’’سنو بھئی آج ماسی آئے تو میری قمیص دھلوادینا اور یہ موزے بھی۔‘‘ شہزاد نے دفتر جاتے جاتے مجھے تاکید کی۔
’’آپ شاید بھول رہے ہیں ہمارے گھر کی ماسی تبدیل ہوچکی ہے اور یہ نئی ماسی کپڑے نہیں دھوتی۔‘‘
’’تم کہو گی تو دھو دے گی۔‘‘
’’اس کی یہی مہربانی کہ جھاڑ پونچھ کر جاتی ہے ورنہ یہ کام میرے بس کا نہ تھا۔ آپ کے کپڑے میں دھوؤں گی۔‘‘
’’نہیں تم مت دھونا۔‘‘ شہزاد نے کہا۔
’’تمہارے ہاتھ کی کھال پھر چھل جائے گی۔‘‘
’’ارے بھئی کچھ نہیں ہوتا، اتنی نازک بھی نہیں ہوں میں۔‘‘
شہزاد کچھ نہیں بولے۔ انھیں دیر ہورہی تھی۔ دفتر روانہ ہوگئے۔ بچے پہلے ہی اسکول جاچکے تھے۔ میں دروازے بند کرکے اندر آگئی۔ ان دنوں ہمارے یہاں نئی ماسی آئی تھی۔ اس کانام تھا ماسی برکتے۔
دراصل ہماری پرانی ماسی اچانک گاؤں چلی گئی تو میرے لیے ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے تین بچے جن کی عمریں پانچ، چھ اور آٹھ سال تھیں، اوپر سے ڈھیروں کام۔ بغیر ماسی کے تو میرا گزارا ممکن ہی نہ تھا۔ خیر میری مشکل دھوبی نے حل کردی۔ وہ برکتے نامی عورت کو بلا لایا تھا جو کسی کے گھر بھی کام نہیں کرتی تھی مگر اس کے ایماندار ہونے کی اس نے گارنٹی دی تھی۔ میرے لیے یہی کافی تھا۔
اب ایک ہفتے سے ماسی برکتے ہمارے یہاں جھاڑو پونچھا کررہی تھی۔ وقت پر آتی، خاموشی سے کام کرکے چلی جاتی۔ میں نے اس سے کپڑے دھونے کی بات کی تو وہ کہنے لگی: ’’میں تو کسی کے گھر کام نہیںکرتی۔ رشید (دھوبی) کے کہنے پر ادھر آگئی ہوں جی اور کوئی کام نہیں کروں گی۔‘‘
’’تمہارے کتنے بچے ہیں؟ گھر والا کیا کرتا ہے؟‘‘ میں نے معلومات حاصل کرنے کے لیے سوال کیا۔
’’میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جی۔ گھر والا فوت ہوچکا ہے۔‘‘
’’گھر کا خرچ کون چلاتا ہے؟‘‘
’’میرا بیٹا اور کون۔ اچھی کمائی ہے اس کی۔ مجھے کیا غرض پڑی ہے جو کسی کے گھر کا کام کروں۔ وہ تو رشید میرے پیچھے پڑ گیا ورنہ…‘‘
اور میں دل ہی دل میں رشید دھوبی کو دعائیں دینے لگی۔ ٹھیک ہے جس ماں کا بیٹا کماتا ہو اسے کیا ضرورت ہے کہ گھر گھر کام کرتی پھرے۔
’’تمہارے بیٹے کا کیا نام ہے، کرتا کیا ہے؟‘‘ ایک روز میں نے یونہی پوچھ لیا۔
وہ پونچھا لگاتے لگاتے لمحہ بھر کو رک گئی۔ پھر بولی: ’’عبدالقدوس نام ہے میرے بیٹے کا۔ ایک ہی تو بیٹا ہے میرا۔ خدا اسے ’’حیاتی‘‘ دے۔ خوب کماتا ہے۔ اچھی گزر ہوجاتی ہے۔ شکر ہے مولا کا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پونچھا لگانے لگی۔
اب اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے گویا جلد از جلد کام ختم کرے اور بھاگے۔ میں بھی خاموش ہوگئی۔ مجھے کیا، وہ فالتو کام نہ بھی کرے پھر بھی مشکل کام تو کر ہی جاتی ہے۔
شہزاد کے اور بچوں کے کپڑے میں خود ہی دھولیا کرتی تھی۔ کسی نہ کسی طرح کام چل ہی رہا تھا۔ آج ماسی برکتے آئی تو اس نے کل کی چھٹی مانگی۔
’’کل کی چھٹی دے دیں بیگم صاحبہ!‘‘
’’کیوں بھئی؟‘‘
’’میرے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں۔دوائی لانی ہے۔‘‘
’’کون وہی عبدالقدوس‘‘
’’ہاں جی ایک ہی تو بیٹا ہے میرا۔ اور کتنے بیٹے ہیں۔‘‘
’’کیا ہوگیا اسے؟‘‘
’’کچھ نہیں بخار ہے ٹھنڈک کا۔ دوائی لاؤں گی ڈاکٹر کے پاس سے۔‘‘
