامعاملہ ہے؟
کرتے والے شخص کے پاس جو آدمی کھڑا تھا ، اس نے کہا ’یہ شخص یہ کرتا بیچتا ہے اور میں یہ کرتا خریدنا چاہتا ہوں مگر پہلے مجھے اس بات کی تسلی ہونی چاہئے کہ یہ کرتا سچ مچ اسی کا ہے یا اس نے کہیں سے چرایا ہے ۔ جب تک کوئی شخص اس بات کی گواہی نہ دے کہ یہ کرتا واقعی اس کااپنا ہے تب تک میںاسے خرید نہیں سکتا۔ حضرت جنید ؒنے کرتا دیکھا تو حیران رہ گئے یہ ان کا اپنا کرتا تھا جو چوری ہوگیا تھا۔ چوری کا مال بھی اس کے سامنے تھا اور چوربھی موجود تھا وہ چاہتے تو اس شخص کو کوتوال کے سامنے پیش کرسکتے تھے جہاں چوری کے جرم میں اسے سزا ملتی۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا وہ سوچنے لگے کہ یہ چور کوئی ضرورت مند آدمی معلوم ہوتا ہے اس لئے یہ کرتا فروخت کررہا ہے۔ یہ سوچ کر انھوں نے اس آدمی سے کہا، بھائی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ کرتا اسی شخص کا ہے تم شوق سے اسے خریدو تم خریدنا نہ چاہو تو میں خریدنے کے لئے تیار ہوں۔
حضرت جنیدؒ کی یہ بات سن کر اس آدمی نے کرتا خرید لیا، بعد میں اس چور کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ جنید بغدادیؒ تھے اور یہ کرتا ان کا اپنا تھا تو وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہوا ا س نے حضرت جنیدؒ کی خدمت میںحاضر ہوکر معافی چاہی اور ہمیشہ کے لئے چوری سے توبہ کرلی۔