ملک بھر کی فکری و نظریاتی مجالس میں کالج کی طالبات کے لیے ڈریس کوڈ لاگو کیے جانے کو لے کر ایک بحث شروع ہوگئی ہے۔ یہ بحث خواتین کے خلاف بڑھتے جنسی تشدد کے ان حادثات کا نتیجہ ہے جس میں ۸۰ سالہ خاتون سے لے کر ۲ سالہ دودھ پیتی بچی تک بطور مظلوم شامل ہیں۔ سب کا یہی سوال ہے کہ کیا جدید ہندوستان کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے اور کیا انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہوگئی ہے۔
اس سلسلے میں سبھی کا ماننا ہے کہ صرف لباس ہی اس کی وجہ نہیں ہے۔ دوسرے بہت سے عناصر بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ البتہ دانشورانِ ملک زنابالجبر، چھیڑ چھاڑ اور جنسی تشدد کو روکنے کی تدابیر پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔پہلے فرقے کا ماننا ہے کہ کالج کی طالبات کا نیم عریاں طرز کا لباس اس کے لیے بالکل ذمہ دار نہیں ہے یہ ایک شخصی آزادی کا معاملہ ہے جو کسی بھی صورت میں ضبط نہیں کی جاسکتی اور یہ کہ ڈریس کوڈ جنسی تشدد کی روک تھام میں بالکل سود مند نہیں ہے بلکہ یہ شخصی آزادی پر ایک طرح کا حملہ ہے۔ دوسرے فرقے کی رائے ہے کہ جذبات کو ابھارنے والے مہین، چست اور شارٹ لباس کہیں نہ کہیں ان واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ ڈریس کوڈ لاگو کرکے اسے کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور لباس کا یہ انداز اجتماعی سماجی آزادی کا معاملہ ہے۔
اس بار اس بحث کی شروعات ملک کے سب سے آزاد خیال اور اپنے فلمی کلچر کے لیے معروف شہر یعنی ممبئی کی بامبے یونیورسٹی کے وائس چانسلر وجے کھولے کے اس اعلان سے ہوئی کہ یونیورسٹی تمام ملحقہ کالجز کے پرنسپل سے بات کرکے ایک ڈریس کوڈ لاگو کرنے کاپلان بنا رہی ہے جس کے مطابق کالج کی طالبات کو منی اسکرٹ، ٹائیٹ ٹاپس، شارٹس وغیرہ پہننے سے روکے گی۔ اس فیصلہ کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ میرن ڈرائیو (Marine Drive) پر ایک سپاہی نے ایک ۱۹ سالہ لڑکی کی آبروریزی کی۔ ادھر غیر محفوظ شہر برائے خواتین یعنی دہلی میں دھولا کنواں کے واقعہ کے بعد لگاتار زنا کے کئی واقعات ہوئے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ڈریس کوڈ لاگو کرنے سے زنا بالجبر کے واقعات کو روکنے میں مدد ملے گی۔
حجاب پڑھنے والوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر تیس منٹ میں ایک زنا بالجبر کا واقعہ ہوتا ہے۔ پچھلے سال صرف دہلی میں ۲۳۲ زنا بالجبر کے واقعات ہوئے ان میں 41%مظلومین ٹین ایجرس تھیں۔ 84%خواتین کی رائے ہے کہ دہلی خواتین کے لیے غیر محفوظ ہے۔ 71%خواتین پولس اسٹیشن میں جاکر شکایت درج کرانے ہی میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ وجہ بالکل صاف ہے کہ نام نہاد سیکورٹی مین حتی کہ صدر جمہوریہ کے محافظین تک آبروریزی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ 31%خواتین زنا و چھیڑ چھاڑ کے واقعات سرے سے درج ہی نہیں کراتیں۔ 84%خواتین مجرمین کو دی جانے والی سزا سے غیر مطمئن ہیں۔
دوسرا انتہائی شرمناک پہلو یہ ہے کہ مظلومین میں ہر طبقہ، مذہب اور عمر کی خواتین شامل ہیں۔ مثلاً دہلی کے ۲۳۲ زنا بالجبر کے واقعات میں 47%مظلومین غریب خاندانوں سے، 48%مڈل کلاس سے اور 11% اپر کلاس طبقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو درج ہوتے ہیں لیکن کتنے تو خاموش فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں بلکہ فائلوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے پونے میں ایک حاملہ کے ساتھ بدکاری ہوئی اور بعد میں اس نے خود کشی کرلی۔ دہلی میں جولائی کے مہینے میں ایک ۸۰ سالہ خاتون کے ساتھ، پھر ۷۰ سالہ ایک فقیر عورت کے ساتھ، پھر ایک دو سالہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر کے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ ایک پجاری کی بیوی کے ساتھ مندر میں جنسی تشدد ہوا اور ابھی ۷؍اگست کو دہلی کے ایک مزار کے کمرے میں روحانی علاج کے بہانے ایک بچی کی عزت لوٹنے کی کوشش میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ایسے بھیانک حالات میں ڈریس کوڈ کی بحث ایک انتہا ئی سنجیدہ اور اہم بحث ہے۔
اس بحث کے منفی یا مثبت پہلو پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ خواتین کے خلاف ہر طرح کے ظلم و زیادتی کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوچکی ہے۔ وہ ظلم و زیادتی گلوبلائزیشن اور پوسٹ مارڈن ازم کے اثرات کی شکل میں ہوں یا قدیم روایتی مردانہ تسلط کے تحت سماج کی گھٹن سے پیدا ہونے والے ظلم۔ دونوں کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوچکی ہے۔
ڈریس کوڈ کے سلسلے میں بنیادی طور پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔ پہلی رائے شخصی آزادی کی ہے۔ یعنی زنا بالجبر کا جذبات کو بھڑکانے والے لباس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لباس فرد کی پسند یا ناپسند کا معاملہ ہے۔ جانکار حضرات جانتے ہیں کہ شخصی آزادی دراصل مغرب کا دیا گیا خوبصورت مگر کھوکھلا نعرہ ہے۔جسے گلوبلائزیشن کی مدد سے اتنا چمکدار بنا دیا گیا ہے کہ بکنی اور ہاف جینس یا شارٹس، منی اسکرٹ اور مختصر اور تنگ لباس پہن کر عوامی مقامات پر گھومنا شخصی آزادی کا حصہ قرار پاگیا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس مہم میں خاص رول ادا کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ دراصل آزاد خیالی کی سیاست کا فکری کچرا ہے جسے امریکی عوام نے خودتو رد کردیا ہے، لیکن ہمارے بعض نام نہاد لبرل مفکرین اسے آج بھی ڈھورہے ہیں۔ سنئے! کیا فرماتے ہیں لبرل مفکرین ڈریس کوڈ کے مسئلے پر۔
کروری مل کالج نئی دہلی کے پرنسپل ڈاکٹر بھیم سین کہتے ہیں کہ:
’’ہم طالبان نہیں ہیں جو لڑکیوں کو کالج آنے کے لیے برقع پہنائیں۔ ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔لڑکیاں خود بہت سمجھ دار ہیں وہ اپنے لباس کا تعین خود کریں گی وہ کوئی بچی تو ہیں نہیں… اگر کوئی لڑکی بھڑکاؤ والے کپڑے پہن کر آتی ہے توانھیں صحیح طریقے سے کاؤنسلنگ دینی چاہیے اگر سنیں تو بہتر نہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔‘‘
دہلی یونیورسٹی کے کرمنل لا اور کریمنولوجی کے پروفیسر بی بی پانڈے کہتے ہیں کہ:
’’ڈریس اسٹائل دراصل فرد کی آزادی سے جڑا سوال ہے۔ سوسائٹی کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ فرد کی آزادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ …… بھڑکاؤ دار ڈریس کا زنا کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ …… یہ بات تو پولس انتظامیہ اور پالیسی پلانر صرف اپنی ناکامی کو دلیل بنانے کے لیے کرتے ہیں۔‘‘
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کی پولٹ بیورو کی ممبر اور راجیہ سبھا کی رکن محترمہ برندا کارت کہتی ہیں کہ:
’’دہلی میں دو تہائی زنا کے معاملات چھوٹے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر زنا کے واقعات غریبوں، نچلی ذات والوں اور دور گاؤں دیہات کے ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جنھوں نے کبھی بغیر آستین کا ٹاپ دیکھا تک نہیں ہے دراصل جنسی تشدد کا تعلق ڈریس سے بالکل نہیں ہے بلکہ طاقت کے غلط استعمال سے ہے۔‘‘
امرتا دھون DUSUکی جنرل سکریٹری ہیں وہ کہتی ہیں کہ:
’’کالج میں لڑکیوں کے لیے کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہونا چاہیے۔ جب ہم مساواتِ مرد و زن کی وکالت کرتے ہیں تو اس طرح کی تفریق آخر کیوں؟ اگر ڈریس کوڈ ہو تو لڑکوں کے لیے بھی ہوناچاہیے ڈریس کوڈ کو لے کر لڑکیوں کی آزادی ضبط کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔ کیا ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم کیسے بات کریں؟ کس سے بات کریں اور کہاں بات کریں؟ اگر کوئی لڑکی مائیکروں جینز پہن کر کالج جانے میں زیادہ آرام محسوس کرتی ہے تو اسے اس کا اختیار ہے ۔ لڑکیاں روایتوں سے خوب واقف ہیں انھیں کس ماحول میں کیا پہننا چاہیے وہ خوب جانتی ہیں کسی کوان پر حکم چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اوپر دئے تمام بیانوں سے شخصی آزادی کا وہ سخت گیر رجحان بآسانی پہچانا جاسکتا ہے جو گھر اور تعلیمی اداروں جیسی اہم سماجی اکائیوں کو پارہ پارہ کردے گا۔ یہ خطرناک رجحانات گلوبلائزیشن کے ذریعہ پوری دنیا میں امپورٹ کیے جارہے ہیں حالاںکہ یہ تصورات مردوزن کے فطری تعلقات اور دونوں کی ثابت شدہ نفسیات کو غیر سائنسی طریقے سے بیان کرتے ہیں۔
ڈریس کوڈ کے آمرانہ نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے بعض نے یہ تسلیم کیا ہے کہ جنسی تشدد میں لباس کا رول کسی قدر اہم ہے۔
لوش دوبے جو ایک تھیٹر پرسنالٹی ہیں صاف کہتے ہیں کہ:
’’کالج کی طالبات کے لیے ڈریس کوڈ تو نہیں ہونا چاہیے لیکن انھیں خود اپنے لیے لباس کا ایک معیار متعین کرنا چاہیے۔ ایک لڑکی کو اتنی سمجھ تو ہونی چاہیے کہ کالج کے ماحول میں اسے کون سا لباس پہننا چاہیے۔ اگر کوئی لڑکی اپنے اعضا کی نمائش کرتی پھرے یا کمر کے نیچے سے اس طرح جینس پہنے کے اس کی ٹونڈی دکھائی دے تو اس میں کوئی شک نہیںکہ اجنبی اور غیر مناسب نگاہیں اس کی طرح اٹھیں گی۔ … اگر ساڑی میںکوئی عضو ظاہر ہوجائے تو لوگ اتنی توجہ نہیں دیتے(کیونکہ ہندو لوگوں کی نگاہ میں ساڑی کی عزت ہے جس طرح حجاب کی مسلمانوں میں) لیکن مغربی لباسوں میں اگر ایسا ہو تو مصیبت ہوجاتی ہے۔
مہیندرا ورک جو پیشہ سے ایک فیشن ڈیزائنر ہیں کہتی ہیں کہ:
’’لڑکیوں کو باریک اوراعضاء کو نمایاں کرنے والے لباس نہیں پہننے چاہئیں اگر کوئی لڑکی بھڑکیلے لباس پہنتی ہے تو صد فیصد اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوگی۔‘‘
بہر حال یہ دونوں بیانات سماجی و معاشرتی حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اور حقیقت پر مبنی نظر آتے ہیں۔
ایک نقطۂ نظر وہ ہے جو نفاذِ ڈریس کو ڈ کو ضروری حل سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس سے جنسی تشدد کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس نقطۂ نظر کی دو خاص بنیادیں ہیں۔
(۱) اجتماعی سماجی آزادی۔ (۲) کلچرل نیشنلزم
اجتماعی سماجی آزادی کی بنیاد انفرادی اور اجتماعی بیداری پر ہے۔ اس کے نزدیک ہندوستانی سماج کی قدیم اقدار و روایات کو دھیان میں رکھ کر یورپ سے حاصل ہونے والے ’’مادی خیرو برکات‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے تاکہ قدیم ہندوستان اور جدید ہندوستان میں ایک ارتقائی رشتہ قائم کیا جاسکے۔ چنانچہ بامبے یونیورسٹی کے وائس چانسلر وجے کھولے کہتے ہیں کہ :
’’لڑکیوں کو ایسا لباس پہننا چاہیے کہ وہ جارح نہ ہو اور طلبہ و اساتذہ کو ذہنی انتشارمیں مبتلا نہ کرے۔‘‘
دستور ہند میں بنیادی حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ دفعہ ۲۱ میں زندگی کی حفاظت اور شخصی آزادی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن اگر یہ آزادی سماج کی مجموعی آزادی وفلاح سے ٹکرائے تو ایسے بنیادی حقوق کو مفاد عامہ کی خاطر ضبط کردیا جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کی مجموعی فلاح شخصی حقوق سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بھڑکیلے لباس واقعی کہیں نہ کہیں لوگوں کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔
دوسرا کلچرل نیشنل ازم کا شعور ہے۔ ملک کی قدیم تہذیب سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔ قدیم ہندوستان کا پھر اعادہ کرنے سے ہندوعوام کی عظمت رفتہ بحال ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہر غیر ہندوستانی چیز چاہے تہذیب ہو یا سماجی ومعاشی اصول، طور طریقے ہوں یا مذہبی تصورات- ان سب کے خلاف جہاد مسلسل لازم ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آر ایس ایس، بجرنگ دل، شیو سینک ہمیشہ کبھی جمہوری اور کبھی فاشسٹ طریقے سے ڈریس کوڈ لاگو کرتے ہوئے مل جاتے ہیں۔
چمپت رائے جوائنٹ سکریٹری ورلڈ ہندو کونسل کا بیان ہے کہ:
’’ہمارا دیش ایک عظیم تہذیب رکھتا ہے لیکن مغرب نے یہاں فحاشی و عریانیت پھیلائی ہے۔ کیمپس میں جینس پر پابندی لگنی چاہیے کیونکہ لڑکیاں وہاں پڑھنے جاتی ہیں نہ کہ جسم کی نمائش کرنے۔‘‘
ترون وجئے ایڈیٹر پنچ جنیہ کہتے ہیں کہ:
’’آپ کلاس میں بکنی پہن کر نہیں جاتیں اور نہ ہی مہین نائیٹ گاؤن پہن کی مندر اور چرچ جاسکتی ہیں۔ کچھ ضروری (غیر تحریری) سول کوڈس ہیں جو آپ کو ماننے ہیں چاہے آپ لاس وگاس میں ہوں یا مکہ میں یا پھر کاشی میں۔‘‘
بی جے پی کی طلبہ تنظیم نے کانپور میں ایک بار ڈریس کوڈ لاگو کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ بھوپال میں بھی بی جے پی نے کچھ اسی طرح کی کوشش کی۔ اس پوری بحث کو اگر ہم سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان ایک طرح کے فکری بحران یا آئیڈیالوجیکل کرائسس سے گذر رہا ہے مسئلہ صرف ڈریس کا نہیں بلکہ پورے نظام زندگی کاہے۔
ہڈپّا موہن جوداڑو اور کھجراہو میں پتھروں پر بنے عریاں مجسمے گواہ ہیں کہ ہندتو اس ملک کو ایک شائستہ، ساتر اور انسانی قدروں سے بھر پور ڈریس کوڈ یا لائف کوڈ نہیں دے سکتا۔
گلوبلائزیشن کے ذریعہ صرف ڈالر اور یورو ہی نہیں آتے بلکہ اس کے ساتھ ٹاپ اسکرٹ بکنی اور جینس بھی آتی ہیں۔ زبان کے ساتھ زبان والوں کی تہذیب بھی منتقل ہوتی ہے صرف کیمپس میں ڈریس کوڈ کو لاگو کرنے سے ہندوستانیت بچنے والی نہیں ہے۔ اس کے لیے بگاڑ کے ان سوتوں کو بند کرنا ضروری ہے جو ہماری نئی نسل اور ہمارے سماج و معاشرہ کے فکری فساد اور عملی بگاڑ کے ذریعہ بن رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لباس خوا ہ مرد کا ہو یا عورت کا اس کے جانچنے کا پیمانہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے اور جب تک یہ ضمیر صحت مند ہے اور صاف ستھرا ذہن اس کا ہمنوا ہے اس وقت تک انسان کے لیے اس کا لباس نہ شخصی مسئلہ بنتا ہے اور سماجی و معاشرتی مسئلہ۔
لباس جو ساتر ہو جسم اور روح کو فحاشی و عریانیت سے بچا کر اس کی شخصیت کو جمال اور روح کو حیا بخشتا ہو، مرد و عورت کو اس کی اپنی اپنی شناخت دیتا ہو اور ان کے عزت و ناموس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ شرم و حیا کی ضمانت لیتا ہو وہ انسان کے لیے بھی مفید اور سود مند ہے اور سماج ومعاشرہ کے لیے بھی۔ لیکن جہاں شرم حیا کی جگہ عریانیت اور نمود و نمائش لے لے شائستگی اور سنجیدگی کی جگہ شخصی آزادی کے نعرے لے لیں وہاں نہ سماجی اقدار کام آتی ہیں اور نہ کوئی کوڈ اور قانون۔ اس وقت ہمارا سماج اسی قسم کی بحرانی کیفیت کا شکار ہو کر ذہنی و فکری مرعوبیت و پسماندگی کے کھڈ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ سماج و معاشرہ کے ضمیر کو مردنی اور بیماری سے بچایا جائے اور انہیں لباس کے اس بنیادی مقصد سے آشنا کیا جائے جو خود انسانوں کے پیدا کرنے والے نے بیان کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے:
یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوَاتِکُمْ وَرِیْشاً۔ وَلِبَاسُ التَّقْویٰ ذَالِکَ خَیْرٌ۔ ذٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ۔
(الاعراف: ۲۶)
’’اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ سبق حاصل کریں۔‘‘
اگر انسان خواہ مرد ہو یا عورت تقویٰ اور خدا خوفی کے جذبہ سے خالی ہو تو اسے حیوان بننے اور ننگا ہونے سے نہ تو کوئی قانون روک سکتا ہے اور نہ سماجی ومعاشرتی اقدار و روایات۔ کاش کے ہمارے دانشوران اس حقیقت پر غور کریں۔