عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اللّٰہِ ذَا الْوَجْہَیْنِ الَّذِیْ یَأْتِی ہٰؤُلآئِ بِوَجْہٍ وَّ ہٰؤُلٓائِ بِوَجْہٍ۔ (متفق علیہ)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ برا انسان اسے پاؤگے جو دو چہرے رکھتا ہے۔ ایک کے پاس ایک چہرہ لے کر جاتا ہے اور دوسرے کے پاس دوسرا چہرہ لے کر جاتا ہے۔‘‘
دوچہرے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی شبیہ دو طرح کی بنا رکھی ہے۔ اپنی اصلیت کو چھپا کر وہ لوگوں سے ملتا ہے۔ ایک شخص کے پاس جاکر دوسرے کے عیب بیان کرتا ہے پھر دوسرے کے پاس جاکر پہلے والے کے عیوب بیان کرتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اسے اپنا ہمدرد و بہی خواہ سمجھتے ہیں لیکن ہے وہ دونوں کا دشمن۔ بعض مرد و خواتین میں یہ عادت ہوتی ہے کہ انھیں ایک دوسرے کے عیوب کی تلاش رہتی ہے اور دوسروں سے بیان کرنے میں مزہ آتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ (سنن دارمی، کتاب الرقاق) کیونکہ دنیا میں وہ اپنی زبان سے دو طرفہ آگ لگاتا تھا۔ ایک اور حدیث جو مسند احمد بن حنبل میں بیان ہوئی ہے اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ دو چہرے رکھنے والا شخص امانت دار نہیں ہوسکتا۔ یعنی وہ کسی کے راز کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ وہ جس سے بھی کوئی راز کی بات سنے گا، اسے دوسروں کے سامنے بیان کردے گا۔ بلکہ ایسا شخص دوسروں کے راز جاننے کے چکر میں رہتا ہے۔ اور معلوم ہوتے ہی اسے پھیلانے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کی معاشرے میں تو اخلاقی حیثیت گر ہی جاتی ہے اور لوگ اس سے ہوشیار رہنے لگتے ہیں، اللہ کے نزدیک بھی اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