پروفیسر اصغر حسین شام سے اداس اداس تھے۔ انہیں کسی کل چین نہیں مل رہا تھا۔ بستی میں چہل پہل تھی اوران کے مکان کے آگے، سڑک کے پار کھلی جگہ میں خوبصورت ٹینٹ لگایا جاچکا تھا۔ بارات کے رکنے اور نکاح کا انتظام یہیں تھا۔ صبح سے کئی دفعہ اصغر حسین کے بڑے بھائی اکبر حسین یہاں کی تیاری دیکھنے آچکے تھے۔ مگر انھوں نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کے مکان کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ دونوں بھائیوں میں اتنی دوری ہوگئی تھی کہ ایک دوسرے کو دیکھنا تک پسند نہیں کرتے تھے۔ آج جب زینت کی شادی تھی تو شدت سے اصغر حسین کو اپنے مشترکہ کنبہ کی یاد آرہی تھی۔ ساتھ بتائے ہوئے لمحات کی خوشی اور حالیہ دنوں کی تکلیف ایک ساتھ ان کے ذہن پر دستک دے رہی تھیں۔
یہی کوئی اٹھارہ بیس سال قبل تک اصغر اپنے بڑے بھائی اکبر کے چہیتے تھے۔ ان کی ساری باتیں اکبر ہی والد صاحب سے پوری کرواتے۔ یہاں تک کہ ان کی پسند کی شادی بھی اکبر کی ضد کی وجہ سے شہر میں ہوسکی تھی۔ ورنہ مظفر حسین صاحب جن کا طوطی بولتا تھا، وہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹے کی شادی بھلا ہڈی ملائے بغیر کیسے کرسکتے تھے۔ اکبر نے انہیں مجبور کردیا تھا، تب جاکر وہ رضا مند ہوئے تھے۔ مظفر حسین کی زندگی میں کنبہ ان کے اصولوں پر کاربند رہا۔ انھوں نے پوتے پوتیوں سے بھرا گھر دیکھا۔ اصغر کا چھوٹا بیٹا عدیل ابھی چار سال کا تھا کہ اکبر کے گھر بچی پیدا ہوئی۔ زینت نام بھی اصغر حسین نے دیا تھا، تھی بھی تو وہ گھر بھر کی زینت۔ عدیل کو تو مانو گڑیا مل گئی تھی۔ وہ موقع بے موقع زینت کو گود میں اٹھائے کھیلتا رہتا۔ ابھی زینت نے پیروں دوڑنا شروع ہی کیا تھا کہ مظفر حسین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ کچھ دنوں تک گھریلو حالات بدستور رہے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا شکوہ شکایتیں ہونے لگیں۔ شکایتوں نے دلوں میں میل بٹھا دیا اور بے یقینی کا ماحول بن گیا۔ اصغر حسین ان دنوں جمشید پور میں لیکچرار تھے۔ روز بروز نئے شکووں شکایتوں سے تنگ آکر اس نے اپنے بال بچوں کو جمشید پور اپنے ساتھ رکھ لیا۔
اکبر حسین نے اس دن بھی تمام تر الزامات اصغر حسین پر ڈال کر اپنی تسکین کرلی۔ جمشید پور قیام کے درمیان اس نے موروثی جائداد تقسیم کرنے کے لیے اپنے بڑے بھائی پر زور ڈالنا شروع کیا۔ یہیں سے دونوں بھائیوں کے درمیان اختلاف کی ابتدا ہوگئی۔ پوری جائداد کی نگہداشت اور فائدہ رسانی کی وجہ سے اکبر حسین کے من میں بدنیتی کا شائبہ دکھائی دینے لگا۔ جائیداد کے سلسلے میںخاطر خواہ معلومات نہ ہونے کے سبب اصغر حسین کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں بھائیوں کے درمیان کافی نوک جھونک ہوئی۔ مقدمہ بازی کی دھمکیاں اکبر نے دے ڈالیں۔ اصغر حسین جانتے تھے کہ مقدمہ وقت ٹالنے کے لیے ہے، اس لیے انھوں نے گاؤں کے بزرگوں کو اس کام کے لیے آمادہ کیا۔ پنچایت میں دونوں بھائیوں کی جھڑپ اصغر حسین کو آج تک یاد ہے۔ اصغر حسین نے عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے بڑے بھائی کی خواہشوں کااحترام کیا۔ وہ حویلی میں حصہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں حویلی میں دیوار اپنے آباء و اجداد کے وقار پر ضرب معلوم پڑتی تھی۔ بستی کے کنارے ایک اونچی اراضی کے بدلے وہ حویلی لینا چاہتے تھے۔ اصغر نے صبر کیا اور معاملہ طے پا گیا۔ لیکن مکان کی قیمت دینے میں آج تک وہ آنا کانی کرتے رہے۔
اصغر حسین کو اپنے وطن سے حد درجہ لگاؤ تھا۔ بیٹوں کے منع کرنے پر بھی انھوں نے یہاں اپنا مکان تعمیر کیا۔ کھلی جگہ میں پروقار مگر قدرے چھوٹی عمارت کافی خوبصورت لگتی تھی۔ اب تو اس کے مکان کے قرب و جوار میں پھیلتی ہوئی آبادی آچکی تھی۔ اب مستقل طور پر پروفیسر اصغر حسین نے یہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ لیکن دوریاں اب بھی برقرار تھیں۔ کبھی کبھی تو کھیتی میں لگے مزدور بٹ کر دونوں بھائیوں کی طرف سے جھگڑنے لگتے تھے۔ اس کے باوجود اپنی دھرتی پر بیگانے ہوکر پروفیسر صاحب زندگی گزارے جارہے تھے۔ لیکن آج زینت کی شادی کی تقریب سے الگ رہنا ان کے لیے اذیت سے کم نہ تھا۔ حالانکہ ان کے دونوں بیٹے بھی یہیں تھے، بڑے بیٹے کے بچوں کو آنگن اور لان میں کودتے پھاندتے دیکھتے تو دل خوش ہوجاتا تھا اور صبح سے شام ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ چھوٹا بیٹا عدیل ایک ہفتہ کی چھٹی میں گاؤں آیا ہوا تھا۔ اس نے اپنے والد کو بے چین دیکھا تو مسکرا تے ہوئے بتایا۔
’’پریشان کیوں ہیں پاپا، لڑکے والوں کی طرف سے تو آپ جاہی رہے ہیں فنکشن میں۔ بڑے پاپا نے نہیں پوچھا تو کیا ہوا، اپنی بھتیجی کی شادی میں شریک تو ہوجائیں گے نا!‘‘
’’دونوں الگ الگ بات ہیں بھائی جان نے بلایا ہو تا تو ننگے پاؤں چلا جاتا، ویسے جانے کا من نہیں کرتا ہے۔‘‘
’’اوہ! پاپا آپ بھی کتنا سوچتے ہیں، کیا فائدہ، یہ سب چلتا رہتا ہے۔ لائف وانٹیڈ نوٹینشن پاپا۔ جائیے، دعائیں دیجیے اور واپس آجائیے۔ ہاں سنا ہے سندر پور والے بڑی دھوم دھام سے آنے والے ہیں۔‘‘
’’ہاں ،ہاں خاندان توہماری ٹکّر کا نہیں ہے، نیا پیسہ ہوگیا ہے، سنا ہے میں نے کہ ٹھیکے داری وغیرہ کرتے ہیں لڑکے والے۔ اس کے خاندان میں کوئی پرمکھ بھی ہے شاید۔‘‘
’’لیکن لڑکے کے بارے میں کانا پھوسی ہورہی ہے، ایک عورت کچھ بتارہی تھی۔‘‘ بیگم اصغر نے بتایا۔ اصغر حسین دھک سے رہ گئے۔ ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اچانک گاجے باجے کی آواز آنے لگی تو اصغر حسین کی باتوں میں سے صرف اتنا سنائی پڑا:
’’بھائی جان کو دیکھ سمجھ کر رشتہ کرنا چاہیے، پھول سی بچی کو پتہ نہیں …‘‘
فلمی دھن پر تھرکتے ہوئے پنڈال میں باراتیوں نے جگہ لی۔ دولہا میاں مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔ گاؤں والوں کی طرف سے متعین ٹولی پنڈال میں خوش آمدید کہنے کو تیار تھی، جس میں پروفیسر اصغر حسین بھی شامل تھے۔ تھے تو اپنے مگر پرائے کی صف میں کھڑے خود کو مجبور سمجھ رہے تھے۔ مہر طے ہونے کی باری آئی تو لڑکے والوں کی گفتگو ان کو ناگوار لگی۔ انہیں لگا ان لوگوں میں تعلیم کی کمی ہے یا اپنی بات منوانے کی ضد پر اڑے ہیں۔ انھوں نے آج اکبر حسین کی حالت دیکھی تو ترس آگیا۔ وہ مجبوراً ان کی باتیں ماننے کو تیار تھے۔ درمیان میں لین دین کی باتیں بھی آئیں، جس کو اصغر حسین بہت نہیں سمجھ سکے، مگر اتنا تو جان ہی گئے کہ سندر پور والوںنے اچھا خاصا جہیز طلب کررکھا ہے اور اس بابت مطمئن ہونا چاہتے ہیں۔
بستی کے نوجوان باراتیوں کی ضیافت میں لگے ہوئے تھے۔ان میں سے کسی کی ایک باراتی سے تو تو میں میں ہوگئی۔ بات تھوڑی بگڑنے لگی تو اصغر حسین نے بیچ بچاؤ کیا۔ مگرباراتیوں کا تیور انہیں نازیبا لگا۔ وہ سب مغلظات پر اتر آئے۔ اسی درمیان بستی کے ایک نوجوان نے دولہے میاں کو شربت کا گلاس پیش کیا اور مسکراتے ہوئے کچھ بولا۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ دلہا اچانک کھڑا ہوگیا۔ اس نے سہرا نوچ ڈالا اور غیظ و غضب کی حالت میں بستی کے نوجوانوں کو للکارنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں افراتفری پھیل گئی۔ گاؤں والے باراتیوں کو خاموش کرنے میں لگے تھے لیکن معاملہ سلجھتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اصغر حسین بھی بے بس تھے کہ اچانک دلہا مسند پر لوٹنے لگا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بے ہوش ہوگیا۔ یہ خبر پھیلتے ہی ٹینٹ میں سناٹا چھا گیا اور سبھی دولہا کی جانب متوجہ ہوگئے۔ بستی کے اکلوتے ڈاکٹر عبدالصمد کے گھر کی طرف لوگ لپکے اور کیڈ بیگ کے ساتھ واپس آئے۔ انھوں نے معائنہ کیا اور سوالیہ نظروں سے لڑکے کے والد کی طرف دیکھا۔ اصغر حسین سامنے کھڑے تھے اور اس کے پاس ہی اکبر حسین پریشان حال عبدالصمد کے بولنے کے منتظر تھے۔’’دولہا کو اس طرح کا دورہ کب سے پڑتا ہے؟ یہ تو بڑی بیماری کے سمٹم ہیں۔ خدا نہ کرے ان کو مرگی معلوم پڑتی ہے۔‘‘
اب تومجمع کو کاٹو تو خون نہیں۔ اکبر حسین کے بیٹے بگڑ پڑے۔ ان کو بھی دکھ تھا کہ لڑکے والوں نے ان سے چھپایا تھا۔ اکبر حسین کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے بغیر دیکھے اصغر حسین کے کاندھوں کا سہارا لیا اور وہیں بیٹھ گئے۔ ان کے دونوں بیٹوں نے کسی بھی قیمت پر اپنی بہن کی شادی اس لڑکے سے کرنے سے انکار کردیا۔ مجمع میں سناٹا تھا ، باراتی منہ چھپائے لوٹنے لگے۔ بستی والوں کو معلوم ہوا تو جوق در جوق جمع ہوئے۔ عجیب منظر تھا۔ کچھ دیر قبل جہاں خوشیاں تھیں وہاں سرگوشی اور اداسی تھی۔ اصغر حسین کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ کچھ بول بھی نہیں پارہے تھے۔ اپنے پرائے پن کی دیوار حائل تھی۔ اکبر حسین گھر جانے کو کھڑے ہوئے تو اصغر حسین کو سامنے پایا۔ دونوں کی آنکھیں ملیں تو بے اختیار گلے سے لپٹ گئے اور دونوں کے آنسو جاری ہوگئے۔ کچھ پل دونوں سبکتے رہے، پھر اکبر کی آواز ابھری:’’دیکھو نا اصغر کیا سے کیا ہوگیا۔ ہماری پھول سے بچی کی بارات دروازے سے واپس ہوگئی۔ اس معصوم کی قسمت میں پتہ نہیں کیا ہے…‘‘
’’ایسا کچھ نہیں بھائی جان! اللہ جو کرتا ہے اچھا کرتا ہے۔ بروقت سچائی سامنے آگئی تو ہماری زینت کی زندگی اجڑنے سے بچ گئی۔ بارات تو پھر آجائے گی۔ اس کے لیے کیا سوچنا۔‘‘ اصغر نے دل جوئی کی۔
اکبر نے لمبی سانس لی اور بولے: ’’میں تو ہار گیا ہوں اصغر۔ سماج کو کیا منہ دکھاؤں گا، دعا کرو اللہ میری بیٹی کے لیے اچھا کرے۔‘‘
چند لمحے دونوں خاموش رہے، پھر اصغر نے گلا کھنکار کر بڑے بھائی کو مخاطب کیا: ’’بھائی جان آپ چاہیں تو … عدیل میاں سے زینت کا نکاح۔‘‘
اکبر نے چونک کر اصغر کو دیکھا تو وہ گھبراگئے اور جلدی میں بولے:’’بھائی جان وہ سافٹ ویئر انجینئر ہے، اپنے گھر کا بچہ ہے، صرف آپ کی اجازت چاہیے۔‘‘
ایک بار پھر اکبر نے اصغر کو سینے سے لگالیا اور بستی میں خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے۔
——