کامیاب ازدواجی زندگی: مگر کیسے؟

ماخوذ

کوئی مانے یا نہ مانے شادی کی کامیابی یا ناکامی میں سب سے بڑاہاتھ خود میاں یا بیوی کا ہوتا ہے۔ ساس سسر، نند بھاوج، دیورانی، جیٹھانی کا کردار کچھ بھی ہو، گھر داری کی اس داستان کے مرکزی کردار خود میاں بیوی ہیں۔ اگر شادی میں تلخیوں کی دیواریں آکھڑی ہوئی ہیں تو معذرت کے ساتھ اس میں بھی شوہر اور بیوی دونوں کی یا کسی ایک کی نااہلی کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔ شادی کامیابی اور خوشیوں سے ہمکنار ہورہی ہے تب بھی ان دونوں کی دانشمندانہ ازدواجی حکمت عملی زیر بحث آتی ہے۔
مان لیجیے کہ شادی شدہ زندگی ایک چیلنج ہے تو اس چیلنج کو کھلےدل، کشادہ ذہن، حوصلہ، متانت، سنجیدگی اور وقار کے ساتھ قبول کیجیے۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہوگا کہ کامیاب شوہر یا کامیاب بیوی ثابت ہونے کے لیے کیا کرناچاہیے؟
پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ اچھا شوہر یا اچھی بیوی بننے کا کوئی لگا بندھا قاعدہ یا اصول نہیں ہے کہ سبھی ایک ڈگر پر چل پڑیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو الگ الگ صفات سے نوازا ہے۔ ہر شخص کی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں جن میں خوبیو ںکا ارتقاء اور استحکام اور کمزوریوں کو دور کرنا ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ پہلے اس پر توجہ دی جائے اس کے بعد باہمی معاملات میں حکمت، کشادہ دلی، عفو ودرگزر اور ایثار کی صفات کو بڑھاتے ہوئے گہرے تعلق، سمجھ داری اور صبر و تحمل کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ اور سمجھ کر معاملہ کرنا اچھے ازدواجی رشتے کی بنیاد ہے۔
دلہن کے لیے مشورے
یاد رہے کہ جن لڑکیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے وہ بھی ہماری مخاطب ہیں کیونکہ انہیں بھی جلد دلہن بننا ہے۔ اس لیے درج ذیل چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لیجیے:
ہر عورت ماں ہے: دنیا میں ماں سے زیادہ محبت کرنے والی کوئی ہستی موجود ہی نہیں۔ ہر عورت بنیادی طور پر ماں ہے۔ ماں کی ذمہ داریوں پر ذرا غور فرمائیے۔ اس کے جسم پر گندگی کا چھینٹا بھی کوئی ڈال دے تو ماتھے پر بل پڑجاتے ہیں لیکن دوسری جانب اس کا خون جگر، اس کی شیرخوار اولاد اس کے جسم پر پیشاب کردیتی ہے، کپڑوں یا سفید براق بستر پر رفع حاجت کردیتی ہے مگر ماں ذرا کلفت محسوس نہیں کرتی۔
کوئی بھی فرد نیند میں خلل ڈال دے تو ہر ایک کو سخت ناگواری ہوتی ہے، لیکن بچہ رات بھر گلا پھاڑ  پھاڑ  کر روتا ہے تو ماں کو بچے کی طبیعت کے بارے میں تشویش لاحق ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی نیند کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے۔ چمچہ سے کھچڑی کھلاتے ہوئے بچہ لاڈ میں ماں کے منہ پر طمانچہ مار دیتا ہے مگر وہ مسکراتی رہتی ہے۔ ماں دن رات بچے کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے لیے فکر مند رہتی ہے۔ ہر عورت درحقیقت ایک ماں ہے۔ وہ ہر تکلیف، دکھ اور پریشانی برداشت کرتی ہے لیکن ایثار و محبت کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
میاں بیوی کا رشتہ بہت مقدس ہے۔ لیکن ہر نوجوان مرد اور نوجوان لڑکی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ رشتے کتنے ہی قریبی ہوں، ان میں کسی نہ کسی اتار چڑھاؤ کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ میری والدہ صاحبہ نے ایک بار مجھ سے فرمایا تھا: ’’لڑکی ہر حال میں ماں ہے۔‘‘ اسے شوہر کی تربیت ماں بن کر کرنی چاہیے اور بیوی بن کر شوہر کی خدمت کرنی چاہیے۔
اللہ نے عورت کو صبر و شکر، قناعت اور ایثار کا پیکر بنایا ہے۔ اگر آپ اپنے جذبات میں ایثار پیدا کرلیں، ہر ناگوار بات کو نظر انداز کرنا جان لیں تو کئی معاملات اچھی طرح حل ہوجائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صبر، ایثار اور قربانی بہت حوصلے کا کام ہے۔ لفظوں کے تیر جگر کو چیر کر رکھ دیتے ہیں، طنز وطعنے آگ پر تیل کا کام کرتے ہیں لیکن یقین جانئے اور لکھ کر رکھ لیجیے کہ اس صبر وایثار کا اللہ تعالیٰ اتنا زبردست انعام دے گا کہ ساری کلفتیں، سارے رنج و غم بھول جائیں گی۔
شوہر کو دوست بنانے کا گُر: اچھی بیوی وہ ہے جسے معلوم ہو کہ شوہر کو کس وقت کن چیزوں کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ گھر میں ملازم موجود ہوں اور وہ گھر کا سارا کام کردیتے ہوں پھر بھی خاتونِ خانہ کو چاہیے کہ وہ شوہر کے روز مرہ کے کام خود انجام دے یا ان کی براہِ راست خود نگرانی کرے۔ ان تمام باتوں سے شوہر کا آدھا ذہن تو خود بخود ہی فریش ہوجاتا ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ہی آپ کے چہرے پر پرخلوص مسکان، دل سے محبت کے جذبات نشر ہورہے ہوں تو سمجھئے کہ شوہر آپ کی ذات کا گرویدہ ہوکر ہی رہے گا۔
قناعت: ایثار وقربانی، خلوص و محبت کے بعد قناعت بھی شوہر و بیوی کے درمیان تعلقات کو بہت مضبوط کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی بیوی شوہر کے وسائل کو دیکھتے ہوئے خرچ کرتی ہے۔ وہ شوہر پر اس کی طاقت سے زیادہ مالی بوجھ نہیں ڈالتی۔ اگر شوہر کی آمدنی کم ہے تو وہ اخراجات میں بھی سوچ سمجھ کر اور قناعت کے ساتھ خرچ کرتی ہے۔
معاشی ذمہ داریوں میں شرکت : آج کل جو حالات ہیں ان میں محض ایک فرد کی آمدنی سے پورا گھر چلانا بعض اوقات دشوار ہے اس لیے دیکھا گیا ہے کہ فیملی کے کئی افراد کو مل کر آمدنی کے ذرائع تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ بلاشبہ وہ بیویاں مبارکباد کی مستحق ہیں جو شوہر کے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے خود کوئی کردار ادا کررہی ہوں۔
یقین جانئے اگر آپ نے خود کو ایثار و وفا کی چلتی پھرتی تصویر بنادیا تو سسرال والے کتنے ہی برے سہی کچھ ہی دنوں میں ان کے پتھر دل موم ہوجائیں گے۔
اگر شوہر کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگئیں کہ اس کے ضروری امور نمٹانے پر آپ خاص توجہ دیتی ہیں اور مسائل و پریشانیوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو مبالغہ مت سمجھئے، وہ آپ کی خواہشات کو سر آنکھوں پر رکھنے میں اپنی خوشی محسوس کرے گا۔
دولہا کے لیے مشورے
اس ضمن میں ہمارے مخاطب وہ نوجوان بھی ہیں جو اپنے سر پر سہرے کے پھول سجنے کے منتظر ہیں۔
شوہر عورتوں کے کفیل: یہ مت سمجھئے کہ شادی کو خوشگوار بنانے میں صرف بیوی ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ محکومیت کسی ذی نفس کو پسند نہیں اور نہ ہی کوئی اپنی ذات پر پہرے بٹھانا پسند کرتا ہے۔ مرد اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے۔ اس کی عصمت و عزتِ نفس کا محافظ ہے۔ اس کی ضروریات کا کفیل ہے مگر مرد یہ نہ سوچ لے کہ بیوی اس کی زرخرید کنیز ہے۔ نگہبانی اور نگرانی کا مطلب حاکمیت نہیں ہوتا۔
یہ بات سمجھ لیں کہ میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کا پہلا سبب ہی حاکمیت کی خواہش ہے۔ کسی گھر میں شوہر بیوی کو اپنی انگلیوں کے اشارے پر چلانا چاہتا ہے تو بیوی شوہر کو اپنا تابع بناکر رکھنا چاہتی ہے۔ یہ رسہ کشی گھر کے ماحول کو سخت کشیدہ اور بوجھل بناکر رکھ دیتی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ دوسرے کی عزتِ نفس کو کچل کر گھر پر حکمرانی چاہے شوہر کرے یا بیوی بھلا دوسرا فریق دل کی گہرائی سے نام نہاد فاتح کا احترام کرپائے گا؟ کیا دوسرے کو مات دینے سے گھر کا فطری سکون بحال ہوجائے گا۔ دونوں میں محبت و الفت کے پرخلوش جذبات پیدا ہوسکیں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں! ڈنڈے کے زور پر دوسرے پر قابو ضرور پایاجاسکتا ہے لیکن دل کو تسخیر کرنا ممکن نہیں ہے۔
تواضع و انکساری میں عظمت: کسی کشیدگی کو ختم کرنےکے لیے اپنے اندر لچک پیدا کرلینے سے آدمی چھوٹا نہیں ہوجاتا، اس کی مردانگی میں کمی نہیں آجاتی بلکہ اس کے عزت و اکرام میں اضافہ ہوتا ہے۔ تواضع و انکساری آؑدمی کی عظمت بڑھا دیتی ہے نہ کہ اس کی شان میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔
بیوی آپ کی مشیر: بیوی کو اپنے دکھ درد کا ساتھی اور اپنامشیر سمجھئے۔ معاملاتِ زندگی میں اس سے مشورہ لیجیے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے آپ کی شان میں کمی آجائے۔ شوہر بیوی کو اپنا ہمدرد و غم گسار اور مشیر سمجھے۔
صرف یہی کافی نہیں کہ آپ گھر کے اخراجات کی رقم بیگم کے ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ اہم معاملات پر بیوی کو مشاورت میں شریک کرکے آپ اس کے بھروسے اور اعتماد میں مزید اضافہ کریں۔ ایثار و قربانی، احسان، خلوص، اعتماد اور بھروسے کے ذریعے پتھر دل کو موم کیا جاسکتا ہے پھر میاں بیوی تو درحقیقت احساس و جذبات رکھنے والے انسان ہیں۔ آپ بھی اس طرزِ فکر پر چل کر دیکھئے پھر ازدواجی زندگی حسین سے حسین تر ہوتی چلی جائے گی۔ (تحریر میں مضمون نگار کا نام درج نہیں ہے)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146