چور

شاہدہ ناز

ہماری ایک آبائی زمین تھی جوہم نے ٹھیکے پر دے رکھی تھی۔ ایک بار میں نے وہاں جانے کے لیے چھٹی لی طویل و تھکا دینے والے سفر کا آغاز کیا۔ بس جانے پہچانے راستوں پر گامزن ہوگئی۔ دیہاتی عورتیں اور مرد بس میں اتر اور چڑھ رہے تھے۔

سفر جاری تھا کہ پچھلی سیٹوں سے نیلی پتلون اور سرخ قمیص میں ملبوس ایک نوجوان لڑکا اچانک اپنی نشست سے اٹھا اور شور مچانے لگا:’’بس روکو … بس روکو … میری جیب کٹ گئی ہے … جیب میں پورے پندرہ ہزار روپے تھے جو میں کالج میں داخلے کے لیے لے جارہا تھا۔‘‘

بس میں شور مچ گیا۔

لڑکے کی آواز پھر آئی ’’تھوڑی دیر پہلے تک رقم میرے بٹوے میں تھی … ابھی دوبارہ دیکھا تو جیب سے بٹوہ غائب ہے۔‘‘

’’پھر تو چور اندر ہی ہوگا۔‘‘ کوئی بولا

’’ہاں، ابھی تو بس کسی اسٹاپ پر نہیں رکی۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔

لڑکے کے پہلو میں ایک بزرگ بیٹھے تھے، وہ بھی افسوس سے اسے دیکھنے لگے۔

بس میں عجیب سی ہل چل مچ گئی۔ عورتیں، مرد، بچے سبھی کسی نامعلوم چور کو بددعائیں اور کوسنے دینے لگے۔’’ایسا کام کرنے والے مرجائیں۔‘‘، ’’ایسے لوگوں کا بیڑا غرق ہو۔‘‘’’بے چارہ فیس جمع کروانے جارہاتھا، ظلم اور اندھیر تو دیکھو۔‘‘’’ظالموں کا ستیاناس ہوجائے۔‘‘ وغیرہ۔

کنڈیکٹر نے آکرنوجوان کو تسلی دی کہ اگر ابھی ابھی یہ واقعہ ہوا ہے تو چور یقینا بس کے اندر ہی موجود ہے … اور وہ فکر نہ کرے۔

کسی ان دیکھے چور کو پکڑنے کاتجسس …فکر مندی اور خوف، ایسے سانحہ نے سب کو دہلا دیا۔ بھانت بھانت کی باتیں شروع ہوگئیں۔ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ ڈرائیور نے بس سیدھی تھانے کے سامنے جاکر کھڑی کردی۔ اندر وہ لڑکا لگاتار بول رہا تھا:’’جی مجھے اپنے بٹوے کی پہچان ہے۔ گندمی رنگ کا ہے، ایک طرف سیاہی کا نشان بھی لگا ہے۔‘‘

کنڈیکٹر نے بس کا دروازہ بند کیا اور چٹخنی لگا کر کھڑا ہوگیا کہ مبادا چور غفلت سے فائدہ اٹھا کر بھاگ نکلے۔ اس دوران ڈرائیور نے جاکر تھانیدار کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اگلے ہی لمحہ تھانیدار دو سپاہیوں کے ساتھ آگیا۔ لڑکے سے کہنے لگا: ’’تم فکر نہ کرو… چلو جی، ایک ایک بندہ تلاشی دیتا جائے اور بس سے اترتا جائے۔‘‘

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ سب سواریوں کی تلاش شروع ہوگئی۔ جب لڑکے کے ساتھ بیٹھے بزرگ صورت، سفید ریش آدمی کی جیب ٹٹولی گئی تو لڑکے کی بتائی ہوئی نشانیوں کے مطابق گندمی چمڑے سے بنا ایک بٹوہ برآمد ہوا۔ لڑکا چیخا:’’ہاں ہاں یہی ہے، یہی ہے۔ یہ دیکھو اس کے کونے پر سیاہی کانشان بھی ہے۔ اسی میں میرے پندرہ ہزار روپے ہیں۔‘‘

سواریوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اکٹھے ہوکر تماشا دیکھ رہے تھے۔ تھانیدار نے فوراً نوٹ گنے، وہ واقعی اتنے ہی تھے جتنے اس لڑکے نے بتائے، بابا کچھ بولا لیکن شور میں اس کی آواز کسی نے نہ سنی۔

تھانیدار نے باباجی کی داڑھی نوچ لی اور گالی دیتے ہوئے بولا:

’’تو نے چٹی (سفید) داڑھی رکھی ہوئی ہے پر شرم نہیں آتی … اپنی عمر دیکھ اور کرتوت دیکھ!‘‘

بزرگ کا چہرہ اس اچانک مصیبت اور شدید ذلت اور رسوائی سے زرد پڑگیا۔ ہونٹ کپکپانے لگے۔ اس نے بمشکل خشک زبان سے تھرتھرائی ہوئی آواز میں کہا : ’’قسم اللہ پاک کی، یہ میرے روپے ہیں۔ میں نے راستے میں اس لڑکے کو بتایا کہ آج میں پندرہ ہزار روپے کی بھینس بیچ کر آرہا ہوں۔‘‘

’’جھوٹ نہ بول بابا! خدا سے ڈر۔‘‘

بزرگ کی رسوائی کی حد ہوگئی۔ وہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کوئی اس کی سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ ہر کوئی اپنی کہنے لگا:’’شرم کر، شرم۔‘‘

’’جوتے مارو۔‘‘

’’چھتراول کرو، جتنی کرسکتے ہو۔‘‘

’’اے بوڑھے! تیرے مرنے کے دن ہیں، تجھے ایسا کام کرتے شرم نہیں آئی۔‘‘

بزرگ کی سفید پگڑی جس کا شملہ ابھی کچھ دیر پہلے اونچا تھا، اب پیروں میں رل رہا تھا۔

تھانیدار نے بٹوہ لڑکے کو پکڑا دیا اور بوڑھے کو لعن طعن کرنے کے ساتھ ساتھ تھپڑ بھی مارے۔ اس نے قسمیں کھاکر اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہی مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔

لڑکے کا گمشدہ بٹوہ رقم سمیت چور سے حاصل ہوگیا تھا۔ اس نے رقم مل جانے کی خوشی میں سو سو کے دو نوٹ نکال کر تھانیدار کو پیش کیے۔

سواریاں دوبارہ بس پر سوار ہونے لگیں۔ بوڑھے کو تھانیدار نے پکڑ رکھا تھا۔ اس نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور ڈبڈبائی آنکھوں سے بڑے دلگیر لہجے میں صرف اتنا کہا:

’’اے اللہ! تو سچائی جانتا ہے… تو ہی انصاف کرنے والا ہے۔ تیرا انصاف کہاں ہے؟‘‘

اسی اثنا میں وہ لڑکا بس سے اتر کر سواریوں کے سامنے ہی ایک تانگے پر سوار ہوگیا… لیکن یہ کیا؟… ابھی بس کے مسافر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے بھی نہ تھے اور تانگہ چند گز ہی چلا تھا کہ اچانک شور مچ گیا۔ ہوا یہ کہ سامنے سے آتے ہوئے ایک اور تانگے کا بم (ایک لمبی لوہے کی چھڑ جس کے درمیان گھوڑا بندھوا چلتا ہے) اس لڑکے کے سینے سے آرپار ہوگیا جو ابھی ابھی گم شدہ رقم ملنے کے بعد شاداں و فرحاں گھر جارہا تھا۔ بم اس کے سینے میں کھبا ہوا تھا۔ اس لڑکے نے بڑے کرب سے پکارا:

’’بابا جی کو بلاؤ… بابا جی کو بلاؤ۔‘‘

ایک شخص دوڑتا ہوا آیا جہاں تھانیدار کے پیچھے پیچھے بابا جی سرجھکائے تھانے میں داخل ہونے والے تھے۔ اس شخص نے جلدی جلدی تھانیدار کو نئی صورت حال سے آگاہ کیا، سب ادھر دوڑ پڑے، حتی کہ بس بھی رک گئی۔ اس کی سواریوں کا رخ بھی جائے حادثہ کی طرف تھا۔ لڑکے کی خواہش کے مطابق باباجی اس کے سامنے لائے گئے۔ انھیں دیکھتے ہی لڑکاسینے پر ہاتھ رکھے، کراہتے ہوئے چیخ کر بولا: باباجی! مجھے معاف کردینا … جب آپ نے ٹکٹ لینے کے لیے بٹوہ نکالا، تو نوٹ دیکھتے ہی میری نیت خراب ہوگئی۔ یہ آپ کی امانت ہے، اسے واپس لے لیں۔ لوگو! گواہ رہنا، میں بابا جی کا مجرم تھا … بابا جی مجھے معاف کردینا … اپنا بیٹا سمجھ کر۔

خون کے فوارے اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے … وہ موت کی دہلیز پر رکا یہ باتیں کررہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے موت کی آغوش میں چلا گیا۔

بابا جی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ سارے مجمع کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اس جوان کی موت نے سب کو متاثر کیا تھا۔ ادھر بس کی سواریاں باباجی سے اپنا سلوک یاد کرکے سخت شرمندہ تھیں۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اس اچانک گرفت پر سب حیران تھے۔ تھانیدار بھی اپنے سپاہیوں کے ساتھ حیران پریشان کھڑا تھا۔

باباجی نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھایا، لڑکے کا سر اپنی آغوش میں رکھااور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا:’’انصاف مانگا تھا … کھوئی ہوئی عزت مانگی تھی … تو نے اتنی جلد سب کچھ عطا کردیا … تیرا شکر ہے…!‘‘

’’اے اللہ! میں اسے معاف کرتا ہوں، تو بھی اسے معاف فرمادے۔‘‘

یہ واقعہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے یوں متحرک ہے جیسے کل کی بات ہو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146