رشتۂ ازدواج کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے۔ یہ خوبصورت رشتہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس رشتہ کے ذریعہ اجنبی مرد اور عورت، ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے لئے زندگی کی بہت سی مسرتوں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ جس کے متعلق قرآن مجید خود واضح کرتا ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے باعث سکون ہیں۔
وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً (الروم:21)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا کردی۔‘‘
یعنی خالق کا کمال حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی بلکہ اسے دو صنفوں (Sexes) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید برآں وہ خالق حکیم ان دونوں صنفوں کے افراد کو آغاز تخلیق سے برابر اس تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جارہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعا کوئی دخل نہیں ہے۔
تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ امنگ، وہ پیاس، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دیی جسے سکون میسر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدن کا نشو و نما ہوا۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں’’ گھر‘‘ کی تاسیس پر مجبور کردیا گیا۔
اب اللہ تعالیٰ خود محبت و رحمت کی وضاحت کر کے فرماتے ہیں کہ محبت سے مراد یہاں جنسی محبت (Sexual Love) ہے جو مرد اور عورت کے اندر جذب و کشش کی ابتدائی محرک بنتی ہے اور پھر انہیں ایک دوسرے سے باندھے رکھتی ہے۔ اور رحمت سے مراد وہ روحانی تعلق ہے جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ، ہمدرد و غم خوار اور شریک رنج و راحت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب جنسی محبت پیچھے رہ جاتی ہے اور بڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دو مثبت طاقتیں ہیں جو خالق نے اس ابتدائی اضطراب کی مدد کے لیے انسان کے اندر پیدا کی ہیں۔
ازدواجی زندگی کا خلاصہ سکون و راحت قلب ہے۔ جس گھر میں یہ موجود ہے وہ اپنی تخلیق کے مقصد میں کامیاب ہے جہاں قلبی سکون نہ ہو، اس کے علاوہ چاہے سب کچھ ہو، وہ ازدواجی زندگی کے لحاظ سے ناکام و نامراد ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ طرفین ایک دوسرے کا حق پہچانیں اور ادا کریں، ورنہ حق طلبی کے جھگڑے خانگی سکون کو برباد کردیں گے۔ اس ادائے حقوق کے لئے ایک صورت تو یہ تھی کہ اس کے قوانین بنا دینے اور احکام نافذ کردینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ گر ایسا نہیں ہوا بلکہ معاشرتی معاملات میں احکام شرعیہ کے ساتھ ساتھ پورے قرآن میں ہر جگہ اتَّقُوا اللّٰهَ ، وَاخْشَوْا وغیرہ کے کلمات بطور تکملہ کے لائے گئے ہیں اور ذوی القربیٰ کے حقوق کی ادائیگی پر پورا زور دیا گیا ہے۔ اب مرد و عورت کے باہمی معاملات کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ ان کے حقوق باہمی پورے ادا کرانے پر نہ کوئی قانون حاوی ہوسکتا ہے نہ کوئی عدالت ان کا پورا انصاف کرسکتی ہے اس لئے خطبہ نکاح میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کی وہ آیات انتخاب فرمائی ہیں جن میں تقوی اور خوف خدا اور آخرت کی تلقین ہے کہ وہی درحقیقت زوجین کے باہمی حقوق کا ضامن ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ، یعنی اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں، یہاں ذکر تو ایک نشانی کا کیا گیا ہے اور اس کے آخر میں اس کو آیات اور نشانیاں فرمایا، وجہ یہ ہے کہ ازدواجی تعلق جس کا ذکر اس میں کیا گیا اس کے مختلف پہلوؤں پر اور ان سے حاصل ہونے والے دینی اور دنیوی فوائد پر نظر کی جائے تو یہ ایک نہیں بہت سی نشانیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ مزید قران پاک میں ازدواجی تعلقات کی وضاحت فرماتے ہیں
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا۔[الفرقان : 74]
’’اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں، اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔‘‘
یعنی جس راستے پر ہم چل رہے ہیں، ہمارے اہل و عیال کو بھی اسی راستے پر چلنے والا بنادے تاکہ ان کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، کیونکہ اللہ کے ان نیک بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو اسی میں ہوگی کہ ان کے گھر والے بھی اللہ کے فرمانبردار بندے بنیں اور اللہ کی بندگی کے راستے کو اختیار کریں۔ اس کے برعکس اگر گھر کا سربراہ اللہ کے دین پر چلنے والا ہو اور اس کے اہل و عیال کی ترجیحات کچھ اور ہوں تو گھر کے اندر کشیدگی اور کش مکش کا ماحول پیدا ہوجائے گا جو ان میں سے کسی کے لیے بھی باعث سکون نہیں ہوگا۔
وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ” عباد الرحمن “ امامت اور پیشوائی کے لیے بےقرار ہیں بلکہ اس دعا کو اس حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کے بیوی بچے اس کے تابع اور پیروکار ہوتے ہیں۔ چناچہ گھر کے سربراہ کی دعا اور خواہش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اہل و عیال کو بھی متقی بنا دے۔ اس امامت کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ میدان حشر میں ہر انسان کے اہل و عیال اور اس کی نسل کے لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں گے۔ عباد الرحمن کی یہ دعا اس لحاظ سے بھی برمحل ہے کہ اے اللہ ! میدان حشر میں ہم جن لوگوں کے سربراہ یا لیڈر بنیں ان کو بھی نیک اور پرہیزگار بنا دے ‘ تاکہ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ جنت میں داخل ہو کر ہماری خوشی اور اطمینان کا باعث بنیں۔ ایسانہ ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والی نسلوں کے لوگ جہنم کے مستحق ٹھہریں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ’’کہ تم میں سے ہر شخص کی حیثیت ایک چرواہے کی سی ہے اور تم میں سے ہر کوئی اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہوگا۔‘‘ اس لحاظ سے ہر آدمی کے اہل و عیال اس کی رعیت ہیں اور اپنی اس رعیت کے بارے میں وہ مسؤل ہوگا۔ چناچہ ان کی ہدایت کے لیے اسے کوشش بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی۔یعنی ہماری بیویوں اور اولاد کو نیک اور پرہیزگار بنا اور پھر ان سے بڑھ کر ہمیں بھی پرہیزگار بنا تاکہ ہم خود ان کے امام اور پیش رو ثابت ہوں۔ پھر یہ دعا صرف ازواج و اولاد تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ ہمیں اتنا نیک اور پرہیزگار بنادے کہ ہم دوسرے متقین کے لئے رہبر اور نمونہ بن جائیں۔
اب بہرحال اللہ رب ا لعزت نے خطبۂ نکاح میں تقویٰ وپرہیزگاری کا حکم ارشاد فرما کر اس جانب توجہ دلائی کہ میاں بیوی ایک خوشگوار ازدواجی زندگی اور ایک پرسکون گھر اس وقت بنا سکیں گے، جب دونوں ’’تقویٰ وپرہیزگاری‘‘ کے زیور سے آراستہ ہوں، ان دونوں کو اپنے ہر عمل کی جواب دہی کی فکر لاحق ہو۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس وہ واحد پیمانہ ہے، جس سے سچائی اور امانت کی انتہا ناپی جاسکتی ہے۔ اگر یہ احساس نہ رہے تو دنیا کی کوئی عدالت، کمیونٹی، انجمن، سربراہی یا خاندان ان دونوں کو جوڑ نہیں سکتے، چونکہ یہ ایسا گہرا تعلق ہے جس سے بڑھ کر قریب تر کوئی تعلق نہیں، دنیا کے ہر رشتہ میں سوتیلے پن کی گنجائش ہے، لیکن اس میں نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی تعلق مصنوعی یا جھوٹ کے سہارے چل سکتا ہو، لیکن یہ تعلق بھرپور احساسات وجذبات ایک دوسرے کے لیے ایثار وقربانی اور ایک دوسرے کی دل جوئی کے بنا نہیں چل سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اس رشتہ کو قانون سے جوڑنے کے بجائے اخلاق و کردار سے جوڑتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے بلندکرداری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پروان چڑھانا چاہتا ہے۔
رسول پاک ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں (بیوی بچوں) کے لیے سب سے بہتر ہو اور میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