ڈنمارک سے ملے مواقع

شمشاد حسین فلاحی

ڈنمارک کے اخبار اور پھر یوروپ کے دیگر اخبارات میں حضور اکرم ﷺ کے اہانت آمیز کارٹونوں کی اشاعت نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید ردعمل پیدا کیا۔ اس کا نتیجہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے بے مثال مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا۔ ان مظاہروں میں ایک خاص پہلو یہ دیکھا گیا کہ بڑے پیمانے پر خواتین نے نہ صرف ان میں شرکت کی بلکہ دنیا بھر میں مسلم خواتین نے منظم مظاہرے کرکے یہ ثابت کیا کہ امت مسلمہ کی خواتین بھی بیدار مغز اور فعال ہو رہی ہیں۔ خود ہمارے ملک ملک ہندوستان میں جگہ جگہ خواتین نے شاندار مظاہروں کا انعقاد کرکے حکام کو میمورنڈم پیش کیے۔ دیکھنے والے حیران رہ گئے جب اترپردیش کے ایک چھوٹے سے شہر میں پندرہ ہزار خواتین نے جلوس کی شکل میں جاکر ضلع مجسٹریٹ کو توہین آمیز کارٹون کے خلاف میمورنڈم دیا۔ اوریوروپ کوبتادیا کہ مسلمان ’’اپنی تمام بے عملیوں کے باوجود‘‘ بھی اللہ کے رسول اور اپنے اس رہنما سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔

مسلمان اپنے نبیﷺ سے اس قدر محبت کیوں کرتے ہیں اس کا جواب تلاش کرنے میں شاید ان لوگوں کو دشواری ہو جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی کے مرتبہ سے گرا کر اللہ کا بیٹا بنالیا اور پھر انہیں سولی پر ’بزعم خود‘ چڑھا کر اپنی تمام اگلی پچھلی خطاؤں ا ور گناہوں کا کفارہ ادا کربیٹھے۔ حضرت موسیٰ کو اپنا رہنما ماننے والے دنیا کو سودی نظام میں جکڑنے اور شراب، حرام خوری، ظلم و جبر اور شرو فساد سے دنیا کو بھردینے والے یہود بھی شاید اس بات کا اندازہ لگانے میں ناکام ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے خود اپنے ہاتھوں ان کے لائے ہوئے طریقۂ حیات کو نہ صرف بھلادیا بلکہ اسے اپنے نفس کا تابع بناکر اس میں تحریف بھی کرڈالی اور اللہ کے دین کو اپنا اور اپنی خواہشات کا غلام بناڈالا۔ معاذ اللہ

لیکن مسلمانوں کا معاملہ تمام امتوں سے جدا اور مختلف ہے۔ وہ محمد ﷺ کو اللہ کا نبی اور آخری رسول تصور کرتے اور ان کی تعلیمات کو ہر حالت میں سینے سے لگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی تعلیمات میں ذرہ برابر حذف و اضافہ اور ان کی ذات کے سلسلہ میں ایک بھی توہین آمیز لفظ کو برداشت کرنا ان کے ایمان کے منافی اور ان کی جان سے بھی زیادہ گراں ہے۔

یہ اہل مغرب کی کور نگاہی، تنگ ظرفی، مفاد پرستی، چالبازی اور دنیا میں شرو فساد پھیلانے اور قوموں، ملکوں اور ملتوں کو لڑانے کی مفسدانہ ذہنیت ہی تو ہے جو کائنات کے ایسے عظیم رہنما پر کیچڑ اچھال کر اپنے ہاتھ گندگی میں آلودہ کررہی ہے جس کے آفاقی اور ابدی احسانات کے نیچے پوری دنیا دبی ہے۔ یہ وہی محسن ہے جس نے چودہ صدیوں پہلے دنیا کو امن، انصاف، مساوات اور اخوت عالمی کا درس دے کر پوری دنیا کو ایک خاندان قرار دیا۔ جس نے انسان کی ذات اور اس کی جان کو محترم ٹھہرایا، جس نے دنیا میں شر و فساد پھیلانے کو انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک معصوم جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانا بتایا، جس نے کالے گورے، عرب و عجم اور آقا و غلام کا فرق مٹا کر تمام انسانوں کو ایک صف میں لاکھڑا کیا، جس نے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردی جانے والی لڑکی کو نہ صرف جینے کا حق دیا بلکہ اسے جنت کا وسیلہ قرار دیا۔ جس نے سود کی لعنت کو کالعدم قرار دے کر باہمی تعاون اور مواسات پر مبنی معاشرہ کی بنیاد ڈالی، جس نے حاکم اور محکوم کے فرق کو مٹا ڈالا اور انسانوں کے درمیان ذات و برادری، رنگ و نسل اور امیر و غریب کے فرق کو مٹا کر اللہ سے قربت کی لڑی میں پرودیا۔

رنگ و نسل اور زبان و کلچر کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والی، قوموں اور گروہوں کو باہم لڑانے والی، سود کے جال میں انسانوں کو پھنسا کر ان کا خون چوسنے والی، دنیا کے وسائل پر غاصبانہ قبضہ کا منصوبہ رکھنے والی، کمزور اقوام پر چڑھائی کرکے خون بہانے والی، کالے، گورے اور امیر غریب کے درمیان تفریق پھیلانے والی، عورت کی عزت و عصمت اور اس کے وقار سے کھیلنے والی اور اپنے نبیوں اور ان کی تعلیمات کا مذاق اڑانے والی ان مغربی اقوام کو اندیشہ ہے کہ کہیں اس ذات پاک کی تعلیمات ان مظلوم و مقہور انسانوں تک نہ پہنچ جائیں جو ان کے نظام کے غلام اور ان کے استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا توان کا سیاسی نظام، ان کا اقتصادی ڈھانچہ، ان کی ہر طرح کی بالادستی اور سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی غلبہ کا خواب زمین بوس ہوجائے گا۔

ظالم کا ظلم جب طول پکڑتا اور حدوں کو پار کرنے لگتا ہے تو اسے خود اپنے ظلم کی پاداش میں سزا کا خوف ستانے لگتا ہے۔ مظلوم کی آہ و بکا میں سے بھی انقلاب اور تبدیلی کے نعرے اس کے کانوں کو بجانے لگتے ہیں۔ اندھیرے جب طویل اور گہرے ہوتے ہیں تو روشنی کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہر شخص کو ستانے لگتا ہے۔ اور اس وقت دنیا کی کیفیت اس طرح کی ہے۔

یہ اور اس طرح کی جو بھی شرارتیں انجام دی جارہی ہیں ان کے پیچھے اللہ کے رسول کی ابدی، آفاقی اور انسانوں کے دلوں کو چھونے والی تعلیمات کی طرف لوگوں کو متوجہ ہونے سے روکنے کا منصوبہ کام کررہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مکہ میں بھی اس طرح کی بے شمار کوششیں ہوئیں۔ قرآن کریم کی دلنواز آیات کی تاثیر دیکھ کر مشرکین نے کیا سوچا اس کا بیان خود قرآن میں ہے:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیْہٖ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ۔

’’اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کی روش اختیار کی کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو (بلکہ جب پڑھا جائے) اور اس میں خلل ڈالو تاکہ تم غالب آجاؤ۔‘‘

لیکن ان سازشوں کا نتیجہ کیا ہوا۔ اسلام پھیلا اور پھیلتا چلا گیا اور آج مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر گوشہ میں اسلام کے ماننے والے اور رسول اکرم کے ایسے شیدائی موجود ہیں کہ ان کی ذات کے خلاف کھلنے والی ہر زبان کو کاٹ ڈالنے کا عزم رکھتے ہیں اور اسلام کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

جس طرح کفار کی اس تجویز نے سیکڑوں اور ہزاروں انسانوں کو اس کلام پُر تاثیر کی طرف مائل کیا اسی طرح اس شرارت نے لاکھوں انسانوں کو اس ذات پاک اور اس کی تعلیمات کی طرف متوجہ کیا جس نے کفروجہالت کے اندھیروں کو چاک کرکے روشنی پھیلائی تھی۔ اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یوکرین کے الرائد نامی ادارہ نے جب سیرت نبوی پر ایک کتابچہ شائع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کی دو لاکھ کاپیاں عوام میں گم ہوگئیں۔ اسی طرح کونسل آف امریکن اسلامک رلیشنز نامی ادارہ کو سولہ ہزار افراد نے مختلف ذرائع سے رابطہ کرکے سیرت نبوی پر لٹریچر فراہم کرنے کی درخواست کی۔ یہ معاملہ صرف یوکرین اور امریکہ کا نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس وقت یہی صورت حال ہے کہ لوگ سیرت محمد ﷺ کے مطالعہ اور آپ کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔

یہ صورت حال اسلامی تحریکات، دینی اداروں اور دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے لیے ایک چیلنج کی صورت میں سامنے ہے۔ سب سے پہلا اور اہم چیلنج یہ ہے کہ امت مسلمہ نے عالمی سطح پر اس معاملہ میں نبیﷺ سے جس جذباتی وابستگی اور اسلام سے جس والہانہ محبت کا مظاہرہ کیا ہے اسے مسلم معاشرہ کی شعوری بیداری اور اسلام سے عملی وابستگی میں تبدیل کرکے مسلم معاشرہ کو اللہ کے رنگ میں رنگ دینے کی بھر پور جدوجہد کی جائے۔دوسرا اور اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ امت مسلمہ اس شر سے پیدا ہونے والے مواقع سے کس طرح فائدہ اٹھائے کہ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ اور آپ کی تعلیمات عام انسانوں تک ایسے انداز میں پہنچیں کہ وہ واقعی اس میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیں اور دنیا کے تمام انسانوں تک آپ کی سیرت و تعلیمات تک رسائی آسان ہوجائے۔

یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ کے افراد اپنی زندگیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان کی اپنی زندگیاں کس حد تک آپ کی زندگی سے ملتی اور آپ کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں۔

آج دنیا اسی طرح کی جہالت اور جاہلیت میں گرفتار ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے تھی۔ دنیا کے مسائل اور انسانوں کا درد اسی طرح شدید ہوتا جارہا ہے جس طرح بعثت نبوی کے وقت تھا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات اسوئہ رسول اور حیات نبوی کو موجودہ حالات و کوائف کے ساتھ مربوط کرکے پیش کریں — اور — دنیا کو بتائیں کہ یہ ذات پاک اور اس کی تعلیمات کس طرح موجودہ دور کے انسانوں کے مسائل کا حل اور اس کی مصیبتوں کو دور کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اگر ان امکانات سے فائدہ اٹھانے میں امت مسلمہ ناکام رہی تو یہ اسلام، دعوت اسلامی اور پوری انسانیت کے لیے زبردست خسارہ اور محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں