چھوٹے کا بڑا سچ

???

’’اوئے چھوٹے! کام جلدی کر۔ صاحب کو دفتر جلدی پہنچنا ہے۔‘‘ یہ استاد گامے کی آواز تھی، جو شہر میں داخل ہوتے ہی پڑنے والے تراہے کے درمیان واقع پنکچروں کی دکان کا ’’چیف ایگزیکٹیو‘‘ تھا۔

استاد گامے کا اصل نام کچھ اور تھا مگر سب لوگ اسے ’’استاد گاما‘‘ ہی کہتے تھے۔ دکان کے باہر بورڈ پر دونوں نام جلی حروف میں تحریر تھے۔

ایک دیہی علاقے سے تبادلہ کے بعد آج شہر میں دفتر جانے کا پہلا دن تھا۔ روڈ پر گاڑیوں کے ہجوم کو دیکھ کر شہر میں داخل ہوتے ہی دا ہنی طرف جانے والی سڑک کے بجائے بائیں طرف کی راہ منتخب کرلی کیونکہ اس پر بھیڑ کم تھی اور آگے جاکر یہ اسی شاہراہ میں مل جاتی تھی۔ میں نے جیسے ہی بائیں طرف گاڑی موڑی پچھلا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ وہ تو اللہ کا شکر تھا کہ پنکچروں والی دکان قریب ہی تھی۔ اور صبح سویرے کھلی بھی ہوئی تھی۔ ورنہ شہر میں اکثر دکانیں دس گیارہ بجے دن کو ہی کھلتی ہیں۔ میں نے استاد گامے کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا: ’’آپ صبح سویرے ہی دکان کھول لیتے ہیں۔ ابھی تو مارکیٹ بند پڑی ہے؟‘‘ استاد گاما کھلکھلا کر ہنسا اور مجھ سے کہنے لگا: ’’اگر میری دکان ا س وقت بند ہوتی تو آپ کو پورے ڈھائی کلو میٹر دو ٹائر لے کر جانا پڑتا کیونکہ آس پاس صرف ’’استاد گامے‘‘ کی ہی پنکچروں کی دکان ہے۔ اللہ کا مجھ پر بڑا کرم ہے۔ حرام رزق سے بچا رکھا ہے۔ میں تو مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے صبح سویرے اپنی نیند حرام کرکے دکان پر آجاتا ہوں۔ میرا گھر بھی قرب ہی ہے۔ میں استاد گامے کا فلسفیانہ جواب سن کر خاموش ہوگیا۔ چھوٹے نے مہارت کے ساتھ فوراً پنکچر لگادیا تھا۔ میں نے ان چند منٹوں میں ایک بات محسوس کی کہ استاد کی دکان پر پنکچر شدہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش رہتا تھا۔ تمام پنکچر ٹائر میں کیل لگنے سے ہوتے تھے۔ موٹر سائیکل اور گاڑی سوار عجیب تذبذب کا شکار کھڑے تھے۔ آج کل کے ترقی یافتہ تیز رفتار دور میں ہر انسان کو جلدی ہوتی ہے۔ اگر اس دوران سواری پنکچر ہوجائے تو شدید کوفت ہوتی ہے۔ استاد گامے کی دکان پر اسی کوفت کے شکار افراد اپنی ’’باری‘‘ کا انتظار کررہے تھے۔ چھوٹے نے پنکچر لگا کر ٹائر کو گاڑی میں لگا دیا تھا۔ چھوٹے کے علاوہ استاد گامے کے مزید دو اور شاگرد بھی تھے۔ مگر چھوٹا ان سے ’’سینئر‘‘ تھا۔ میں نے پنکچر کے روپوں کے ساتھ بیس کا نوٹ چپکے سے چھوٹے کی جیب میں ڈال دیا۔ جس سے اس کے مرجھائے چہرے پر مسکان آگئی۔ دفتر میں پہلا دن بہت خوشگوار گزرا۔ تمام ساتھیوں نے میری آمد پر بے حد خوشی کااظہار کیا۔ شام کو دفتر سے چھٹی کرکے میں گھر واپس جانے لگا تو پھر وہی، شہری ٹریفک سے واسطہ پڑگیا۔ گاڑیوں کے شور مچانے ہارن اور ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس کے سائرن کی آوازوں نے ماحول کو ایک عجیب سی حالت سے دوچار کر رکھا تھا۔ اس بے ترتیب ٹریفک میں پھنسی ایمبولینس میں موجود مریض کی بے بسی سوچ کر میرے اعصاب جواب دینے لگے۔

