ڈیوڈ

فہیم اختر، انگلینڈ

ڈیوڈ کی عمر ۶۵ سے کچھ زائد تھی۔ اگرچہ اس کے چہرے کی جھریاں اس کی بڑھتی ہوئی عمر کی غماز تھیں پھر بھی اس کی حرکات و سکنات میں بلا کی پھرتی تھی۔ ڈیوڈ جیسے شخص کے لیے آرام سے ایک غیر متحرک ریٹائرڈ زندگی گزارنا موت کے مترادف تھا۔ چنانچہ اپنی بقیہ زندگی کی مصروفیت کے لیے اس نے ضعیف لوگوں کے مسکان کلب میں ایک معمولی سی ملازمت حاصل کرلی تھی۔ وہ صبح ہوتے ہی انھیں کلب میں لے جاتا اور شام کو ان کو اپنے گھر پر واپس لے جاکر چھوڑ دیتا۔یہی اب اس کی ریٹائرڈ زندگی کا معمول بن چکا تھا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد نہیں کہ ڈیوڈ سے میری پہلی ملاقات کب اور کس طرح ہوئی۔ لیکن جب بھی ہوئی اس کے بعد وہ مجھ سے خاصا بے تکلف ہوگیا۔ جب بھی ملتا اپنی ساری بکواس رام کتھائیں سنایا کرتا۔ شاید میں اس کی وقت گزاری کا ایک مجرب نسخہ تھا۔ مجھے اب اکثر اس کی داستان گوئی سے کوفت سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس روز جب ڈیوڈ سے آفس میں اتفاقیہ طور پر سامنا ہوا تو وہ مجھے پکڑ کر زبردستی کینٹین لے گیا اور اپنی اناپ شناپ باتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ میں بھی اس وقت کچھ فراغت کے موڈ میں تھا، اس لیے اس بار حقیقت میں وہ میری وقت گزاری کا شکار تھا۔ میں بڑے انہماک سے اس کی خرافات سننے کے لیے رضا مند تھا۔ باتوں کا آغاز دوسری جنگِ عظیم سے ہوا۔ جس میں اس نے اپنے فوجی کارناموں کی مبالغہ آمیز حکایات کا ایک پورا دفتر کھول کر رکھ دیا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کا بیان اس قدر بے باک و بے لگام ہوا کہ میرا تمام انہماک یکسر تکدر میں بدل گیا۔ میں نے اپنی گھڑی کی جانب بڑے اضطراب سے دیکھا اور معذرت خواہ ہوا کہ باقی آئندہ۔

وہ بھی کم گھاگ نہیں تھا۔ فوراً سمع خراشی کے لیے ’سوری‘ کا جملہ داغ دیا لیکن گزشتہ سے پیوستہ کی تکمیل کے سلسلے میں ویک اینڈ کے لیے مصر ہوکر میرے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ بہر حال میں نے اثبات میں سر کو جنبش دے کر جان چھڑائی۔ لیکن مہاشے اپنے مطلب میں نہایت تیز تھے۔ دورانِ گفتگو اگر شام کو ان کی ڈیوٹی کا وقت قریب آجاتا تو وہ جھٹ سے اپنے سلسلۂ کلام کی درازی پر ایک ایمرجنسی بریک لگاتے اور آناً فاناً میں لوگوں کو گاڑی میں بٹھا کر یہ جا اور وہ جا ہوجاتے۔

تو خیر یہ تھے ڈیوڈ کے حسنِ بیان کے اجزائے ترکیبی جن کے تانے بانے میں وہ بے چارا ہمیشہ لگا رہتا کہ اس طرح وہ اپنے بے مصرف شب و روز کو گزارنے کا انھیں ایک کارآمد مصرف خیال کرتا تھا۔ پھر وقت گزرتا گیا اور ڈیوڈ سے ایک طویل عرصے تک آفس میں مڈ بھیڑ نہیں ہوئی۔ ادھر میں اپنے کام کی ٹریننگ کے سلسلے میں دو ہفتے باہر تھا۔ ادھر ڈیوڈ اپنی چھٹیاں گزارنے آئرلینڈ چلا گیا تھا۔

میں ٹریننگ سے واپس آتے ہی کام پر واپس ہوگیا اور میں نے ڈیوڈ کو گم شدہ پایا۔ میں نے جب آفس کے دیگر شعبوں میں تلاشِ گم شدہ کی تو لوگوں نے میرے تحقیقی اضطراب کو منھ بنا کر لال جھنڈی دکھا دی۔ میں اپنے پچھلے کام کے پھیلاؤ کو نبٹانے میں کچھ اس طرح لگا کہ لنچ کے وقت کا خیال تک نہیں آیا۔ اب جو کرسی سے اٹھا تو چار بج رہے تھے۔ معاً ڈیوڈ کی جانب سے پھر تشویش لاحق ہوگئی۔ انسانی ناطے بھی عجیب ہیں جس شخص سے ملنے کو دل نہیں کرتا پھر نہ ملنے پر اس کی جانب سے دل میں خواہ مخواہ تشویش پیدا ہوجاتی ہے۔ میں اس سوچ میں غرق باہر نکلا تو دیکھا کہ آفس کے مین دروازے کے پاس کچھ لوگوں کی ایک بھیڑ جمع ہے۔ جیسے ہی میں نے اس بھیڑ میں تذبذب سے شامل ہونا چاہا، ڈیوڈ کو وہاں تصویرِ غم بنا کھڑا پایا۔ جیسے اس کے کسی عزیز کی اچانک رحلت ہوگئی ہو، میں نے گھبرا کر دور سے بلاتے ہوئے احوال معلوم کیا:

’’ڈیوڈ! آر یو آل رائٹ؟‘‘

لیکن وہ کچھ نہیں کہہ سکا جیسے اس کی قوتِ گویائی مفلوج ہوگئی ہو۔ وہاں کھڑے ایک تماش بین شناسائی نے انکشاف کیا کہ ڈیوڈ کا کتا مرگیا۔

میں نے تیزی سے نزدیک آکر ڈیوڈ سے مخاطب ہونے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنے اطراف کے ذی روح ماحول سے بے نیاز ہوکر ایک مردہ جانور کے سانحۂ مرگ پر بے بس کھڑا خاموش آنسو بہا رہا تھا۔ میرا ناطقہ سربگریباں تھا کہ مرنے والے کے عزا دار کی خدمت میں کس قسم کے تعزیتی جملے ادا کروں۔ لاچار میں حیرت و حسرت کا مارا خاموشی سے ڈیوڈ کی بے آواز صفِ ماتم میں شامل ہوگیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد سارا جذبۂ غم گساری ہوا ہوگیا اور میں مزید بغیر کچھ کہے سنے مجمع کو پیچھے چھوڑ کر خاموشی سے آگے بڑھ گیا کہ دانشورانِ جہاں نے شاید اسی موقع محل کو مدنظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’خاموشی ہی عقلمندی ہے۔‘‘

قدم گھر کی جانب بڑھنے لگے اور میں تمام راہِ سفر اسی سوچ میں مبتلا رہا کہ ایک حیوانِ ناطق کیسے ایک حیوانِ مطلق کی مرگِ مفاجات پر اس قدر اور اتنی شدت سے سوگوار ہوسکتا ہے۔ کاش میرا بھی رابطہ و سابقہ کسی جانور سے رہا ہوتا تو میں بھی ڈیوڈ کے غم کو ڈیوڈ کی طرح محسوس کرسکتا۔

اس وقت مجھے کلکتہ کی سڑکوں پر شب و روز گھومتے بھونکتے آوارہ کتوں کی بے کراں یاد بے پناہ ستانے لگی جو جنم جنم سے ڈیوڈ جیسے جانور شناس دوست کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ذہن کے گوشے میں ماضی ایک فلیش بیک کی صورت میں اجاگر ہوگیا۔ بانکی ٹوپی سر پر دھرے، لمبی لمبی لٹکتی ہوئی مونچھوں والے چنو میاں کی شبیہ آنکھوں میں گھومنے لگ گئی کہ وہ گوشت کی دکان پر براجمان حلال جانوروں کے کٹے اعضاء کو کھونٹیوں پر لٹکا رہے ہیں۔ نیچے بیچارے مریل فاقہ زدہ کتوں کا جم غفیر ہے۔ جو چنو میاں کے غیظ و غضب سے لرزہ برانداز دور سے ٹک ٹک دیکھ رہا ہے کہ اتنے میں چنو میاں کا گز بھر لمبا ڈنڈا دندناتا ہوا حملہ کرتا ہے اور کتے خوف سے کوسوں دور بھاگ کر منتشر ہوجاتے ہیں۔

اس سانحے کو پیش آئے اب ایک خاصا لمبا عرصہ بیت چکا تھا میرے خیال میں مرنے والے کے سوئم اور چہلم وغیرہ سب ہی انجام پاچکے ہوںگے۔ ڈیوڈ کی ڈیوٹی عارضی طور پر دوسرے آفس میں منتقل ہوگئی تھی یہی وجہ تھی کہ اب ڈیوڈ سے شاذ و نادر ہی ملاقات کی نوبت آتی۔ علاوہ اس کے میں آفس کے کام میں اس قدر مصروف ہوگیا کہ ڈیوڈ کو تلاش کرنے اور اس سے ملنے کی فرصت ہی نصیب نہیں ہوئی۔

ایک روز میں اپنے ایک رفیق کار کے ساتھ آفس کے بعد کسی ریسٹورنٹ میں کافی پینے رک گیا۔ دورانِ گفتگو یوں ہی ڈیوڈ کی بات نکلی تو اس نے بتایا کہ ڈیوڈ کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ بے چاری ایک عرصے سے بیمار تھی۔ میں یقین کرنا چاہتا تھا کہ یہ اسی ڈیوڈ کی طرف اشارہ ہے جو آفس کی جانب سے بوڑھے شہریوں کو لانے لے جانے کی ڈیوٹی پر مامور ہے۔

’’ہاں ہاں وہی اپنا ڈیوڈ۔‘‘

’’وہی ڈیوڈ، جس کا کتا ابھی حال ہی میں مرگیا تھا۔‘‘

’’ہاں ہاں وہی، اب اس کی ماں بھی چل بسی۔ بے چاری۔‘‘

کافی ختم ہوچکی تھی ہم دونوں اٹھ کر کاؤنٹر پر گئے، بل ادا کیا اور بائی بائی کرکے اپنی اپنی راہ چل پڑے۔ میں تھا کہ جذبۂ ہمدردی سے سرشار سارے راستے ڈیوڈ کی ماں کی موت کے بارے میں سوچتا رہا۔ ’ڈیوڈ کس قدر پریشان ہوگا، ماں کا وجود بہت بڑی متبرک نعمت ہے۔ یقینا ڈیوڈ کی تنہا زندگی کے لیے یہ ایک ناقابلِ فراموش عظیم سانحہ ہوگا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں جب ڈیوڈ سے ملوں گا تو کیسے اس کی غم گساری کرپاؤں گا۔ تعزیتی جملوں کی روایت مرنے والوں کے اعزا و اقارب کے لیے اکثر شدید سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے اور پھر ڈیوڈ جیسا تنہائی کا مارا حساس شخص جو ایک جانور کی موت پر ٹوٹ کر بری طرح بکھر جاتا ہے تو ایک انسان کی موت کا صدمۂ جان کاہ کس طرح برداشت کرسکے گا۔ خاص کر وہ عظیم انسان جو اس کی ماں تھی جس کی آغوش میں اس کا وجود پروان چڑھا تھا۔ ذہن تھا کہ اسی نوع کے خیالات کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔

دوسرے دن میں آفس آیا تو دیکھا ڈیوڈ کسی ضعیف شخص کو گاڑی سے اتار کر بڑی اونچی آواز میں محوِ گفتگو ہے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ تیزی سے ہنستا ہوا اپنی گاڑی کا دروازہ بند کرنے لگا۔ اس ایک لمحے کے درمیان ڈیوڈ میرے لیے ان گنت گتھیوں کا ایک مجموعہ بن گیا، جس کو میرا ذہن سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس ایک لمحے کا اثر زائل ہوتے ہی میں نے قریب جاکر ڈیوڈ کو مخاطب کرنے کی کوشش کی۔ میری آواز میں تاسف کے ناقابلِ اظہار جذبات کا ایک درد ابھر آیا۔

’’ڈیوڈ پلیز، آئی ایم سوری، مجھے کل ہی تمہاری ماں کی موت کی خبر معلوم ہوئی۔‘‘

’’اوہ ہاں، مائی مدر…‘‘

’’تم ، تم ٹھیک تو ہو؟‘‘

’’اوہ یس، وہ بوڑھی تھی یار، don’t worry‘‘

ڈیوڈ یہ کہہ کر ہنستے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ اپنی گاڑی کے ساتھ میری نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا میں دم بخود تھا جیسے کہ میرے تمام ہوش و حواس کسی نے مفلوج کردیے ہوں کہ اچانک اس کے جملے ’’بوڑھی تھی یار، don’t worry‘‘ میرے ذہن پر پتھر کی مانند گرے اور میں چونک کر بہر طور سنبھل گیا اور گھر کی جانب مڑگیا۔ اور سوچنے لگا کہ ڈیوڈ کو کوئی غم نہیں تھا، ایک ایسے انسان کی موت جو اس کی ماں کا عظیم روپ تھی، ڈیوڈ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ میں مشرقی اقدارِ تہذیب کا معمولی آدمی مغرب کے انسانی حقوق کے علم برداروں کے شاندار تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو سمجھنے اور اپنانے سے شاید ہمیشہ قاصر رہوں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں