ڈرپوک مرد

محمد طارق

رات سیاہ اور خاموش تھی۔ اتنی خاموش کے کتوں کے بھونکنے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ وہ دونوں کمرے میں بیٹھے تھے۔ ڈبل بیڈ پلنگ کے پائنتی عورت اور سرہانے مرد، عورت کا سرجھکا ہوا تھا اور مرد کمرے کی چھت کو دیکھ رہا تھا جوموٹی موٹی لکڑیوں پر ٹکی تھی۔
کمرے میں بھی مکمل خاموشی تھی — موت کا سا سناٹا، صرف چھت سے لٹکے فین کی آواز تھی، جس کے وہ عادی ہوچکے تھے۔
مرد نے چھت سے نظریں گھما کر کمرے کی دیوار میں لگے ٹمٹاتے زیروواٹ کے بلب کو دیکھا اور ایک سرد سی سانس اپنے سینے میں بھر کر عورت سے مخاطب ہوا۔
’’تاریخ دہرائیں گے۔‘‘
’’کونسی تاریخ!؟‘‘ عورت نے سر اٹھایا۔
’’وہی جو مجھے بے اختیار یاد آرہی ہے، برسوں پرانی تاریخ، جو روپ بدل کر نئی ہوگئی ہے، اسے دہرانے کے لیے میں مجبور ہوگیا ہوں۔‘‘
’’گھما پھرا کر کیوں بول رہے ہو؟ سیدھا سیدھا بتاؤنا!‘‘ عورت کی تیوری پر بل پڑگئے۔
’’دیکھو —!‘‘ مرد کھسک کر عورت کے قریب آگیا۔ سرگوشی کے انداز میں بولا۔
’’میں اور تم ….، ہاں تم اور میں، یعنی کہ ہم دونوں۔‘‘ مرد کے منہ کا پانی یکلخت سوکھ گیا تھا اور زبان تالو سے چپک رہی تھی، بمشکل وہ کہہ رہا تھا ’’ سن رہی ہو نا تم!‘‘
’’ہاں —، ہاں سن رہی ہوں، کہو نا —!‘‘ عورت کے لہجے میں کچھ تلخی آگئی تھی۔
’’دیکھو —! میں بہت سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔‘‘ مرد کا لہجہ مضطربانہ تھا۔
’’ہاں —، بولو جلدی!‘‘ عورت نے سر کو خفیف سا جھٹکا دیا۔
’’ہم دونوں مل کر اس سیاہ رات کی خاموشی میں اپنی نوزائیدہ بیٹی کو زندہ دفن کردیں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر مرد نے اپنا سر خوفزدہ کچھوے کی طرح گھٹنوں میں چھپالیا۔
عورت کے تن بدن میں غم و غصہ کا آتش فشاں پھٹ پڑا اور اس کا سارا وجود لرزے کے مریض کی طرح کانپنے لگا۔ ’’یہ کیا ہوگیا آپ کو!‘‘ عورت کے لہجے میں لرزش تھی اورانتہائی طیش بھی۔ وہ اپنے اندر پھٹے آتش فشاںیا گرم لاوے کو پی کر اپنے بدن کی ساری قوت سمیٹ کر تقریباً چیخ پڑی تھی، ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟! کیا کہہ رہے ہیں؟!‘‘
— جواب میں مرد کچھ نہ بولا بلکہ خوفزدہ کچھوے کی طرح ہی گھٹنوں میں اپنا سر چھپائے بیٹھا رہا — ماں کی چیخ جیسے سیاہ رات کے بے رحم سناٹے نے دبوچ لی۔
دور کہیں کتے رونے لگے — کتوں کے رونے کی آواز سے رات کا سناٹا اور گہرا ہوگیا۔ عورت کو لگا جیسے اب دنیا میں کوئی انسان زندہ نہیں بچا۔ روتے ہوئے کتے ہیں اور صرف ایک مرد، جو اس کے سامنے خوفزدہ کچھوے کی طرح اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے بیٹھا ہے۔
عورت کے دل میں ٹیس اٹھی۔ بے اختیار اس نے آدمی کے دونوں بازو پکڑ لیے اور نہایت درد انگیز لہجے میں بولی: ’’ایسا نہیں سوچا کرتے!‘‘
