کسی ملک پر ایک بہت عقل مندر بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کے ملک میں بڑی خوشحالی، امن، چین اور سکون تھا۔ لوگ بہت پرسکون زندگی گزارتے تھے۔ بادشاہ اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا اور رعایا بھی بادشاہ سے بہت محبت کرتی تھی۔ مگر کچھ عرصے کے بعد ملک میں چوریاں ہونے لگیں۔ بادشاہ کو جب اطلاع ملی تو وہ بہت فکر مند ہوا۔ اس نے اپنے وزیر کو بلا کر حکم دیا کہ جلد سے جلد ان چوروں کا سراغ لگا کر انھیں گرفتار کرکے ہمارے سامنے پیش کرو، تاکہ ملک میں امن و امان بحال ہو۔ وزیر نے فوراً حکم پر عمل درآمد شروع کردیا۔ وہ بھیس بدل کر گلی کوچوں میں پھرنے لگا، تاکہ چوروں کا پتا چلا سکے۔مگر شام تک اسے کہیں سے بھی چوروں کے متعلق کوئی خبر نہ مل سکی۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ رات کو بھی باہر ہی گھومتا رہے گا۔ اس طرح اگر چور کسی گھر میں چوری کرنا چاہیں گے تو اسے پتا چل جائے گا۔ وہ ساری رات ایک گلی سے دوسری گلی میں گھومتا رہا۔ چور ایک رات میں ایک بڑھیا کی بھینس اور تین بکریاں چوری کرکے لے گئے تھے۔ بڑھیا فکر مند تھی کہ اب وہ زندگی کیسے گزارسکے گی۔ بادشاہ نے حکم دیا: ’’شاہی خزانے سے بڑی بی کو ایک بھینس اور تین بکریوں کی قیمت ادا کی جائے۔‘‘ پھر وہ وزیر کی طرف متوجہ ہوا اور چوروں کے متعلق دریافت کیا۔ وزیر نے شرمندگی سے کہا: ’’بادشاہ سلامت! میں معافی چاہتا ہوں۔ ساری رات گلیوں میں پھرنے کے باوجود چوروں کا کوئی سراغ نہیں لگا سکا۔‘‘ بادشاہ وزیر کی بات سن کر سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے اعلان کیا کہ کل سے ہم دربار میں نقاب لگا کر بیٹھا کریں گے۔ درباری حیران تو ہوئے مگر کسی نے بادشاہ سے اس فیصلے کی وجہ دریافت نہیں کی۔ دربار برخاست ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلایا او رکہا: ’’دیکھو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم خود چوروں کی تلاش میں نکلیں گے۔ تم ہماری غیر موجودگی میں نقاب پہن کر بادشاہ بن کر ملکی امور چلاتے رہنا۔ ہمیں امید ہے کہ ہم جلد ہی چوروں کا سراغ لگا لیں گے۔ وزیر، بادشاہ کی ہدایت کے مطابق نقاب لگا کر امورِ مملکت چلانے لگا۔ بادشاہ ایک غریب کسان کے روپ میں گلیوں، بازاروں میں چور کو تلاش کرنے لگا۔بادشاہ ہر روز ایک نیا بھیس بدل کر چوروں کی تلاش میں نکلتا مگر اسے چوروں کی تلاش میں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ ایک رات کو بادشاہ نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی، تو وہ ان کے تعاقب میں جانے لگا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ گھڑسوار شہر سے نکل کر جنگل کی طرف جارہے تھے۔ بادشاہ کے پاس گھوڑا نہیں تھا۔ وہ ان کا پیچھا نہیں کرسکتا تھا، وہ پکڑے نہیں جاتے تھے۔
اگلے دن بادشاہ نے جنگل کا رخ کیا۔ بہت دیر تک چلتے رہنے کے بعد وہ جنگل کے وسط میں پہنچ گیا۔ اب اسے چوروں کے ٹھکانے کی تلاش تھی۔ وہ جنگل میںادھر ادھر گھوم رہا تھا کہ اچانک ایک مسلح چور نے اسے روک کر پوچھا:
’’تم اس جنگ میں کیوں گھوم رہے ہو؟‘‘
بادشاہ نے کہا: ’’میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرا کوئی گھر نہیں۔ اس لیے جنگل میں گھوم رہا ہوں۔‘‘
چور نے کہا: ’’میں تو تمھیں ابھی قتل کردیتا مگر سردار کے آنے تک تمھیں زندہ رکھوں گا۔ کیونکہ یہ سردار کا حکم ہے۔‘‘
بادشاہ کو اس نے ایک درخت سے باندھ دیا۔ شام کو جب چوروں کا سردار نئی چوری کے لیے جانے لگا تو وہاں سے گزرا جہاں بادشاہ کو درخت سے باندھ گیا تھا۔ بادشاہ نے اس سے درخواست کی کہ مجھے اپنے ہاں نوکر رکھ لو۔ سردار نے چند لمحے سوچا، پھر بولا: ’’ٹھیک ہے، میں تمھیں ایک شرط پر نوکری دے سکتا ہوں کہ تم ہم سے کوئی سوال نہیں کروگے اور کبھی اس جنگل سے باہر نہیں نکلو گے۔‘‘
بادشاہ نے دونوں شرطیں منظور کرلیں اور اس طرح وہ چوروں کا ساتھی بن گیا۔ اب بادشاہ ان کے لیے کھانا پکاتا، ان کے غار کی صفائی کرتا، چشمے پر لے جاکر ان کے کپڑے دھوتا اور پینے کے پانی بھر کر لاتا۔ مگر ان سے کوئی سوال نہ کرتا۔ چور اس کے سامنے چوری کرنے جاتے، وہ واپس آکر مال آپس میں تقسیم کرتے اور سوجاتے۔ مگر بادشاہ انھیں کچھ نہ کہتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایک چور سارا دن بادشاہ کی چھپ چھپ کر نگرانی کرتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد چوروں کو بادشاہ پر اعتماد ہوگیا۔ تب ایک دن بادشاہ نے چوروں کے سردار سے کہا کہ’’مجھے چٹائیاں بنانے کا فن آتا ہے۔ اگر تم کہو میں تمہارے لیے ایک شاندار چٹائی بنادوں گا۔ جس پر بادشاہ تمھیں بہت سا انعام دے گا۔‘‘
چوروں کے سردار نے بادشاہ کو چٹائی بنانے کی اجازت دے دی۔ بادشاہ نے دن رات ایک کرکے ایک ہفتے میں چٹائی تیا رکرلی اور باندھ کر سردار کے حوالے کردی اور تاکید کی کہ اسے بادشاہ کے سامنے ہی کھولنا۔ اگر تم اسے پہلے ہی کھول دو گے تو اس کے پھول پتے آپس میں گڈ مڈ ہوجائیں گے۔ سردار نے بادشاہ کی بات مان لی اور وہ چٹائی لاکر نقاب پوش بادشاہ کو تحفے میں دے دی۔ وزیر نے چٹائی کھول کر دیکھی تو فوراً نوکروں کو حکم دیا کہ اس شخص کو شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا جائے۔ ہم اسے شایانِ شان انعام دیں گے۔ سردار یہ بات سن کر بہت خوش ہوا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر نے سپاہیوں کے ایک دستے کو تیار ہونے کا حکم دیا اور دستے کے امیر کو بلا کر ایک نقشہ سمجھایا کہ فلاں جنگل میں حملہ کرکے جتنے چور ہیں، سب کو پکڑلاؤ۔
اگلی صبح جب سردار اپنا انعام لینے دربار میں آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے سب ساتھی گرفتارہوکر بادشاہ کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ مگر ان کے ساتھ وہ غریب نوکر نہیں تھا۔ سردار کو بھی گرفتار کرلیا گیا تب بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ سب چور حیران رہ گئے کیونکہ وہی ان کا نوکر تھا۔ بادشاہ نے چوروں کو قید کردینے کا حکم دیا اور لوٹا ہوا مال اصل مالکوں کو واپس کردیا۔ چوروں کو نہیں معلوم ہوسکا کہ دراصل بادشاہ نے چٹائی میں چوروں کی غار کے راستے کا نشان بناکر اپنے نقاب پوش وزیر کو بھیجا تھا اور وزیر نے فوراً حملہ کروا کر سب چوروں کو گرفتار کرلیا۔
——