’’تمہاری بیٹیاں بھی تو ہیں گھر میں۔ وہ کام نہیں کرتیں کچھ۔ تم تھوڑی دیر کو آجانا۔ مجھے مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘
’’بیٹیاں جوان ہیں۔ میں انہیں گھر سے باہر نہیں بھیجتی۔ میں دوائی خود ہی لینے جاؤں گی۔‘‘
میں خاموش ہوگئی۔ ’’ٹھیک ہے کل کی چھٹی کرلو مگر پرسوں ضرور آنا۔‘‘
’’ضرور جی! میرا عبدالقدوس ٹھیک ہوجائے گا۔ میں آؤں گی۔‘‘
وہ حسبِ وعدہ تیسرے روز آگئی۔ اب اس کا بیٹاٹھیک تھا اور کام پر جارہا تھا۔
ہمارے ہاں ماسی برکتے کو کام کرتے ایک ماہ گزر گیا تھا۔ میں نے پہلی تاریخ کو تنخواہ دی تھی۔ اس نے نوٹ گنے پھر دوپٹے کے پلو میں باندھ لیے۔ کام کرتی جاتی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بڑبڑاتی جاتی تھی:
’’وہ تو رشید نے مجبور کیا تو میں کام پر آگئی ورنہ مجھے کیا غرض پڑی ہے گھروں میں کام کرتی پھروں، تھوڑے سے روپوں کے لیے۔‘‘
میں ڈر کے مارے کچھ نہ بولی۔ کیا خبر ناراض ہی ہوجائے اور کام کرنا چھوڑ دے۔ میرے لیے تو مشکل ہوجائے گی۔ میرے ہاتھ قدرتی طور پر بہت نرم و نازک تھے۔ کپڑے دھونے سے کھال چھل جاتی تھی۔ ان دنوں مشکل سے گزارا ہورہا تھا۔ لیکن جھاڑنا پونچھنا تو میرے بس کا بالکل نہیں تھا۔ کھانا تیار کرنا، دوپہر کو بچے آئیں تو انھیں کھانا کھلاکر سلانا، تیسرے پہر ہوم ورک کروانا اور پھر رات کے کام… میں پورے دن ہی مصروف رہتی تھی۔
شہزاد کو میری طرف سے بہت فکر رہتی تھی۔ انھوں نے کئی لوگوں سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی ایسی عورت مل جائے جو برتن اور کپڑے دھو جایا کرے مگر ہنوز کامیابی نہ ہوئی تھی۔
سردیاں شروع ہوچکی تھیں۔ بچوں کے لیے سویٹرز خریدنا ضروری تھے۔ میں اور شہزاد بازار گئے۔ بچے بھی ساتھ تھے۔ خاصی خریداری کرکے ہم گاڑی تک آئے تو ایک فقیرنی نے راستہ روک لیا: ’’اللہ کے نام پر بیگم صاحب جی!‘‘
عورت ہٹی کٹی تھی۔ گود میں چھوٹا سا بچہ تھا، جس کے بدن پر کپڑے نہیں تھے، جبکہ شام کا وقت تھا اور موسم سرد تھا۔ وہ بچے کو آگے کرکے بھیک مانگ رہی تھی۔ شہزاد نے دو روپے عورت کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ عورت چلی گئی۔
’’ہٹی کٹی عورت تھی، آپ کیوں پیسے دیتے ہیں ان لوگوں کو۔‘‘
’’اللہ کے نام پر مانگ رہی تھی کیا کرتا؟‘‘
’’مجھے تو اس قسم کی عورتوں پر شدید غصہ آتا ہے جو معصوم بچوں پر ظلم کرتی ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کتنا چھوٹابچہ تھا۔ سردی میں ٹھٹھر رہا تھا۔ خدا جانے یہ کیسی ماں تھی۔ اس کے سینے میں دل نہیں پتھر تھا۔ اپنے بچے کی زندگی کو داؤ پر لگا کر بھیک مانگتی ہے۔‘‘ مجھے واقعی غصہ آرہاتھا۔
’’اس قسم کے نظارے تمہیں ہر جگہ ملیں گے۔‘‘ شہزاد نے لاپروائی سے کہا۔
’’میرا بس چلے تو میں ان سب کو گرفتار کرلوں۔ آخر کوئی قانون ان ننھی جانوں کے لیے کیوں نہیں بنایا جاتا۔ ان کی حفاظت کیوں نہیں کی جاتی۔ ان کا کیا قصور ہے؟ دو، چار اور چھ ماہ کے بچے فٹ پاتھوں پر ڈال دیے جاتے ہیں اور ان کے نام پر بھیک مانگی جاتی ہے۔ ان بچوں کے جسم برہنہ ہوتے ہیں۔ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے یہ زندہ لاشوں کی مانند پڑے ہوتے ہیں اور ان کے ہٹے کٹے ماں باپ ڈھیٹ بنے رقم بٹورتے رہتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں ہلا کر روزی کمانا گناہ سمجھتے ہیں۔‘‘
’’بس بھئی بس! زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو پوری انڈسٹری ہے۔ انڈسٹری، تم کیا جانو۔‘‘ شہزاد نے کہا تو میں خاموش ہوگئی۔
میں نے مزید کچھ نہ کہا مگر میرا ذہن لاوا بنا ہوا تھا۔ میں ہمیشہ ان معصوم و بے زبان بچوں کے بارے میں سوچتی تھی جو اس قوم کے نونہال بھی تھے اور مستقبل بھی۔ بچے جو پھول کی مانند ہوتے ہیں، فرشتوں جیسے گناہ سے پاک ۔ انہیں کس بے دردی سے روندا جاتا ہے۔ ان کے بھی بنیادی حقوق وہی تھے جو سب کے۔ پھر یہ ان سے محروم کیوں ہیں؟
مختلف جرائم کے خلاف حکومتی سطح پر مہم چلائی جاتی ہے۔ مجرموں کو گرفتار بھی کیا جاتاہے۔ لیکن اس جرم کی طرف کبھی کسی کا دھیان کیوں نہیں جاتا؟ یہ معصوم و بے بس بچے، یہ نو خیز کلیاں، ان کی زندگی سے کھیلا جاتا ہے، ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
’’کاش میرے اختیار میں ہوتا میں ایسے تمام ماں باپ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی۔ ان کے بچوں کو اس عذاب سے نجات دلاتی۔‘‘
سوچتے سوچتے میں نہ جانے کہاں پہنچ گئی تھی کہ گاڑی رکی تو پتہ چلا کہ گھر آگیا ہے۔ ہم سامان اتار کر گھر کے اندر آئے۔ میرے تینوں بچے اپنے لیے خریدی گئی چیزیں نکال نکال کر دیکھ رہے تھے، خوش ہورہے تھے۔ تینو ںبچوں نے اپنے اپنے سویٹر پہن کر دیکھے۔ وہ سب خوش تھے ۔ اس وقت نہ جانے کیوں عورت کی گود میں ٹھٹھرتا ہوا معصوم بچہ میرے ذہن میں آگیا۔ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور گھر کے کام کاج میں مصروف ہوگئی۔
٭٭٭
اب ماسی برکتے نے خاصے ناغے شروع کردیے تھے۔ سردی بھی بہت ہوگئی تھی۔ سرد ہواؤں نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
برکتے کی آئے دن کی چھٹی سے میں بہت تنگ تھی۔ کبھی سردرد کا بہانہ ہوتا، کبھی عبدالقدوس کی فرضی بیماری اور کبھی کوئی اور بات۔ میں سچ مچ تنگ تھی۔ میں نے شہزاد سے کہا:
’’ماسی برکتے کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں۔ آئے دن ناغہ کرتی ہے۔ آپ کسی اور عورت کا انتظام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’کہہ تو رکھا ہے کئی لوگوں سے۔ اچھا دیکھو، آج پھر کہوں گا۔‘‘ شہزاد نے مجھے تسلی دی۔
دوسرے دن ماسی برکتے پھر غائب ہوگئی۔ مجھے بے حد غصہ آیا۔ میں نے سوچا اب تو بغیر کہے غائب ہوجاتی ہے۔ اب کے آئی تو اسے نکال دوں گی۔ چاہے کوئی دوسری عورت ملے یا نہ ملے۔ لیکن اگلے کئی دن گزر گئے۔ وہ خود ہی نہ آئی۔ اس کا مطلب صاف ظاہر تھا۔ اس نے کام چھوڑ دیا تھا۔ ظاہر ہے اس کا عبدالقدوس خاصا کماتا تھا۔ اسے یوں بھی نوکری کی ضرورت نہ تھی۔
جمعے کے دن دھوبی آیا تو میں نے اس سے کہا: ’’بھئی کسی ڈھنگ کی عورت کا انتظام کرو، تمہاری ماسی برکتے تو آئے دن چھٹی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ نہ برتن دھونے پر راضی نہ کپڑے دھونے کا کام کرتی ہے۔ اور اب تو تین دن سے آئی ہی نہیں۔ غالباً اس نے کام چھوڑ دیا ہے۔‘‘
رشید نے ٹھنڈی سانس لی اور بولا:
’’بیگم صاحبہ آپ کو کچھ نہیں پتہ۔ اس کا بیٹا مرگیا ہے۔‘‘
’’ہائیں… بیٹا مرگیا۔‘‘ میرے ذہن کو شاک لگا۔
’’مگر کب؟‘‘
’’پرسوں رات۔‘‘
’’ہائے افسو س! جوان بیٹا ختم ہوگیا۔ بے چاری ماسی۔ کیا مرض تھا عبدالقدوس کو؟‘‘
’’بیگم صاحب جی اس کا بیٹا چھ ماہ کا تھا، صرف چھ ماہ کا۔‘‘
’’ کیا کہہ رہے ہو تم رشید۔‘‘
’’بیگم صاحبہ! اس کی تین بڑی بیٹیاں ہیں۔ یہ بیٹا تھا، صرف چھ ماہ کا۔ اس کا خاوند بیٹے کی پیدائش سے دو ماہ پہلے ہی انتقال کرگیا تھا۔ یہ عورت اس بچے کی کمائی کھاتی تھی ایک چوراہے پر زمین پر ڈال دیتی تھی، بے چارے کو بغیر کپڑوں کے۔ آنے جانے والے ترس کھاکر اس کے پاس رکھے کٹورے میں کچھ پیسے ڈال دیتے تھے۔ پرسوں بہت ٹھنڈ تھی، اکڑ کر مرگیا بے چارہ۔ میں تو بہت منع کرتا تھا، پر کمائی کا لالچ تھا نا اس کو…‘‘
میرے دماغ کی نسیں چٹخنے لگیں۔ ’’ظالم عورت … رشید تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا میں اسے کبھی اپنے گھر نہ رکھتی۔‘‘
’’آپ کو ضرورت تھی اس لیے …‘‘
شام کو شہزاد دفتر سے آئے تو میں نے انھیں پوری بات بتائی۔ انہیں بھی اس بچے کی وفات کا دکھ تھا۔ کئی دن گزر گئے نہ ماسی برکتے آئی اور نہ ہی مجھے کوئی دوسری ماسی ملی۔ کام کرکرکے میری بری حالت تھی۔ کمر میں بھی درد رہنے لگا تھا۔ سر میں چکر آتے تھے۔ شہزاد بھی میری وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ میں کپڑے دھوکر فارغ ہوئی تو اچانک بیک بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ماسی برکتے کھڑی تھی۔ نفرت کی تیز لہر میرے تن بدن سے اٹھی۔ میں نے جذبات پر قابو پاکر رکھائی سے کہا:
’’اب کس لیے آئی ہو؟ تم نے بیٹے کو تو مار ہی ڈالا نا۔ مجھے رشید نے سب کچھ بتادیا ہے۔‘‘
’’بیگم صاحب جی میرا عبدالقدوس مرگیا۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں کچھ نہ بولی۔ میرا دل تو پہلے ہی رو رہا تھا۔
’’بیگم صاحب جی مجھے ملازم رکھ لیں۔ میں آپ کا سب کام کروں گی۔ برتن دھوؤں گی، کپڑے دھوؤں گی۔ آپ بولو گی تو کھانا بھی بنا دوں گی۔‘‘
’’نہیں، ماسی، میں تمہیں اپنے گھر نہیں رکھ سکتی۔‘‘ میں نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’کیوں؟ بیگم صاحب جی آپ کو ان دنوں کام والی کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
’’ہاں مجھے ضرورت ہے۔ میں تھک بھی گئی ہوں۔ لیکن میں تمہیں نہیں رکھ سکتی۔ تم قاتل ہو ماسی، اپنے معصوم بچے کی قاتل۔ وہ مرا نہیں ہے اسے تم نے مارا ہے۔ تمہارا وجود میں برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’یہ کیا بولتی ہو بیگم صاحب جی! مارنے اور زندگی دینے والا اوپر بیٹھا ہے، اس کی اتنی ہی زندگانی تھی۔‘‘ کاش میںاسے سمجھا سکتی کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ انسان خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے مگر اس سے کچھ کہنا لاحاصل تھا۔ وہ پھر بولی:
’’میں مجبور ہوں جی! مجھے رکھ لیں۔‘‘
میں اندر سے کچھ رقم لے آئی اور اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا: ’’یہ رکھ لو کچھ دن کام چلاؤ اور کوئی دوسرا گھر تلاش کرو۔ رشید دھوبی سے کہنا کوئی گھر دلا دے گا مگر میں تمہیں نہیں رکھوں گی۔‘‘
ماسی برکتے روپے لے کر چلی گئی۔ شاید وہ میری بات سمجھ نہ سکی تھی۔ میری کوئی کوئی بات تو بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتی وہ تو خیر ان پڑھ تھی۔
——