آج کے مشینی دور میں انسان کے اندر ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا احترام، ایک دوسرے کی خیر خواہی اور خبر گیری کے لیے وقت نکالنا، دوسروں کے ساتھ خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا اور سماج ورشتہ داروں کے لیے کچھ خدمت انجام دے کر خوشی حاصل کرنا جیسی چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ اور انسان اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنے آل و اولاد کے خول میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ ہر شخص کو اس بات کا شکوہ ہے کہ دوسرے نہ تو اس کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں اور نہ غم بانٹتے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ خود فرد کا اپنا رویہ ہے۔ جس نے اسے خود غرض بنادیا ہے۔ یہی خود غرضی انسان کو سماج اور معاشرہ سے کاٹ دیتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ تنہا رہ جاتا ہے اور یہی تنہائی اسے کاٹنے لگتی ہے۔ اسی طرح زندگی میں واقع ہونے والے حادثات یا منفی قسم کے واقعات بھی انسان کو ذہنی الجھن میں مبتلا کرتے ہیں جس سے اس کی کارکردگی اور ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ کوئی شخص ا متحان میں ناکامی یا کوئی اپنی پسند کی /کا شریک حیات طے کرنے میں ناکامی کے سبب ذہنی طور پر متاثر ہوسکتا ہے اور یہ چیز اسے ڈپریشن تک لے جاتی ہے۔
ذہنی تناؤ یا ڈپریشن ایک نفسیاتی بیماری ہے جو آج کل کی خواتین میں عام ہے۔ پڑھے لکھے اور دولت مند خاندانوں میں یہ بیماری خاصی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب کہ ان پڑھ اور دیہی علاقوں کی خواتین بھی کافی تعداد میں اس کا شکار رہتی ہیں۔ تیز رفتار زندگی، بھاگ دوڑ اور معیار زندگی کو اونچا اٹھانے کے مقابلہ کے اس دور میں لازمی طور پر انسان نے بہت کچھ کھویا ہے۔ ان میں رشتوں کی دیکھ ریکھ، ایک دوسرے کے جذبات اور سماجی اقدار کا احترام اور دوسروں کے لیے وقت نکالنے جیسی بنیادی اقدار ختم ہوگئی ہیں۔ اولاد کو ماں باپ سے وقت نہ دینے کی شکایت، بیوی کو شوہر سے بے اعتنائی اور بے توجہی کا شکوہ اور گھر کے افراد میں باہمی تناؤ، آمدنی کی قلت، اخراجات کی کثرت اور مہنگائی و گرانی کی مار ایسی چیزیں ہیں جو موجودہ دور کے انسان کو ذہنی تناؤ کا شکار بنارہی ہیں۔ اس کے علاوہ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خاندانی بکھراؤ کی وجہ سے اگر انسان ذہنی تناؤ کا شکار نہ ہو تو کیا کرے۔
ذہنی تناؤ یا ڈپریشن جب ایک حد کو پہنچتا ہے تو انسان کے اندر زندگی سے مایوسی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے علاوہ کہ وہ اپنی زندگی کو انجام تک پہنچادے اسے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں خود سوزی کی رفتار میں جو تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس کا سبب بھی یہی ذہنی تناؤ ہے۔
ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کا گھروں کے اندر اور تنہا رہنا ہے۔ کیونکہ انھیں اپنے افکار و خیالات کو دوسروں کے ساتھ شیر کرنے یا سیروتفریح کے ذریعہ دل بہلانے کے مواقع کم ہی مل پاتے ہیں۔اور دوسرے خواتین میں مردوں کے مقابلہ قوت برداشت اور تحمل بھی کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مایوسی، حسد اور بغض، حرص اور بے جا امیدیں اور آرزوئیں، گھریلو کاموں کا زیادہ بوجھ اور گھریلو پریشانیاں اس کے خاص اسباب ہیں۔
خواتین اپنی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا کر دیکھ سکتی ہیں کہ ان کی ذہنی صحت کا کیا حال ہے۔ اس کے لیے درج ذیل نکات پر اپنا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
٭ دن بھر کی تھکن کے باوجود رات کو نیند نہ آنا۔
٭ غصہ اور چڑچڑاپن طبیعت میں نمایاں ہونا۔
٭لوگوں سے ملنے جلنے کے بجائے تنہائی پسندی۔
٭ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بہت زیادہ مایوسی یا بہت زیادہ خوشی۔
٭ مسلسل (بے خیالی میں) باتیں کیے جانا۔
٭ بالکل خاموشی اختیار کرلینا۔
٭ چھوٹی چھوٹی ناکامیوں سے مایوسی کے جذبات کا پیدا ہونا۔
٭ خود کو معمولی سی ناکامی پر ناکارہ تصور کرلینا وغیرہ۔
اگر آپ کے اندر ان علامات میں سے کچھ علامات نظر آتی ہیں تو سمجھئے کہ آپ کی ذہنی صحت بھر پور نہیں ہے اور آپ کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ذہنی تناؤ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج خود مریض کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ خود اعتمادی اور مثبت رویہ کے ذریعہ اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ آپ اپنے اندر کھوئے ہوئے انسان کو تلاش کریں اور خود کو زندگی کی عظمتوں سے آشنا کراکر زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونے اور دوسروں کو لطف اندوزی کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کریں۔
یاد رہے کہ زندگی ایک قیمتی متاع ہے جس کے بارے میں قیامت کے روز ہم سے پوچھا جائے گا۔ اور زندگی کا راز یہ ہے کہ یہاں وہی لوگ حقیقت میں زندہ رہنے اور زندہ کہلانے کے حقدار ہیں جو زمانے کو کچھ دینے کا عزم رکھتے اور خود کو آرزوؤں، امنگوں، عزائم اور حوصلوں سے تروتازہ رکھتے ہیں۔ مایوس اور شکست خورہ لوگوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔ وہ تو زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ کے مانند ہوتے ہیں۔ آپ غور کیجیے کہ انسان اگر مایوسی کا شکار ہوجائے تو اس کے پاس باقی ہی کیا رہ جاتا ہے۔ اس لیے مشورہ دیا جاتا ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی مایوس نہ ہوئیے اس لیے کہ ہر رات کے بعد صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے۔
زندگی سے متعلق ان اصولی چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنے سے انسان بہت سی ذہنی بیماریوں سے خود کو محفوظ بھی کرسکتا ہے اور ان کا علاج بھی کرسکتا ہے۔ ذیل میں ہم ذہنی تناؤ کے علاج کی خاطر چند ٹپس نوٹ کراتے ہیں:
٭ ’’اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے‘‘ کا بنیادی فارمولہ اختیار کیجیے۔
٭ زندگی کو پرعزم بنائیں اور خواہشات کو پھیلنے سے روکیں یہ ناکامی اور مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔
٭ دوسروں کی حرص، ان کی نقل اور حسدو بغض کے جذبات سے خود کو پاک کیجیے۔
٭ ہر کام کو وقت پر کرنے اور جلد نمٹانے کی عادت ڈالیے اس سے آپ کو کاموں کے بوجھ سے نجات ملے گی۔
٭ فارغ وقت کے لیے اچھی اور تعمیری مصروفیات نکالیے اور مطالعہ وغیرہ پر توجہ دیجیے۔
٭ خوش اخلاقی کو شعار بنا کر خوشیاں بانٹئے اور دوسروں کی خدمت کرکے مسرت حاصل کیجیے۔
٭ اپنے بچوں پر زیادہ توجہ دیجیے اور ان کی تربیت و تعلیم کی خاص فکر کیجیے۔
٭ گھریلو کاموں سے کچھ وقت نکال کر سیر و تفریح، ملاقاتیں اور رفاہی کام کیجیے۔
٭ احساس کمتری اور مایوسی کو قریب نہ آنے دیجیے، محنت اور مثبت سوچ پر یقین کامل رکھیے۔
٭ ذہن کو ریلیکس رکھئے، وقت کی صحیح تنظیم کیجیے اور فرصت کو غنیمت جانیے۔
٭ ہلکی پھلکی ورزش کو معمول بنائیے اور ذہنی صحت کا خیال رکھئے۔
٭ اگر شوہر کی بے اعتنائی آپ کی پریشانی کا سبب ہے تو اس کے اسباب تلاش کیجیے۔
٭ گھر کے افراد کے درمیان محبت اور رشتے ناطے کے افراد کے ساتھ تحمل اور محبت کا معاملہ کیجیے۔
٭ دوسروں کو سکون پہنچا کر خوشی حاصل کیجیے۔
٭ اور ضرورت محسوس ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کیجیے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا ’’المومن القوی احب الی اللہ من المومن الضعیف‘‘ ایک طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کو کمزور مومن سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ اور قوت سے مراد صرف جسمانی قوت ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طاقت بھی ہے اسی طرح ضعف میں جسمانی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی کمزوری بھی شامل ہے۔ اور ڈپریشن ایک قسم کی نفسیاتی کمزوری ہی ہوتی ہے۔ جو خراب نتائج ہماری زندگی میں لے کر آتی ہے۔ اگر ہم چاہیں تو خود کو جسمانی اور نفسیاتی ہر اعتبار سے مضبوط بناکر اللہ کے نزدیک بھی خود کو محبوب بناسکتے ہیں اور اہل خاندان اور افراد معاشرہ کے درمیان بھی۔