بچوں کی اکثریت صحیح عمر میں درست طور پر پڑھنا لکھنا شروع کردیتی ہے لیکن کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو پڑھنے لکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں والدین سیکھنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انھیں دوسرے بچوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ بچے کے سیکھنے سمجھنے میں دشواری کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ڈسلیکسیا (Dyslexia) بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کے بچے کو سیکھنے کے عمل میں مشکل پیش آتی ہے یا وہ پڑھنے لکھنے میں کم صلاحیت کا حامل ہے یا اس کی اسکول میں کارکردگی بہتر نہیں ہے تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں آپ کے بچے کو ڈسلیکسیا تو نہیں۔کئی سال پہلے عامر خان کی فلم ’’تارے زمیں پر‘‘ بہت مشہور ہوئی اس کا موضوع یہی تھا۔
یہ کوئی ذہنی بیماری یا معذوری نہیں ہے بلکہ اس کے شکار افراد کو الفاظ پڑھنے، پہچا ننے، سمجھنے، یاد رکھنے اور لکھنے کے عمل میں دشواری محسوس ہوتی ہے، تاہم انہیں کند ذہن یا نکما نہیں کہا جاسکتا۔ دراصل ہم بچے کی ذہنی استعداد کے مطابق اس کے سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ نہیں لگا پاتے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اسے پڑھانے لکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اکثر اوقات ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے مگر سارا الزام ہم بچے پر ڈال دیتے ہیں کہ اسے پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے۔
ذرا تصور کریں کہ اگر بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے حروف گھومتے نظر آتے ہیں یا وہ حرف ’ب‘ اور ’پ‘ کے درمیان فرق نہیں کرپاتا تو وہ کیسے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے یا آپ کی بات کو سمجھ سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کی 5٪ سے 10٪فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے ، جس کی وجہ سے ہر روز ان کی زندگی مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ والدین اور اساتذہ کا دباؤ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شعوری طور پراس بیماری میں مبتلا لوگوں کی زندگی اور ان کو درپیش صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک ہی عمر اور جماعت کے بچوں کو ایک جیسا ہی لکھنا پڑھنا سکھایا جائے تو سب بچے ایک جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے لیکن دیر یا بدیر ہر بچہ بالآخر لکھنا پڑھنا سیکھ ہی جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ سیکھنے کے اس عمل میں ایک بچے کو دوسرے سے زیادہ وقت لگے، ایسی صورت میں والدین اور اساتذہ کو صبر واستقامت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو ڈانٹنے یا سزا دینے کے بجائے اس کے نہ سیکھنے یا اسے درپیش مشکل کی وجہ تلاش کرنی چاہئے ۔
ڈسلیکسیا کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ بچے ہجے کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں تو کچھ لکھنے میں جدوجہد کررہے ہوتے ہیں، کچھ بچے اس کشمکش میں بھی جلدی لکھنا سیکھ نہیں پاتے کہ انھیں دائیں ہاتھ سے لکھنا ہے یا بائیں ہاتھ سے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض لوگوںسےعمر بھر املا اور گرامر کی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔
بچوں کواس مشکل سے نکالنے کیلئے والدین کا کردار بہت اہم ہو جاتاہے۔ والدین کو اپنے بچے پر ابتدا ہی سے نظر رکھنی چاہئے کہ اس کے لکھنے پڑھنے کی کیفیت، منہ سے نکلنے والے عام بول چال کے الفاظ، ڈرائنگ کرنے کا انداز، لفظ جوڑنے اور توڑنے اور حروف کو پہچاننے کے عمل میں اس کی کارکردگی کیسی ہے تاکہ جلد از جلد یہ پتہ لگایا جاسکے کہ بچے کو کس جگہ ناکامی یا کمزوری کا سامناہے۔ اس کے لیے والدین کو بچے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے کے سیکھنے میں آنے والی کسی بھی قسم کی رکاوٹ کووالدین بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اور نتیجتاً وہ ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ سمجھنے لگتاہے کہ اسے کچھ نہیں آتا اور نہ ہی وہ اچھی طرح سیکھ سکتاہے۔ اس طرح بچہ نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے، اسے لگتاہے کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے، اسے اہمیت نہیں دی جاتی، لہٰذا وہ اپنی بات کرنے یا دوسروں سے مدد مانگنے میں ہچکچانے لگتا ہے۔ بار بار پوچھنے پر جب ایسے بچوں کو سرزنش کی جاتی ہے توان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ یاد کرنے یا سیکھنے کے عمل میں مزید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کا نتیجہ ذہنی دبائو کی صورت نکلتاہے۔
ڈسلیکسیا کے ماہرین ایسے بچوں کو اسپیچ تھراپی یا گفتگو کے مراحل سے شناخت کرتے ہیںاور ان کی کمزوریاں جان کر انہیں درست کرنے کے مشورے دیتےہیں۔ ان کا مشورہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ بچوں کو ان کی عمر کی مناسبت سے ایسے کھلونے لا کردیے جائیں، جن کے ذریعے وہ کھیل کھیل میں رنگوںیا اشکال کی مدد سے حروف پہچاننے لگیں۔ اس کے علاوہ انہیں دلچسپ ، رنگ برنگی تصویروں سے مزین کہانیاں، کتابیں اور رسائل لا کر دیں۔ اگر کسی بچے میں ڈسلیکسیا کی شناخت ہوجائے تو ٹیچرز کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور سب مل کر بچے کو اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کریں۔
ڈسلیکسیا میں مبتلا افراد بہت کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے کامیاب شخصیات کی ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں، جو اپنے بچپن میں ڈسلیکسیا کا شکار تھیں۔ امریکا کی بہترین اداکارہ جینیفر آنسٹن، ہالی ووڈ کے چوٹی کےفلم میکر اسٹیون اسپیل برگ اور لیجنڈری ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی مرحوم بھی ڈسلیکسیا کا شکار تھے مگر انھوں نے اپنی انتھک محنت، عزم اور کوششوں سے معاشرے میں ایک نام بنایا۔