’’میں نے کب چاہا کہ ایسا سوچوں!‘‘ مرد نے گھٹنوں سے اپنا سر نکال کر عورت کو دیکھا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے اتنی ڈبڈبائی ہوئی تھیں کہ عورت کا چہرہ اسے دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ روہانسی آواز میں بولا : ’’مجھے سماج نے یہ سب سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ جانتی ہو تم؟ آج میں نے اپنی ایک بہن کو دفنایاہے جس کی زندگی جہیز کی کمی کی وجہ سے ختم کردی گئی تھی۔ کل دوسری بہن کے لیے قبر کھودی جس کی عصمت کچھ ہوس پرست درندوں نے لوٹ لی تھی۔ ان درندوں کا کچھ نہیں ہوا۔ صرف پولیس نے انہیں حراست میں لیا اور پھر انہیں ضمانت مل گئی — وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ آزاد دیش کے بے لگام شہریوں کی طرح اور سنو، پرسوں میری تیسری بہن کو میں نے بھرے بازار میں ہوس کے بھوکے اور گدھے نما لوگوں کے لیے سجے ہوئے دسترخوان کے روپ میں دیکھا — میری ماں ان بیٹیوں کے لیے رو رہی ہیں، ان کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں اور میرا باپ تڑپ رہا ہے، اسے کوئی دلاسہ دینے والا بھی نہیں — میری باقی بہنیں آج اس ماحول میں اپنے مستقبل سے خوفزدہ اور پریشان ہیں۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ!‘‘ عورت کا لہجہ متحیرانہ تھا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں۔‘‘ آپ کے والدین کا تو انتقال ہوچکا ہے اور آپ کی اتنی بہنیں کہاں ہیں؟ ایک ہی بہن تو ہے جس کی شادی اچھے گھرانے میں ہوچکی ہے اور وہ خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔‘‘
’’ہاں —، بس یہی تو فرق ہے تم میں اور مجھ میں۔‘‘ آدمی پہلو بدل کر بولا: ’’تمہارے جذبات، خیالات اور احساسات کنویں کے مینڈک کی طرح ہیں، اس لیے تمہارے پاس سب سے بڑا رشتہ خاندان کا رشتہ ہے، لیکن میرے پاس سب سے بڑا رشتہ اس خون کا رشتہ ہے، جو ہم سب کی رگوں میں دوڑ رہا ہے، جس کا رنگ ایک ہی ہے سرخ اور صرف سرخ!‘‘
عورت نے خدا جانے کس جذبے کے تحت اپنی گردن جھکالی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سر اٹھا کر بولی : ’’مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اپنی بیٹی کو ہی زندہ دفن کردیں، پھر ہم میں اور ان میں فرق ہی کیا رہا، انھوں نے عورت پر ظلم کیا اور کررہے ہیں — اور ہم اپنی بیٹی پر کون سا رحم کرنے جارہے ہیں، اُسے کس جرم کی سزا دینا چاہ رہے ہیں۔ اُن ظالموں کے جرائم کی سزا جو آج بھی بے لگام ہیں، اس مہذب، ترقی یافتہ کہلانے والے سماج میں جو بے ہودہ کلچر سے لچر ہوچکا ہے — جاؤ چھوڑ دو مجھے میں تمہاری (عورت آپ سے تم پر آگئی تھی) طرح بزدل نہیں ہوں، میں حالات کا مقابلہ کروں گی۔ اپنا خون پلاکر اپنی بیٹی کو پال لوں گی اور اسے اس قابل بناؤں گی کہ وہ حالات کا دلیری سے مقابلہ کرے گی — جاؤ، چلے جاؤ!! میرے سینے میں اپنی بیٹی کو پالنے کے لیے دودھ موجود ہے اور میرے بازوؤں میں لڑنے کے لیے طاقت! تم بزدل ہو — بزدل، ڈرپوک کہیں کے !‘‘ عورت کے سارے بدن میں جیسے زلزلہ آگیا تھا۔
عورت کا حوصلہ دیکھ کر مرد کے ذہن میں تاریخ کے صفحات ردّی کاغذ بن گئے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں