ڈائٹنگ: ایک عالمگیر مسئلہ

کہکشاں خالد

ڈائٹنگ کا حل ہمارے پاس ہمارے مذہبی احکام کی بدولت موجود ہے۔ مگر ہم محض اپنی کم علمی کے باعث اس سے فیض یاب نہیں ہوپاتے اور بے تحاشہ موٹا ہونے کے بعد بے انتہا دبلا ہونے کے لیے ہم ادھر ادھر کی کچھ کارآمد اور کچھ بے کار تجاویز پر عمل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم کچھ کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی ناکام بھی ہوجاتے ہیں۔

اس سلسلے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور بے شمار غیر مسلم ماہرین کے حوالہ جات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فلاں فلاں طریقۂ کار اختیار کرنے کی صورت میں ہم دبلے رہ سکتے ہیں۔ مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق ہم اپنے پیارے رسول ﷺ کی سنت سے قطعاً بے خبر ہیں۔ جن سے اگر آگاہی ہو توہم کو کسی سلمنگ سینٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور وقتِ آخر ہمیں کاندھا دینے والے افراد گھر جاکر اپنے کاندھوں کی مالش کرانے پر مجبور نہ ہوں۔

ڈائٹنگ کے ساتھ ایک بنیادی ضروری چیز اور بتائی جاتی ہے، وہ ہے روزانہ ہلکی پھلکی ورزش۔ جی ہاں یہ بھی ہمارے دین نے سکھا دی ہے۔ جس سے ہم اپنی کوتاہ نظری کے سبب فیض یاب نہیں ہوپاتے، وہ ہے ہمارا اہم بنیادی رکنِ اسلامی: نماز۔ جس کو اگر ہم پانچوں وقت مسجد میں جاکر باجماعت صحیح طریقے پر ادا کریں تو ہمارا دورانِ خون ٹھیک ٹھاک گردش میں رہتا ہے اور ہمارا بدن ویسا ہی فعال رہتا ہے جیسا کہ اسے رہنا چاہیے۔

ڈائٹنگ کی پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ آپ خواہ کم کیلوریز والی غذا ہی کیوں نہ کھائیں، اس کی مقدار اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کا پیٹ بھر جائے۔ یعنی گنجائش رکھ کر کھائیں۔ یہی بات ہمارے دین میں سکھائی گئی ہے کہ کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھانا چاہیے۔

ہجرت کے بعد مدینہ کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی کیونکہ دیگر علاقوں سے مسلمان وہاں آکر جمع ہونے لگے۔ یہ بات ایک یہودی طبیب کو معلوم ہوئی تو اس نے سوچا کہ شہر بڑھ رہا ہے اور لوگ وہاں آکر آباد ہورہے ہیں، اس لیے وہ اچھا مارکیٹ ہوگا، چنانچہ وہ مدینہ آیا اور وہاں اس نے اپنا مطب کھول لیا۔ وہ کافی دنوں وہاں مقیم رہا لیکن اسے مریض نہ ملے۔ آخر کار اس نے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ چلتے چلتے وہ رسولﷺ سے ملا۔ آپؐ نے اسے اخلاقاً یہیں رہنے کے لیے کہا مگر وہ نہ مانا۔ اس نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ اتنے دنوں یہاں مقیم رہا مگر مجھے مریض نہ ملے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ آپؐ نے اسے بتایا کہ یہاں کے لوگ اسی وقت کھانا کھاتے ہیں، جب وہ بھوکے ہوں۔ اور اتنا ہی کھاتے ہیں کہ بھوک باقی رہے۔ اس لیے لوگوں کو آپ سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ آدھی سے زیادہ بیماریاں ’’بسیار خوری‘‘ سے پیدا ہوتی ہیں۔

اسی طرح ایک جگہ بتایا گیا ہے کہ رات کا زیادہ کھانا انسان کو کمزور کردیتا ہے اور رات کو بھوکا بھی نہیں سونا چاہیے۔ غور فرمائیں رمضان میں ہم رات اور صبح کو تو کھاتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے سنا ہو کہ روزے کے باعث اتنا ضعف طاری ہوا کہ انسان جان سے ہی گزرگیا۔ کیونکہ ہم رمضان میں کھانا غروبِ آفتاب کے بعد کھاتے ہیں اور پھر تراویح پڑھ لیتے ہیں جس کے باعث کھانا آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے۔

اسی طرح روایت ہے کہ ’’کھانا اس نیت سے کھایا جائے کہ ہم عبادت کے لیے کھانا کھا رہے ہیں۔‘‘ ابراہیم بن شیبان کہتے ہیں کہ ۸۰ برس ہونے کو آئے کہ میں نے کوئی چیز خواہش کی خاطر نہیں کھائی۔ یعنی ارادہ ہی کم کھانے کا ہو۔ کیونکہ زیادہ کھانا عبادتِ الٰہی سے باز رکھتا ہے۔

کسی بھی ماہر ڈائیٹ کا چارٹ اٹھا کر پڑھ لیجیے۔ اس میں دن بھر کی غذا میں ہر وقت کوئی نہ کوئی سبزی یا پھل لازمی ہوگا۔ اسی طرح ایک موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا: ’’پسندیدہ بات یہی ہے کہ انسان کمر سیدھی کرنے کے لیے چند لقموں پر قناعت کرے، اور اگر اس پر قانع نہ ہو سکے تو ایک تہائی حصہ کھانے سے پُر کرے اور ایک تہائی حصہ پانی کے لیے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے (یعنی ہوا کی آمد و رفت کے لیے۔‘‘ یہ بھی ارشادِ نبویؐ ہے کہ جو انسان بھوک رکھ کر کھائے اور کھانے کے بعد بھی بھوکا رہے اسے کسی طبیب کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔

اس مضمون کی تحریک کا سبب ڈائٹنگ کے موضوع کی ایک کتاب بنی ہے جس میں صاحبِ مضمون نے بیشتر غیرمسلم مفکرین، ماہرین اور ڈاکٹروں کی مستند آرا کے بعد یہ بات ثابت کی تھی کہ کم خوری، بسیار خوری سے بہتر ہے۔ اس کو پڑھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ ہمارے پاس اتنے قریب اتنی معزز اور محبوب ہستی کہ اقوال موجود ہیں اور ہم ان سے بے خبر ہوکر سارے جہاں کو کھنگال رہے ہیں اور اس میدان میں ان ہی کو معتبر سمجھ رہے ہیں جو کہ ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات، احکام اور تحقیقات کے آگے کچھ بھی نہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں