چہرے کے پردہ کا التزام

سمیہ سبحانی

گھر میں سب کو پردہ کرتے دیکھا پردہ کرنے لگے،عقیدے میں یہ چیز شامل تھی کہ مسلمان عورتیں پردہ کرتی ہیں، تب دو ہی صورتیں ہوتی تھیں: پردہ اور بے پردگی۔ اس کا کوئی تصور ہی نہ تھا کہ چہرہ کھلا رکھ کر بھی پردہ ہو سکتا ہے۔ پھر پردہ کس چیز کا؟ بہرحال وقت گزرتا گیا اپنے علاقے سے نکلنے کا اتفاق ہوا، اتفاق کیا خدا کا فیصلہ ہوا اور سعودی عرب پہنچ گئے، وہاں کافی ایسی خواتین نظر آئیں جو برقع اوڑھتی ہیں مگر نقاب ندارد! عجیب لگا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ مسلک کا اختلاف ہے،چہرے کا پردہ ایک اختلافی مسئلہ ہے! پریشانی اور بڑھ گئی۔ خوبصورت نوجوان عورتیں چہرہ بے نقاب، دعوت دیدار! حیرت ہے کیا کوئی امام اس منظر کو گوارا کرسکتا تھا۔ بہت بہنوں سے پوچھا کہ کس مسلک کى متبع ہو ؟کس مذہب میں یہ رخصت ملی ہے؟مگر کوئی تشفی بخش جواب نہ مل سکا۔ کافی وقت گزر گیا، تلاش جاری تھی۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا مطالعہ بھی چل رہا تھا۔ ایک دفعہ ایک دینی مجلس میں کئی ایک بہنوں سے ملاقات ہوئی جو اُن ممالک سے تعلق رکھتی تھیں جہاں چہرے کا پردہ نہیں ہوتا: سوريا، لیبیا، مصر، عراق؛ مگر یہ تو بڑے اہتمام سے مکمل پردے میں تھیں! موقع پاتے ہی پوچھ لیا: آپ کے ملک میں کون سا مسلک رائج ہے جس میں چہرے کا پردہ نہیں کرتے؟ اور آپ کیوں کرتی ہیں؟
انہوں نے بڑی اپنائیت سے میرا ہاتھ پکڑا اور بولیں: ہمارے ملک میں کسی امام کا نہیں، حکمرانوں کا مسلک چلتا ہے اور جب حکمراں کسی کام کا فیصلہ کرلیں تو علماء دلیلیں فراہم کر دیتے ہیں۔ عوام دین سے اس قدر دور ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ دلیل کس درجہ کی ہے۔ ان کو تو اپنی خواہش کے مطابق شریعت میں رخصت مل جاتی ہے ۔ رخصت ہی نہیں بلکہ ایسے علماء بھی مل جائیں گے جنہوں نے یہ کہہ دیا کہ چہرے کے پردے کے قائل اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں، اور یہ حرام ہے۔آپ نے چہرے کے پردے کے سلسلے میں فرض اور مستحب كا اختلاف تو سنا ہوگا مگر یہ نہیں سنا ہوگا کہ یہ حرام بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے وہ بھی سن لیا۔ انہوں نے ہمیں جو بتایا وہ اس سے مختلف نہ تھا جو سوریا، تونس اورمصر کی بے پردگی کی تاریخ میں درج ہے کہ كس طرح کسی قوم کے ادیب، صحافی، اور علماء سوء مل کر قانون ِشریعت کو مسخ کر نے كى كوشش کرتے ہیں، مگر قرآن و سنت میں حق کے طالب کے لئے سب کچھ محفوظ ہے۔
باہر کی عورتیں یہ کہتی ہیں کہ اخوان المسلمین کی عورتیں بھی چہرے کا پردہ نہیں کرتیں، ان کو کیا پتا کہ اخوان المسلمین کی عورتیں کس کس اذیت سے گزری ہیں اور کس دباؤ میں رہی ہیں!
ایک سوال اکثر ذہن میں آتا تھا،کبھی آپ نے یہ سوچا ہوگا کہ حضرت آدم اور حضرت حوا نے ممنوعہ پھل کھایا تھا تو ان کے جسم بے پردہ کیوں ہوگئے تھے۔ اس پھل كو کھانے پر پیٹ کی کوئی شکایت، ہاضمے کا کوئی مسئلہ، جلد كی کوئی پریشانی کیوں نہیں ہوئی؟ اس پھل کی یہ کیسی عجیب تاثیر تھی؟ اور کبھی یہ بات سوچی کہ وہ تو جنت کے لباس سے مزین تھے جب لباس اترا تو ان کو حیرت اور پریشانی تو ہوئی ہوگی، مگر انہوں نے یہ کیسے سمجھا کہ یہ بھی چھپانے کی كوئى چیز ہے جسے پتوں سے چھپا لیا جائے، گویا کہ پردے کا شعور بے پردگی کے وجود سے پہلے ہی ودیعت کردیا گیا تھا۔ مجھے میرے سوال کا جواب اس وقت ملا جب سورہ اعراف میں یہ واقعہ پڑھا اور آیت نمبر 27 کى تفسیر دیکھى۔ گویا یہ شیطان کی چال تھی اور وہ یہ چال ہر اس شخص کے ساتھ چل سکتا ہے جس کا ایمان کمزور ہو۔ ظاہر ہے شیطان جب حضرت آدم کے پاس خیر خواہ اور مرشد و ناصح بن کر آیا تھا تو ہمارے پاس کیا یہ بتا کر آئے گا کہ میں بہکانے آیا ہوں!کیا یک بیك کوئی پردے سے بے پردگی کی طرف آ سکتا ہے؟ نہیں! بہت سے مراحل سے گزرتا ہے پردہ، تب ہوتی ہے بے پردگی، شياطين الانس والجن مل کر زور لگاتے ہیں۔ اپنی زبان، اپنے قلم، اپنی ہر صلاحیت اور ہر طاقت صرف کر دیتے ہیں۔ جہاں سرحد کمزور ہوتی ہے وہیں سے داخل ہوجاتے ہیں۔ علم کی کمی نے بہت سی سرحدیں کمزور کر دی ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ ( بنى اسرائيل: 70)
ترجمہ: ’’اور ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی۔‘‘
اور شیطان یہ عزت چھین کر اس کی انسانیت کو مسخ کر کے اسے بے حیائی کے مقام پر لے جانا چاہتا ہے ۔
آپ نے کبھی سوچا ، پردے کا قانون کیوں بنا ؟ پردہ اور بے پردگی کی یہ جنگ کب سے جاری ہے ؟
عورت کو مرد سے بہت مختلف پیدا کیا گیا ہے۔ شوق آرائش و زیبائش اس کی فطرت میں شامل کر دیا گیا۔ بننے اور سنورنے کے اِس شوق کو، اِس فطری جذبے کو تکمیل کا حق دیا گیا اور قدرت كى طرف سے اس کے اسباب مہیا کیے گئے، پھر اس کے اظہار سے کیوں روک دیا گیا؟ عورت کو سنورنے کا شوق دے کر، مرد کو اس کی طرف رغبت اور کشش دے کر، پھر غض بصر اور پردے کا حکم کیوں دیدیا ؟ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ یہ کشش نہ ہوتی، یہ چنگاری یہ شعلہ نہ ہوتا، پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ادائے حسن و دلبری نہ ہوتی اوریہ کشش نہ ہوتی تو کیوں ایک اجنبی انسان ہم کو اپنے گھر بساتا، محنت سے کما کر ہم پر خرچ کرتا، کیوں ہماری عزت کو اپنی عزت اور ہماری خوشی کو اپنی خوشی سمجھتا ۔ مضبوط تعلقات پر خاندان کیسے قائم ہوتا گویا یہ کشش، یہ شوقِ جمال فطری ضرورت ہے تو پھر اس پر یہ پابندیاں کیوں؟
افریقہ کی غیرمہذب آبادی کے بارے میں تو آپ نے سنا ہو گا کم سن مائیں، بے شمار بچے، جن کے باپ کا کوئی پتہ نہیں ہوتا , جو ماں کی کفالت میں ہوتے ہیں، مائیں پیٹھ پر باندھ کر یا گود میں ٹانگ کر جنگلوں میں کام کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو پال لیتی ہیں۔ یہ تو غیر مہذب غیر تعلیم یافتہ قوم کا حال ہے۔ مہذب اور تعلیم یافتہ عورتیں، یقیناً ان کی حالت اس سے مختلف ہوگی۔ ہاں! وہاں بھی کمسن مائیں ہوتی ہیں، وہاں بھی باپ کی نسبت سے محروم بچے ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ وہاں یہ بچے ماں کی پیٹھ پر نہیں ہوتے، ان کے آنے سے پہلے ہی ان کا انتظام کر لیا جاتا ہے اور ان کویتیم خانوں میں جگہ مل جاتی ہے۔
یہ وجہ ہے پابندیوں کی۔ بچوں کے آنے سے پہلے محبت ومودت پر قائم والدین کا تعلق جن کے سایے میں پلنے والے بچے خلیفہ فی الارض کا منصب سنبھال سکیں۔ اسلام انسانوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے آیا ہے۔ شریعت کا جو حکم بھی نازل ہوا ہے وہ انکی جان ومال، عزت وآبرو، اور عقل ودین کی حفاظت کے لئے ہے۔ ہر حکم بہت واضح انداز میں موجود ہے۔ کتاب اللہ میں بھی اور سنت رسول اللہ میں بھی اوراسوه صحابہ و صحابیات میں بھی۔
آئیے سورہ نور کی آیت نمبر 30 اور 31 کا مطالعہ کریں یاد رہے کہ اس سے پہلے سورہ احزاب میں پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے۔ یہاں آپ کے ایمان کے حوالے سے آپ کو مخاطب کیا گیا ہے، اس سے پہلے سورہ اعراف آیت 27 میں بھی ایمان ہی کو اس جنگ کے جیتنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اپنے ایمان کو سنبھالتے ہوئے آگے بڑھیں:
پہلا حكم ہے غضِ بصر کا،حدیث میں اس کی تفصیل ہے کہ اگر غلطی سے نظر پڑ جائے تو دوبارہ مت دیکھنا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دعوتِ دیدار دیتی چلو اور جو دیکھے وہ گناہگار ہے۔ آگے پھر تم کو مخاطب کیا ہے غضِ بصر اور حفظِ فرج کا حکم ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک لمبا سفر ہے جس کو ابتدا اور انتہا بتا کر مختصر کر دیا گیاہے جو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے۔ سورہ احزاب آیت نمبر 59 میں تمام مومن عورتوں کو اپنے اوپر چادر لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی تفسیر میں ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی ضرورت سے باہر نکلیں تو سر کی چادروں سے چہرہ ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں بغرض حاجت اور ضرورت نہ ہو تو اس کو بھی ڈھانپ لیں۔ اس کے بعد سورہ نور کی یہ آیت مزید تاکید کرتی ہے کہ کسی بھی طرح کی بے پردگی کی گنجائش نہ رہے۔ اس میں آگے زینت کے اظہار سے روکا گیا ہے زينت چاہے قدرتی حسن ہو، چاہے حسن حاصل کرنے کی کوشش ہو، چاہے وہ زیور ہو، کپڑا ہو، خوشبو ہو، مہندی ہو، یا میک اپ ہو یہ سب زینت ہے۔
پھر یہ کہا کہ (الا ما ظہر منہا) جو خود ظاہر ہو جائے، یہ نہیں کہا کہ جس کو تم ظاہر کردو، گویا زینت کو ظاہر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یاد رکھیں آپ کو ضرورت ومصلحت کے تحت چہرہ کھولنے کی رخصت تو مل سکتی ہے مگر اظہار زینت کی ہرگز نہیں۔ پھر سینے پر دوپٹہ ڈالنے کی تاکید کی کہ فتنے کے مقامات پردے میں رہیں، مگر افسوس کہ آج یہ دوپٹے مختصر ہوتے ہوئے گردن تک سمٹ چکے ہیں۔ پھر دوبارہ زینت کے اظہار نہ کرنے کی تاکید کی گئی۔ پھر چند محدود رشتہ داروں کا ذکر جن کے سامنے زینت کا اظہار ہو سکتا ہے۔ وہ بھی قابل توجہ ہے :شوہر کے باپ اور بیٹے کا ذکر ہے مگر شوہر کے بھائی، بھتیجے اور بھانجے اس میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کچھ دیر کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے، تو کیا زینت کے اظہار کی بھی کوئی گنجائش ہے۔
آپ نے کہیں سنا ہے کہ جو چہرے کے پردے کو ضروری نہیں سمجھتے وہ زینت کو چھپانے کو ضرورى سمجھتے ہوں۔ ایک آیت میں دو بار لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ کا ذکر ہے: کہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ یہ تاکید بلاوجہ نہیں ہے۔ جس شدت سے چہرہ کھولنے کی حمایت کی جاتی ہے اتنى ہی شدت سے یہ واضح حکم چھپا دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو یہ بتایا گیا کہ جو چیز بھی آپ اچھے لگنے کے خیال سے استعمال کرتی ہیں وہی زینت ہے۔
نہیں! زینت کے معنی نہیں بتائے گئے۔ زینت کے اظہار پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اس کے جواز ڈھونڈے گئے حتی کہ ’’آئی بروز‘‘ بنانے کے جواز پر بھی فتویٰ مل گيا۔
آئیے آیت کی تفسیر میں آگے بڑھیں، رشتوں کی گنتی کرانے کے بعد فرمایا گیا۔ عورتیں اپنے پاؤں زمین پر مار کے نہ چلیں کہ انکی پوشیدہ زینت ظاہر ہو۔
جہاں چھپی ہوئی زینت کے اظہار سے بھی روک دیا گیا، جہاں چوڑیوں کی کھنک، پرفیوم کی خوشبو، آواز کی لچک سے بھی روک دیا گیا، وہاں آپ کو بے پردگی کی کوئی گنجائش نظر آ رہی ہے ! اب کوئی کہے کہ چہرے پر نقاب ڈالنے کو نہیں کہا گیا تو اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا (ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا) پڑھ کر کہے کہ والدین پر ہاتھ اٹھانے کی ممانعت نہیں آئی ہے۔
ابھی آیت پوری نہیں ہوئی آئيے آگے دیکھیں: وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّہا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ آیت کا آغاز آپ کے ایمان کے حوالے سے ہوا تھا، اختتام بھی اسی حوالے سے ہوا ہے،اپنے ایمان کو سنبھالو! اس کی حفاظت کرو اور اے اہل ایمان پردے کے تعلق سے جو کمی وكوتا ہی ہوئی ہے اس کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرو ،اسی سے توبہ کرو، اپنی روش بدل لو تو امید ہے کہ کامیاب ہو جاؤ گے ۔
حجاب اور ستر کے الگ الگ احکام ہیں۔ ان دونوں کو الگ الگ سمجھنا ضروری ہے۔ ستر کا مطلب ہے جسم ڈھانکنا۔مرد کے لیے ناف سے گھٹنے تک اور عورت کے لئے پورا جسم ستر ہے سوائے ہاتھ اور چہرے کے، اوپر جن رشتہ داروں کا ذکر ہوا ہے ان کے سامنے ساتر لباس میں جانا ہے۔ خوبصورت کپڑے، زیوراور خوشبو لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہر طرح کا لباس پہن سکتے ہیں، کچھ شرطوں کا لحاظ رکھ کر: باریک نہ ہو، تنگ نہ ہو، مختصر نہ ہو ، کافروں یا مردوں سے مشابہ نہ ہو، یہ وہ لباس ہے جو محرم رشتہ داروں کے سامنے پہنا جائے گا۔ نا محرم رشتہ داروں سے پردہ کے جو احکام ہیں وہ انسدادی تدابیر کے ضمن میں آتے ہیں۔ کمزور ایمان والے لوگوں کو دل میں چھپی چنگاری کو ہوا دینے کا موقع نہ ملے اور یہ کمزور ایمان والے تو صحابیات کے دور میں بھی موجود تھے تو آج ان کے وجود کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟
آئیے ہم آپ كو صحابیات کی چند جھلکیاں دکھائیں :
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی پیرانہ سالی کا وقت ہے۔ ان کے بیٹے منذر ابن زبیر عراق سے واپس آئے ہیں اور اپنی والدہ کے لیے نرم ریشمی کپڑا لائے ہیں۔ والدہ نابینا ہو چکی ہیں۔ کپڑے کو چھو کر دیکھتی ہیں اور ہٹا دیتی ہیں۔ بیٹا وضاحت کرتا ہے: اماں باریک نہیں ہے۔ ماں جواب دیتی ہیں: ٹھیک ہے باریک نہیں ہوگا، مگر اتنا ملائم ہے کہ جسم کی ساخت پتہ چلے گی۔
اندازہ کریں اس نابینا عمر رسيده صحابیہ کے ایمان کا، ان کو کس فتنے کا اندیشہ تھا ؟نہیں! یہ تو فطرت سلیمہ کا لازمہ اور بندگی رب کا تقاضہ ہے۔
آئیے ایک جھلک اور دکھاؤں: حضرت فاطمہ اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہما ہیں، حضرت فاطمہ اپنی فکر مندی کا اظہار کرتی ہيں۔ مجھے ڈر ہے كہ جب میرا جنازہ جائے گا تو مرد مجھے دیکھ لیں گےكیونکہ اوپر سے جو چادر ڈالتے ہیں اس میں سے عورت کی ساخت پتہ چلتی ہے ۔سہيلى ان كو مشوره ديتى ہیں کہ حبشہ میں کھجور کی ٹہنياں لگا کر چادر ڈال دیتے ہیں تو عورت کی ساخت نہیں پتہ چلتى،وہ اس پر اطمینان کا اظہار کر دیتی ہیں اور دونوں سہیلیاں آپس میں طے کر لیتی ہيں کہ جو پہلے رخصت ہو گی اس کے لیے دوسری اسى طرح پردے کا انتظام کرے گی۔ یہ فکر مندی ہے جنازے کے پردے کی۔ تو پھر ان کے پردہ كا کیا ہو جو ہوٹل، بازار، مول اور کافی شاپ کے چكر لگاتی ہیں اور مردوں کے مجمع سے گزرتى ہیں!
حيا ايمان كا ایک حصہ ہے ۔آج بھی ایمان و استقامت کی ایسی مثالیں موجود ہیں، جب كوئى خدا كا حكم اور بندگی رب کے تقاضےسے پردہ کرے گا تو اس کی یہی کیفیت ہوگی، البتہ جو تہذیب، فيشن يا روایت سمجھ کر کرے گا اس کی کیفیت مختلف ہو گی۔ ماحول اور فیشن کے ساتھ ساتھ برقعے کے انداز بدلتے رہیں گے، یہ فکر کہ برقعہ معیاری ہو، برقعہ اوڑھ کر خوبصورت اور کم سن لگوں۔ برقعہ كے نئے فيشن مجھ سے چھوٹ نہ جائیں، سر پر بڑا سا جوڑا، بے شمار پنوں سے سیٹ کیا گیا اسکارف جو گردن سے نیچے نہ آئے، كمر سے تنگ اور سینے سے ابھرا ہوا، قرآن کى آیتوں کی کھلی مخالفت۔
امام ذہبی کہتے ہیں:’’ ایسے کاموں پر عورت ملعون ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت سے دور ہوتی ہے جیسے نقاب کے اندر سے زینت اور زیور کا اظہار اور خوشبو۔‘‘ اور علامہ آلوسی کہتے ہیں:’’ہمارے زمانے میں عورتیں باہر نکلنے کے لئے کپڑوں کے اوپر ایسا کپڑا پہن لىتى ہیں جو رنگین، ریشمی اور سنہری چمکیلی كڑھائی والے ہوتے ہیں، یہ ان کے شوہروں کی بے غیرتى ہے۔‘‘
پیاری بہنو! ہر کام اپنے شوق وانتخاب سے کرو، سوائے پردہ کے۔ اسے شریعت کے مطابق کرو، یہ عبادت ہے، یہ حكم الٰہی ہے،یہ فرمان رسول ہے، یہ پاکیزگی کی علامت ہے،یہ پاکدامنی کا عنوان ہے،یہ عفت ہے، یہ حيا داری ہے۔ چہرے کا پردہ حیاء کا امين اورمحافظ ہے اورحیا فطرت کا حصہ ہے، اس کی حفاظت اور رعایت کرنا ہماری ذمہ داری ہے ورنہ وہ مرجھا کر ختم ہو جائے گی۔
پردہ غیرتِ مردانگی کا تقاضہ ہے۔غیرت فطرت سے تعلق رکھتی ہے اور پردے کی علم بردار ہوتی ہے ۔ بے غیرتی شہوت سے تعلق رکھتی ہے اور بے پردگی کی حامی ہوتی ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’کیا تم لوگوں کو شرم نہیں آتی،کیا تم لوگوں کو بالکل بھی غیرت نہیں آتی! اپنی بیویوں کو مردوں کی بھیڑ میں جانے دیتے ہو وہ ان کو دیکھتی ہیں اور وہ ان کو دیکھتے ہیں۔‘‘ غیرت مند انسان کسی کی ایک نگاہِ غلط بھی اپنی بیوی کی طرف اٹھتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتا چہ جائے کہ دعوتِ دیدار۔
قرآن میں تبرّج سے روکا گیا ہے۔یہ تبرّج کیا ہے؟ اپنا حسن، اپنی ادائیں، اپنا سنگھار، شوہر کے علاوہ کسی کو دکھانا یہ تبرّج ہے۔ تبرّج بڑا گناہ ہے تبرّج بے حیائی ہے، تبرّج شیطان کا ہتھیار ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں آپ کی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے،ذرا سی لذت وشہرت کے لئے خسارے کا سودا نہ کرنا۔
پردہ وه واحد ذریعہ ہے جو کسی گھر کی حرمت کی حفاظت کر سکتا ہے۔ پردے کے ساتھ باہر نکلنے والی عورت اپنی حیا اور ایمانداری کا عنوان ہوتی ہے۔
کیا آپ نے امریکی خاتون ساره بولکر کے تاثرات پڑھے ہیں؟ ضرور پڑھیے گا۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کپڑے کا یہ ٹکڑا کتنی اہمیت رکھتا ہے اور کیوں اغیار اس سے ڈرتے ہیں اور اس کو ختم کرنے کے لئے سارا زور لگا دیتے ہیں، کچھ مکاری سے اور کچھ طاقت سے ۔
جو لوگ نقاب کو قدامت پرستی کی علامت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہتے ہیں، اگر وہ سچ مچ ایسا سمجھتے تو اس کو خوب رواج دیتے مگر وہ جانتے ہیں اس میں حق کی مضبوطی ہے۔ اس میں سوسائٹی کا تحفظ ہے،یہ مسلمانوں کی طاقت کا مظہر ہے۔ اسی لئے تو اس کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں ۔
اسلام نے عورت کو نہ علم حاصل کرنے سے روکا ہے، نہ کام کرنے سے۔ تاریخ گواہ ہےکہ مسلمان عورتوں نے پردے کے ساتھ علم و عمل کے میدان میں جھنڈے گاڑ دیے حتی کہ میدان جہاد میں بھی وہ آگے آگے رہی ہیں اور یہ ثابت کردیا کہ پردہ ترقی کی علامت اور تمدن کا نشان ہے۔
آج ہماری بیٹیاں یہ ثابت کر دیں کہ ہم حجاب کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے اس شِعار سے تنازل نہیں کر سکتے۔ ہم پردہ کرتے ہیں مگر کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ ہاں ہم خود کو نمائش کا پیس نہیں بنا سکتے، لقمہ تر نہیں بن سکتے جس کے لئے بھیڑیوں کی رال ٹپکے، ہم پبلک کا مال نہیں ہو سکتے ۔ ہمیں اپنے حسن کی تعریف ان سے نہیں سننی جو عورت کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔ ہم ان کی مراد پوری نہیں ہونے دیں گے جو اس كو اس کے گھر کے چین و سکون، شوہر کے پیار اور بچوں کے احترام سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، گھر کی شہزادیاں ہیں ،پردہ دار ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں