ڈاکٹر سہیل احمد زیدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۲۵ سال پہلے ۱۹۸۱ء میں ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ میں ۱۹۸۱ء میں علم و ادب کی سرزمین الہ آباد I.A.S.کا خواب لیے پہنچا۔ پری اور مین کوالی فائی کرنے کے بعد انٹرویو چھوڑ دیا۔ کیونکہ تب تک ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ زندگی کی حقیقت سمجھا چکے تھے۔ میں سائنس کا طالب ہونے کے باوجود ہندی، اردو اور انگریزی ادب سے دلچسپی رکھتا تھا اسی ضمن میں مہادیوی ورما ، فراق گورکھپوری، ہری ونش رائے بچّن کے علاوہ ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر سہیل احمد،اعجاز الہ آبادی وغیرہ سے ملاقات رہتی تھی۔ ڈاکٹر زیدی اعجاز الٰہ آبادی سے ملاقات صرف شعر و ادب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان لوگوں کے تحریکی مطالعے اور تجربات کی وجہ سے بھی ہوا کرتی تھی۔ میں کتابوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان صاحبان سے بھر پور استفادہ کیا کرتا تھا۔
ڈاکٹر سہیل احمد زیدی صاحب الہٰ آباد ضلع کی ہنڈیا تحصیل کے دمگڑھ گاؤں کے رہنے والے تھے۔ لیکن کافی پہلے ہی شہر الہ آباد میں شوکت علی روڈ پر رہنے لگے تھے۔ گھر سے کافی رئیس تھے لیکن تحریک کا گہرا اثر ان کی سادگی نمایاں کرتا تھا۔ ۱۹۵۳ سے شاعری کا آغاز کرچکے تھے لیکن انھوں نے اس دور میں چھائے ہوئے ترقی پسند ادب کا کوئی اثر نہیںلیا۔ اس دور میں نظموں کا بول بالا تھا۔ غزل ایک کونے میں سہمی پڑی تھی اس لیے انھوں نے جدید اسلوب میں نظمیں لکھنی شروع کیں۔ عنوان بھی ترقی پسندوں کے سے رہے لیکن ان میں اسلامی رنگ نمایاں رہا۔ ایک نظم کا عنوان تھا ’امن‘ اس میں لکھا:
امن عالم پیامِ خدائی میں ہے
آشتی حکمت انبیائی میں ہے
عورت پر لکھی نظم کا عنوان تھا ’باعصمت‘ اس میں لکھا:
گل کتنے عقیدت کے ارباب ہوس لائے
ہم دختر مریم ہیں دامن کو سمیٹے ہیں
اپنی سی بہت کوشش کی تند ہواؤں نے
ہم بنت خدیجہ ہیں چادر کو لپیٹے ہیں
ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے جو مجموعے شائع ہوئے ان کے نام ہیں ’’بولتی کنکریاں‘‘ ، ’’صنوبروں کا شہر‘‘۔ ڈاکٹر صاحب مزاحیہ بھی لکھتے تھے۔ انھوں نے طنز و مزاح پر بھی کئی کتابیں لکھیں جیسے ’’نگاڑ حضور‘‘، ’’بیوی اور ٹی وی‘‘ ، ’’للو کی لونا‘‘ پھر جب ’’للّو کی لونا‘‘ منظر عام پر آئی تو میں اور میرے دوست رفیق انصاری صاحب پورے ادبی حلقے میں یہ دیکھنے لگے کہ کس کس کے پاس لونا ہے۔ یہ بے حد مزیدار کتاب تھی۔
ڈاکٹر زیدی صاحب اپنے ٹائم ٹیبل کے بہت پابند تھے، کوئی بے وقت پہنچ گیا تو خیر نہیں۔ اس میں کچھ ان کے مزاج کا بھی دخل تھا، کچھ ان کی محنت کا، وہ ایک گردے کے آدمی تھے، دیکھنے میں تندرست مگر اندر سے کمزور، میں اور میرے دوست صرف ایک بار بے وقت (دوپہر کو) پہنچے اور دوڑائے گئے۔ جب مسکراتے ہوئے بات کریں تو تحریک کے ڈھیروں تجربات اور بے پناہ مطالعہ سامنے آتا۔ ٹھہر ٹھہر کر بولتے، کبھی چہرہ بدلتا، کبھی سنجیدہ ہوجاتے، کبھی آنکھیں نم ہوجاتیں۔ ادب پر بولیں یا تحریک اسلامی پر لگتا کہ جو کچھ بول رہے ہیں، سب لکھ لیاجائے۔ اور یہ بھی لگتا کہ بس یہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔
ڈاکٹر زیدی کی جوانی کی بات لوگ بتاتے ہیں کہ وہ دعوت اخبار ایک ہاکر کی طرح الہٰ آباد ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر ’’دعوت لے لو، دعوت لے لو‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے بیچا کرتے تھے جب کہ وہ ایک رئیس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر ٹرین پر کچھ نہ کچھ اخبار بک ہی جاتے تھے۔ کسی مسلمان کو ٹرین میں بیٹھے بیٹھے اردو اخبار مل جائے تو وہ لے ہی لے گا۔ یہ دیوانگی کے واقعات مجھ جیسے نوجوانوں میں تحریکی جوش بھردیتے تھے۔
ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوئی الہ آباد شہر سے مجیدیہ اسلامیہ انٹر کالج کے دو لیکچرر، دونوں جماعت اسلامی کے دیرینہ رکن تھے گرفتار کرلیے گئے۔ پہلے مولانا مشتاق صاحب جن کا نینی سٹرل جیل میں انتقال ہوگیا اور شہیدِ زنداں کہلائے، دوسرے تھے احمد زکریا علوی صاحب جو ۲۰ ماہ تک جیل میں رہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی تھیلا پیک کیے تیار رہے کہ پولیس آئے گی اور لے جائے گی۔ لیکن ان کی گرفتاری نہ ہوئی حالانکہ بعد میں بابری مسجدی کی شہادت کے بعد جب مختلف جماعتوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پر بے جا پابندی لگی تب ڈاکٹر صاحب کو بھی گرفتار کیا گیا اس طرح سنت یوسفیؑ ادا کرنے کی مختصر سی سعادت ان کے حصے میں بھی آئی۔ ایمرجنسی کے دوران جب نینی سینٹرل جیل الہ آباد میں اپنے ساتھیوں سے ملنے گئے تو ڈاکٹر صاحب نے سلاخوں میں بند مولانا مشتاق صاحب سے کہا:
گرتی تھی ہم پر بجلی نہ کی برق طور پر
اس پر مولانا مشتاق صاحب نے برجستہ جواب دیا:
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
ایمرجنسی میں نظموں کے ذریعے کھل کر بات نہ ہوسکتی تھی۔ بس قدرتی طور پر غزل کی طرف مڑگئے تاکہ اشاروں کنایوں میں بات ہوسکے۔ ویسے بھی اس دور میں غزل جدیدیت کی وجہ سے عورتوں سے گفتگو، کی محدود دنیا سے نکل کر زندگی کے مسائل کی طرف مڑچکی تھی زیدی صاحب نے اس بدلے ہوئے اسلوب سے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ایمرجنسی کے دوران لکھا:
وہ آخری سحر تھی جو سروں سے کل گزر گئی
گلی گلی پکارتا پھرا گدائے نیم شب
ایک اور جگہ کہا:
اپنے اندر گمشدہ وہ آدمی محسوس ہو
زور سے ہنسئے تو شاید کچھ خوشی محسوس ہو
ڈاکٹر صاحب کے ردیف قافیے بالکل نرالے ہوتے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت پر نوجوانوں کو نصیحت کی:
عمر بھر آئے پیروں سے گلابوں کی مہک
خار زاروں کا سفر برہنہ پا کرڈالو
ڈاکٹر صاحب چھوٹی بحر میں بھی اچھی غزلیں کہنے کا ہنر جانتے تھے شعر دیکھئے:
دار پہ ہے سر کتنی دیر
دھوم مچی کتنی دیر
شاعری کے ذریعہ امت کو زندگی کا مقصد سمجھانا بہت مشکل کام ہے’’سخن برائے سخن‘‘ سے اوپر اٹھ کر مرحوم نے یہ کام بھی کیا شعر دیکھئے:
ہستی بھی سہیل اپنی مت بیچ سخن لاؤ
وادیٔ طویٰ ہے یہ نعلین جدا رکھو
ڈاکٹر زیدی صاحب کی سب سے یاد گار چیزالہ آباد شہر میں ہر مہینہ کی آخری اتوار کو ہونے والی ادبی نشست ہے جس کی افادیت بڑے بڑے مشاعروں پر بھاری ہے۔ یہ نشست ۱۹۸۷ میں شروع ہوئی اور ۱۸ سال سے مسلسل چل رہی ہے۔ طالب علمی کے دوران میں ۸ سال الہ آبا دیونیورسٹی ہاسٹل میں رہا اس دوران اپنے دوستوں کے ساتھ ہمیشہ اس نشست میں شامل ہوتا رہا اب بھی دہلی سے الہ آباد جاتا ہوں اور آخری اتوار پڑتا ہے تو اس نشست میں ضرور شامل ہوتا ہوں۔ اس نشست میں شعراء کی تعداد ۲۰ ، ۲۲ اور سامعین کی تعداد سو ڈیڑھ سو ہوجاتی تھی۔ اردو دنیا کے معروف نقاد ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی صاحب اگر الہ آباد گئے اور آخری سنڈے پڑا تو اس میں ضرور شامل ہوتے تھے۔ اس ادبی نشست کی کچھ نمایاں خوبیاں تھیں جو زندگی بھر یاد رہیں گی مثال کے طور پر پہلی خوبی یہ کہ اس نشست نے نوجوانوں کو گل و رخسار کی دنیا سے نکال کر ادب کو مقصد کے لیے استعمال کرنا سکھایا۔ زندگی کا مقصد اور زندگی کے مسائل سمجھائے، حق کے لیے لڑنا سکھایا۔ اس میں پنڈت جی بھی شامل ہوتے تھے ان پر اس نشست کا اثر انہی کے شعر میں دیکھئے۔ پنڈت جی نے لکھا ہے:
نکلے گا اک نیا آفتاب آج نہیں تو کل کی صبح
آکے رہے گا انقلاب آج نہیں تو کل کی صبح
ڈاکٹر صاحب اسیری کے دوران مجھے خط کے ذریعہ صبر کی تلقین کرتے اور کچھ بھی شائع ہوتا تو مجھے ضرور بھجواتے۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’وادی طوی‘‘ اسیری کے دوران ہی بذریعہ ڈاک مجھے ملا۔
ادھر دو چار ماہ سے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کچھ خراب رہنے لگی تھی، جب زیادہ علیل ہوگئے تو اسپتال میں بھرتی ہوئی، ICUمیں رہے پھر تھوڑا ٹھیک ہوکر گھر آگئے۔ میں ۹؍اپریل کو الہ آباد گیا تو بستر پر تھے مگر ہوش و حواس میں تھے۔ مجھے پہچان لیا، کہا ’’اچھا آپ ہیں، اسکول کیسا چل رہا ہے؟‘‘ میری اہلیہ بھی ساتھ تھیں، میری اہلیہ کے وہ رشتہ دار تھے لیکن اس رشتے سے بڑا ہم دونوں کا ان سے دینی اور تحریکی رشتہ تھا جو سب رشتوں پر بھاری ہے۔ پھر ان کا ۹ دن بعد 18/4/06کو ۹؍بجے دن انتقال ہوگیا انا للہ و انا الیہ راجعون۔ احتشام الدین احمد کے انتقال پر جو ڈاکٹر زیدی صاحب نے لکھا تھا وہ خود ان کے انتقال پر مجھے بہت یاد آیا:
آج احتشام کل سہیل
یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی
ان کے جنازے میں پوا شہر امڈ پڑا کیا MPکیا MLAسارے ادیب و شعرا اور دیگر معززین شہر شامل تھے۔ سبھی ان کے نیک ہونے کی گواہی دے رہے تھے جو حضورؐ کی حدیث کے مطابق کامیابی کی علامت ہے۔ ان کا یہ شعر ہمیشہ یاد رہے گا:
میں کھوگیا تو اہل فن میں دستیاب ہوگیا
یہاں جو ایک حرف مٹا وہ کتاب ہوگیا
ڈاکٹر صاحب نے میری اہلیہ کے بابا اور اپنے قریبی دوست مولانا مشتاق صاحب مرحوم کے جیل میں انتقال پر جو شعر کہا تھا وہ آج ڈاکٹر صاحب کے انتقال پر مجھے یاد آرہا ہے۔
وہ تبسم وہ تکلم وہ نگاہِ حق شناس
آج کتنی دور ہے کل تو قریب تھی بہت
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے۔ آمین