چچا جمعراتی

مولانا عبدالمجید سالک

آج چچا جمعراتی ہمارے گھر آئے، تو ابا جان نے ان سے پوچھا: ’’کیوں میاں جمعراتی، یہ تمہارا نام کس نے رکھا اور کیوں رکھا تھا؟‘‘

کہنے لگے ’’آپ بھی عجیب عجیب سوال کرتے ہیں۔ بھلا نام کون رکھا کرتا ہے؟آپ کا نام کس نے رکھا تھا؟ آپ کے بچوں کے نام کس نے رکھے تھے؟ ظاہر ہے ماں باپ نے، بس میرا نام بھی ماں باپ ہی نے رکھا تھا اور اس لیے رکھا کہ میں جمعرات کے دن پیدا ہوا تھا۔‘‘

ابا جان نے کہا: ’’یہ بھی اچھا ہوا کہ تم جمعرات کوپیدا ہوئے تھے، اگر اتوار یا سوموار کو پیدا ہوئے ہوتے، تو بڑی دقت ہوتی۔‘‘

کہنے لگے: ’’کیوں؟ دقت کا ہے کی؟ اگر میرا نام اتواری ہوتا تو خواہ مخواہ لوگ اسے اعتباری سمجھتے اور یہ اچھا خاصا معتبرنام ہوتا۔ سوموار کو مسلمان ’پیر‘ کہتے ہیں۔ اس دن پیدا ہوتا تو پیر کہلاتا یا پیرو یا پیرا، اس میں دقت کی کون سی بات ہے؟ منگلا، بدھو، جمعہ آخر انسانوں ہی کے نام ہوتے ہیں۔‘‘

ابا جان کہنے لگے: ’’لیکن اب تک کسی کا نام ’سنیچر‘ نہیں سنا۔‘‘

چچا کچھ سوچ میں پڑگئے۔ خیر اتنے میں ایک اور صاحب آگئے، ان سے چچا کے نام کا ذکر آیا، تو وہ کہنے لگے ’’اجی صاحب! آپ چچا جمعراتی کا ادب کیجیے، وہ سید ہیں۔‘‘

ابا جان کہنے لگے ’’سید کیسے؟ ارے یہ تو انصاری ہیں۔ میں تو ان کے باپ کو بھی جانتا ہوں، بڑے نیک آدمی تھے بیچارے۔‘‘

دوست نے کہا: ’’سادات کی عزت و احترام سے بعض لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، مثلاً جو شخص جمعرات کے دن پیدا ہوا وہ بھی اپنے نام کے آگے ’’شاہ‘‘ لگا کر سید بن جاتا ہے اور تکیوں اور خانقاہوں میں فقیروں کو چرس کے دم لگوا کر اچھا خاصا ’شاہ‘ کہلاتا ہے۔ پوچھ لیجیے، چچا جمعراتی سے کہ انھیں تکیوں میں ’شاہ‘ کہتے ہیں یا نہیں؟‘‘

غرض اس طرح خوش گپیاں ہورہی تھیں کہ گھر سے اطلاع آئی ’’سعید کو بہت تکلیف ہے۔‘‘

اباجان گھبرا کر اٹھے۔ چچا جمعراتی بھی اٹھ کھڑے ہوئے، کہنے لگے: ’’ذرا دیکھ کر حال بتانا بچہ کیسا ہے۔ میں نے کہا بھی تھا کہ دم کرانے اور تعویذ لینے میں ناغہ نہ ہونے دینا، لیکن تم لوگوں کو خدا پر اعتقاد نہیں رہا۔ بس یہی اپنے ڈاکٹر واکٹر لیے پھرتے ہو۔

ابا جان نے اندر جاکر سعید کو دیکھا اور ڈاکٹر کے لیے آدمی دوڑایا لیکن چچا جمعراتی اپنا جوتا پہن کر پھٹ پھٹ کرتے ہوئے، عامل صاحب کی طرف روانہ ہوگئے۔ اب ادھر ڈاکٹر آیا اور ادھر چچا جمعراتی ہاتھ میں مٹی کا ایک کلہڑ لیے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ چچا نے اس وقت تو بڑی عقل سے کام لیا اور ڈاکٹر کے معاملے میں دخل درمعقولات نہیں کیا لیکن جونہی ڈاکٹر صاحب نسخہ لکھ کر روانہ ہوئے چچا نے گھر سر پر اٹھالیا:

’’میں ڈاکٹری دوا ہرگز درست نہیں سمجھتا۔ اس میں شراب ہوتی ہے، اور شراب میںمومن کے لیے شفا نہیں۔‘‘

پھر وہ ابا جان سے کہنے لگے ’’میاں آپ یہ دم کیا ہوا پانی بچے کو پلائیے، خدا کے نام میںبڑی برکت ہے۔‘‘

چونکہ چچا ہم سب بچوں سے بے حد پیار کرتے ہیں، اس لیے ابا جان ان کا دل توڑنا گوارا نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا ’’بہت اچھا میاں جمعراتی! ہم یہ پانی بھی سعید کو پلادیں گے۔ تم آرام سے جاکر بیٹھو، بھاگے ہوئے آرہے ہو۔‘‘

تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب والی دوا آگئی اور سعید کو باقاعدہ پلائی جانے لگی۔ چچا سے کہہ دیا گیا کہ پڑھا ہوا پانی دیاجارہا ہے۔ دو تین گھنٹے میں سعید کی حالت بہتر ہوگئی۔ بخار قدرے ہلکا ہوگیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ چچا برابر مردانے میں بیٹھے دم بدم کی خبریں منگاتے تھے۔ یہ خبر سن کر اچھل پڑے اور بولے:

’’دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ عامل صاحب بڑے پہنچے ہوئے ہیں، جہاں دوائیں اثر نہیں کرتیں وہاں ان کا دم کیا ہوا پانی مردے میں جان ڈال دیتا ہے۔ کیا تم لوگ اب بھی اس بات کو نہ مانوگے کہ دم درود، جھاڑ پھونک سب خدا کی طرف سے ہیں؟

سعید اب اچھا ہے۔ ہم سب ڈاکٹر صاحب کے شکر گزار ہیں مگر چچا جمعراتی عامل صاحب کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔

ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا، چچا جمعراتی کو بیٹھے بیٹھے درد گردہ کا دورہ پڑگیا۔درد بے حد سخت تھا۔ چچا چلارہے تھے اور ہم لوگ بہت بے چین تھے۔ جب ان کی چیخ سنتے تو ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ ابا جان نے کہا ’’فوراً ڈاکٹر کو بلاؤ۔‘‘

لیکن چچا بالکل نہ مانتے تھے، انھوں نے اپنے عامل صاحب کے پاس آدمی دوڑایا، وہاں سے وہی دم کیا ہوا پانی آگیا۔ چچا نے وہ پانی آہستہ آہستہ سارے کا سارا پی لیا لیکن درد کا یہ حال تھا کہ ایک چیخ زمین اور ایک آسمان۔ آخر ا با جان نے ڈاکٹر کو بلوالیا۔ چچا’’ہاں ہاں‘‘ کرتے ہی رہ گئے اور ڈاکٹر صاحب نے مافیا کا انجکشن لگادیا۔ دس منٹ میں چچا جمعراتی بستر پر پڑے مزے سے خراٹے لے رہے تھے، اور ابا جان کہہ رہے تھے ’’عجیب بے وقوف آدمی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے پہلے ہی لگوالیتا تو اتنی مصیبت کیوں اٹھاتا۔‘‘

کچھ دیر بعد چچا نے آنکھیں کھولیں۔

ابا جان نے کہا ’’دیکھا؟ تمہارے عامل صاحب کے پانی نے کچھ نہ کیا اور ہمارے ڈاکٹر صاحب نے تم کو صحت بخش دی، اب ڈاکٹر کی دوا باقاعدہ استعمال کرو۔‘‘

چچا کہنے لگے: ’’ہاں … دوا تو میں پی لوں گا لیکن اتفاق کی بات ہے، ڈاکٹر کے انجکشن سے فائدہ ہوگیا اور عامل صاحب کے پانی سے کچھ نہ ہوا۔ ہم نے تو بارہا دیکھا ہے کہ اس پانی سے بڑے بڑے پرانے بیمار ٹھیک ہوگئے؟‘‘

یعنی چچا اب بھی ڈاکٹر اور حکیم کے قائل نہیں ہوئے… ان کا اچھا ہوجانا صرف اتفاق کی بات تھی۔ خیر جو کچھ بھی ہو، ہمیں چچا کے ٹھیک ہوجانے پر بڑی خوشی ہوئی۔ چچا کیسے بھی ہوں، ہیں توہمارے چچا ہی اور پھر ایسے محبت کرنے والے چچا جو ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں