ڈینگو نے جب سے وبائی مرض کی صورت اختیار کی ہے تب سے لے کر اب تک لاتعداد لوگوں کو اپنا شکار بنالیا ہے اور موت کی نیند سلادیا ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں ڈینگو کے واقعات میں حیران کن انداز میں اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً ۳ بلین لوگ اب بھی ان علاقوں میں سکونت پذیر ہیں جہاں ڈینگو پھیلنے کے قوی امکانات ہیں۔ ۱۹۹۷ء میں ساؤتھ ایسٹ ایشیا ریجن (SEAR) جس میں فی الحال گیارہ ممالک ہیں، بنگلہ دیش، بھوٹان، انڈیا، انڈونیشیا، کوریا، جزائر (مالدیپ، میانمار، نیپال، تھائی لینڈ) میں یہ بیماری بہت بڑے پیمانے پر پھیلی۔ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۸ سے اب تک ۵۶ ممالک میں 1.3 بلین لوگ اس بیماری سے متاثر ہوئے۔ ۲۰۰۱ء کے اعداد و شمار بھی اس میں زیادتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر سال ۵۰ ملین لوگوں کو یہ مرض ہوتا ہے۔ اور ۱۲۰۰۰ ؍اموات واقع ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً پچھلے دس پندرہ سالوں میں صرف SEARممالک ہی میں بچوں کی اموات کے لیے ڈائریا اور تنفسی عوارضات کے علاوہ ڈینگو ایک اہم سبب ابھر کر سامنا آیا ہے۔
ڈینگو کیا ہے؟
ڈینگو دن میں کاٹنے والے ایڈیز گروپ کے مچھروں خصوصاً ’’ایڈس‘‘ نام کے مچھر میں پایا جانے والا ایک وائرس ہے۔ یہ ایڈیز مچھر اس وائرس سے متاثر اور متعدی ہونے کے بعد کسی صحت مند شخص کو کاٹ کر اسے بھی ڈینگو سے متاثر و متعدی بنادیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ڈینگو سے متاثر ہونے کے بعد اس شخص میں ڈینگو کی علامات رونما ہوں لیکن جب رونما ہوتی ہیں تو اکثر وبا کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ اس مرض کو اس کی علامات اور ان کی شدت کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم جس کو ’’کلاسیکل ڈینگو فیور‘‘ کہا جاتا ہے اس میں اچانک لرزے کے ساتھ تیز بخار چڑھتا ہے۔ درد سے سر پھٹنے لگتا ہے جوڑوں میں ناقابلِ برداشت حد تک درد ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی حرکت بھی محدود ہوجاتی ہے پھر ۲۴ گھنٹوں کے اندر آنکھوں کے پیچھے درد شروع ہوتا ہے۔ روشنی سے ڈرلگنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی متلی و قے ہوتی ہے، منہ کا مزہ خراب ہوجاتا ہے، پیٹ میں درد، بھوک کی کمی، گلے میں خراش اور زبردست کمزوری اور عمومی افسردگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بخار کبھی کچھ گھنٹوں سے لے کر ۲ دن کے وقفے سے آتا ہے اور اسی وقفے میں اکثر جلد پردانے نکل آتے ہیں جو کہ ایک دو دن تک رہتے ہیں اور ان میں خارش بھی ہوسکتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں جریان الدم بھی ہوتا ہے، لیکن صدمے (Shock) کی کیفیت نہیں پیدا ہوتی ہے، اس قسم کو ’’ڈینگو ہے مرجک فیور‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مرض کی مزید شدید حالت ہے اس میں ایک ساتھ کئی وائرس حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کی علامات بھی شروع کے کچھ دنوں تک قدیم ڈینگو بخار کی طرح ہی ہوتی ہیں کبھی کبھی بخار انتہائی شدید ہوجایا کرتا ہے اور اس میں دورے بھی پڑتے خصوصاً بچوں میں سب سے اہم علامات ہیں۔ اس کی تشخیص کے لیے درج ذیل چیزوں پر دھیان دیا جاتا ہے۔
تیز بخار: یہ اچانک اور تیز قسم کا ہوتا ہے اور مسلسل دو سے سات دن تک ہوتا ہے۔
جریان الدم: یہ جریان جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں جریان کا خدشہ لگاہی رہتا ہے کیونکہ اس میں ’’پلیٹ لیٹس‘‘ کی مقدار طبعی طور سے کم ہوجاتی ہے جو کہ جریان کو روکتے ہیں جبکہ یہ جریان کے دوران ’’فائبرن‘‘ نام کا ایک ایسا کیمیاوی مادہ پیدا کرتے ہیں جو خون کے بہاؤ کو روکتا ہے۔ ڈینگو کی تیسری قسم وہ ہے جس میں جریان الدم کے ساتھ صدمہ (Shock) بھی لاحق ہوجائے۔اس میں ساری علامتوں کے ساتھ مریض کو صدمہ لاحق ہوگا، نبض کمزور اور تیز ہوجائے گی، جلد ٹھنڈی ہوجائے گی۔
ڈینگو سے بچاؤ کے لیے انفرادی او راجتماعی طور پر اس کے تئیں بیداری اور جانکاری کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی ڈینگو مچھر پیدا ہونے کے جو بھی ذرائع ہوسکتے ہیں ان کو ختم کیا جائے مثلاً: مکانوں کے اندر یا آس پاس پانی بالکل جمع نہ ہونے دیا جائے اور جمع شدہ پانی کو فوراً نکالا جائے یا اسے ڈھک کر رکھاجائییا پانی جمع ہونے کی جگہ مٹی کا تیل ڈال دیا جائے۔ کولر، پنکھے او رٹنکیوں اور گلدستوں وغیرہ کو ہفتے میں ایک بار ضرور صاف کیا جائے۔ جراثیم کش ادویہ (ڈی ڈی ٹی) وغیرہ کا چھڑکاؤ کریں۔ رات میں سوتے وقت مچھر دانی یا مچھر کوئل لگائیں اور خود کو مکمل ملبوس رکھنے کی کوشش کریں۔ گھروں میں لوبان، گندھک اور نیم وغیرہ کی دھونی دیں۔ کھانے کی چیزوں میں کھٹی چیزوں کا استعمال کریں مثلاً املی، سرکہ، لیمو، انار، انناس، آلو بخاراوغیرہ اور ثقیل غذاؤں سے پرہیز کریں۔ صفائی وغیرہ کا پورا خیال رکھیں۔ زیادہ سے زیادہ پانی اور دیگر مشروبات کا استعمال کریں۔ ان سب تدابیر کے باوجود اگر ڈینگو ہوجائے تو پریشان ہونے کے بجائے کسی ماہر ڈاکٹر سے فوراً رابطہ کریں اور از خود دوائیں لینے سے پرہیز کریں۔