روزمرہ زندگی میں آرائش
اکثر خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ جب باہر جاتی ہیں یا کسی جشن میں شرکت کرتی ہیں یاکہیں دعوت میں جاتی ہیں تو آرائش کرتی ہیں، بہترین لباس پہنتی ہیں اور حتی المقدور بہترین شکل میں گھر سے باہر جاتی ہیں لیکن جب گھر واپس آتی ہیں تو فوراً اچھے خوبصورت لباس اتاردیتی ہیں، معمولی اور پرانے کپڑے پہن لیتی ہیں، گھر میں صاف ستھری نہیں رہتیں، بنائو سنگھار نہیں کرتیں، الجھے بالوں اورگھرداری کے لباس میں گھومتی رہتی ہیں۔ داغ لگے میلے کچیلے کپڑے پہنے رہتی ہیں۔ حالانکہ ہونا چاہیے اس کے برعکس۔ عورت کو چاہیے گھر میں اپنے شوہر کے لیے آرائش کرے، اپنے شوہر کے لیے جو کہ اس کادائمی شریک زندگی، دوست، مونس و غمخوار اور اس کے بچوں کا باپ ہے، سجے بنے، اسے نازو انداز دکھائے اور اس کے دل کو اپنے کنٹرول و قابو میں رکھے تاکہ گلی کوچے کے دلبر اس کے دل میںجگہ نہ پاسکیں۔ دوسروں کی کیااہمیت ہے کہ ان کے لیے زیب وزینت کی جائے، کیا یہ بات قابل تاسف نہیں کہ عورت غیروں کی توجہ کامرکز بننے کے لیے آرائش کرے اور جوان مردوں اوردوسری عورتوں کے لیے مشکلات پیداکردے۔
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
’’جو عورت خوشبو لگاکر باہر جاتی ہے وہ جب تک گھر واپس نہ آجائے خدا کی رحمت سے دور رہتی ہے۔‘‘
آنحضرت ﷺ کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت گزار ہو اس کے لیے آرائش کرے لیکن اپنا بنائو سنگھار غیروں پر ظاہر نہ کرے، اور تم میں سے بدترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی غیرموجودگی میں زینت کرے۔
ایک مرد کے دل کو قابو میں کرنا، وہ بھی ہمیشہ کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ نہ کہیے کہ وہ مجھے چاہتاہے، لہٰذاکیا ضرورت ہے کہ اس کے سامنے سجوں بنوں اور نازو انداز دکھائوں، جی نہیں اس کے عشق کی ہمیشہ حفاظت کیجیے۔
یقین جانیے کہ شوہر چاہتاہے کہ آپ اس کے سامنے ہمیشہ بنی سنوری اور صاف ستھری رہیں، خواہ زبان سے نہ کہتاہو۔ اگر آپ اس کی دلی خواہش کو پورا نہ کریںتو ممکن ہے گھر سے باہر صاف ستھری اور سجی بنی عورتوں کو دیکھتاہو تو ان کامقابلہ آپ کی بری وضع قطع سے کرتاہو اور سوچتا ہوکہ یہ فرشتے ہیں جو آسمان سے نازل ہوئے ہیں۔ آپ بھی گھر میں اس کے لیے صاف ستھری رہیے، بناو سنگھار کیجیے، اچھے اچھے لباس پہنیے، نازو انداز دکھائیے تاکہ وہ سمجھے کہ آپ بھی کم نہیں بلکہ ان عورتوں سے زیادہ اچھی اور خوبصورت ہیں، ایسی صورت میں آپ اس کے پائیدار عشق کی امید کرسکتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے اس کے دل پر حکومت کرسکتی ہیں۔ ایک شوہر کے خط پر توجہ فرمائیے: لکھتاہے:
شاید آپ کہیں کہ گھر میں اور باورچی خانے کے کاموں کے ساتھ بن سنور کر رہنا ممکن نہیں ہے لیکن اگر آپ اس پر عمل کی قدرو قیمت سے واقف ہوجائیں تو یقینا آپ اس مشکل کو حل کرسکتی ہیں۔ گھر کے کاموں کو انجام دینے کے لیے ایک لباس مخصوص کرلیجیے اور کام کے وقت اسے استعمال کیجیے، جب کام سے فارغ ہوجائیں اور آپ کے شوہر کے آنے کاوقت ہو اس وقت صاف ستھری ہوکر عمدہ لباس پہنیے، بالوں کو سنوارئیے اور آراستہ ہوکر اپنے شوہر کی آمد کاانتظار کیجیے۔
محبت کااظہار
مصیبت اور بیماری کے وقت انسان کو تیمار دار اور غمخوار کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کا دل چاہتاہے کہ کوئی اس سے ہمدردی کرے، نوازش و دلجوئی کرکے اس کو تسکین دے، تسلی و تشفی کے ذریعے اس کے اعصاب کو سکون پہنچائے۔ دراصل مرد وہی سابق بچہ ہوتاہے جو بڑا تو ہوگیاہے مگر وہ اب بھی ماں کی نوازش و محبت کابھوکا ہوتاہے۔ مرد جب کسی عورت سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتاہے تو اس سے توقع رکھتاہے کہ وہ پریشانی اور بیماری کے موقعوں پر ٹھیک ایک مہربان ماں کی طرح اس کی تیماردار ی اور دلجوئی کرے۔
اس لئے اگر شوہر بیمار پڑگئے ہیں تو ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ مہربانی کابرتاؤکیجیے، ان سے اظہار ہمدردی کیجیے اورعلالت پر اپنے شدید رنج و غم کو ظاہر کیجیے، ان کو تسلی دیجیے، ان کے آرام کاخیال رکھیے، اگر ڈاکٹر یا دوا کی ضرورت ہوتو مہیا کیجیے۔۰ جس غذا سے انہیں رغبت ہو اور ان کے لیے مناسب ہوفوراً تیار کیجیے، بار بار ان کی احوال پرسی کیجیے اور تسلی دیجیے۔ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کیجیے اگر درد و تکلیف کی شدت سے انھیںنیند نہ آرہی ہوتو آپ بھی کوشش کریں کہ ان کے ساتھ جاگتی رہیں۔ آپ کو نیند آگئی ہو تو جب آنکھ کھلے ہلکے سے ان کاسر سہلاکے دیکھیے اگر بیدار ہیں تو ان کا حال پوچھییے اگر رات جاگ کر گزاری ہے تو صبح کو ناراضگی کااظہار نہ کیجیے۔ دن میں ان کے کمرے میں تنہائی اور خاموشی کااہتمام رکھیے شاید ان کو نیند آجائے۔ آپ کی ہمدردیاں اور نوازشیں ان کی تکلیف میں تسکین کا سبب بنیںگی اور ان کے صحت یاب ہونے میں معاون ثابت ہوںگی۔ اس کے علاوہ اس قسم کے کام وفاداری اور سچی محبت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں اور اس کے نتیجے میںمرد کی زندگی میں لگن اور حوصلہ پیداہوتاہے، آپس میں محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ بیمار ہوںگی تو یہی سلوک وہ آپ کے ساتھ کریںگے۔
حضرت رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں:
’’عورت کا جہاد یہ ہے کہ شوہر کی نگہداشت اچھی طرح کرے۔‘‘
راز کی حفاظت
عام طورپر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے شوہر کے اسرار و رموز سے باخبررہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کسب معاش کی کیفیت، تنخواہ، بینک بیلنس، دفتری رموز اور اس کے مستقبل کے فیصلوںاور ارادوں سے مطلع رہیں۔ مختصر یہ کہ اپنے شوہر سے توقع رکھتی ہیں کہ اپنے تمام رازوں کو اپنی بیویوں پر ظاہر کردیں اور کبھی کبھی یہی موضوع گرما گرمی اور بدگمانی کا سبب بن جاتا ہے۔
بیوی شکایت کرتی ہے کہ میرے شوہر کو مجھ پر اعتبار نہیں کہ وہ اپنے رازوں کو مجھ سے مخفی رکھتاہے۔ اپنے خطوط مجھے پڑھنے نہیں دیتا۔ اپنی آمدنی اور پس انداز رقم کے بارے میں نہیں بتاتا۔مجھ سے اپنے دل کا حال نہیں کہتا، میرے سوالوں کے جواب دینے میں تامل کرتاہے بلکہ کبھی کبھی جھوٹ بولتاہے ۔ اتفاق سے بعض مرد بھی اپنی زندگی کے اسرار و رموز بیوی سے پوشیدہ رکھناپسند نہیں کرتے لیکن ان کاعذریہ ہوتاہے کہ عورتوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹکتی۔ وہ کسی بات کو پوری طرح پوشیدہ نہیں رکھ پاتیں، ادھر کچھ سنا اور فوراً دوسروںسے کہہ دیا۔ کوئی بھی بہانے سے اسرار ورموز کو ان کے منھ سے اگلواسکتاہے اور اس طرح خواہ مخواہ ان کے لیے مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے۔
لہٰذا عورت اگر چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہ رکھے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے رازوں کی حفاظت کرے اور محتاط رہے، اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی سے بھی اور کسی صورت میں بھی کوئی بات نہ کرے حتیٰ کہ اپنے قریبی عزیزوں اور گہرے دوستوں سے بھی اپنے شوہر کے رازوں کو نہ کہے۔ راز کی حفاظت کے لیے یہ کافی نہیں کہ خود تو دوسروں سے کہہ دیںاوراس سے کہیں کہ کسی سے نہ کہنا۔ یقینا جس کو راز دار بنایاگیاہے اس کے بھی کچھ دوست ہوںگے اور ممکن ہے وہ آپ کے راز اپنے دوستوں سے کہہ دے اور کہے کہ کسی اورسے نہ کہنا۔ لہٰذا عقلمند انسان اپنے رازوں میں کسی کو شریک کرناپسند نہیں کرتا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
’’عاقل انسان کا سینہ اس کے رازوں کا صندوق ہوتاہے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’کہ دنیا و آخرت کی خوبیاں دو چیزوں میں مضمر ہیں راز کی حفاظت کرنے اور اچھے لوگوں سے دوستی کرنے میں، اور تمام برائیاں دو چیزوں میں جمع ہوتی ہیں رازوں کو فاش کرنے اور بدکار لوگوں سے دوستی کرنے میں۔‘‘
ll