دنیا میں ہر شخص اپنی اصل حالت پر غیر مطمئن نظر آتا ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ کوئی اور شخصیت لے کر اس دنیا میں آتا۔ ہوسکتا ہے دنیا کی دیگر مخلوقات بھی کچھ ایسا سوچتی ہوں مگر انسان تو ضرور سوچتا ہے۔ کوئی سوچتا ہے کہ وہ دولت مند ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا تو کوئی سیاست داں یا وزیر اعظم بننے کی خواہش لیے جیتا رہتا ہے۔ کوئی تنگ حال اور غریب یہ سوچتا ہے کہ کاش دنیا بدل جائے اور میں اتنا اہم ہوجاؤں کہ میرے دائیں بائیں ہر طرف نوکر چاکر ہوں اور منہ سے جو بات نکلے وہ فوراً حاضر ہوجائے۔ کوئی دنیا کو مسخر کرنے اور مافوق الفطرت قوتوں کو قبضے میں کرنے کے لیے چلے کرتا اور بلی دیتا ہے تاکہ اس کی خواہش پوری ہوجائے۔ ان سب چیزوں سے یہ تو ظاہر ہو ہی گیا ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسری شخصیت کا روب بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میرے دل میں بھی ایک خواہش اٹھتی ہے کہ میں اشرف المخلوقات نہ ہوکر کوئی آزاد پنچھی بن کر دنیا میں آتی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اشرف المخلوقات کو جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سب سے بڑا مرتبہ دیا ہے چھوڑ کر کیوں آزاد پنچھی بننا چاہتی ہوں۔ کیونکہ آج کی دنیا کو آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ پہلا زمانہ اچھا تھا۔ لوگ بڑے اچھے ہوتے تھے، ایک دوسرے سے محبت،ہمدردی، غم خواری اور ایک دوسرے کے کام آنا، ضرورت پر مدد کرنا اور باہمی تعاون کا جذبہ ہوتا تھا مگر آج تو دنیا میں یہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ یہاں تو ظالم، جابر ایک دوسرے کا حق بلکہ گردن مارنے والے لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔ انسان درندہ بن گیا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر کیونکہ درندہ تو اپنی قبیل کے جانوروں کو نہیں کھاتا۔ ریچھ ریچھ کو اور شیر شیر کو شکار نہیں کرتا۔ مگر انسان کرتا ہے۔ حکومتیں آدم خور بن گئی ہیں اور حکام قاتل۔ جو آن کی آن میں انسانوں کو نگل جاتے ہیں۔ جو بھی طاقتور ہے اس کا ہاتھ کمزور کی گردن پر ہے۔ اور جو بااختیار ہے وہ خدائی کا دعویٰ ٹھونکے ہوئے ہے۔ لوگ کہتے ہیں: انسان نے علم کے سوتے معلوم کرلیے اور تہذیب اور ترقیوں کے اعلیٰ درجات کو پہنچ گیا۔ مگر یہ کیا ترقی اور کیسا علم ہے کہ لمحہ بھرمیں پوری دنیا تباہ کرڈالی جائے۔ یہ کیسی تہذیب ہے کہ افراد اور اقوام کو غلام بنالیا جائے۔ بس دنیا سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس ہونے لگتی ہے — اور — اور پھر خیال آنے لگتا ہے کہ یہ سب کیوں اور کیسے تبدیل ہوگیا۔ زندگی جنگ کے پہلو میں کیوں پرورش پارہی ہے۔ ہر ایک مفاد پرست کیوں بن گیا ہے۔ رشوت خوری، کرپشن اور غنڈہ گردی کا راج کیوں ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ پہلے کے اچھے لوگوں نے اپنی اچھائی اور اپنی صفات کو ٹھیک طریقے سے اگلے لوگوں میں منتقل نہیں کیا۔ انہیں شاید وہ باتیں نہیں بتائیں جن کی اچھائی پر ان کی اچھائی کا انحصار تھا اور شاید ان کی مضبوط اور مستحکم فکر آنے والی نسلوں میں منتقل نہ ہوئی۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ لوگ اچھے ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہ رہے اور اسی کی وجہ سے ہماری زندگی تنگ ہورہی ہے۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا اور میں ان پر ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کا یہ الزام نہ لگاتی مگر کیا یہ الزام ہے یا اس میں کچھ حقیقت ہے یہ تو آپ فیصلہ کریں گے۔
میں تو بس سوچتی ہوں کہ کاش میں ایک آزاد پنچھی ہوتی جو صبح ہوتے ہی درختوں پر چہچہانے لگتا ہے اور رب کی کبریائی کے اعلان میں کوتاہی نہیں کرتا۔ وہ برائی کا ارتکاب کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور اسی کے مطابق جیتا ہے جو اس کے رب نے بتایا ہے۔
اگر میں آزاد پنچھی ہوتی تو ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر اور ایک چمن سے دوسرے چمن تک آزاد گھومتی رہتی نہ دنیا کا ڈر ہوتا نہ سماج کی رسموں کا خوف، نہ ان بھیڑیا صفت انسانوں کی بستی سے میرا کوئی تعلق ہوتا اور نہ ہی کسی باغی کی حکمرانی ہوتی۔نہ ظلم و جبر کا شکار ہوتی اور نہ ہی مجھ پر اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کا وہ الزام ہوتا جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے— اور— اور کاش اس الزام کی ضرورت پیش نہ آتی۔