چڑیا کے بچے

سیدہ ساجدہ بیگم، کریم نگر

گھونسلے میں چیں چیں کرتے چڑیا کے بچوں کی آواز سن کر بیگم ظفر کچھ کھو سی گئیں۔ کئی دنوں سے وہ اس جوڑے کو دیکھ رہی تھیں جو ان کے گھر کی بالکنی میں گھونسلہ بنانے میں مصروف تھا۔ وہ دونوں صبح سے شام تک ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر تنکے لاتے اور بڑی محنت و لگن کے ساتھ تنکوں کو جوڑ جوڑ کر اپنا گھونسلہ بناتے رہے۔ کئی دنوں کی مسلسل محنت و کاوشوں کے بعد وہ اپنا آشیانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر چڑیا نے انڈے دیے اور آج چڑیوں کا یہ جوڑااپنے ننھے منے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔وہ باری باری اپنی چونچ میں کچھ دانے لے کر آتے اور اپنے ننھے بچوں کو کھلاتے اور پھر سے غذا کی تلاش میں نکل پڑتے۔ چڑیوں کے گھونسلے پر پہنچتے ہی بچے زور زور سے چیں چیں کرنے لگتے۔

یہ منظر دیکھ کر بیگم ظفر نے ایک سرد آہ بھری اور خاموش ہوگئیں اور پھر کیا تھا وہ ماضی کی یادوں میں گم ہوگئیں اور ایک ایک کرکے ان کے حافظے میں وہ تمام خواب آنے لگے جو جو ان بیوگی سے آج تک انھوں نے دیکھے تھے۔ اور جن کی تعبیر کی امید میں انھوں نے اپنی قیمتی عمر گزار دی تھی مگر وہ آج بھی اپنی تعبیر سے محروم تھے۔

وہ ماضی کی یادوں کے اتھاہ سمندر میں اترتی گئیں، جہاں اندھیرا تھا، مایوسی تھی اور تنہائی کے بھوتوں کا بسیرا تھا۔ کبھی وہ بھی اسی طرح اپنے پیارے ننھے منے بچوں کی دیکھ بھال میں دن رات مصروف رہتی تھیں۔ صبح سے شام تک نہ صرف ان کے کام کرتیں، کھلاتیں پلاتیں بلکہ ہر لمحہ ان کے لیے دعائیں بھی کرتیں کہ ان کا مستقبل روشن ہو۔ شوہر کی وفات کے بعد انھوں نے بچوں کو باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی۔ بچوں کے شاندار مستقبل کے لیے انھوں نے اپنی ہر خوشی اور خواہشوں کو قربان کیا تھا اور ہر مصیبت و پریشانی کو برداشت کیا تھا۔ نہایت کفایت شعاری سے انھوں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر یہ گھر بنایا تھا کہ وہ اپنے یتیم و بے سہارا بچوں کے لیے پناہ گاہ تو بنا ہی دیں، مگر وہ خود آج اس گھر میں ایک بوڑھی ملازمہ کے رحم و کرم پر بے بسی اور تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ انھیں اپنے سارے خواب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوتے محسوس ہوئے کہ آج ان کی کرچیوں کو جمع کرنا بھی ان کے بس میں نہیں۔ آہ انسان کتنا مجبور ہے کہ اپنی پوسی پالی اولاد تک پر اس کا حق نہیں کہ وہ بڑھاپے میں اسے سہارا بناسکے۔

ان کا چھوٹا سا خوبصورت مکان ان کی آرزوؤں اور امیدوں کی تکمیل تو تھا مگر ان خوابوں کی تعبیر سے محروم تھا جو ایک بیوہ نے اپنی اولاد کی پرورش اور روشن مستقبل کی دعاؤں کے ساتھ دیکھے تھے۔ انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ اس گھر میں ننھے منے بچوں کی کلکاریاں گونجیں گی اور ان کے پوتوں اور پوتیوں کے قہقہوں سے گھر میں رونقیں بکھریں گی۔ وہ اپنے ننھے منے بچوں کو کہانیاں سنائیں گی اور ان کے ننھے منے ایک کے بعد دوسری کہانی کی فرمائش بلکہ ضد کریں گے۔ مگر زندگی کے ہر خواب کی تعبیر ضروری تو نہیں کہ ویسی ہی ہو جیسی ہم چاہتے ہیں۔ وہ صرف اتنا کہہ سکیں’’کاش ایسا ہوتا!‘‘

اس مکان میں انھوں نے ہر آرام و آسائش کا سامان مہیا کرنے کی کوشش کی تھی۔ مکان میں دونوں بیٹوں کے لیے الگ الگ بیڈ رومس، بڑا سا ہال ، باغیچہ، جس میں انھوں نے طرح طرح کے پھول پودے اور پھلوں کے درخت لگا رکھے تھے اور ان کی دیکھا بھال و پرورش میں انھوں نے بڑی محنت کی تھی۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا مشن تھا، جو انھوں نے پورا کیا مگر ضروری تو نہیں کہ مشن کے اختتام پر وہی کچھ آپ کو مل جائے جس کی آپ تمنا کرتے ہیں۔

ان کے اس گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ روپیہ پیسہ خدا کے فضل سے کافی تھا۔ عیش و آرام کی شکایت بھی بے جا تھی مگر سب کچھ کے باوجود وہ مفلس تھیں، غریب تھیں اور بے سہارا تھیں، اس زندگی کی عیش سامانی کے باوجودوہ خوف زدہ سی رہتیں، مایوسی ان کے جسم و جان میں سرایت کرگئی تھی اور انہیں ہر وقت ایسا محسوس ہوتا جیسے تنہائی کی ناگن ان کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔بیٹیوں کا تو کہنا ہی کیا انہیں تو ایک نہ ایک دن ماں باپ کا گھر چھوڑنا ہی تھا مگر بیٹے تو والدین کی امید ہوتے ہیں۔ بیگم ظفر کی بدقسمتی کہ یکے بعد دیگرے دونوں بیٹے انہیں تنہا چھوڑ گئے۔

بڑا بیٹا شادی کے دو سال بعد یہ کہہ کر بیوی اور بچے کے ساتھ باہر چلا گیا کہ ’’اماں کب تک میں تنہا رہوں، اس لیے سلمیٰ کو ساتھ لے جانا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں۔‘‘ وہ چاہ کر بھی اسے روک نہ سکیں۔چھوٹے بیٹے سے انھیں امید تھی کہ وہ شاید ان کا خیال رکھے گا لیکن وہ بھی ایک دن بچوں کی تعلیم کا بہانہ کرکے شہر میں جابسا اور وہ اس گھر میں تنہا رہ گئیں۔ دن بھر اس کمرے سے اس کمرے تک، کبھی ہال میں اور اکثر تو وہ باغیچہ میں اپنا وقت گزارتیں اور ماضی کی خوشگوار یادوں کو سینے سے لگائے مستقبل کے خواب دیکھتے ہوئے اپنی تنہائی کو کم کرنے کی کوشش کرتیں اور کریمن بوا جو ان کی دیکھ بھال پر مامور تھیں انھیں بار بار سمجھا کر گھر میں آرام کرنے چلی جاتی تھیں۔

آج پھر صبح صبح وہ باغیچہ میں چڑیا کے چیں چیں کرتے بچوں کو دیکھ کر ماضی میں کھوگئیں۔ کریمن بوا ناشتہ تیار کرچکی تھیں اور انہیں آوازیں دیتی اور تلاش کرتی بالکنی میں آگئیں۔ ’’اماں یہاں سردی بہت ہے صبح صبح آپ یہاں کیا کررہی ہیں چلئے ناشتہ تیار ہے۔‘‘کریمن بوا نے دیکھا کہ وہ چڑیا کے بچوں کو نہارے جارہی ہیں۔ بوا نے ایک مرتبہ پھر متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر بیگم ظفرٹس سے مس نہ ہوئیں۔ ہاں انھوں نے چڑیا کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے درد بھرے انداز میں کہا: ’نادان یہ سب بڑے ہوکر اڑجائیں گے اور ایک دن تیرا آشیانہ ویران ہوجائے گا۔ مگر افسوس تجھے پتہ نہیں۔ افسوس، صد افسوس۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں