’’مائی نیم از ڈیبی۔ آئی نو رائٹ آن دی گراؤنڈ فلور … یو آر کیوٹ… ہائے! … مائی نیم از…‘‘
مجھے یہ تومعلوم نہیں تھا کہ اس عورت کا نام ڈیبی ہے مگر یہ ضرور پتہ تھا کہ یہ کانٹی نینٹل اپارٹمنٹس کی اے بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر فلیٹ نمبر تین میں رہتی ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ رات کے ایک بجے اسے یوں اندر آکر خود کو متعارف کروانے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔
اس کے بیل دینے پر میں نے دروازہ کھولا تو وہ ایک بھونچال کی طرح اندر آئی۔ اسے فائل پیپر درکار تھا۔ اس کی آواز سن کر طارق بھی اسٹڈی روم سے باہر نکل آئے۔ میری بجائے طارق نے اسے فائل پیپر کا ڈبہ لاکر دیا۔ فائل پیپر لے کر وہ لوٹ جانے کے بجائے وہیں کھڑی ہوگئی… ’’مائی نیم از ڈیبی‘‘… وہ ہر دوسرے فقرے کے بعد یہ الفاظ دہرا دیتی۔ میں دہشت زدہ سی کھڑی تھی۔ طارق ’’یس یس‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ پا رہے تھے۔
گہرے سبز رنگ کے اسکرٹ میں تیز تیز میک اپ کئے وہ کچھ وحشت ناک سی لگ رہی تھی۔ اس کی گول گول سبز آنکھوں میں گلابی ڈورے تیر رہے تھے۔ سر پر گھنگریالے بالوں کا پورا جھاڑ تھا۔ تیز پرفیوم کی لپٹوں کے ساتھ ساتھ انجان نامانوس سی بو اس کے وجود سے لپٹی ہوئی تھی۔ وہ مسکرا رہی تھی، وہ ہنس رہی تھی، لہرا رہی تھی۔ قریباً چھ فٹ اس کا قد تھا اور اس پر بھاری ڈیل ڈول!
وہ اپنی بے ربط تقریر جھاڑ کر واپس گئی، تو طارق نے کھٹ سے دروازہ بند کرکے اندر سے مقفل کرلیا۔ ’’شراب پی کر ڈسٹرب کرتے ہیں یہ لوگ۔ ہونہہ امریکہ!‘‘ وہ بڑبڑائے۔
نچلے فلیٹ سے تیز گانے اور شوروغل کی آوازیں آرہی تھیں اور اس شور شرابے میں وہ چیخیں بھی وقتاً فوقتاً شامل ہوجاتیں تو جو شاید نشے میں بدمست لوگوں کی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ اب یہ غل غپاڑہ آہ و بکا میں تبدیل ہوجائے گا۔ ڈیبی اور اس کا شوہر ایک دوسرے کی پٹائی میں مشغول ہوجائیں گے۔ ڈیبی سامان اٹھا اٹھا کر باہر پھینکے گی اور اس کا شوہر ڈنڈا یا جو بھی شے اس کے ہاتھ لگے، لے کر اسے پیٹ ڈالے گا۔ پچھلے چند ماہ سے میں ہر ویک اینڈ پر اس ہنگامے کی عادی ہوچکی تھی۔
امریکی ریاست اوکلاہاما کے شہر لاٹن کی اس اپارٹمنٹ … کانٹی نینٹل اپارٹمنٹس… میں ہر طرح کے لوگ رہتے تھے، کالے، گورے، کوریائی، سعودی، ایک ہم لوگ پاکستانی تھے۔ طارق یہاں پاکستان آرمی کی طرف سے کورس کرنے آئے تھے۔ ہم نے جان بوجھ کر اس بلڈنگ میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا کیونکہ سعودی عرب کے زیادہ تر لوگ جو اسی کورس کے سلسلے میں امریکہ آئے تھے۔ اسی اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔
سعودی عرب کی خواتین انگریزی سے بالکل نابلد تھیں۔ صرف کویت کی فاتن کو ٹوٹی پھوٹی انگریزی آتی تھی۔ بہرحال وقت اچھا گزرجاتا تھا۔ تقریباً ہر روز کسی نہ کسی کے گھر کھانے کی دعوت ہوتی تھی۔ ہم نے بھی ایک روز لنچ پر تمام فیملیز کو مدعو کیا تھا۔ یہ وہی دن تھا جب ڈیبی سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ مہمان کھانا کھا کر جاچکے تھے۔ میں برتنوں کی صفائی میں مشغول تھی کہ اچانک بیل بجی۔ میں نے پہلے تو پردہ اٹھا کر کھڑکی سے جھانکا۔ ایک قدآور دیوہیکل عورت کھڑی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ اس کے چہرے پر چھائی خشونت نے مجھے سہما کر رکھ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس نے مجھے اچھی خاصی ڈانٹ پلادی جس کا مفہوم یہ تھا کہ تمہارے مہمانوں نے سیڑھیوں پر تربوز کا رس گرادیا ہے، جس سے ہر طرف مکھیاں پھیل گئی ہیں۔ وہ نیچے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرکے مجھے دکھانے لگی۔ میں نے نیچے جھانکا اور تربوز کے رس سے آلودہ سیڑھیوں پر بھنبھناتی لاتعداد مکھیاں دیکھ کر میری بھی طبیعت مکدر ہوگئی۔ کھانے کے بعد تربوز پیش کیا گیا تھا اور یہ شاید بچوں کا کارنامہ تھا۔ بہرحال میں نے اس سے معذرت کرکے جان چھڑائی۔ وہ دھپ دھپ کرتی سیڑھیاں اترگئی تو میں نے دروازہ بند کرکے اطمینان کا سانس لیا۔
میں یوں بھی نئے ماحول میں خوفزدہ تھی۔ سارا دن کھانا پکانے اور سلطان کی نگہداشت میں گزرجاتا۔ اس دوران اپارٹمنٹ کو اندر سے مقفل رکھتی۔ تالا اندر سے تو یوں ہی کھل جاتا تھا لیکن اسے باہر سے کھولنے کے لیے چابی درکار تھی۔ صبح طارق چابی ساتھ لے کر جاتے اور دوپہر کو جب واپس آکر دروازہ کھولتے تو چابی لگنے کی آواز سن کر سلطان کلکاریاں مارنے لگتا۔ میں اطمینان کا سانس لیتی۔ سہ پہر کو جب طارق پڑھنے کے لیے اسٹڈی روم میں داخل ہوتے تو میں نیچے اتر کر حنوط کے گھر کی طرف چلی جاتی جہاں سعودی خواتین کی محفل جمی ہوتی۔
کانٹی نینٹل اپارٹمنٹس، چھ اپارٹمنٹ بلڈنگز پر مشتمل تھا۔ ان بلڈنگز کے درمیان ایک بڑا سا گراؤنڈ تھا جس میں سوئمنگ پول تھا۔شام کو یہاں خوب ہنگامہ ہوتا۔ خوش فکر امریکی لڑکے اور لڑکیاں مختصرترین لباس پہنے سوئمنگ پول میں اٹھکھیلیاں کرتے پھرتے اور ہم جیسے مومنوں کے دل لاحول ولا قوۃکا ورد کرنے لگتے۔ شام کو جب میں سیڑھیوں سے نیچے اترتی تو اکثر ڈیبی سے میری مڈبھیڑ ہوجاتی۔ وہ ہمیشہ غصے میں دکھائی دیتی۔ نہ جانے وہ اتنی ناراض ناراض سی کیوں دکھائی دیتی۔ وہ یونہی ہمیشہ غصے میں جلتی، سلگتی نظر آتی، یوں جیسے ایک ہی نظر میں ہر شے کو بھسم کر ڈالے گی۔ مجھے دیکھ کر وہ ہمیشہ ناک سکوڑ لیتی۔ اس کی گول گول آنکھوں میں نفرت امنڈ آتی۔ کبھی کبھار میں اسے دیکھ کر ’ہیلو‘ یا ’ہائے‘ کہہ دیتی تو وہ سر کے اشارے سے بڑی رعونت کے ساتھ جواب دیتی۔ گویا مجھ پر احسان کررہی ہو۔
ایک روز دن کے کوئی گیارہ بجے نچلی منزل سے شور اٹھا۔ ڈیبی اور اس کے شوہر نے شاید پھر کوئی ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔مارپیٹ، فرنیچر کی توڑ پھوڑ سے زیادہ ڈیبی کی گالم گلوچ کی آوازیں بالکل قریب سے سنائی دینے لگیں۔ میں نے فوراً دروازہ کھولا اور باہر نکل کر سیڑھیوں سے نیچے جھانکنے لگی۔ ڈیبی ایک انڈرویئر اور بنیان میں ملبوس ننگے پیر اپنے فلیٹ کے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کے بدن سے جابجا خون بہہ رہا تھا۔ اس کا شوہر کوئی چیز اٹھا کر اسے مارنے کو لپک رہا تھا اور وہ چلا چلا کر اسے گالیاں دے رہی تھی۔ صرف ایک بات میرے سمجھ میں آئی تھی … ’’تم نے مجھے کتیا کہا!‘‘ … میں بھاگ کر واپس آئی اور دروازہ بند کرلیا۔
ڈیبی کو لہولہان دیکھ کر میں بری طرح خوفزدہ ہوگئی تھی۔ کھڑکیوں کے پردے ہٹے ہوئے تھے۔ نیچے گراؤنڈ سے مجھے سعودی عرب کے ایک افسر کی بیوی ’’تورا‘‘ گزرتی دکھائی دی۔ میں نے کھڑکی سے چیخ چیخ کر اسے بلایا۔ اس نے میرے اشارے دیکھ لیے تھے یا شاید میری آوازیں سنیں، بہرحال بیچاری بھاگ کر اوپر آئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر آگئی۔ مجھے ہراساں دیکھ کر وہ ہنستے ہوئے اشاروں سے پوچھنے لگی کہ بات کیا ہے؟ میں حیران تھی کہ نچلی منزل پر ہونے والے ہنگامے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ میں نے اشاروں میں اس سے دریافت کیا کہ یہ کیاہنگامہ ہورہا ہے۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور اس نے اشاروں کی مدد سے مجھے جو کچھ سمجھایا اس کا مفہوم یہ تھاکہ گھبراؤ نہیں، یہ لوگ ایسا کرتے ہی رہتے ہیں۔
’’تورا‘‘ کے جانے کے بعد میرے جی میں آئی کہ اپارٹمنٹس کی انتظامیہ کو فون کردوں کہیں ڈیبی کا شوہر اسے قتل ہی نہ کردے۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھی کہ چیخ و پکار خود بخود بند ہوگئی۔
بعد میں مجھے فاتن سے علم ہوا کہ کسی کے اطلاع دینے پر ڈیبی اور اس کے شوہر کو پولیس گرفتار کرکے لے گئی تھی! فاتن، ڈیبی کے سامنے والے فلیٹ میں رہتی تھی۔ ڈیبی پولیس کی حراست سے شاید چند ہی گھنٹوں بعد آزاد ہوگئی تھی کیونکہ شام کو وہ مجھے باہر گراؤنڈ میں باربی کیو بناتی نظر آئی۔ وہ اور اس کا شوہر قہقہے لگا رہے تھے۔ انھوں نے اپنے دوستوں کو بھی مدعو کررکھا تھا۔ فضا میں ہر طرف گوشت بھننے کی مہک پھیل رہی تھی۔ ڈیبی بار بار انگیٹھی کا ڈھکن کھول کھول کر دیکھتی۔ وہ لوگ بیئر کی لاتعداد بوتلیں خالی کرچکے تھے۔
ڈیبی تیز رنگ کے اسکرٹ اور چیختے ہوئے میک اپ میں تھی۔ اس پر صبح والے ہنگامے کا کوئی پرتو نہیں تھا۔
میں سلطان کو اٹھائے گراؤنڈ سے گزری۔ شراب کی تیز بو دور تک میرا پیچھا کرتی رہی۔ ڈیبی کے فلیٹ کے آس پاس فرش پر ابھی اس کے خون کے داغ موجود تھے، مگر وہ بے حیاعورت نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی تھی!
میں اس سے ڈرتی تو بہت تھی لیکن، پتہ نہیں کیوں مجھے اس پر ترس بھی آتاتھا۔ وہ یقینابہت ناخوش تھی۔ ایک اداس اور تھکی ہوئی عورت۔
ایک رات ہم لوگ تقریباً گیارہ بجے لوٹے۔ گرو سری اسٹور سے شاپنگ کرکے ہم ایک پزا ریستوران میں چلے گئے۔ طارق نے کارپارک کی۔ ہم لوگ نیچے اترے۔ اچانک سسیکوں نے مجھے چونکا دیا… یہ ڈیبی تھی!
وہ فٹ پاتھ پر سر جھکائے بیٹھی رو رہی تھی۔ سسکیوں اور آہوں سے اس کا پورا وجود لرزرہا تھا۔ رات کا وقت تھا۔ اپارٹمنٹس میں کہیں کہیں روشنی دکھائی دیتی تھی۔ اسٹریٹ لائٹس بے حد مدھم تھیں۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ ڈیبی کے سر پر ٹوکرا سے گھنگھریالے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ منی اسکرٹ میں ملبوس وہ ننگے پاؤں فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی۔ اس کے آنسو اندھیرے میں جھلملا رہے تھے۔ میرا دل رحم سے لبریز ہوگیا۔ پتہ نہیں بے چاری کو کیا تکلیف ہے۔ میں اس سے اس گریہ وزاری کی وجہ دریافت کرنا چاہتی تھی مگر طارق نے مجھے ڈانٹ دیا: ’’پاگل ہوگئی ہو تم! یہ اس وقت شراب پئے ہوئے ہے۔‘‘
طارق مجھے تقریباً کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گئے۔ پتہ نہیں ڈیبی کب تک یونہی شراب پئے سسکیاں بھرتی رہی۔
اگلے روز میں نے صبح ہی صبح اسے کپڑوں کا تھیلا اٹھائے لانڈری روم کی طرف جاتے دیکھا۔ پتہ نہیں وہ کہاں ملازمت کرتی تھی، سارا دن گھر پر رہتی تھی، البتہ اس کا شوہر دن کو غائب رہتا تھا۔ وہ شاید ملازمت نہیں کرتی تھی، تبھی روز میاں سے پٹتی تھی۔ امریکی معاشرے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ عورت گھر بیٹھ کر کھائے۔ ڈیبی کا شوہر شاید ضرورت سے زیادہ غیرت مند تھا۔ یوں بھی وہ کالا امریکی تھا۔ ڈیبی کسی کالے اور گورے کے اختلاط کا نتیجہ تھی کیونکہ اس کا رنگ صاف تھا اور بال نیگرو لوگوں کی طرح سیاہ اور گھنگھریالے تھے۔
وہ مجھے تقریباً روز نظر آتی تھی۔ کبھی بس والے سے بچوں کے جھرمٹ میں دھکم پیل کرکے آئس کریم خریدتی ہوئی، کبھی کسی لانڈری روم کی طرف جاتی ہوئی اور کبھی میاں کی مار سے بچنے کے لیے سیڑھیوں کے اطراف بھاگتی ہوئی! کبھی تیز میک اپ کیے دوستوں کے غول میں شراب پیتی ہوئی اور کبھی مار کھاکر سیڑھیوں پر بیٹھ کر روتی ہوئی!
ایک شام میں اپنی سعودی ہم جولیوں کے ساتھ حنوط کے اپارٹمنٹ کے بیرونی حصے میں بیٹھی تھی۔ قہوہ چل رہا تھا ۔ بچے ادھر ادھر کھیل رہے تھے۔ سلطان میرے قریب ہی بیٹھا تھا۔ میری سعودی سہیلیاں آپس میں باتیں کرکے ہنس رہی تھیں اور میں گونگوںکی طرح بیٹھی تھی۔ کبھی اتفاقاً کوئی بات سمجھ میں آجاتی تو میں بھی ہنس دیتی ورنہ سوئمنگ پول پر کھیلتے بچے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں میری دلچسپی کا مرکز تھے۔ گناہ گار آنکھوں کو اب ان نظاروں کی عادت ہوچکی تھی۔ حنوط ذرا ذرا دیر بعد میری پیالی میں قہوہ انڈیلتی اور ’’امِ سلطان‘‘ کہہ کر مجھے متوجہ کرتی۔ نورا، منیرہ، رباب، عائشہ سب باتوں میں مصروف تھیں۔ کویت کی فاتن اپنے اپارٹمنٹ میں بند تھی۔ اس کا شوہر بہت سخت گیر تھا۔ وہ خود کمرے میں پڑھتا رہتا اور فاتن اپنی دونوں بیٹیوں کو لیے دروازہ مقفل کرکے بیٹھی رہتی۔ سوڈان کی نجیدان محفلوں میں باقاعدہ حاضری دیتی تھی۔ فاتن کے بعد میرے لیے اس کا دم غنیمت تھا کیونکہ اسے انگلش آتی تھی۔ وہ میرے اور سعودی خواتین کے درمیان ترجمان کا کام بھی کرتی تھی۔ آج نجید نہیں آئی تھی اور میں یونہی بیزار اور اچاٹ سی بیٹھی تھی۔
اچانک ڈیبی کے اپارٹمنٹ سے شور اٹھا۔ ڈیبی آج پھر پٹ رہی تھی۔ وہ حسبِ عادت چیختی ہوئی فلیٹ سے باہر نکل آئی تھی۔ اس کے وحشی شوہر کے ہاتھ میں لوہے کی سلاخ تھی جو وہ بے دریغ استعمال کررہا تھا۔ زیادہ تر سلاخیں ڈیبی کے منہ پر پڑرہی تھیں۔
’’اللہ!‘‘ میں نے لرز کر آنکھیں بند کرلیں۔ سعودی خواتین بھی توبہ توبہ کرنے لگیں لیکن ارد گرد کے تمام معمولات یونہی جاری رہے۔سوئمنگ پول پر اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے جوڑوں نے ایک نظر ادھر دیکھا اور پھر پانی میں ڈبکی لگادی۔
’’اوہ امریکہ!‘‘عائشہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔
میں نے چند منٹ بعد آنکھیں کھولیں۔ ڈیبی کی چیخیں تھم گئی تھیں۔ اس کا شوہر سلاخ پھینک کر منہ سے کف اڑاتا کہیں جارہا تھا۔ ڈیبی سر جھکائے سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی۔
’’کتنی بدنصیب ہے تو ڈیبی! تو نے امریکہ میں جنم لیا ہے۔ تو اکیلی ہے، بالکل اکیلی۔ مرد یہاں بھی حاوی ہے اور تو آزادی اور خود مختاری کے دعوے کرنے والی امریکی عورت یہاں بھی مار کھاتی ہے۔ مشرقی عورت مار تو کھاتی ہے لیکن وہاں اس کے زخموں پر پھاہے رکھنے والے بہت ہیں۔ اس کی چوٹیں سہلانے والے کئی ہیں۔ اگر ساس شوہر سے پٹواتی ہے تو آنسو بھی وہی پونچھ ڈالتی ہے۔ اگر نند بھاوج کو جھڑکیاں دلواتی ہے تو بھاوج کی دلداری بھی وہی کرتی ہے۔ مشرقی عورت ہمیشہ تحفظ کی چھاؤں میں رہتی ہے۔ ماں کی آغوش سے نکلتی ہے تو ساس کا سایہ شفقت اس کا منتظر رہتا ہے۔ بہن سے بچھڑتی ہے تو نند گلے لگا لیتی ہے۔ بھائی سے جدا ہوتی ہے تو دیور جیٹھ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ سسر کی محبت باپ کی یاد بھلادیتی ہے اور ایک تو ہے ڈیبی! وہی ازلی کم تر، کم نصیب عورت، جسے کوئی چھت، کوئی سایہ نصیب نہیں۔ تو مرد کے شانہ بشانہ کماتی ہے، بچے پیدا کرتی ہے، ان کی پرورش کرتی ہے، گھر سنبھالتی ہے، اور پھر میاں سے روز مار بھی کھاتی ہے۔ یہ سفر بڑا طویل ہے ڈیبی! اتنی کڑی دھوپ میں اپنا بوجھ اٹھائے اکیلی چلتی چلتی تھک جاؤگی، لیکن سہاروں کو تو نے ہمیشہ طوق سمجھا ہے اولڈ ہاؤسز میں ماں باپ، ساس سسر کو قید کردیا ہے۔ تو آزادی کی خواہش مند تھی! لیکن اس آزادی کی کتنی بڑی قیمت ادا کررہی ہے تو!
کاش! تو نے مشرقی عورت کی خوبصورت غلامی کا مزا چکھا ہوتا۔ کاش! تو مشرق میں جنم لیتی تو اتنی کم نصیب، اتنی بے سہارا نہ ہوتی!‘‘
میں سیڑھیوں سے اوپر گئی تو ہمیشہ کی طرح ڈیبی سے نظر بچا کر گزری۔ وہ نچلی سیڑھی پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی حسبِ معمول رو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر جابجا سلاخوں کے سرخ سرخ لمبے لمبے داغ تھے جو امریکی عورت کی بدنصیبی کی گواہی دے رہے تھے۔
میں خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ گئی۔ طارق کافی بناکر بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ میری طبیعت معمول سے زیادہ اداس تھی۔ شاید سعودی خواتین کی محفل میں بوریت ہوئی تھی جو میرے اعصاب کو منجمد کرگئی تھی۔ رات کا کھانا کھاتے ہوئے میں نے طارق سے کہا: ’’آپ کا کیا خیال ہے، میں کوئی پارٹ ٹائم ملازمت نہ کرلوں؟… یوں تو وقت ہی نہیں گزرتا۔ یہاں تو سب عورتیں ملازمت کرتی ہیں۔‘‘
’’بکو مت! ‘‘ طارق نے کھانا چھوڑ کر مجھے گھورا۔ ’’الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہو؟… آئندہ کبھی ایسی بات مت کہنا۔‘‘
’’اوہ ڈیبی!‘‘ نوالا میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
’’کیا؟‘‘ طارق کچھ سمجھ نہیں پارہے تھے۔
’’کچھ نہیں!‘‘ میں نے اپنی آنکھوں میں تیرتی نمی صاف کی اور سرجھکا کر کھانا کھانے میں مشغول ہوگئی۔
(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، اردو ڈائجسٹ لاہور)