کامیاب کون؟

سائرہ خوشی

آج بھی اس نے ہمیشہ کی طرح میرا موڈ تقریباً آف کردیا تھا۔ پتا نہیں اس کے ساتھ کیا مسئلہ تھا کہ جہاں بھی کسی کو اپنے ماتحت کام کرتا ہوا دیکھتی تو اپنے اسٹیٹس کا راگ الاپنا شروع کردیتی اور ایسے لوگوں سے یوں ناک بھوں چڑھاتی جیسے وہ حقیر مخلوق ہوں۔ آج بھی یہی ہوا کہ کینٹین سے جب ہم آئس کریم کھا کر فارغ ہوئے تو اس نے برتن اٹھانے والے اشرف کو بے بھاؤ کی سنا ڈالیں۔ ’’اندھے ہو، دیکھ کر نہیں اٹھا سکتے برتن… میرا نیو برانڈ سوٹ برباد کردیا تم نے … تم چھوٹے لوگو ںکا مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے… گوٹوہیل…‘‘ اور خود ہی پاؤں پٹختی ہوئی کینٹین سے باہر نکل گئی۔ جب کہ میں شرمندہ سی وہیں کھڑی رہ گئی۔ ’’اشرف بھائی! برا مت ماننا، اس لڑکی کو تو ہر بات بری لگ جاتی ہے۔ میں اس کی طرف سے آپ سے معذرت کرتی ہوں۔‘‘ اور وہ سرخ ہوتا چہرہ لے کر میرے سامنے سے ہٹ گیا تو میں بوجھل قدموں کے ساتھ کینٹین سے نکل گئی۔
٭٭
میری اور پلوشہ کی طبیعت میں زمین آسمان کا فرق تھا، لیکن پھر بھی ہم دونوں میں زبردست قسم کی دوستی تھی۔ میری فطرت بہت زیادہ کمپرومائزنگ تھی جب کہ وہ کسی سے بھی کمپرومائز نہ کرتی تھی، لیکن نہ جانے کیسے میرے ساتھ کرلیتی تھی؟ ہم دونوں میں اکثر اختلاف اس وقت ہوتا جب وہ اپنی باتوں میں اسٹیٹس کو کھینچ کر لے آتی۔ وہ ہر چیز میں اپنی بڑائی ظاہر کرنے کی عادی تھی اور مجھے اس بات سے انتہائی دکھ ہوتا۔ اس کی مجھ سے اچھی دوستی بھی شاید اس لیے تھی کہ میں اس سے اسٹیٹس میں بالکل برابر تھی۔ ہم لوگوں کی دوستی کو تقریباً پانچ سال ہونے کو تھے اور ہم دونوں میڈیکل کے فائنل ایئر میں تھے۔ پلوشہ کو خدا نے ہر نعمت سے نوازا تھا… دولت تھی تو بے بہا، خوبصورتی تھی تو بے مثال، اور صلاحیتیں تھیں تو لاجواب… شاید یہی ساری باتیں تھیں جن سے وہ بہت زیادہ مغرور ہوگئی تھی۔
٭٭
’’دیکھو پلوشہ کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا… ہاں میں اس بات کو ضرو رمانتی ہوں کہ کوئی غریب ہوتا ہے تو کوئی امیر، لیکن اس بنیاد پر کسی کو چھوٹا بڑا کہنا صحیح نہیں۔ انسان میں بڑائی صرف اس کے کردار اور اخلاق سے پیدا ہوتی ہے اور بڑائی کی حقدار صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔‘‘ یہ الفاظ مجھے ازبر ہوچکے تھے اور شاید اسے بھی، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوتا، اور اپنی ہی ٹون میں آکر کہتی: ’’مقدس! میرے پاس دولت ہے، خوبصورتی ہے…میرے پاس ساری صلاحیتیں ہیں… اور یہ سب چیزیں بہت کافی ہیں کسی بھی فرد کو پاورفل بنانے کے لیے اور میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ میں ایک کامیاب ترین انسان ہوں، اور ہاں پلیز اپنے لیکچر اپنے پاس رکھا کرو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ وہاں سے واک آؤٹ کرجاتی۔
٭٭
ہم دونوں یونیورسٹی سے فارغ ہوچکے تھے اور اب الگ الگ جگہوں پر پریکٹس کررہے تھے، اسی لیے ہم دونوں کافی دونوں بعد ہی مل پاتے تھے، لیکن پھر ایسا ہوا کہ ہمارا یہ ملنا بالکل ختم ہوگیا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب سخت گرمیوں کے بعد بارشوں نے موسم کافی حد تک خوشگوار بنادیا تھا۔ ایسے ہی ایک دن جب بارش ہورہی تھی تو پلوشہ کا فون آیا: ’’ اتنا زبردست موسم ہے، چلونا کہیں آؤٹنگ پر چلتے ہیں۔‘‘ وہ گھومنے پھرنے کی بہت شوقین تھی۔ اس لیے میں نے بھی ہامی بھرلی اور کچھ دیر بعد ہم شہر کے مشہور ترین پارک میں تھے کہ باتیں کرنے کے دوران عقب سے آواز ابھری ’’باجی یہ گجرے لے لو… بہت اچھے لگیں گے آپ لوگوں کے ہاتھوں میں… لے لو باجی، مجھے اپنی ماں کی دوائی لے کر جانا ہے… لے لو باجی اچھے…‘‘ تڑاخ کی آواز کے ساتھ اس کی بات ادھوری رہ گئی۔ ’’دکھتا نہیں تمہارے ہاتھ کتنے گندے ہیں، اور پیسے ہی چاہئیں تمھیں، یہ لو پیسے اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔‘‘ پلوشہ نے اس کی طرف پیسے پھینکتے ہوئے کہا اور ایک ادا سے اپنے بال سنوارنے لگی۔ بچے نے پیسے اٹھائے اور اس کی طرف پھینک دیے، پھر نم آنکھوں سے آ سمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا’’یا اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں… میں کما کر کھاتا ہوں… بھیک نہیں مانگتا… بی بی صاحبہ سنبھال کر رکھیں پیسے… ضرور کسی وقت آپ کے کام آئیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا لیکن اس کا بولا ہوا ایک ایک لفظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح میرے کانوں میں گھستا چلا جارہا تھا کہ ایک دم میں بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور میں نے اپنے آپ کو کہتے ہوئے سنا ’’پلوشہ… اپنی قوت پر گھمنڈ کرنے والا ہمیشہ شرمندہ رہتا ہے… دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی… اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کی قوت اپنے اندر ہی دم توڑ جاتی ہے… اپنے آپ میں مگن رہنے والا ایک دن ضرور اداس ہوجاتا ہے… اور میں اس ذلت میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوسکتی… اللہ حافظ!
٭٭
میں اپنے کلینک میں بیٹھی اپنے مریضوں کو چیک کررہی تھی کہ ایک مریضہ کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ عورت بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہ سب کچھ تھا جو ایک ایسے فرد کے چہرے پر ہوتا ہے جس کا سب کچھ لٹ چکا ہو… حسرت… پریشانی… شرمندگی… تنہائی اور بہت کچھ۔ ’’ڈاکٹر صاحبہ کیا آپ میری لاعلاج بیماری کا علاج کرسکتی ہیں؟‘‘ میں جو اسے پہچاننے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی کہ ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ یہ لاغر آواز تو میں ہزاروں میں پہچان سکتی تھی۔ میرے سامنے کھڑی زندہ لاش کوئی اور نہیں میری اپنی دوست پلوشہ تھی۔ ’’پل… پل…پلوشہ… یہ تم ہوناں… تمہیں کیا ہوا…میری جان یہ کیا ہوگیا ہے تمھیں … کیسے… کیسے؟‘‘ میں ٹوٹے ہوئے لہجے کے ساتھ کہتی ہوئی اس کے گلے لگ کر رونے لگی۔ کافی دیر گزرنے کے بعد وہ گویا ہوئی’’تم نے پلٹ کر کبھی خبر ہی نہ لی میری۔ کوئی اپنے دوست کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتا کہ وہ مر بھی جائے تو آپ کو پتا ہی نہ چلے…‘‘ میں نے اس کے منہ پر فوراً ہاتھ رکھا۔ ’’ایسے مت کہو میری جان… پلوشہ تمھیں کیا ہوا ہے؟‘‘ ’’مجھے میرے کیے کی سزا مل رہی ہے…‘‘ اس کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آرہی تھی ’’مقدس تمھیں یاد ہے ناں وہ بچہ جسے میں نے جھڑکا تھا۔مقدس … مقدس اس نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے ان پیسوں کی کسی وقت بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔ دیکھو مقدس میری ساری دولت پانی کی طرح بہہ گئی، لیکن … لیکن میں ٹھیک نہیں ہوسکتی، ڈاکٹر کہتے ہیں اب موت ہی اس مرض سے چھٹکارا دلواسکتی ہے۔ میری خوبصورتی اب ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل چکی ہے… پتا ہے مقدس! میں روزانہ وہاں جاتی ہوں اس بچے کی تلاش میں کہ شاید اس سے معافی مانگ کر ہی سکون مل جائے… مقدس میں نے تمہارا بھی بارہا دل دکھایا ہے، مجھے معاف کردو … معاف کردو۔‘‘ وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ سسک رہی تھی۔ وہ جو دوسروں کے حال پر ہنستی تھی آج اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ’’مقدس اب میں چلتی ہوں… میں نے تمہارا بہت وقت لے لیا… سوری، اللہ تمھیں بہت سی کامیابیاں عطا فرمائے۔‘‘ اور میں دل میں سوچ رہی تھی کہ تم نے کامیابیوں کا کتنا غلط معیار بنا رکھا تھا۔ دولت، حسن،شہرت… کچھ بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ اور آج دیکھو تم سے بڑا ناکام فرد کوئی نہیں ہوگا۔وہ ایک دم کھڑی ہوئی اور میں اسے روک بھی نہ سکی۔ وہ کلینک سے نکلتے ہوئے دوبارہ بولی’’مقدس کچھ بھی نہیں بچا میرے پاس سوائے اس بلڈ کینسر کے…‘‘ اور میں اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ’’شاید بڑے لوگوں کی بیماریاں اور سزائیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں