ہماری زندگیوں میں کبھی ایسا موڑ، ایسا مرحلہ اور ایسا لمحہ بھی آتا ہے جو ہمیں ماضی کی یادوں میں گم کردیتا ہے اور جو ناگواری، اذیت اور اپنی وحشت ناکی کے سبب ہمارے ذہن سے چپک کر رہ جاتا ہے۔ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ اب وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اورہم کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنے مقصد، اپنے ہدف کی جانب پیش رفت نہیں کی اور اسی کے سبب یہ لمحات ہماری زندگی سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ ایسا ہماری غفلت اور کوتاہی کے سبب ہوا اور یہ غفلت شیطان کی فوج کا سب سے طاقت ور سپاہی ہے۔ کامیاب زندگی کے لیے مضبوط ارادوں اورقوتِ عمل کے ساتھ ساتھ جدوجہد کے نہ ختم ہونے والے حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ایسے پختہ ارادوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے آپ دلی طور پر تیار ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کسی اور کو نہیں، بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کامیاب زندگی کے لیے اپنے ارادوں اور اپنے عزم کو ذوق و شوق اور مثبت اندازِ فکر عطا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیل میں ہم کامیاب زندگی گزارنے کے لیے چند ضروری عمل درج کررہے ہیں۔
ارادہ اور مقصد
عام طور پر لوگ ابتدا ہی سے بڑے بڑے منصوبے بنانے لگتے ہیں لیکن جب عملی طور پر ان کی تکمیل نہیں ہوپاتی تو حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم چھوٹے اور قابلِ عمل کاموں سے ابتدا کریں۔ یاد رکھئے کہ کوئی بھی معمولی یا ادنیٰ کام چھوٹا نہیں ہوتا۔ ایک دن نبی کریمﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام اللہ تعالیٰ کو بہت مرغوب ہے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کام جو باقاعدگی اور تسلسل سے کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (بخاری، فتح الباری)
چھوٹے چھوٹے مفید اور مسلسل قدم، عظیم کامیابیوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ ہمیشہ ابتدا چھوٹے چھوٹے کاموں سے کیجیے۔ چھوٹے چھوٹے منصوبے بنائیے تاکہ آپ اپنے ارادوں کو مستقل اور آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکیں پھر اس کے بعد ذرا مشکل کام میں ہاتھ ڈالیں۔ یہ لائحہ عمل آپ کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور آپ مزید کامیابی سے ہم کنار ہوسکیں گے۔ پھر آپ محسوس کریں گے کہ آپ کی زندگی میں عظیم انقلاب رونما ہورہا ہے۔
ابن حزم نے فرمایا: ’’جو فرد آپ پر تنقید کرتا ہے وہی آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں کو اچھالتا ہے، اسے آپ سے قطعی محبت وہمدردی نہیں ہے۔‘‘
لہٰذا ان افراد کو ہی اپنا دوست بنائیں جو اچھے ساتھی ثابت ہوں۔ وہی آپ کو صحیح مشورہ دیں گے اور آپ کے ارادوں کی تکمیل میں آپ کے مدد گار ثابت ہوں گے۔ ان افراد کی صحبت سے پرہیز کیجیے جو آپ کے وقت کو ضائع اور عزم کو متزلزل کرنے کی کوشش کریں۔
اعتدال اور قوتِ ایمانی
یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا عزم و ارادہ متزلزل ہورہا ہے، یا جہدِ مسلسل کی امنگ اور جوش و جذبہ ماند پڑرہاہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس طرح جسم پر لباس پہنتے پہنتے پتلا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے، اسی طرح دل میں بھی ایمان کا ضعف پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے دعا مانگو کہ وہ تمہارے دل میں ایمان تازہ کردے۔‘‘ (الحاکم)
مضبوط ایمان کا مطلب ہے مضبوط قوت ارادہ اور جذبہ عمل۔ جب ہم میں قوت اور آمادگی اور خواہش موجود ہوتی ہے تو ہم جان توڑ کوشش کرتے ہیں، اور جب ہم ان قوتوں سے محروم ہوتے ہیں تو جو کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے وہ بھی کرنے سے کتراتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال و افعال میں اعتدال پیدا کرو، پھر تم اپنا مقصد حاصل کرسکوگے۔‘‘ (بخاری)
جذبوں کی تحریک
اچھی اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اپنے جذبے کو تحریک دینا ضروریا ہے اور اس کے بہترین ذرائع قرآن کا مطالعہ، نبی کریمﷺ ، آپؐ کے صحابہ کرامؓ، آپؐ کے متقی جانشین اور علمائے کرام کی زندگی کے واقعات ہیں جو قدم قدم پر ہمیں عملی جدوجہد کا بھی درس دیتے ہیں اور مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی۔ وہ عبادت سے مضبوط تعلق بھی قائم کراتے ہیں اور عملی زندگی میں ثبات کا سامان بھی دیتے ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی زندگی پر نظر دوڑائیے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں ان کی عبادت کے معمول میں بہت شدت پیدا ہوگئی تھی۔ کسی نے ان سے کہا کہ وہ عبادتِ الٰہی میں کمی کیوں نہیں کرتے اور خود کو آرام کیوں نہیں پہنچاتے؟ آپ نے جواب دیا: ’’جب گھوڑ دوڑ شروع ہوتی ہے تو اختتامی نقطے کے قریب پہنچ کر گھوڑے اپنی تمام تر توانائی صرف کرڈالتے ہیں، اور میری زندگی میں جو کچھ بھی باقی بچا ہے، وہ اس سے کہیں کم ہے۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی وفات تک اسی تندہی سے عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے۔
عبادت کے لیے مختلف طریقے
اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر بے انتہا لطف و کرم کرتے ہوئے مسلمانوں کو عبادت کے متعدد طریقے مرحمت فرمائے ہیں۔ ان میں سے کچھ جسمانی حرکات و سکنات پر مشتمل ہیں، مثلاً: نماز، کچھ مالی ہیں، مثلاً: زکوٰۃ و صدقہ۔ کچھ الفاظ پر مشتمل ہیں ، مثلاًدعا و ذکر۔
ان مختلف آسان طریقوں میں پوشیدہ حکمت، مختلف افراد کی آمادگی اور صلاحیتوں کی نوعیت میں امتیاز کو ظاہر کرتی ہے۔ بعض لوگ دیگر افراد کی بہ نسبت عبادتِ الٰہی کا فرض کی حیثیت سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں، جس میں عذر کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح بعض کا رجحان راہِ خدا میں مال خرچ کرنے اور انفاق کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور بعض کا ذکر اذکار میں۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کی مختلف اقسام کے مطابق جنت کے مختلف دروازے متقیوں کے لیے وا کردیے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رضائے الٰہی سے منسلک کام، اللہ کی رضا کی خاطر انجام دے گا، وہ جنت کے دروازوں (منسلکہ دروازوں) میں سے بلایا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے! یہ تو انعامِ خداوندی ہے۔ تم میں سے جو شخص نمازی ہوگا، اسے جنت میں نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص جہاد کرتا ہوگا، اسے جنت میں جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میں سے جو شخص روزے کاپابند ہوگا، اسے جنت میں الریان کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ تم میںسے جو شخص خیرات و صدقہ کرتا ہوگا، اسے جنت میں خیرات و صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا۔‘‘(بخاری)
وقت بہترین استعمال
کامیاب زندگی کا راز وقت کی قدردانی اور اس کے بہترین استعمال میں پوشیدہ ہے۔ لیکن جانتے ہوئے بھی کم ہی لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ وقت کیا ہے؟ زندگی کے قیمتی لمحات جو ہمیں موت سے قریب کرتے جاتے ہیں اور آخرکار ایک دن یہ مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ تو پھر روز مرہ کے معمولات جن میں گھریلو، دفتری، کاروباری، خاندانی اور دوستی کے امور شامل ہیں۔ نہایت ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اور اپنے روز مرہ معمولات میں اسلامی تعلیمات، عقائد اور اخلاقیات کو داخل کرنا ہرگز نہ بھولنا چاہیے اور اپنی زندگی کو احکامِ الٰہیہ اور سنتِ رسولؐ کے مطابق ڈھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے عبادت کے نہایت آسان طریقے ہمیں بتائے ہیں۔ کھانا پکاتے ہوئے ذکر کیا جاسکتا ہے، بس کا انتظار کرتے ہوئے دعا کے الفاظ دہرائے جاسکتے ہیں۔ دفتر سے گھر آتے ہوئے گاڑی میں اسلامی تعلیمات و احکام پر مبنی لیکچر سنا جاسکتا ہے، آسان عبادات کی فہرست نہایت ہی طویل ہے۔ بہر حال، حاصل کیا ہے، حاصل یہ ہے کہ آپ جو کچھ جب بھی کرسکتے ہیں، کریں اور اپنی دنیا و آخرت کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