خواتین کو با اختیار اور خود کفیل بنانے کی مہم کے تحت گزشتہ دہائیوں میںکارپوریٹ دنیا میں ان کی شمولیت بڑھی ہے۔ اعلیٰ تعلیم نے ان کے لیے نوکریوں اعلیٰ عہدوں تک رسائی ممکن بنائی ہے اور بلاشبہ دنیا بھر میں خواتین نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی شرکت بہ تدریج بڑھ رہی ہے۔ لیکن کارپوریٹ دنیا سے ان کے طویل تعلق اور لمبی وابستگی کی راہ میں شادی شدہ زندگی آڑے آتی ہے اور شادی کے بعد بچے پیدا ہونے کے ’’جھنجٹ‘‘ کے سبب ایک مرحلہ وہ آتا ہے جب انہیں گھر داری اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے نوکری یا گھریلو زندگی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے بعد دوسرے سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا۔ اس لیے کہ گھریلو اور خانگی زندگی سے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حقوق مارے جاتے تھے اور پیشہ وارانہ زندگی کی مصروفیات کے سبب گھر داری خصوصاً بچوں کی پیدائش اور پرورش و پرداخت کا حق ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ کارپوریٹ دنیا میں شادی اور بچے ہوجانے کے بعد اکثر خواتین کو نوکری چھوڑ کر یکسو ہونا پڑتا تھا۔ یہ مسئلہ کارپوریٹ دنیا کے لیے نقصان کا سبب تھا کہ لڑکیاں جن کو وہ اپنے یہاں ملازمت پر رکھتے تھے ، مختصر عرصہ کام کرنے کے بعد ملازمت ترک کردیتی تھیں۔ باصلاحیت اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جانے والی لڑکیوں کا اچانک اس طرح نوکری چھوڑدینے کا عمل کارپوریٹ دنیا کے لیے کچھ زیادہ ہی پریشانی اور مادی نقصان کا سبب ہوتا تھا۔ چنانچہ کارپوریٹ دنیا ان لڑکیوں کو لمبے عرصہ تک شادی اور گھریلو زندگی سے دور رکھنے کے لیے مختلف انداز میں آمادہ کرتی تھیں مگر اس کے باوجود خواتین ملازمین کو شادی کے بعد نوکری چھوڑنا ہی ہوتی ہے۔
حالیہ دنوں میں دو بڑی کمپنیوں Apple اور فیس بوک نے اپنی خواتین کو دیر تک ملازمت میں باقی رکھنے کے لیے نیا آفر دیا ہے۔ یہ آفر ماں بننے کی ذمہ داری اور پیشہ وارانہ مصروفیت کے درمیان ٹکنالوجی کے ارتقاء کا استعمال کرتے ہوئے انہیں اضافی الاؤنس دینے کا ہے۔ اس آفر یا پیش کش کے تحت خواتین ملازمین کو ماں بننے کے عمل کو موخر کرنے کے لیے بیس ہزار ڈالر (تقریباً 13لاکھ روپے) دیے جائیں گے۔ یہ رقم بہ طور ہیلتھ انشورنس دی جائے گی جس کا مقصد یہ ہوگا کہ خواتین جوانی کی عمر میں بچے پیدا کرنے کے بجائے اپنے تولیدی انڈوں کو ’’منجمد کراکر اسٹور‘‘ کرالیں اور بعد میں جب وہ کمپنی سے ریٹائر ہوں تو ان کا استعمال کرکے ماں بننے کی ’’خوشی‘‘ حاصل کرلیں۔ یہ پیشکش اس لیے دی جارہی ہے تاکہ ’’خواتین با اختیار اور خود کفیل بنیں اور اپنے پیشہ وارانہ زندگی کے اہم وقت میں کام بھی کرسکیںاور بچوں کو بھی جنم دے سکیں۔‘‘
اس پورے عمل اور انداز فکر میں جو اصل سبب ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو کارپوریٹ دنیاکا مادی نقصان ہے جو خواتین ملازمین کے نوکری چھوڑنے کے سبب ہوتا ہے دوسری طرف خواتین ملازمین کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نوکریوں سے طویل وابستگی کے سبب بچے پیدا کرنے کے فطری عمل سے باز رہنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ ایک عورت دونوں کاموں کے لیے بیک وقت ہی موزوں اور مناسب ہوتی ہے یعنی جوانی کے ابتدائی سالوں میں ہی وہ اس فطری عمل کے لیے بھی موزوں ہوتی ہے اور اپنی قوت کارکردگی کے سبب ملازمتی ذمہ داریوں کے لیے بھی یہی دور اہم ہوتا ہے جبکہ تیس سال گزرنے کے بعد بہ تدریج اس کی تولیدی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے اور جیسے جیسے عمر گزرتی جاتی ہے ماں بننے کے امکانات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں، تولیدی بیضوں کو منجمد کرنے والے طبی مراکز کا جال مسلسل پھیلتا جارہا ہے اور یہ ایک منافع بخش تجارت کی صورت اس لیے اختیار کر گیا ہے کہ لڑکیاں طویل عمر تک شادی کے بجائے نوکریوں کو ترجیح دیتی ہیں اور جب وہ نوکریاں چھوڑتی ہیں تو ماں بننے کی صلاحیت کھو چکی ہوتی ہیں۔ ایسے میں کارپوریٹ دنیا کی یہ پیشکش بڑی خوش نما اور مسئلہ کا حل معلوم ہوتی ہے لیکن کیا یہ واقعی مسئلہ کا حل ہے یہ بات ابھی تک یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی۔ اس لیے کہ جس عمل کو اختیار کرنے کی طرف راغب کیا جارہا ہے وہ ابھی تک اتنا یقینی نہیںکہ کوئی عورت اسے استعمال کرکے مطمئن ہوجانے کہ اب مستقبل میں جب وہ چاہے ماں بننے کی ’مسرت‘ حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ منجمد کیے گئے ’’تولیدی بیضوں‘‘ کے بعد میں استعمال کرلیے جانے کے امکانات نصف سے بھی کم ہیں اور مزید یہ کہ پورا عمل کافی مالی اخراجات کا طالب ہے۔ مغربی دنیا میں چلنے والے اس طرح کے طبی مراکز ایک راؤنڈ کے لیے جس میں پانچ سے پندرہ بیضے نکالے جاتے ہیں، دس ہزار ڈالر لیتے ہیں جبکہ ایک پریگننسی کے لیے کم از کم بیس بیضوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان بیضوں کے اسٹوریج کا خرچ پانچ سو ڈالر سالانہ یا اس سے کچھ زیادہ آتا ہے۔ اس طرح جمع خرچ کے نتیجہ میں جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ کہ ایک عورت اس بیس ہزار ڈالر کے نتیجہ میں اپنے ماں بننے کے عمل کو محض دو چار سال ہی موخر کرسکتی ہے وہ بھی اس صورت میں جب ’’خوش قسمتی سے‘‘ ایک ہی راؤنڈ میں بیضوں کی مقررہ تعداد حاصل ہوجائے۔
اس پورے انداز فکر و عمل کے بارے میں جو سب سے اہم بات ہے وہ ہے کہ خواتین کو دی جانے والی یہ پیش کش ڈالر کے گفٹ میں پیش کردہ ایک لبھاؤ سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ کہ کارپوریٹ دنیا نے استحصال کی ایک اور خوبصورت شکل ایجاد کرلی ہے جو فطرت سے جنگ اور عورت کی محرومی کا نیا ذریعہ بنے گی۔
اس پیش کش سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی صنعتی اور کارپوریٹ دنیا، جس کی اتبا ع عن قریب باقی دنیا بھی کرے گی، عورت کو استحصال کے آلہ سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھتی۔ انہیں سستی لیبر دیر تک درکار ہے اس لئے انہوں نے مادی مفاد جو بہ ظاہر نقصان کے مقا بلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، دکھا کر اپنے مفاد کو ترجیح دینے کا نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اگر دنیا خواتین کو واقعی با اختیار بنا نا چاہتی ہے اور ان کے مفاد کو ترجیح دیتی ہے تو وہ ان کے لیے طویل مدتی پیڈ چھٹیاں اور دیگر سہولیات فراہم کرتی جس کے نتیجہ میں خواتین ملازمین کام اور گھر دونوں کی یکساں ذمہ داریاں اداکرنے کے قابل ہوتیں۔ لیکن ظاہر ہے اس میں ان کے لیے نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے اس لیے اس کے بجائے ایسے لبھاؤنے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں جن سے کارپوریٹ دنیا کا مفاد محفوظ رہے خواہ اس کے نتیجہ میں عورت کا کچھ بھی نقصان ہوجائے اور اس نقصان کے نتیجہ میں چاہے سماج، معاشرہ اور دنیا کسی بھی قسم کے فساد سے کیوں نہ ہمکنار ہو۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ سب عورت کو بااختیار بنانے اور اس کے مفاد کو محفوظ بنانے کے نام پر ہورہا ہے۔ حالانکہ اس کے نفع نقصان کی جمع و تفریق (پلس، مائنس) بالکل واضح ہیں اور گزشتہ صدی سے لے کر آج تک دنیا اس تماشہ کے مفسدات کو جھیلتی چلی آرہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادی اور اختیارات کے نام پر جاری اس قسم کی استحصالی کوششوں کو مشرق کے سماج کے سامنے واضح کیا جائے تاکہ ہم اپنے اس سماج کو اس تباہ کن رستہ پر جانے سے روک سکیں جس پر مغربی دنیا چل کر سماجی و معاشرتی تباہی کے دہانے پر نہج گئی ہے۔lll