ڈپریشن کی شکار آج کی عورت

مریم جمال

’’زندگی سر کا درد ہوگئی۔‘‘ زندگی کی بھاگ دوڑ والے اس نئے دور نے لوگوں کی اس شکایت کوعام کردیا ہے۔ نہ صحیح طریقے سے کھاسکتے ہیں اور نہ ہی اطمینان سے سوسکتے ہیں۔ گھر اور دفتر کے مصروفیات نے دونوں کو برابر کردیا ہے۔ ہر جگہ ٹینشن ہے اور اس سے سب سے زیادہ متاثر ہے آج کی عورت۔
شہری زندگی کے رکھ رکھاؤ، نوکری کے مطالبات اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی ہوڑنے آج کی عورت کو تناؤ اور ڈپریشن کا شکار بنادیا ہے۔ ایسے میں اسے ٹینشن سے نجات دلانے سے لیکر صحت اور سونے کی مشکلات تک کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ سکون آور اور خواب آور گولی کھالو۔ اس سلسلے میں ہوئے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں نے ان سب سے نجات پانے کے لیے اینٹی ڈپریشن گولیاں لینی شروع کردی ہیں۔ وہ ایک چھوٹی سی گولی میں زندگی کی خوشیاں تلاش کررہی ہیں۔ مشکلات سے چھٹکارا پانے اور خوشیاں حاصل کرنے کا یہ ایک آسان راستہ نظر آتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ سکون آور گولیاں محض چند گھنٹوں کا سکون فراہم کرتی ہیں اور پھر وہی ٹینشن شروع ہوجاتی ہے۔ اس ’’پل کلچر‘‘ سے ایک طرف تو عورت کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے دوسری طرف سماج اور معاشرے کے تانے بانے غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ دیکھئے اَرپِتا کو۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے صرف ۲۶ سال، مگرمشکلیں بے شمار آکھڑی ہوئی ہیں۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ میں بطور ایکزیکٹیو کام کرتی ہے۔ صبح دس بجے گھر سے نکلتی ہے اور رات کو تقریباً نو بجے گھر واپس آتی ہے۔ اکثر اسے کمپنی کے ذریعے منعقد کی گئیں پارٹیوں میں بھی شرکت کرنی پڑتی ہے کیوںکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے اور اس میں کبھی کبھی اسے کئے گھنٹے تاخیر سے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ مگر صبح کو وقت پر آفس پہنچنے سے نجات نہیں۔پرنٹ میڈیا سے جڑے لوگوں سے تعلقات استوار رکھنا، الیکٹرانک میڈیا کے لوگوں سے دوستی رکھنا ان سے خوشگوار تعلقات بنائے رکھنا ارپتا کی ذمہ داریوں میں شمار ہے۔
دہلی کی تیز رفتار زندگی میں ارپتا مشکل ہی سے کبھی راحت کا ایک سانس لے پاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے کیریر کی اٹھان کے لیے بھی وہ فکر مند اور کافی آگے آنے کی خواہش مند ہے۔ اس کے والدین کے آپسی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ اس کی ماں کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ وہ بھی نوکری کرتی تھیں اور اس کے والد یہی سب دیکھ کر خواہش کرتے تھے کہ وہ نوکری چھوڑ دیں۔ مگر نوکری چھوڑنے کے بجائے انھوں نے ’’پاپا‘‘ کو چھوڑنا زیادہ پسند کیا اور اب اس کے پاپا الگ رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کو سو نہیں پاتی ہے۔ جب اس نے اپنی اس مشکل کا ذکر اپنی ایک سہیلی سے کیا تو اس نے ارپتا اینٹی ڈپریشن گولی استعمال کرنے کا مشورع دیا جس پر وہ کاربند ہے اور گولی کے بدلے چند گھنٹوں کی نیند حاصل کرپاتی ہے۔
یہ معاملہ صرف ارپتا ہی کا نہیں ہے بلکہ شہری علاقوں میں مقیم لاکھوں کام کرنے والی یا غیر کام کرنے والی عورتیں اور بھی ہیں جو مختلف پریشانیوں کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ایک حالیہ سروے میں یہ پایا گیا ہے کہ شہروں میں اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں تناؤ اور ڈپریشن کو کم کرنے اور نیند کے لیے سکون آور اور خواب آور گولیاں کھانے کی عادی ہوچکی ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ڈپریشن سے نجات پانے کا یہ سب سے آسان اور اچھا ذریعہ ہے۔
خواتین کی صورت حال
یہ حقیقت ہے کہ مردوں کی بہ نسبت عورتیں زیادہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ماہر نفسیات کے مطابق اس کی وجہ عورتوں کا زیادہ حساس ہونا ہے۔ اس کے علاوہ بدلتے ہوئے معاشرے میں ان کی بدلتی ہوئی ذمہ داریاں، نوکریوں کا مزید بوجھ، خاندان کی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نہ نبھا پانے کا غم، زندگی کے تلخ تجربات، خطرناک جسمانی بیماریاں اور کام کاج کی جگہ ان کا جنسی اور جسمانی استحصال ذہنی تناؤ کے خاص اسباب ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہن و دماغ پر ایسے گہرے منفی اثرات چھوڑتے ہیں جو انہیں اس بیماری میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنسی تفریق کی بنیاد پر جاری رویہ اور خاندان، رشتہ دار اور دستوں کی کمی بھی ڈپریشن کے لیے ذمہ داری ہے۔ گھر کے ساتھ ساتھ باہر کا مزید بوجھ بھی عورتوں کو ڈپریشن کا شکار بنادیتا ہے۔
W.H.O.کی رپورٹ
ماہر نفسیات اور اس میدان کے ماہر اطباء کا خیال یہ بھی ہے کہ عورتیں ڈپریشن کی کہیں زیادہ شکار ہوتی ہے۔ WHOکی رپورٹ کے مطابق دوسری بیماریوں کے مقابلے میں عورتوں کے ڈپریشن کے شکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ نفسیاتی صحت کے معروف ادارے این آئی ایم ایچ کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے کے مطابق عورتوں میں پوسٹ ٹرامٹیک ڈس آرڈر (PTSD) کی شکایت کے ہونے کا اندیشہ مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتا ہے۔ PTSDکا مطلب اندرونی دماغی زخموں سے ہے جن کی وجہ سے انسان وقتاً فوقتاً کئی دوسری سائکو سیمیٹک بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ مثلاً زنا بالجبر جیسے کسی مجرمانہ حادثہ کی وجہ سے انسان کے دل میں ڈر یا خوف بیٹھ جانا، جنگ یا طبعی حادثات اور دل دہلادینے والے واقعات کی وجہ سے کسی طرح کا ڈر دل میں بیٹھ جانا وغیرہ۔
فکر کا پہلو
ڈپریشن کی خطرناک قسم کلینکل ڈپریشن ہے جس کی وجہ سے مسلسل دماغی توازن صحیح نہیں رہتا، آسانی سے نیند نہیں آتی، کسی کام میں دل نہیں لگتا، بھوک نہیں لگتی، معاشرے سے دور رہنے کا دل چاہتا ہے جیسی شکایتیں انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آنے والے چند سالوں میں ہر چھٹی عورت میں سے ایک عور ت اپنی زندگی میں ڈپریشن کا شکار بنے گی۔ ڈپریشن کا شکار انسان بغیر اینٹی ڈپریشن گولیوں کے رہ نہیں سکتا۔ اس لیے اس کا ان گولیوں کا استعمال کرنا لازمی ہے۔ یہ اینٹی ڈپریشن دوائیاں ماہر نفسیات اور کاؤنسلر بھی تجویز کرتے ہیں، لیکن اس عمل میں فکر کا پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر شہری عورتیں روز مرہ کے تناؤ سے نجات پانے کے لیے ان دواؤں کا استعمال ڈاکٹروں سے مشورہ لیے بغیر ہی کرتی ہیں۔
زندگی میں تبدیلیاں
یہ سچ ہے کہ تناؤ سے بھری اس ماڈرن زندگی کے رکھ رکھاؤ نے عورتوں کو بہت حد تک نقصان پہنچایا ہے یا منفی اثرات ڈالے ہیں۔
ماڈرن عورتیں اپنی ماؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ڈپریشن اور تناؤ میں زندگی بسر کررہی ہیں۔ گھر یا گھر سے باہر کی کام کاجی زندگی اور معاشرتی رشتوں کو نبھانے کے بعد ان پر خود کو ایک سپر وومن ثابت کرنے کا مسلسل دباؤ بھی ہے۔ سپر وومن کا مطلب ایسی عورت ہے جو گھر، خاندان، معاشرے اور معاش کی ذمہ داریوں کو نبھانا بخوبی جانتی ہو اور اس کو نبھاتی بھی ہو۔
WHOکی مینٹل ہیلتھ ۲۰۲۰ء رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ آنے والے سالوں میں دل سے متعلق بیماریوں کے بعد ڈپریشن سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں عوام کے مبتلا ہونے کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے۔
یہ گولیاں!!
ڈپریشن سے متاثر مریضوں کے علاج میں دوائیاں مستقل طور پر کارگر ثابت نہیں ہوسکتیں۔ ماہر نفسیات، کاونسلر اور ڈاکٹر اشوک گپتا کی بھی یہی رائے ہے ان کے مطابق اس مرض میں دوائیوں کی بہ نسبت تھیریپی ہی زیادہ کارگر ہوتی ہے۔
سکون آور گولیاں دماغ کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں، ہاں اس کی وجہ سے مریض کو کچھ دیر کے لیے راحت ضرور مل جاتی ہے ، لیکن ان کا اثر چھ سے آٹھ گھنٹے ہی رہتا ہے، اس کے بعد مریض اپنی پہلی حالت پر واپس آجاتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق ان اینٹی ڈپریشن گولیوں کے مسلسل استعمال سے مریض کے جسم اور صحت پر مضر اثرات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔مثلاً: ذہنی قوت کا کم ہونا، بے چینی بڑھنا جیسی شکایتیں انسان کوپریشان کرسکتی ہیں، اس سلسلے میں ایک حالت یہ بھی ہے کہ اگر مریض اینٹی ڈپریشن گولیوں کی بند کردیتا ہے تو وہ ڈپریشن اور اداسی کا دوبارہ شکار ہوجاتا ہے۔لہٰذا سکون حاصل کرنے اور نیند لانے کے لیے گولیوں کا استعمال اور وہ بھی مسلسل نہ تو بیماری کو رفع کرتا ہے اور نہ ہی ایک خاص مدت کے بعد پہلے کی طرح کارگر ہوپاتی ہیں۔ ایسے میں آج کی عورت کے پاس اپنی صحت کو برباد کرنے اور زندگی کو تلخ بنانے کے علاوہ بھی کوئی راستہ ہے جو اسے اس کا کھویا ہوا سکون دوبارہ واپس کرسکے اور نیند کی دیوی کو جو اس سے روٹھ گئی ہے مناسکے۔
جی ہاں! یہ راستہ ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کی قیمت پر خود کو ’’سپروومن‘‘ ثابت کرنے کے خیالی پرندے کو گرفتار کرنے کی جدوجہد سے باز آجایا جائے اور زندگی کے ان حقائق کی تلاش کی جائے، جو انسان کے اندر فطری طور پر رکھے گئے ہیں۔
اگر ۲۶ سالہ ارپتا اپنی ماں کی زندگی سے ہی سبق حاصل کرپاتی اور اس سبق کو ان بہت ساری عورتوں کے سامنے رکھ پاتی جو اس کی جیسی کیفیت کا شکار ہیں تو وہ سماج اور معاشرے کی بڑی خدمت ہوتی۔انسان کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت سکون کی سب سے بڑی جگہ اس کا گھر ہے اور عورت کے سلسلہ میں تو یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر وہ گھر سے نکل کر سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ بھول ہے۔ اگر گھر میں انسان کو سکون حاصل نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر جاکر سکون حاصل کرے۔ بلکہ وہ اپنے گھر کو سکون کا گہوارہ بنانے کی فکر کرے۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ لوگ اس حقیقت کو بھول کر ’’اینٹی ڈپریشن گولیوں‘‘ میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ تو پھر ایسے لوگوں کے حصہ میں ندامت اور مایوسی کے علاوہ اور کیا آسکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146