میں ان خیالوں میں گم تھا کہ میرے آگے کھڑی گاڑیاں ذرا سی آگے کو بڑھیں میں نے تراہے کی طرف جانے والی سڑک کو خالی پاکر اپنی گاڑی ادھر ہی موڑ لی۔ جیسے ہی گاڑی تراہے کے چکر میں داخل ہوئی۔ مجھے چھوٹے کا خیال آگیا کہ وہ نہ جانے کن مجبوریوں کی وجہ سے بچپن میں محنت مزدوری کررہا ہے؟

اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے۔ میں نے استاد گامے کی دکان کو قریب پاکر چھوٹے کو آواز دی۔ جو مجھے پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ میرا اشارہ پاکر فوراً میرے قریب آگیا اور روہانسی صورت بناکر کہنے لگا: ’’صاحب! آپ ادھر سے گاڑی لے کر گزرا کریں۔‘‘ میں نے حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا ’’مگر کیوں چھوٹے؟‘‘تو وہ کہنے لگا: ’’استاد مجھے روزانہ تیس روپے دیتا ہے اور میں صبح سویرے دکان پر آتے ہوئے لوہاری گیٹ سے اس چوک تک مختلف فاصلے پر کیل پھینک دیتا ہوں۔ صبح کے وقت مارکیٹ تو بند ہوتی ہے اور جو بھی اس روڈ سے گزرتا ہے اس کا ٹائر پنکچر ہونا یقینی ہے۔ صبح سویرے ویسے ہی انسان جلدی میں ہوتا ہے۔ آپ جیسے کئی ’’صاحب لوگ‘‘ ادھر سے گاڑی گزارتے ہیں۔ سڑک کے بیچ میں گرائی ہوئی کیل گزرنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو پنکچر کردیتی ہیں۔ گاڑی والوں کے پاس اضافی ٹائر ہوتا ہے مگر ہماری دکان کھلی دیکھ کر پنکچر لگوا ہی لیتے ہیں۔ جبھی تو استاد جی صبح سویرے ہی دکان کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ شام کو مجھے تیس، چالیس روپے دے دیتا ہے، جس سے میں خاموش اپنے کام میں مگن رہتا ہوں۔ آپ مجھے اچھے لگے اور پھر آپ نے مجھے صبح بیس روپے بھی تو دئیے تھے۔ میں آپ جیسے کئی صاحب لوگوں کو پریشان ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ آپ ٹریفک میں پھنسنا قبول کرلیں مگر اس روڈ سے گاڑی نہ گزارا کریں۔‘‘ استاد گاما، چھوٹے کو میرے ساتھ باتیں کرتا دیکھ کر چنگھاڑ کر بولا: ’’چھوٹے! کیا صاحب کی گاڑی کا سودا کرنے لگ گیا ہے؟ ادھر آ، کام کر۔ گاہکوں کو جلدی جانا ہے۔‘‘

میں چھوٹے کے بڑے سچ کو سن کر سکتے میں آگیا اور استاد گامے کی بڑھتی ہوئی توند میں دوزخ کے لیے اوپر ایندھن جمع ہوتا دیکھ رہا تھا۔ جو مجھ جیسے کئی مجبور لوگوں کو اذیت دے کر آخرت کے لیے عذاب اکٹھا کررہا تھا۔ اس راستے سے ایمبولینس اگر گزری تو اس مریض کا کیا ہوگا؟ اسکول اور کالج جانے والے طالب علم کس ذہنی پریشانی کا شکار ہوں گے؟ مگر میں ان سوچوں کے ساتھ خوش بھی تھا کہ استاد جیسے مکار انسان سے بچانے کے لیے چھوٹا موجود ہے۔ جو چھوٹا ہوتے ہوئے بھی بڑا سچ بول گیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں